کیا کرتار پور ہو جائے گا
باڑھ لگنے سے پہلے ہمارا کوئی رشتے دار خوشی غمی میں شرکت کے لیے سامنے والے پاڑے میں سنگ میل کراس کر کے چلا جاتا۔
یہ گاؤں ویسا ہی ہے جیسے تھر کے دیگر گاؤں۔اگلو کی طرح کے پھونس سے بنے چونہروں پر مشتمل تین پاڑے۔پھر سنگِ میل نصب ہو گئے اور دو پاڑے بین الاقوامی سرحد کے دوسری جانب بفر زون سے پرے بھارت ہو گئے اور ایک پاڑا پاکستان ہو گیا۔گاؤں کا کنواں بفر زون کے بیچ آ گیا۔
گاؤں کے ایک بزرگ نے بتایا کہ جب بس سنگِ میل تھے تب کنواں بھی زندہ تھا۔پھر بھارت نے اونچی دہری باڑھ لگا دی اور واچ ٹاور نصب کر دیے تو کنواں بھی بے گھر اور پھر خشک ہو گیا۔باڑھ سے پہلے مویشی صبح چرتے چرتے بھارت چلے جاتے اور شام ہونے سے پہلے پاکستان آ جاتے۔
باڑھ لگنے سے پہلے ہمارا کوئی رشتے دار خوشی غمی میں شرکت کے لیے سامنے والے پاڑے میں سنگ میل کراس کر کے چلا جاتا۔تم دیکھ رہے ہو نا۔ہمارے اور ان کے چونہروں کے درمیان چار پانچ سو فٹ کا فاصلہ ہے۔اب ہم صرف ایک دوسرے کو باڑھ کے آر پار دیکھ کر ہاتھ ہلا دیتے ہیں یا زور سے بات کر کے حال احوال کر لیتے ہیں۔جب ایک دوسرے کو پہچاننے والے اور آواز دے کر ہاتھ ہلانے والے ہم جیسے آخری بوڑھے بھی اٹھ جائیں گے تو آرپار صرف وہ نسل رہ جائے گی جس نے ہوش سنبھالتے ہی صرف باڑھ ہی دیکھی۔ پھر واقعی یہ گاؤں اجنبیت کی دھند میں گم ہوتا ہوتا ہر معنوں میں انڈیا اور پاکستان ہو جائے گا۔
ابھی پچھلے سال ہی انڈین پاڑے میں رہنے والے میرے چچازاد بھائی کی موت ہو گئی۔میں نے سوچا مرنے سے پہلے ایک بار تو ادھر جا کر افسوس کر لوں۔مگر باڑہ کی وجہ سے یہ چار پانچ سو فٹ کا فاصلہ دس منٹ سے بڑھ کر سات دن اور ڈھائی ہزار کلومیٹر کا ہو گیا۔پوچھو کیسے؟
میں اور میرا بیٹا یہاں سے گیا حیدرآباد۔وہاں سے ریل میں بیٹھ کر گیا اسلام آباد۔ویزا ملا تو اسلام آباد سے آیا لاہور۔لاہور سے بیٹھا دلی جانے والی سمجھوتہ ایکسپریس میں۔دلی سے ٹرین میں بیٹھ کر پہنچا جودھ پور۔وہاں سے میرے رشتے داروں نے مجھے لیا اور بس میں بیٹھ کر یہ جو سامنے پاڑہ نظر آ رہا ہے اس سے چھ سات کلومیٹر دور اترے اور پھر وہاں سے موٹر سائیکلوں پر مجھے اور میرے بیٹے کو بٹھا کر یہاں لائے۔وہ دیکھ رہے ہو نا چار چونہرے لائن سے۔ان کے پیچھے کے دو چونہرے میرے چچا زاد کے ہیں۔یہ جو باڑہ کے اس طرف سامنے میدان نظر آ رہا ہے اس کے کنارے تک میں اور میرا بیٹا آئے اور ہم نے چیخ چیخ کر پاکستان والوں کو اطلاع دی کہ ہم خیریت سے بھارت پہنچ گئے ہیں۔
( مجھے اس گاؤں میں اس بوڑھے نے مذکورہ داستان فروری انیس سو اٹھانوے میں سنائی تھی۔جانے اب زندہ بھی ہے کہ نہیں )۔
من موہن سنگھ کے دور میں دریائے نیلم کے آر پار کچھ عرصے کے لیے دونوں طرف کے کشمیری رشتے داروں کو اجازت تھی کہ وہ چیخ چیخ کر ایک دوسرے کی خیریت دریافت کر لیں۔اب یہ کام دونوں جانب سے گرنے والے گولے کرتے ہیں۔ایسی ملتی جلتی کہانیاں کہیں اور اگر ملتی ہیں تو شمالی و جنوبی کوریا کی سرحد پر۔
سب سے زیادہ ملٹرائزڈ بارڈرز کی فہرست میں شمالی و جنوبی کوریا کی سرحدی حد بندی اور پاک بھارت سرحد علی الترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔مگر شمالی و جنوبی کو ریا کے چھتیس عرض البلد سرحدی خطِ متوازی کے مقابلے میں بھارت اور پاکستان واحد عالمی مثال ہیں جن کے درمیان کی لکیر کے تین الگ الگ نام ہیں۔بین الاقوامی خط ، ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول۔اور اب چوتھی قسم بھی شاید آنے والی ہے ۔ چند گز چوڑا ساڑھے چار کلومیٹر لمبا ویزا فری کرتار پور کاریڈور۔
