نویں جماعت میں ہی اپنے نام کے ساتھ ’پی ایچ ڈی‘ کیمسٹری لکھ دیا تھا ڈاکٹر قمر العارفین

بچپن میں مسٹر ورلڈ بننا چاہتا تھا، میرؔ کے فقط ایک شعر میں سمٹی ہوئی تحقیق بہت متاثر کرتی ہے۔

یہاں عالمی سطح کا ڈوپ ٹیسٹ ممکن بنانا چاہتا ہوں،  پُرعزم محقق ڈاکٹر  قمر العارفین سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

کبھی آپ نے سوچا کہ ایک دوا بعض اوقات فوراً اپنا اثر دکھاتی ہے اور کبھی بالکل وہی دوا اُس طرح اثر نہیں کر پاتی یا سرے سے بالکل بے فائدہ محسوس ہوتی ہے، اور ہم سوچتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟

اس امر میں جہاں اور بہت سے طبی عوامل کار فرما ہوتے ہیں، وہیں اس کا ایک اہم سبب اس دوا پر ہمارے ماحول کے مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔

'یک ساں اجزا اور اُسی طریقے سے تیار کی گئی کوئی بھی دوا اگر زائد درجہ حرارت یا دھوپ میں رہے، تو نہ صرف اس کی افادیت متاثر ہوتی ہے، بلکہ بعض صورتوں میں یہ ہمارے لیے مضر صحت بھی ہو جاتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے آگاہی اور اس کی جانچ کی سہولیات میسر نہیں اور ہمارے دوا ساز ادارے بھی اس جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے۔۔۔ ہمارے بازاروں سے لے کر گلی محلے میں موجود بیش تر دکانوں میں یہ ساری دوائیں گرمی اور دھوپ میں پڑی رہتی ہیں، یا پھر ان کی ترسیل اور فراہمی کے مراحل کے دوران 'درجۂ حرارت' کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ اس کے بعد ہمارے گھروں میں بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے، اگر گھر تک پہنچنے تک دوا ماحول کے برے اثرات سے بچی رہی ہو تو گھر پہنچ کر بھی اسے استعمال کرنے تک اس کی دیکھ ریکھ ضروری ہوتی ہے، تاکہ اس کی افادیت متاثر نہ ہو۔

یہ اہم ترین گفتگو ڈاکٹر قمر العارفین کی ہے، جو اس حوالے سے ایک اہم تحقیق کے محقق ہیں، جس پر انہیں 'ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری' (Hussain Ebrahim Jamal Research Institute of Chemistry) سے 'ڈاکٹریٹ' کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔ بہت سی سائنسی تحقیق ہمارے عوام کی ذہنی سطح سے بلند ہوتی ہے، اسی سبب ان کی دل چسپی فقط سائنس یا طب کے انہی موضوعات سے ہوتی ہے، جس سے وہ براہ راست متاثر ہوں یا انہیں حیرت میں پڑنا پڑے، ڈاکٹر قمر العارفین کے میدان تحقیق میں ہم نے یہ دونوں عناصر موجود پائے۔۔۔ لہٰذا ہم نے ان سے تفصیلی بات چیت کا اہتمام کیا، تاکہ ہم ان کی شخصیت اور ان کی اس اہم تحقیق کے حوالے سے بھی اپنے قارئین کو آگاہ کر سکیں۔

ڈاکٹر قمر العارفین کے خاندانی پس منظر میں زیادہ تر لوگ کاروباری رجحان کے ہیں، اس لیے ہم نے ان سے پوچھا کہ آخر یہ سائنسی اور 'غیر کاروباری' سمت کی طرف رغبت اور اتنے آگے تک سفر کی تحریک کیوں کر ہوئی؟ تو وہ بولے کہ انہوں نے تو نویں جماعت میں ہی اپنی ایک نصابی کتاب پر اپنے نام کے ساتھ 'پی ایچ ڈی کیمسٹری' لکھ دیا تھا۔۔۔! ہم نے پوچھا کیا۔

اُس وقت 'پی ایچ ڈی' کے حوالے سے تصور واضح تھا کہ یہ ہوتا کیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ اُن دنوں ڈاکٹر عطا الرحمن وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی بنے تھے اور ان کی نیک نامی کا بہت شہرہ تھا اور اس سے قبل ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا بھی کافی چرچا رہا، تو یوں وہ یہ جان چکے تھے کہ طبیب کے علاوہ بھی ایک اور مرتبہ 'ڈاکٹر' کہلاتا ہے، جو کہ دراصل 'پی ایچ ڈی' ہوتا ہے۔ ہم نے 'پی ایچ ڈی' کے ساتھ 'کیمسٹری' لکھنے کی وجہ کھوجی تو بولے کہ تب یہ ایک سمجھ میں نہ آنے والا مضمون تھا، جسے پڑھ کر جی متلاتا اور سر چکراتا تھا، لیکن وہ اِسے کسی 'مہم جوئی' کی طرح لیتے، اس لیے اپنے نام کے ساتھ یہ لکھا۔

