کتاب بینی سے کتاب فروشی تک

انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے بھی کتاب بینی اورکتاب فروشی کو نقصان پہنچایا۔

کتابوں سے محبت کرنے والے اور ان کے ضرورت مند طالب علم مہنگائی اور بعض دیگر مسائل کی وجہ سے کتاب بینی سے روز بروز دور ہوتے چلے جارہے ہیں، جس کے اثرات اشاعتی اداروں پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن کچھ قارئین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اس صورتحال کے باوجود کراچی اور لاہور کے علاوہ دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں کتابوں کے روزگار سے وابستہ سیکڑوں، بلکہ ہزاروں افراد روزانہ لاکھوں کا کاروبار کیسے کر رہے ہیں؟

کتابوں کی نشرواشاعت پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ علم وادب، سائنس وجغرافیہ، تاریخ وفلسفہ اور سماجی و سیاسی کتابوں کی نسبت ایسی کتابوں کو زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے جن کا تعلق عام موضوعات سے ہوتا ہے۔ اشاعتی ادارے سے جڑے لاہورکے ایک تجربہ کار دوست کا خیال ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد ایسے افراد بھی اشاعتی میدان میں کود پڑے ہیں جنھیں اپنی کتاب کی اشاعت مقصود ہوتی ہے یا وہ اپنے دو چار دوستوں کی کتابیں چھاپنے کی حد تک محدودرہتے ہیں۔

ماضی میں علم و ادب ، سائنس و فلسفہ اور سیاسی وسماجی موضوعات پر مبنی زیادہ ترکتابیں سندھ میں فروخت ہوتی تھیں جس میں کراچی کا نام سر فہرست تھا ۔ کچھ عرصہ پہلے کتابوں کا پچاس ہزار روپے مالیت کا بنڈل لاہور سے کراچی بھیجنے کے دو دن بعد چیک وصول ہوجاتا تھا مگر اب یہ عالم ہے کہ چیک کے بجائے اس سے بھی زیادہ مالیت پر مبنی کتابوں کا بنڈل موصول ہوتا ہے جس کے ساتھ یہ درج ہوتا ہے کہ کتابیں فروخت کر کے اپنے بل پورا کر لیجیے گا' ۔گویا کاروبار کے دیگر شعبوں میں بارٹر سسٹم ختم ہونے کے باوجود نشرواشاعت کے شعبے میں اب تک موجود ہے۔

ماضی میں امن وامان کی خراب صورتحال نے بھی علمی وادبی سرگرمیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور اساتذہ کے گھروں پر منعقد ہونے والی وہ محفلیں بھی ختم ہوگئیں جن میں مضافات سے آنے والے طالب علم اصلاح زبان و بیان کے لیے جاتے تھے۔ ان محفلوں میں شعروشاعری کے علاوہ پرانی اور نئی کتابوں پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوتی تھی۔امن وامان کی بحالی کے بعد مختلف شہروں میں ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ کافی حد تک بحال تو ہوا مگر محلے اورگھر کی سطح پر نئے لکھنے والوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کا روایتی انداز باقی نہ رہا اور نہ ہی وہ اساتذہ رہے جو غیر ملکی اور مقامی مصنفین کی کتابوں پرگھنٹوں بات چیت کرتے تھے۔

لاہور اور کراچی کے اشاعتی اداروں سے تعلق رکھنے والے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں ملک کے اہم اور بڑے اشاعتی اداروں کا نام انگلیوں پرگنا جا سکتا تھا مگر اب دو بڑے شہروں کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں کئی ایسے اشاعتی ادارے قائم ہوچکے ہیں جو ماضی میں نشر واشاعت کے بجائے صرف کتابوں کی خرید وفروخت تک ہی محدود تھے ۔ نشر و اشاعت کی یہ صورتحال کتابوںکی خوبصورتی کے ساتھ موضوعات کی اہمیت اورکاروبار پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔


انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے بھی کتاب بینی اورکتاب فروشی کو نقصان پہنچایا مگر اسے وقتی اور مختصر دورانیہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اس لیے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سوشل میڈیا پرکتابوں اور اخبارات کی سہولت کے باوجود کتاب بینی پرکوئی خاص اثر نہیں پڑا ۔ یورپ کے مختلف ممالک میں اب بھی دوران سفر یا فرصت کے لمحات میں کتاب بینی کو دوسرے مشاغل سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ تمام بڑے اخبارات انٹرنیٹ پر آسانی سے اور بلا معاوضہ دستیاب ہونے کے باوجود وہاںاخبار خرید کر پڑھنا زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے مگر ان میں ایسے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو اس سہولت کو حصول علم یا کتاب بینی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے باوجود تحقیق وتنقید کے شعبے سے تعلق رکھنے والے طالب علم ایسی کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کے پرانے ایڈیشن پی ڈی ایف کی شکل میں آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن کتاب کی مدد سے مختلف حوالے دینے اور متعلقہ تحریروں کی نشان دہی میں زیادہ آسانی ہوتی ہے ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے بھی ایسے افرادکی گنتی کم ہوتی جا رہی ہے جو کتاب کو اس کی اصل شکل میں پڑھنے کے بعد لائیبریری میں سجا کر رکھنے کے عادی تھے۔

لاہور اور کراچی کے اردو بازار مختلف علمی و ادبی اور مذہبی و تدریسی کتابوں کے مراکز سمجھے جاتے ہیں جہاں مقامی خریداروں کے علاوہ مضافاتی شہروں سے آنے والے افراد کا جمگھٹا لگا رہتا ہے ۔ ان بازاروں میں کتابوں کی خرید وفروخت سے جڑے کئی پرانے اور نئے نام لاکھوں کا کاروبار کرتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں ایسے اشاعتی ادارے خریداروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام دکھائی دینے لگے ہیںجو ترقی پسند ی، سائنسی، نفسیاتی، سیاسی و سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پرمبنی کتابیں چھاپنے کے لیے مشہور ہیں۔

کتابوں کی قیمت اورکچھ دیگر مسائل پر ان اداروں سے اختلاف توکیا جا سکتا ہے مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ادارے نہ ہوتے تو انگریزی زبان سے ناواقف قارئین ان غیر ملکی مصنفین کی کتابوںسے محروم رہتے، جنہوں نے اپنی تحریروں سے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کیا اور ایسے مقامی مصنفین کی تحریریں بھی ان تک نہ پہنچ پاتیں جو آمریت کے ادوار میں پابندی کا شکار رہے۔کراچی اور لاہور میں سویرا، سانجھ، سنگ میل، نگارشات، تخلیقات ،دانیال، بک ہوم اور فکشن ہاؤس کے علاوہ کئی ایسے اشاعتی اداروں کا نام لیا جاسکتا ہے جوکتابوں کے مرکزی بازاروں سے دور بیٹھ کر قارئین کے لیے اعلیٰ پائے کی کتابیں چھاپتے رہے، لیکن ان اداروں میں جانے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ اب نئی کتاب چھاپنا اور فروخت کرناکتنا مشکل ہے ۔

ماضی کی طرح سیاسی اور سماجی پروگراموں کے انعقاد کے دوران کتابوں کے ایسے اسٹال لگانے کی روایت بھی دم توڑتی جا رہی ہے جن میں ہزاروں کتابیں فروخت ہوتی تھیں یا ملک کے چیدہ چیدہ مصنفین اور شعراء کی کتابوں کی پذیرائی ہوتی تھی۔ ایسے پروگراموں کے انعقاد میں بھی کمی آئی ہے اوردہشت گردی کے ہاتھوں زخم خوردہ شہری ان میں شریک ہونے کی روایت سے بھی دور جا چکے ہیںلیکن ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کتابوں کی خرید وفروخت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے جس نے اشاعتی اداروں کے ساتھ قارئین کو بھی مایوسی اور بے یقینی سے دوچارکیا ہے۔
Load Next Story