میں طبعاً صحافی مگر میڈیا کا جلا ہوا ہوں لہذا اچھی خبروں کی چاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہوں۔بارش زلزلے اور پاک بھارت تعلقات کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں ہو سکتی۔دونوں طرف کی قیادت مزاج کے جنگل کی بادشاہ ہے۔جب چاہے انڈے دے نہ چاہے تو بچے دے یا جب چاہے بانجھ ہو جائے۔بدگمانی باہمی تعلقات کا سکہ رائج الوقت اور خوش گمانی مزید بدگمانی کا سبب بن جاتی ہے۔تہتر برس میں کئی بار لگا کہ برف پگھلنا شروع ہو گئی ہے اور پھر برف کی ایک اور تہہ جم گئی۔
سندھ طاس فارمولے کے تحت دریائی پانی کی تقسیم ایک تاریخی معاہدہ قرار پایا مگر پانچ ہی برس بعد جنگ ہو گئی اور اس کے چار ماہ بعد تاشقند کا تاریخی معاہدہ طے پا گیا اور اس کے چھ برس بعد پھر جنگ ہو گئی اور اس کے ایک برس بعد شملہ کا تاریخی معاہدہ قرار پا گیا اور اس کے بارہ برس بعد سیاچن کا بحران پیدا ہوگیا اور اس کے آٹھ برس بعد ممبئی میں لگاتار ایک ساتھ کئی بم پھٹ گئے اور اس کے چھ برس بعد ایٹمی دھماکے ہو گئے اور ان دھماکوں کے نو ماہ بعد واجپائی کی لاہور بس ڈپلومیسی ہو گئی اور فوراً بعد کرگل ہو گیا اور اس کے ڈیڑھ برس بعد آگرہ میں مشرف واجپائی ملاقات ہوئی اور پھر نائن الیون ہو گیا۔
اور پھر لوک سبھا پر حملہ ہو گیا اور دونوں ملکوں کی فوجیں سرحد پر سال بھر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی رہیں اور اس کے بعد لائن آف کنٹرول پر کئی برس کا امن ہو گیا اور پھر ممبئی میں چھبیس گیارہ آٹھ ہو گیا اور پھر بھارت کو مودی ہو گیا اور پھر مودی اچانک لاہور تشریف لائے اور اس کے دو ہفتے بعد پٹھانکوٹ ہو گیا۔اور پھر برہان وانی شہید ہو گیا اور پھر اڑی چھاؤنی پر حملہ ہو گیا تو دونوں طرف سے سفارتی و ثقافتی بائیکاٹ ہو گیا۔پھر کھلبھوشن ہو گیا۔
آج بھی کیا شاندار سما ہے۔بھارت کھل کے کہتا ہے کشمیر میں تازہ آگ بھی پاکستان نے لگائی ہے، پاکستان کہتا ہے کراچی کے چینی قونصل خانے پر کالعدم بی ایل اے کے حملے کے لیے وسائل را نے مہیا کیے اور ماسٹر مائنڈ اسلم اچھو دلی میں بیٹھا ہے۔مگر دونوں ممالک کرتار پور کاریڈور کی تعمیر بھی کر رہے ہیں۔ایسے میں کیا کریں ؟ خوشی سے اچھل پڑیں یا سابقہ تجربات کی روشنی میں دم سادھے اگلی گھٹنا گھٹنے کا انتظار کریں۔
ہو سکتا ہے پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کرتار پور کاریڈور کے معاملے پر ایک صفحے پر ہو مگر بھارت میں حزبِ اختلاف کانگریس کے شبہات تو رہے ایک طرف خود حکمران بی جے پی اس معاملے پر اندرونی کنفیوژن کا شکار ہے۔اگلے پانچ چھ ماہ بعد بھارت کو عام انتخابات بھی درپیش ہیں۔
لہذا تیار رہئے کہ یہ کاریڈور مکمل ہو بھی سکتا ہے اور سنگ بنیاد ایک دوسرے کے سر پے بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ مگر سمجھوتہ ایکسپریس ، کھوکھرا پار ایکسپریس ، کشمیر بس سروس ، لاہور دلی بس سروس کی مثالیں بھی آمنے سامنے ہیں۔لہذا خوش امیدی کے سوا آپشن ہے بھی کیا ؟
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )