واحد خوش قسمت جمہوری حکومت

لوگ سمجھ رہے تھے کہ کچھ دنوں میں انداز فکر تبدیل ہو جائے گا لیکن نہیں۔

mnoorani08@gmail.com

تحریک انصاف کی حکومت کو بنے تین ماہ ہو چکے ہیں لیکن اُس کی پالیسیوں اور نہ فیصلوں سے اب تک کوئی واضح صورتحال سامنے آئی ہے۔ تمام پالیسیاں مبہم اور غیر واضح ہیں۔ وہ ایک بے سمت قافلے کی طرح بڑھتے جا رہے ہیں۔ نہ ملکی مسائل کا ادراک ہے اور نہ نمٹنے کی صلاحیت۔ ایک غیر ذمے دارانہ طرز عمل ہے۔

لوگ سمجھ رہے تھے کہ کچھ دنوں میں انداز فکر تبدیل ہو جائے گا لیکن نہیں۔ وزیر اعظم غیر ملکی دورے پر بھی جاتے ہیں تو چاہے وہ گارڈآف آنر کا معائنہ کر رہے ہوں یا حکمرانوں سے میٹنگز غیر ذمے دارانہ طریقہ کارکا مظاہرہ کرتے ہیں، دوسرے ملکوں کی بے شمار خوبیاں بیان کرکے اور اپنے ہی ملک کے سو سو برائیاں گنوا کے نجانے وہ اُن سے کس طرح کی ہمدردیاں سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔

سوائے سعودی عرب کے ابھی تک کسی اور ملک نے انھیں کچھ بھی عطا نہیں کیا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ سمجھوتے اورمعاہدے تشہیر نہیں کیے جا سکتے امداد اور بھیک مل جانے کا زوروشورکے ساتھ پرچار کرنا یا پھر اُسے خفیہ اور پوشیدہ رکھنا۔کرپشن اور بد عنوانیوں کی اپنے منہ پر لگی کالک دوسروں کو دکھا دکھاکریہ بات تو طے ہو چکی ہے کہ اِس طرح کوئی بھی ہم پر رحم کھانے کو تیار نہیں بلکہ اِس طرح توہم خود اپنی رسوائی اور جگ ہنسائی کا سامان پیدا کر رہے ہوتے ہیں، وزیراعظم جہاں جہاں گئے سبھی ملکوں میں کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے قصے بہت عام ہیں۔

دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں کرپشن نہیں ہوتی۔ لہذا اپنے منہ پر لگی کالک کو صاف کرنے کی بجائے اُسے بھیک اور امداد حاصل کرنے کا ذریعہ بنا لینا کسی طور باوقار اور غیرت مند قوم کے شایان شان نہیں ہے۔ خان صاحب کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں کوئی بھی ہم پر بلاوجہ رحم کھانے کو تیار نہیں ہے۔ہمارے اپنے لوگ ہی جب ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں تو پھر غیر ملکی کیونکر رحم کھائے۔

دیامربھاشا ڈیم کے لیے خان صاحب نے اپنے تارکین وطن لوگوں سے ریڈیو اور ٹی وی پر آکرامداد کی اپیل کی تھی اور اِس مقصد کے لیے ایک فنڈ بھی قائم کیا تھا، مگر اُس کا کیا نتیجہ نکلا وہ قوم کو بتانے سے گریزاں ہیں، اگر پردیس میں بیٹھے لوگوں نے اُن کی بات پر دلوں جان سے اعتبار کیا ہوتا تو آج ہمارے چیف جسٹس کو فنڈ ریزنگ کے لیے بنفس نفیس خود غیر ملکی دوروں پر جانا نہیں پڑتا۔

ملکی مالی حالات کس نہج پر ہیں ہمارے حکمرانوں کو شاید اُس کا صحیح ادراک ہی نہیںہے ۔ چائنہ کے دورے کے بعد قوم کو یہ نوید سنائی گئی کہ قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے حوالے سے اُمنڈ آنے والا بحران فوری طور پر ٹل گیا ہے۔ حالانکہ حقائق بتا رہے ہیں کہ ابھی تک ملکی خزانے میں صرف سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر ہی آئے ہیں، جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر دن بدن نہ صرف کم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ خطرنا ک حدوں کو چھونے لگے ہیں۔


