صدر ٹرمپ ہوش کے ناخن لیں

افغانستان کے مسئلے کے پرامن حل کے ساتھ پاکستان کا بڑا گہرا تعلق ہے۔

S_afarooqi@yahoo.com

سربراہان مملکت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بین الاقوامی معاملات کے بارے میں لب کشائی کرتے ہوئے تہذیب و شائستگی کا دامن ہرگز نہیں چھوڑیں گے اور ایسی زبان استعمال کرنے سے اجتناب کریں گے، جو ان کے منصب اور مرتبے کے شایان شان نہ ہو۔

نہایت افسوس کا مقام ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اخلاقیات کے اس بنیادی اصول سے قطعاً نابلد اور عاری ہیں جس کی وجہ سے آج دنیا بھر میں امریکا کی رسوائی اور جگ ہنسائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی رہی سہی ساکھ بھی تیزی سے گر رہی ہے۔ ہر آن ٹوئیٹ کے ذریعے ایک نیا شوشہ چھوڑنا اورکشیدگی میں خواہ مخواہ اضافہ کرنا ان کے انتہائی متلون مزاج کا حصہ اور ان کی روزمرہ زندگی کا معمول ہے، جس کا خمیازہ ان کے ماتحتوں کو آئے دن بھگتنا پڑتا رہتا ہے، اس حوالے صدر ٹرمپ امریکا کے شتر بے مہار قرار پائے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے تازہ ترین ہرزہ سرائی کرتے ہوئے گزشتہ دنوں امریکی ٹی وی چینل '' فوکس نیوز '' کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستان کے خلاف زہر افشانی کی ہے اور ایک بار پھر پاکستان پر بے وفائی کا جھوٹا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اربوں ڈالر وصول کرنے کے باوجود امریکا کا ساتھ نہیں دیا۔

ٹرمپ نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے شمار، بے تحاشا اور بے دریغ قربانیوں کو یکسر نظرانداز اور فراموش کردیا۔ انھوں نے پاکستان کی امداد روکنے کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چونکہ امریکا کے لیے کچھ نہیں کرتا اس لیے ہم نے اس کی تین ارب ڈالر کی امداد روک دی ہے۔ ٹرمپ کی پاکستان کے خلاف یہ سراسر جھوٹی اور بے بنیاد الزام تراشی پاکستان کی امداد روکنے کا محض ایک بہانہ ہے جو انگریزی کی ایک کہاوت Give the dog a bad name and kill him کے مترادف ہے۔

باالفاظ دیگر بھیڑیے اور میمنے کی کہانی دہرائی گئی ہے جس سے سب بخوبی آگاہ ہیں۔ پاکستان کے خلاف ٹرمپ کی تازہ ترین ہرزہ سرائی ان پر امریکا کے ریٹائرڈ ایڈمرل مک ریون کی اسی تنقید کا ردعمل ہے جو انھوں نے امریکی میڈیا پر ٹرمپ کے حملے کے جواب میں داغی تھی۔ ٹرمپ کی یہ حرکت کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی کہاوت کے مترادف ہے۔

دوسری جانب ٹرمپ کی اس فضول الزام تراشی کے غبارے کی ساری ہوا، امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈن فورڈ کے اس بیان نے نکال دی ہے کہ افغانستان کے معاملے میں ہمیں لگی لپٹی بات کرنے کے بجائے طالبان کی مضبوط پوزیشن کو تسلیم کرلینا چاہیے اور فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ معاشی دباؤ اور مذاکرات کے ذریعے قیام امن کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔

امریکی جنرل کے اس بیان سے صدر ٹرمپ کی الزام تراشی کا کھوکھلا پن صاف ظاہر ہے۔ اس تناظر میں صدر ٹرمپ کا بیان بھونڈی الزام تراشی اور بے بنیاد اشتعال انگیزی کی بدترین مثال ہے۔ درحقیقت افغان جنگ میں امریکا کی ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر گرانے کی یہ شعوری کوشش ہے۔ غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے کے عادی صدر ٹرمپ نے جامے سے باہر ہوتے ہوئے پاکستانیوں کو بے وقوف بھی کہہ دیا ۔

امریکی صدر کی اس نازیبا بیان بازی کا پاکستان میں شدید ردعمل ہوا ہے اور پوری قوم اس معاملے میں یکساں ہم آواز ہے۔ سابق وزیر دفاع اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہم نے امریکا کے لیے جو قربانیاں دی اور جو کچھ کیا اس کی قیمت اب تک اپنے خون سے چکا رہے ہیں۔

سابق چیئرمین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے کہا ہے کہ ایک خودمختار ملک پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر کی زبان جارحانہ ہے انھوں نے کہا کہ ٹرمپ کا انٹرویو تاریخی حقائق کے منافی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں پاکستانی عوام اور فورسز کی جانیں گئیں اور امریکا نے پاکستان میں غیر قانونی ڈرون حملوں میں لوگوں کو قتل کیا۔

رضا ربانی کا کہنا ہے کہ امریکا نے جنگی اخراجات کے لیے پاک افغان سرحد پر منشیات کی صنعت قائم کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان میں منشیات و اسلحے کا کلچر متعارف کرایا اور پورے پاکستان کو انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھادیا۔