قمر العارفین نے اسکول کے زمانے میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کی، چھٹی اور آٹھویں کلاس میں تو وہ اسکول بھر میں اول آئے۔ پورے تعلیمی سفر میں ہمیشہ ان کے سینے پر 'مانیٹر' یا 'پرفکیٹ' کا بیج رہا یا پھر کاندھوں پر سی آر (Class Representative) کا بار۔۔۔ کہتے ہیں کہ نمایاں کارکردگی کے سبب والدین نے یہ طے کر لیا تھا کہ مجھے ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے۔ انٹر کے بعد 'ایم بی بی ایس' میں داخلے کے لیے نمبر کم تھے اور سیلف فنانس کی استطاعت نہ تھی، چناں چہ 'ڈاکٹر' بننے کے لیے 'پی ایچ ڈی' کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

ڈاکٹر قمر العارفین نے 18 دسمبر 1985ء کو کراچی کے ایک متوسط علاقے میں آنکھ کھولی، چار بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے، بہن کوئی نہیں۔ وہ نجم دہلی بوائز پرائمری اسکول اور اسمعیل اللہ والا بوائز سیکینڈری اسکول (دہلی کالونی) کے طالب علم رہے، جہاں سے 2002ء میں میٹرک کیا۔ 2004ء میں 'ایس ایم سائنس کالج' سے پری میڈیکل میں انٹر اور 2007ء میں 'ڈی جے کالج' سے گریجویشن کے مراحل طے ہوئے۔

2009ء میں 'شعبہ کیمسٹری' جامعہ کراچی سے 'ایم ایس سی' کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انٹر میں ڈاکٹر دلدار احمد قادری کی شخصیت نے انہیں بہت زیادہ متاثر کیا۔ پھر ماسٹرزکے دوران جب جامعہ کراچی میں قائم 'ایچ ای جے' کے کتب خانے آنا جانا ہوا، تو وہاں سیمینارز اور ورکشاپس میں ملک کے معروف سائنس دان ڈاکٹر عطاالرحمن سے ملاقات ہوئی اور وہ اُن کے سِحر میں جکڑے گئے۔ اور یوں انہیں 'پی ایچ ڈی' کرنے کے لیے خوب ہمت ملی اور نویں کلاس میں اپنے نام کے شغل کے طور پر لکھا گیا 'پی ایچ ڈی کیمسٹری' سچ ثابت ہونے لگا۔۔۔!

وہ بتاتے ہیں کہ 2010ء میں 'ایچ ای جے' میں 'ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی' میں انرول ہوئے اور ڈاکٹر سید غلام مشرف کی نگرانی میں اپنا کام شروع کیا۔ اپنی تحقیق میں ذاتی دل چسپی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ملک میں ادویات کی جانچ نہ ہو سکنے کے سبب ہمارے بہت سے کھلاڑی ممنوعہ ادویات استعمال کر لیتے ہیں، باہر اُن کا ٹیسٹ ہوتا ہے، تو پھر ان کے کھیلنے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اس لیے ہم نے یہاں ایک ایسا ڈوپ ٹیسٹ کام یابی سے متعارف کرایا ہے، جس سے آپ ملک کے اندر ہی بہ آسانی اس کی جانچ کر سکتے ہیں، اس پر ہمارے تجربات کام یاب ہو چکے ہیں اور مزید کام جاری ہے۔

ڈاکٹر قمر العارفین کی خواہش ہے کہ ہمارے ملک میں عالمی سطح کا ڈوپ ٹیسٹ ممکن ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ (World Anti-Doping Agency) WADA جا کر ڈوپ ٹیسٹ کے حوالے سے جدید طریقوں سے استفادہ کریں۔

ڈاکٹر قمر العارفین کے والد نجم العارفین 'پی ٹی سی ایل' میں ڈویژنل انجینئر رہے، اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اُن کے بڑے بھائی شمس العارفین سرجیکل فرم میں مینجر ہیں، چھوٹے بھائی بدرالعارفین ریلوے میںسول انجینئر ہیں، سب سے چھوٹے بھائی نور العارفین ایک نجی کمپنی میں مینجر ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے ڈاکٹریٹ کے بعد دونوں چھوٹے بھائی بھی ڈاکٹریٹ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ وہ 2013ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔


مستقل روزگار کے بغیر شادی ہونے کا سہرا وہ اپنے مرحوم سسر اشفاق الٰہی کے سر باندھتے ہیں کہ جنہوں نے برادری کے اصول توڑتے ہوئے اپنی بیٹی ایسے لڑکے کو دینے کی ہمت کی، جس کا کوئی بہت مضبوط یا مستقل روزگار نہیں تھا۔ ڈاکٹر قمر باڈی بلڈنگ کے بہت شوقین ہیں، بچپن میں اُن کا خواب 'مسٹر ورلڈ' بننا تھا، کہتے ہیں کہ اب بھی اگر وقت ملے تو وہ پھر کسرت کرنا چاہیں گے، جو کالج کے بعد سے چھُٹی ہوئی ہے۔

'پی ایچ ڈی' کے دوران جزوقتی ملازمت بہتر رہتی ہے!

ڈاکٹر قمر العارفین نے آٹھ سال کی عرق ریزی کے بعد اپریل 2018ء میں اپنا ڈاکٹریٹ مکمل کیا، کہتے ہیں کہ 'پی ایچ ڈی' میں ہم صبر اور اعتماد کرنا سیکھتے ہیں۔ یہ مشقت اور وقت لینے والا کام ہے، ہم روز ایک اینٹ اٹھا کر رکھتے ہیں، جو اگلے دن کبھی اپنی جگہ سے غائب ہوتی ہے اور کبھی ٹوٹی ہوئی ملتی ہے۔ یہ کام چیونٹی کی رفتار سے ہوتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ کوئی نتیجہ حاصل کرنے کے لیے 99 دفعہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے، لیکن ہمیں مایوس ہوئے بغیر مستقل مزاجی سے کام کرنا ہوتا ہے۔

ہم نے اُن کی 'پی ایچ ڈی' کے دوران پیش آنے والی دشواریوں کا استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ 'ایچ ای جے' میں بڑی سہولیات میسر ہیں، پہلے ہمیں بہت سے کیمیکل منگانے میں ڈیڑھ سال تک لگ جاتا تھا، اب یہ تین ماہ میں دست یاب جاتا ہے۔ ہماری تحقیق کے دوران ضروری ان اجزا کی یہاں محدود کھپت کے باعث اسے براہ راست درآمد کرانا پڑتا ہے۔ دوسری مشکل آمدورفت تھی، اُن کی رہائش سے جامعہ کراچی کی مسافت 17 کلو میٹر تھی۔ وہ رات 12 بجے تک لیبارٹری میں مصروف ہوتے، پھر اگلی صبح پھر روانہ ہو جاتے، جس پر اُن کی امی شکایت کرتیں کہ وہ صرف گھر سونے کے لیے آتے ہیں۔ 2011-12ء میں شہر کے خوں آشام ایام میں انہیں کئی مرتبہ ہاسٹل میں بھی رکنا پڑتا، ایک مرتبہ وہ مسلسل ایک ماہ تک گھر نہ جا سکے۔

ڈاکٹر قمر العارفین سے پہلی ملازمت کا سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے چھٹیوں میں کراچی کے 'تھوک بازار' میں اپنے ماموں کی دکان پر جاتے، جہاں کے غیر موافق ماحول نے اُن کے ذہن میں تعلیم کی اہمیت اور راسخ کر دی۔ پھر زیادہ تر ٹیوشن کے ذریعے ہی اپنے تعلیمی اخراجات پورے کیے۔ وہ ڈاکٹریٹ کے دوران کُل وقتی کے بہ جائے جز وقتی کام جیسے ٹیوشن وغیرہ پڑھا کر خرچے نکالنا بہتر سمجھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ تحقیق 24 گھنٹے کی نوکری ہے اور مستقل ملازمت سے ہمارا کام متاثر ہوتا ہے۔ یہ محقق کے لیے کافی کٹھن وقت ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد بہت آسانیاں ہیں۔

نانا کا ذخیرہ کتب محفوظ نہ رہنے پر افسوس ہے

بچپن کے حوالے سے ڈاکٹر قمر العارفین کہتے ہیں کہ وہ 10 برس کی عمر تک اپنی نانی کے ہاں رہے، جہاں نانا کے پاس 150سال پرانی کتب بھی تھیں، وہاں انسائیکلو پیڈیا اور برنارڈ شا کو چھے سا ت سال کی عمر میں پڑھا۔ یہ ذخیرہ نانا کی علالت کے بعد محفوظ نہ رہ سکا، جس کا انہیں بہت افسوس ہے۔ اُن کے گھر میں زیادہ تر کیمسٹری کی کتب ہیں۔ بچپن میں کورس کے علاوہ محلے کی 'چاند لائبریری' سے انسپکٹر جمشید سیریز، عمران سیریز، ابن صفی اور مظہر کلیم وغیرہ کو خوب پڑھا، اس کے بعد 'سب رنگ' اور 'جاسوسی ڈائجسٹ' سے شوق رہا، پھر اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا مطالعہ رہا۔ سعادت حسن منٹو کو پڑھا تو اندازہ ہوا کہ بہت سے علمی تصورات کو سمجھنے کے لیے کافی پختگی چاہیے، جون ایلیا کے انشائیے بھی بہت شوق سے پڑھے۔ منٹو کے علاوہ وہ حبیب جالب کی شاعری اور ان کی مزاحمت کے دل دادہ ہیں، جنہوں نے ہر زمانے میں حق کو بلند کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں۔

ہم نے سائنس کے آدمی میں مطالعے کا ذکر دیکھا تو پوچھا کہ دوران تحقیق کبھی کسی فقرے، جملے یا مصرع سے مدد ملی، کسی تحقیقی نتیجے پر دوران مطالعہ کچھ پڑھا ہوا یاد آیا یا کبھی کوئی تحقیقی مفروضہ قائم کرتے ہوئے کسی شعر کو ذہن میں رکھا؟ تو وہ بولے کہ ایسا تو نہیں ہوا، البتہ میر تقی میرؔ کے شعر ''مگس کو باغ میں نہ جانے دیجو کہ خون ناحق پروانے کا ہوگا'' میں سمٹی ہوئی پوری تحقیق بہت متاثر کرتی ہے۔

''بیگم کو شکایت ہے کہ گھر میں بھی ہروقت پڑھتا رہتا ہوں''

ڈاکٹر قمر نے 2011ء میں 'جی آر ای' انٹرنیشنل (گریجویٹ ریکارڈ ایگزیمنشین) میں 84 فی صد نمبر حاصل کیے، 2013ء میں 'ایچ ای جے' نے انہیں بطور 'جی آر ای' انسٹرکٹر شمولیت کی پیش کش کی، جسے انہوں نے قبول کر لیا، اب وہ یہاں 'جی آر ای' کرنے والے طالب علموں کی معاونت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ 'این ای ڈی یونیورسٹی' میں 2012-13ء میں وزیٹنگ فیکلٹی میں رہے۔ 2014ء میں کمیشن کا امتحان پاس کیا اور 'پی ای سی ایچ ایس' ایجوکیشن فائونڈیشن کالج میں تدریس پر مامور ہوگئے، اب کالج سے فارغ ہو ہفتے میں تین دن 'ایچ ای جے' میں تحقیقی سرگرمیاں رہتی ہیں، جب کہ باقی تین دن کالج میں تدریس کے بعد کا وقت کوچنگ کی نذر ہوتا ہے۔

گھر میں بھی بیش تر وقت اپنے لیکچر کی تیاری میں ہی صرف ہو جاتا ہے، جس پر بیگم کو شکایت ہوتی کہ وہ گھر میں بھی پڑھتے رہتے ہیں۔ اب تک اُن کی 10 بین الاقوامی تحقیقی مطبوعات ہیں، جس کا 'ایمپیکٹ فیکٹر' 20 ہے، ان کے اساتذہ کے مطابق یہ کسی اسسٹنٹ پروفیسر سے بہتر ہے۔ اُن کے ٹیچر کا 'ایمپیکٹ فیکٹر' 100، جب کہ ڈاکٹر عطا الرحمن کا 800 ہے۔

قمر العارفین کراچی کے علاوہ اسلام آباد اور فیصل آباد وغیرہ کے سیمینار میں اپنی تحقیق پر بات کر چکے ہیں۔ وہ 2012ء تا 2016ء ماس یوزر لیٹرز کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے، اس کے ساتھ کیمیکل سوسائٹی آف پاکستان، یونی کیئرین کے تاحیات رکن ہیں اور انٹرنیشنل یونین آف اپلائیڈ اینڈ پیور کیمسٹری (IUPAC) اور 'کیمسٹری المنائی ویلفیئر ایسوسی ایشن' کی رکنیت کے بھی حامل ہیں۔
Load Next Story