فہمیدہ ریاض بھی چلی گئیں

فہمیدہ ریاض نے صرف شاعری ہی نہیں کی وہ میدان، سڑکوں پر، گلیوں میں رستوں میں بھی نکلی ہے۔


Saeed Parvez November 27, 2018

میں نے فہمیدہ ریاض کو پہلی بارکیٹرک ہال صدر کراچی میں دیکھا تھا ۔ یہ 1967 تھا، جنرل ایوب تخت نشین تھے، جنرل کے خلاف عوامی احتجاج میں خاصی شدت آچکی تھی ۔ اس روز بھی کیٹرک ہال صدر میں حکومت کے خلاف ایک جلسہ ہونے جا رہا تھا، مگر حکمرانوں نے ہال کے سارے دروازوں پر تالے ڈالے ہوئے تھے، لوگ بڑی تعداد میں جمع تھے۔

فہمیدہ ریاض اور غالباً احمد فراز بھی ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے، فہمیدہ ریاض سگریٹ پی رہی تھیں ۔ سگریٹ پیتے کم لوگ ہی اچھے لگتے ہیں۔ فہمیدہ بھی اچھی لگتی تھیں۔ خیر عوامی دباؤ زیادہ بڑھا، ہال کے باہر جمع لوگ احتجاج پر اتر آئے، حکومت کے خلاف نعرے لگ رہے تھے ''لاٹھی گولی کی سرکار، نہیں چلے گی، نہیں چلے گی''اور بھی نعرے تھے۔ آخر مقامی انتظامیہ کو کیٹرک ہال کے دروازے کھولنا پڑگئے اور جلسہ شروع ہوگیا۔

اسٹیج پر فہمیدہ ، فراز کے ساتھ جالب بھی موجود تھے۔ یہ جلسہ نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن (NSF) کے تحت ہو رہا تھا۔ امیر حیدرکاظمی صدر NSF صدرِ جلسہ تھے۔ فہمیدہ ریاض خصوصاً طلبا میں بہت مقبول تھیں، اس روز بھی طلبا نے فہمیدہ کو خوب سنا۔ فہمیدہ '' مردانہ وار'' اپنی نظمیں سنا رہی تھیں۔

فہمیدہ کو دوسری بار میں نے اپنے گھر میں دیکھا، میں محکمہ انکم ٹیکس میں کلرک تھا اور سرکاری کوارٹر میں رہتا تھا۔ یہ کلیٹن کوارٹرز تھے۔ جالب بھائی لاہور سے کراچی آئے ہوئے تھے اور میرے گھر میں مقیم تھے۔ دن کے گیارہ بارہ بجے کا وقت کہ فہمیدہ آگئیں۔ اپنے پسندیدہ لباس ساڑھی پہنے ہوئے تھیں، یہ 1974 کی بات ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو حکمران تھے، مشرقی پاکستان ہم کھوچکے تھے اور حکمران بلوچستان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔

نیشنل عوامی پارٹی ہمیشہ کی طرح بھٹو کی حکومت کے بھی زیر عتاب تھی۔ ایک اور طویل رات کا سفر سامنے نظر آرہا تھا۔ قید و بند، عقوبت خانے، انسان دوست، عوام دوست ذہن رکھنے والوں کے سامنے تھے۔ ان حالات میں ون ٹو ون ملاقات ہو رہی تھی۔ ایسبسٹوس کی چادروں والی چھت کے کوارٹر میں حبیب جالب اور فہمیدہ ریاض بات چیت کر رہے تھے ۔ یہ ملاقات تقریباً دوگھنٹے جاری رہی ۔ اس دوران میں نے دونوں شاعروں کو دو مرتبہ چائے بنا کر پیش کی۔

ملکی حالات پھر گمبھیر ہوتے جا رہے تھے۔ عوام نے جس چاہ میں پیار، عشق، محبت کے آسمانوں کو چھو لیا مگر خواب بکھر رہے تھے۔ رات کا فاصلہ طویل ہوتا نظر آرہا تھا۔ میرے خیال میں اس روز فہمیدہ اور جالب انھی گمبھیر حالات اور طویل رات کے بارے میں گفتگو کر رہے ہوں گے اور پھر فہمیدہ ریاض کے ہر پروگرام میں شرکت کرنا میرا وطیرہ بن گیا۔ وہ جہاں جہاں جاتیں میں وہاں وہاں پہنچنے کی کوشش کرتا۔ فہمیدہ ریاض لاکھوں کی محبوب شاعرہ تھیں۔ میں بھی انھی لاکھوں میں شامل تھا اور ہوں۔