سابق چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ بھارت کو خطے کا چوکیدار بنانے پر پاکستان کے انکار سے امریکا پریشان ہے۔ پاکستان امریکا سے اتحاد کے بدلے معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں قیمت ادا کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی صدر پاکستان کے حوالے سے ایسی زبان استعمال کرنے سے باز رہیں۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ پاکستان آزاد اور خودمختار ریاست ہے، امریکا کی کالونی یا ریاست کا حصہ نہیں ہے۔


وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے امریکی صدر کے جارحانہ بیان کا دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ بہت ہوگئی امریکا کی جنگ۔ بس اب ہم بھی وہی کریں گے جو ہمارے لوگوں اور ہمارے ملک کے مفاد میں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ملوث نہ ہونے کے باوجود جنگ میں حصہ لیا جس سے قبائلی علاقے تباہ اور عام پاکستانی کی زندگی تہہ و بالا ہوگئی۔ 75 ہزار جانوں اور 23 ارب ڈالر نقصان کے بدلے امریکا نے صرف 20 ارب ڈالرکی حقیر سی امداد دی۔ ایک لاکھ 40 ہزار نیٹو افواج اور ڈھائی لاکھ افغان فوج کے باوجود امریکا جنگ نہیں جیت سکا۔

ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود طالبان آج پہلے سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پر یہ کہا کہ صدر ٹرمپ کسی ایسے اتحادی کا نام بتائیں جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جتنی قربانیاں دی ہیں۔

ٹرمپ کا بیان امریکی رعونت کو ظاہر کرتا ہے۔ 70 سال کی طویل مدت پر محیط پاک امریکا تعلقات کی کہانی بہت سے نشیب و فراز پر مشتمل ہے۔ اس میں نشیب بہت زیادہ اور فراز بہت کم ہیں۔ امریکا مطلب کا یار ہے جس کے بارے میں بے دھڑک کہا جاسکتا ہے کہ ''چرسی یار کس کے' دم لگایا کھسکے'' ریکارڈ سے ثابت ہے کہ امریکا نے اپنا کام نکل جانے کے بعد پاکستان کو ہمیشہ ہری جھنڈی ہی دکھائی اور آزمائش کی گھڑی میں پاکستان کا کبھی ساتھ نہیں دیا۔

بھارت کے ساتھ 1965 کی جنگ میں امریکا نے پاکستان کو ٹھینگا دکھادیا۔ پھر 1971 کی جنگ کے موقعے پر امریکا پاکستان کو یہ جھوٹی تسلی دیتا رہا کہ اس کا ساتواں بحری بیڑا مدد کو پہنچنے والا ہے۔ لیکن سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوگیا اور امریکی بحری بیڑا نہ پہنچنا تھا اور نہ پہنچا۔ امریکا کی اس قسم کی روش کے حوالے سے اور اس کے ساتھ تجربے کی روشنی میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ:

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی ہرزہ سرائی پہلی بار نہیں ہوئی۔ انھوں نے نئے سال کے موقع پر بھی پاکستان کے بارے میں اپنے ٹوئیٹ میں اسی قسم کے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو جھوٹا اور دھوکا باز کہہ کر مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکا کے جارحانہ رویے میں قدرے کمی واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے تھے کہ شاید امریکا پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو پھر سے استوار کرنا چاہتا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کے تازہ ترین رویے نے ان کی خوش فہمی کو دور کردیا ہے۔ بقول غالب:

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

ٹرمپ کی ہرزہ سرائی کا پاکستان کے وزیر اعظم کی جانب سے دندان شکن جواب کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ 9/11 کے واقعے کے بعد امریکا کے ساتھ پاکستان کے اتحاد کے بارے میں عمران خان کے تاثرات کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ اور سب لوگ ان کی شعلہ بیانی سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ ان کا یہ کہنا ذرا بھی غیر متوقع نہیں کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے امریکا کو تمام تر وسائل کے باوجود اپنی پے درپے ناکامیوں کے اسباب تلاش کرنے چاہئیں۔

ٹرمپ کی پاکستان کے خلاف یہ ہرزہ سرائی امریکا کو بڑی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ یہ حرکت ایسے نازک وقت پر کی گئی ہے جب امریکا افغان مسئلے کے حل کے لیے طالبان کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کر چکا ہے اور امریکی نمایندہ خصوصی برائے مفاہمت بابت افغانستان زلمے خلیل زاد روس کے بعد قطر میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ بیٹھک کرچکے ہیں۔

افغانستان کے مسئلے کے پرامن حل کے ساتھ پاکستان کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ لہٰذا امریکا کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان کے خلاف دشنام طرازی اور الزام تراشی سے نہ صرف کسی قابل عمل پیش رفت کے امکانات معدوم ہوسکتے ہیں بلکہ سارا بنا بنایا کھیل بگڑ بھی سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ اپنی زبان کو لگام دیں اور پاکستان کے بارے میں خواہ مخواہ ہرزہ سرائی سے باز آجائیں اور اپنی پاکستان مخالف پالیسی پر نظرثانی کریں۔ امریکا کے حق میں بہتر یہی ہے کہ صدر ٹرمپ جوش میں آکر الٹی سیدھی بات کرنے کے بجائے ہوش کے ناخن لیں۔
Load Next Story