فوری طور پر اگر اِس کا حل نہ ڈھونڈا گیا تو خدشہ ہے کہ پھر ہمیں آئی ایم ایف کے سخت ترین شرائط ہی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے تمام قومی منصوبوں پر سمجھوتہ یعنی یوٹرن لینا ہی پڑے گا ۔ اِن تمام منصوبوں میں سب سے اہم اقتصادی کو ریڈورکا وہ شہرت یافتہ منصوبہ ہے جوعالمی طاقتوں کی نظروں میں ابتدا ہی سے کھٹک رہا ہے اور جسے وہ سبوتاژ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت سے کوئی بعید نہیں کہ وہ اِس معاملے میں بھی یوٹرن لے کر اِسے حالات و واقعات کے پیش نظر علم وفہم اوردانشمندی کا بصیرت آموز فیصلہ قرار دے کر رول بیک کر ڈالے۔

پی ٹی آئی حکومت کو شومئی قسمت سے در پردہ ہمارے کئی اداروں کی بھرپور سپورٹ اور مدد حاصل ہے۔ اِس کے باوجود وہ عملی طور پر کارکردگی کے جوہر نہیں دکھا رہی جو اُسے دکھانا چاہیے تھا ۔ قانون سازی کے حوالے سے ابھی تک کوئی قانون پارلیمنٹ کے فورم پر لایا ہی نہیں گیا۔

حکومت خود اِس اہم کام میں سستی اورکاہلی کا مظاہر ہ کر رہی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو یقینا غلط اور بے جا نہیں ہوگا کہ حکومت کام کو سنجیدہ لے ہی نہیں رہی۔ وہ تو صرف اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائیوں میں الجھی ہوئی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو اُسی اسٹائل اور انداز میں چلانا چاہتی ہے جس انداز سے وہ 126دنوں تک اسلام آباد میں ڈی چوک پر کھڑی تھی۔

ایک دوسرے کو چو ر اور ڈاکو کہہ کر اور بے بنیاد الزام تراشی اوردشنام طرازی کے ذریعے پارلیمنٹ کا وقت نہ صرف ضایع کیا جا رہا ہے بلکہ اُسے قوم کی نظروں میں غیر معتبر اور بد نام بھی کیا جا رہا ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ اِس طرح جارحانہ انداز اختیارکرکے وہ شاید اپوزیشن کو زیرکرنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔ اپوزیشن تو خود نیب کے زیر عتاب ہے ۔اُسے اتنی مہلت ہی کہاں کہ وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکے، جو رکن پارلیمنٹ اِس خیال سے آگے بڑھنے لگتا ہے نیب فوراً اُسے گرفتارکرلیتی ہے یا پھرکسی مشکوک معاملے میں طلب کرلیتی ہے۔

جتنی آسانیاں اور سہولیتں پی ٹی آئی حکومت کو مل رہی ہیں بقول زرداری صاحب کے یہ اگر انھیں ملتیں تو وہ پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچادیتے۔قطع نظر اِس کے کہ زرداری صاحب کیا کہہ رہے ہیں لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو تمام اداروں کی در پردہ حمایت اور مد د حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹی ایل پی کے خادم ضوی بھی گرفتار ہوگئے اورکوئی ہنگامہ بھی برپا نہیں ہوا۔

قوم حیرت زدہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوگیا ۔ایک وہ زمانہ تھا جب اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگ 22 دنوں تک فیض آباد کے دھرنے کی وجہ سے یرغمال بنے ہوئے تھے۔ شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے جب قانون پر عمل درآمد کرنے والوں سے مدد کی درخواست کی توکہاگیا کہ یہ تو ہمارے اپنے لوگ ہیں ہم اِن کے خلاف کیسے کوئی کارروائی کرسکتے ہیں۔ پھر فریقین کے مابین ایک معاہدہ کیا جاتا ہے جس کی ساری کی ساری شقیں صرف ایک فریق کے حق میں تحریرکی جاتی ہیںاور ایک وفاقی وزیرکو استعفیٰ دینے پر مجبور بھی کیاجاتا ہے۔

ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو نہ صرف با عزت بری کردیا جاتا ہے بلکہ اُن کے خلاف تمام مقدمات بھی واپس لے لیے جاتے ہیں، جب کہ آج اُسی فریق کو ایک نئے احتجاج کی کال کے الزام میں پس زنداں بھی کردیا گیا ہے اور اُس کے حمایتی کارکن سخت عذاب اور مشکلات سے دوچار بھی کردیے گئے ہیں۔اداروں کی اتنی مہربانیوں اور کرم نوازیوں کے باوجود خان صاحب کی حکومت اگرکوئی کارکردگی دکھاپائے تو قصور خانصاحب کی اہلیت اور صلاحیتوں کا ہی کہلائے گا نہ کہ اپوزیشن کا جس نے انھیںکارکردگی دکھانے سے نہیں روکا ۔
Load Next Story