جالب صاحب نے فہمیدہ ریاض کو اپنی ہم عصر شاعرات میں ممتاز قرار دیا، وہ فہمیدہ کے فکر و نظر کے بہت قائل تھے۔ فہمیدہ بھی جالب صاحب سے بے شمار عقیدت رکھتی تھیں اور اپنی محبت و عقیدت کا اظہار انھوں نے جالب صاحب کی حیات میں ہی دو نظمیں لکھ کر کیا۔ جالب صاحب کے اعزاز میں ہونے والے جلسوں میں انھوں نے یہ نظمیں بارہا پڑھیں۔ ایک نظم کے تین اشعار نقل کرتا ہوں:

تاریخ کبھی ہم سے جو مانگے گی حساب

ہم پیش کریں گے ترے نغموں کی کتاب

کیا بخت سیہ اپنا وطن لایا تھا

کس طور گزارے ہیں مسلسل یہ عذاب

تاریخ نے خلقت کو تو قاتل ہی دیے

خلقت نے دیا ہے اسے جالب سا جواب

فہمیدہ ریاض اپنی شاعری کی صورت رہ جانے والی شاعرہ ہے۔ ہر بڑے شاعر کی طرح یہ اپنے عہد کی اور آنے والے زمانوں کی بھی شاعرہ ہے۔ اس نے بہت پہلے وہ باتیں کر ڈالیں کہ لوگ جس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا کہا لوگوں کے دلوں کی آواز بن چکا ہے اور ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا ۔ آنے والا زمانہ فہمیدہ کی فکر و نظر کا زمانہ ہوگا۔

فہمیدہ ریاض نے صرف شاعری ہی نہیں کی وہ میدان، سڑکوں پر، گلیوں میں رستوں میں بھی نکلی ہے۔ جلسے جلوسوں اور احتجاجی ریلیوں میں نعرہ زن نظر آئی ہے۔ وہ ہر ایک لمحہ متحرک انسان تھی۔ موت کی آخری ہچکی تک وہ کام کرتی رہی۔ ایسے ہی لوگ دلوں میں، تاریخ میں زندہ رہتے ہیں۔

دھن بھاگ لاہور کے، کہ اسے فہمیدہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مل گئی ۔ مغل اعظم کے ''انکاری'' شاہ حسین کے لاہور میں فیض جالب استاد دامن کے بعد فہمیدہ ریاض بھی لاہورکی مٹی کے سپرد ہوئی ۔ یہ فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں ، تمام زندگی کراچی میں گزارکرکراچی کی سڑکوں، رستوں، گلیوں میں اپنے رنگ بھر کر فہمیدہ لاہور میں جا سوئی ۔ اب ابد تک شاہ حسین کے جھنڈے تلے فیض، جالب، دامن کے ساتھ فہمیدہ کے صبح شام گزریں گے۔ راتیں، برساتیں، بہاریں، پت جھڑ بیتیں گے۔

یہ بڑے لوگ یوں بھی عجیب ہوتے ہیں۔ میں جب بھی فہمیدہ ریاض کو دیکھتا تھا تو مجھے امرتا پریتم یاد آجاتی تھیں۔ دونوں کی صورتیں بھی ان کی فکر کے مطابق ایک جیسی ہیں۔ امرتا بھی آزادی انسان کی پرچارک اور فہمیدہ بھی۔

چلو جاؤ فہمیدہ ! جاؤ! وہاں جہاں تم اب ہو، اپنے اپنوں کے ساتھ خوش رہو، شاد رہو آباد رہو۔ تم نے خلقت کو پیار دیا۔ خلقت تمہیں بھی پیارکے ساتھ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ آئیں! فہمیدہ کو دہرائیں ''سنگ دل رواجوں کی/ یہ عمارت کہنہ/ اپنے آپ پر نادم/اپنے بوجھ سے لرزاں/ جس کا ذرہ ذرہ ہے/ خود شکستگی ساماں/ سب خمیدہ دیواریں/سب جھکی ہوئی کڑیاں/سنگدل رواجوں کے/خستہ حال زنداں میں/اک صدائے مستانہ/ایک رقصِ رندانہ/یہ عمارتِ کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے/ یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں