برصغیر میں مسلم ریاست کا قیام
وائسرائے نے شملہ میں کانفرنس کی جس میں اس بات کا فیصلہ نہیں ہوسکا کہ آیا مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد جماعت ہے یا نہیں۔
مسلمانوں کی الگ ریاست کے قیام کا نظریہ پہلی بار واضح طور پر علامہ اقبالؒ نے پیش کیا۔ انھوں نے 1930 میں مسلم لیگ کے ''اجلاس الٰہ آباد'' میں ''خطبہ صدارت'' پڑھتے ہوئے فرمایا '' میرے خیال میں پنجاب، شمال مغربی سرحد صوبہ، سندھ اور بلوچستان ملاکر ایک ریاست بنادیا جائے جسے خود اختیاری حاصل ہو۔''
پاکستان کا لفظ پہلی دفعہ ایک پمفلٹ میں استعمال کیا گیا جوکہ چوہدری رحمت علی نے 1933 میں کیمبرج سے شایع کیا۔ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے 1939 میں اپنے ''اجلاس میرٹھ'' کے دوران کمیٹی اس غرض سے مقررکی کہ وہ مختلف آئینی تجاویز پر غور کرے۔ اس کمیٹی کے صدر قائد اعظم محمد علی جناحؒ تھے۔ کمیٹی نے متعدد تجاویز اور منصوبوں پر غور کیا۔ بالآخر 23 مارچ 1940 کے ''اجلاس لاہور'' میں وہ مشہور و معروف قرار داد منظور ہوئی جسے ''قرارداد لاہور کا نام دیا جاتا ہے۔
جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو کانگریس نے اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہا، مطالبہ کیا کہ ملک کو آزادی کا فوری اعلان کردیا جائے۔ اس وقت مسلم لیگ اس قدر طاقتور ہوچکی تھی کہ اسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ وائسرائے ہند نے 8 اگست 1940 کو صاف الفاظ میں اعلان کیا کہ برصغیرکی فلاح اور سلامتی کا تقاضا یہ ہے کہ کسی ایسی جماعت کو حکومت نہ سونپی جائے جسے ملکی آبادی کے اہم عناصرکی نمایندگی حاصل ہو۔
اس اعلان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مسلم لیگ کی اہمیت اب مسلمہ حقیقت بن چکی تھی۔ کانگریس ملک کی واحد نمایندہ جماعت نہیں رہی تھی۔ جنگ عظیم دوئم کے ابتدائی مراحل میں برطانیہ کی حالت دن بدن نازک ہوتی چلی گئی یہاں تک یہ جاپانی فوجیں ''رنگون'' پر قابض ہوکر برصغیر کے دروازے پر آکھڑی ہوئیں۔ 1942 میں سر سٹیفورڈ کرپس کو چند تجاویزکے ساتھ برطانیہ سے برصغیر بھیجا گیا۔
کرپس برصغیر میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں سے ملا، ان کی رائے لی۔ بعد ازاں برٹش راج نے اعلان کیا وائسرائے کی انتظامیہ کونسل تمام برصغیر کے اراکین پر مشتمل ہو اور اس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندے ہوں۔ البتہ ملکی دفاع کا شعبہ برطانیہ کے ہاتھ میں رہے۔ کانگریس کو ان تجاویز سے کئی لحاظ سے اختلاف تھا۔ مہاتما گاندھی جی نے ان تجاویز کے متعلق کہا ''یہ ایک بعد کی تاریخ کا چیک ہے اور ایسے بینک کے نام ہے جو دیوالیہ ہو رہا ہے'' تاہم برصغیر میں کرپس کے طویل قیام کے باوجود بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
سر سٹیفورڈ کرپس کی واپسی پر مہاتما گاندھی جی نے حکومت کے خلاف پر زور تحریک کا منصوبہ بنایا۔ 7 اگست 1942 کو کانگریس کے اجلاس میں ''ہندوستان چھوڑدو'' کی قرارداد منظور ہوئی، گاندھی جی کو اس مہم کا قائد مقرر کیا گیا۔ اسی رات کو کانگریس کی تمام لیڈرز گرفتار کرلیے گئے اور اس جماعت کو خلافِ قانون قرار دیا گیا۔ ملک میں بغاوت پھیل گئی۔ ریل کی پٹڑیاں اکھاڑدی گئیں۔ تار کاٹ دیے گئے اور سرکاری عمارات کو نذر آتش کیا گیا ۔تاہم فوج نے اس لاقانونیت پر قابو پالیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے بعد میں اس قرارداد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ''اس سے کانگریس کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت جب کہ جنگ عظیم دوئم ایک نازک مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔ حکومت پر دباؤ ڈال کر مجبور کردیا جائے کہ وہ اقتدار کانگریس کے سپرد کرے اور مسلمانوں کے مطالبات طاق نسیاں کی نذر ہوجائیں۔ 1944 میں گاندھی جی جیل سے رہا ہوئے۔
اسی سال ستمبر میں راج گوپال اچاریہ کی کوشش سے قائد اعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی جی میں مذاکرات ہوئے ''راج گوپال اچاریہ'' 1942 سے ہی کانگریس کو پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرنے کی ترغیب دے رہے تھے مگر انھیں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ گاندھی جناح مذاکرات کسی فیصلے پر منتج نہ ہوسکے۔ تاہم قائد اعظم کی سیاسی فتح تھی۔
اس واقعے سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ یہ گاندھی اور جناح دو لیڈر الگ الگ قوموں کے نمایندے ہیں اور ان کے باہمی سمجھوتے سے ملک کا سیاسی بحران ختم ہوسکتا ہے۔ 1945 کے آغاز میں جنگ عظیم دوئم کا خاتمہ اور اتحادیوں کی فتح دنوں کی بات معلوم ہورہی تھی۔ وائسرائے لارڈ ویول نے برصغیر کی سیاسی گتھی سلجھانے کی ایک اور کوشش کی۔
وائسرائے نے شملہ میں کانفرنس کی جس میں اس بات کا فیصلہ نہیں ہوسکا کہ آیا مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد جماعت ہے یا نہیں۔ اس کا فیصلہ رائے عامہ پر چھوڑدیا گیا اور انتخابات کرائے گئے۔ ان میں مسلم لیگ نے مرکزی مجلس قانون سازی کی جملہ تیس مسلم نشستیں حاصل کرلیں۔ صوبوں میں 507 مسلم نشستیں تھیں جن میں سے مسلم لیگ نے 427 پر کامیابی حاصل کی ، ان انتخابات میں مسلم لیگ کا دعویٰ پایہ ثبوت کو پہنچ گیا۔
1945 میں انگلستان میں لیبر پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی۔ اس نے اعلان کیا کہ حکومت نے تین اراکین پر مشتمل ایک وزارتی مشن برصغیر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں لارڈ پیتھک لارنس (وزیر ہند) سر سٹیفورڈ کرپس اور اے وی الیگزینڈر شامل تھے۔ اس مشن نے کانگریس اور مسلم لیگ کے زعما سے بات چیت جاری رکھی اس نے اپنے طرف سے ایک منصوبہ پیش کیا جس کا اعلان 16 مئی 1946 کو کیا گیا۔
(1) برصغیر کی یونین قائم کی جائے گی جو امور خارجہ، دفاع اور رسل و رسائل کی ذمے دار ہوگی۔ (2)مذکورہ مرکزی شعبوں کے علاوہ تمام شعبے صوبوں کے سپرد ہوںگے۔ (3)صوبوں کو اختیار ہوگا کہ وہ کثرت رائے سے آئین میں تبدیلی کا مطالبہ کریں۔ برصغیر کو 3 گروپ میں تقسیم کردیاگیا۔ گروپ ''الف'' میں یوپی، بہار، اُڑیسا، صوبہ جات، متوسط، ممبئی اور مدراس۔ گروپ ''ب'' میں پنجاب، سندھ، شمالی مغربی سرحدی صوبے اور گروپ ''ج'' میں بنگال اور آسام کے صوبے شامل تھے۔ اس طرح یہ سہ گانہ وفاق کا ایک انوکھا منصوبہ تھا۔
14 اگست 1946 کا دن مقرر کیا کہ مسلم لیگ ن نے مسلمانوں کے مطالبات منوانے اور حکومت کو راہ راست پر لانے کے لیے ''راست اقدام'' کیا جائے۔ ادھر وائسرائے نے وزارتی مشن کی واپسی کے بعد عبوری حکومت کے قیام کے لیے دوبارہ جنبانی شروع کردی اور 2 ستمبر 1946 کو کانگریسی وزراء نے پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں عبوری حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔ وائسرائے کی طرف سے مسلمانوں کی حق تلفی کی گئی ۔ اس سے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے اور انسانی خون کی ہولی کھیلی جانے لگی۔
فروری 1947 میں برطانیہ کے وزیراعظم اٹیلی نے اعلان کیا کہ برطانیہ جون 1948 تک برصغیر سے برطانیہ نکل جائے گا۔ مارچ 1947 میں لارڈ ویول کو واپس بلالیا گیا اس کی جگہ لارڈ مونٹ بیٹن کو وائسرائے مقرر کیا۔ جب وائسرائے نے تقسیم ملک کا فیصلہ کرلیا تو اس نے مسلم لیگ پر زور ڈالنا شروع کیا کہ وہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر رضامند ہوجائے۔ بالآخر 2 جون 1947 کو نئے صوبے کا اعلان کیا گیا۔
18 جولائی 1947 کو برطانوی پارلیمنٹ نے اس منصوبے کی بنیاد پر ''آزادیٔ ہند کا قانون'' منظور کیا جو بالآکر 15 اگست 1947 کو نافذ ہوا۔ اس طرح وہ قوم جو کچھ عرصہ عزت و وقار سے محروم ہوگئی تھی وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی کاوشوں سے یقین محکم اور عمل پیہم سے دنیا کی عظیم ترین مسلم مملکت (پاکستان) کے قیام میں کامیاب ہوئی۔