دھیلے کی کرپشن

سکے آج بھی موجود ہیں مگر ان کی قدر و قیمت نہ ہونے کے برابر ہے۔

ayazkhan@express.com.pk

دھیلے کی کرپشن کیسے ثابت ہو سکتی ہے۔ آج کی جنریشن جب یہ لفظ سنتی ہے تو حیران ہو جاتی ہے کہ یہ دھیلا کیا بلا ہے۔ موجودہ جنریشن نے تو ویسے پیسے کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ اس کے لیے سب سے چھوٹی کرنسی یا سکہ روپیہ ہی ہے۔

ہماری جنریشن نے ٹکہ دیکھا اور پھر پیسہ بھی۔ اور یہ ہماری ہی جنریشن تھی جس نے روپے کو ٹکے ٹوکری ہوتے بھی اپنی گناہگار آنکھوں سے دیکھا۔ شہباز شریف ہمیشہ سے چیلنج کیا کرتے ہیں کہ کوئی دھیلے کی کرپشن ثابت کر دے، وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ پھر ایک دن نیب والوں نے انھیں معمول کی پیشی پر طلب کیا اور اچانک خبر آگئی کہ انھیں صاف پانی کمپنی کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

شہباز شریف گرفتاری سے پہلے کرپشن ثابت کرنے کا چیلنج دیا کرتے تھے اب دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ نیب اب تک ان کے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکا۔ چند دن پہلے ایک ٹین ایجر نے پوچھ لیا کہ یہ دھیلا کس جنس کا نام ہے۔ اس نسل کے لیے دھیلا ایک ایسا لفظ ہے جس کو وہ سرے سے سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہم تو پیسہ دھیلا کی ترکیب سنتے آئے ہیں۔ موجودہ نسل نے زیادہ تر کرنسی نوٹ ہی دیکھے۔

سکے آج بھی موجود ہیں مگر ان کی قدر و قیمت نہ ہونے کے برابر ہے۔ سکہ اگر کسی گداگر کو بھی دیا جائے تو وہ منہ بسور لیتا ہے۔ کرنسی نوٹوں کی ویلیو بھی دن بدن کم تر ہو رہی ہے۔ پلاسٹک منی تیزی سے ان کی جگہ لے رہی ہے۔ آج کل تو چھوٹے چھوٹے بچے بھی ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں۔ یہ کسی اسٹور میں شاپنگ کرتے ہیں اور کارڈ سے پے منٹ کر کے نکل جاتے ہیں۔ سنا ہے پلاسٹک منی بھی جلد ختم ہونے والی ہے۔ ساری پے منٹس اسمارٹ فون کے ذریعے ہوا کریں گی۔

ذرا تاریخ کے جھروکے میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر میں سکوں سے پہلے ، سامان کے تبادلے سے لین دین ہوتا تھا۔ جسے بارٹر سسٹم کہتے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ سکوں کا رواج عام ہونے لگا۔ سونے ، چاندی ، پیتل ، تانبے کے علاوہ کوڑیوں کا بھی استعمال کیا جاتا تھا اور کوڑیوں کی اتنی اہمیت تھی کہ پھوٹی کوڑیاں بھی چلائی جاتیں۔پھوٹی کوڑی کے بدلے ٹھیلے والے سے چورن ، کالا نمک، مولی کانمک ، املی اور دیگر سستی کھانے کی چیزیں خریدی جاتی تھیں۔ دھیلے اور دمڑی مغل دور کے آخر میں استعمال ہونے والے سکے تھے۔ ایک روپے میں 128دھیلے، 192 پائی اور 256 دمڑیاں آتی تھیں۔

ایک دمڑی دس کوڑیوں کے برابر تھی اور ایک کوڑی کے بدلے تین پھوٹی کوڑیاں مل جاتی تھیں اور ان پھوٹی کوڑیوں کا بھی مول ہوتا تھا۔ بہرحال یہ تو قیام پاکستان سے بہت پہلے کی کرنسیاں اور سکے تھے۔ جب کاغذی کرنسی یا بینک نوٹ گردش میں نہیں آئے تھے۔ برصغیر انگریزوں کے دور میں ابتدائی کرنسی نوٹ 1867 کے لگ بھگ جاری کیے گئے جن پر ملکہ وکٹوریہ کی شبیہہ ہوا کرتی تھی۔ اس وقت وطن عزیز میں صرف تین سکے گردش میںہیں جن میں ایک روپیہ، دو روپے اور پانچ روپے کے سکے شامل ہیں۔ ایک اور دو روپے کے سکے 1998 ء میں جاری کیے گئے ہیں جب کہ 5 روپے کا سکہ 2002 میں متعارف کروایا گیا تھا۔۔

پیسے، دھیلے اور کرنسی کی تاریخ کے بعد اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ سابق خادم اعلی کی بھاگ دوڑ کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ ان کے ترقیاتی ماڈل پر تنقید کی جا سکتی ہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ وہ مسلسل کچھ نہ کچھ کرتے رہے ہیں۔ سڑکیں، پل اور انڈر پاس بنانے کے ساتھ ساتھ اشرافیہ کو ممکنہ انقلاب آنے سے بھی ڈراتے رہے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ کس اشرافیہ کے خلاف انقلاب آنے کی نوید سنایا کرتے تھے۔ ن لیگ کے چھوٹے قائد غالباً اپنے سوا تمام امراء کو اشرافیہ میں شمار کرتے تھے۔


شہباز شریف محض دعوے نہیں کام بھی کیا کرتے تھے۔ اب چونکہ نیب نے انھیں قابو کر رکھا ہے اس لیے وہ صرف اسمبلی سیشن کے دوران ہی کام کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ گفتار کا کام ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ان کا پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہیں اور نیب راہداری ریمانڈ لے کر انھیں اجلاسوں کی رونق بنا دیتا ہے۔ موصوف صاف پانی کے بعد آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں بھی تفتیش بھگت رہے ہیں۔

نیب کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس وافر ثبوت موجود ہیں۔ شہباز شریف البتہ نیب کے یہ دعوے تسلیم کرنے سے صاف انکار کرتے ہیں۔ وہ ان سارے دعوؤں کے مقابلے میں اپنا ایک الگ دعویٰ بار بار دہراتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں خطاب ہو، کسی میڈیا پرسن سے گفتگو یا عدالت سے مکالمہ، چھوٹے میاں صاحب یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے خلاف ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت نہیں ہو سکی۔

ہمارے خیال میں نیب کے پاس بھلے ثبوتوں کے انبار لگے ہوں لیکن دھیلے کی کرپشن ثابت کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ اس حوالے سے ایک مفت مشورہ ضرور دیا جا سکتا ہے۔ نیب کے تفتیش کار کیا یاد کریں گے کہ بدترین مہنگائی کے اس دور میں بھی کوئی انھیں فیس کے بغیر مشورہ دے رہا ہے۔ مشورہ یہ ہے کہ معروف کارٹون سیریز ڈورے مون (Doraemon) سے ٹائم مشین ادھار لے اور دو تین تفتیش کار 18ویں صدی میں جار کر دھیلے کی اوقات کا پتہ لگائیں۔

ہماری معلومات کے مطابق اس دور میں دو دھیلے کی ویلیو ایک پیسے کے برابر تھی۔ تفتیش کاروں کو اس دور میں جاکر معلوم کرنا چاہیے کہ جب ایک پیسے کے دو دھیلے تھے تو پھر ایک دھیلے کی ویلیو کیا ہو گی۔ پیسے کی اہمیت ہم نے 20ویں صدی میں بھی دیکھی ہے۔

ہمارے بچپن میں چھوٹے سے سائز کا ایک بسکٹ ایک پیسے میں مل جاتا تھا۔ ایک روپے کے 100 بسکٹ کا زمانہ بھی کیا خوب تھا۔ اب تو روپے میں بھی کچھ نہیں آتا۔ دھیلے کی ویلیو جاننے کے بعد تفتیش کار واپس موجودہ دور میں آسکتے ہیں۔ ایک مسئلہ بہر حال اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ اس دور میں دھیلا چھوڑ پیسہ بھی ناپید ہو چکا ہے۔ کاغذی کرنسی کا سب سے چھوٹا نوٹ بھی اب 10 روپے کا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے 5کا نوٹ ختم کیا گیا جب کہ روپے اور دو روپے کے نوٹ بند ہوئے مدت بیت چکی ہے۔ نیب کے تفتیش کاروں کو یہ مسئلہ بھی درپیش ہوگا کہ 18 ویں صدی میں جا کر معلومات لینے اور واپس 21 ویں صدی میں آنے کے

باوجود وہ شہباز شریف دور کے منصوبوں میں اگر کوئی کرپشن ہوئی ہے تو کروڑوں، اربوں کے گھپلوں کا تو شاید کوئی ثبوت مل سکے، دھیلے کی کرپشن پھر بھی ثابت نہیں ہو سکے گی۔ اب تو پیسے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کی جا سکتی۔ پس ثابت ہوا کہ سابق خادم اعلی کا یہ دعویٰ درست ہے کہ ان کے خلاف دھیلے کی کرپشن ثابت ہو سکی ہے نہ کبھی ہو سکے گی۔

نیب والو! تمہارے لیے بہتر ہے کہ کرپشن کے دیگر کیسوں پر فوکس کرو۔ شہباز شریف کو آزاد کر دو تاکہ وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی ذمے داریاں بہتر انداز میں ادا کر سکیں۔ اب ہمارا بھی یہی دعویٰ ہے کہ تم لوگ دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکو گے۔ کبھی نہیں!
Load Next Story