سیاستدان عورتوں سے ناروا سلوک
ایشیا، افریقا، یورپ، لاطینی امریکا غرض کون سا خطہ ہے جہاں عورتوں کو سیاست میں مردانہ سیاست کا نشانہ نہ بنایا جارہا ہو۔
دنیا بھر میں سیاست کے میدان میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی شمولیت کی وجہ سے2018ء کو عورتوں کا سال قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاست کے سنگلاخ میدان میں عورتیں کسی چٹان کی مانند ڈٹتی جارہی ہیں ۔ یہ عورتیں سیاست کی بے رنگ دنیا میں اپنے وجود سے رنگ بھرنے نہیں بلکہ تبدیلی کے خواب کی سنہری تعبیر پانے کے لیے میدان میں اتری ہیں۔
دنیا بھر میں اتنی بڑی تعداد میں عورتوں کا سیاسی میدان میں مردوں کو پچھاڑنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ماں جیسی دھرتی کو اگر نفرت کے شعلوں سے بچانا ہے تو اقتدارواختیار اب ان نرم دلوں اورگداز ہاتھوں میں منتقل کرنا نہایت ضروری ہے۔ انتقامی اور جنگی عالمی سیاست کی لہروں میں انسانیت کی ڈوبتی نائوکے چپو سنبھالنے کے لیے عورتیں دنیا کے ہر خطے میں مستعد ہو چکی ہیں ۔
اس وقت برطانیہ، نیوزی لینڈ، ماریشئس، آسٹریلیا، نیپال، کروشیا، مالٹا، چلی، اسٹونیا، لیتھونیا، جرمنی،آئس لینڈ، ناروے، بنگلہ دیش، میانمار، پیرو، سربیا اور نیمیبیا میں عورتیں بطور سربراہِ مملکت کام کررہی ہیں، جو بین الاقوامی سربراہان کا 6.3 فی صد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمینٹ کی سیٹیں بھی ایک بڑی تعداد میں خواتین کے پاس ہیں ۔
عورت ہر میدان کی طرح سیاست کے میدان میں بھی مرد کے تعمیرکردہ مدفن کو توڑکر مد مقابل آ توگئی لیکن صد افسوس نصف سے بھی زیادہ سیاستدان خواتین مردوں کے نازیبا رویوں، جنسی ہراسانی اور دھمکیوں کی زد میں رہتی ہیں، یہاں تک کہ کئی ممالک میں تو دھمکیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے قتل بھی کر دی گئیں۔ گلوبل سروے کے مطابق دنیا بھر میں کل سیاستدان عورتوں میں سے چوالیس فی صد بدسلوکی اور زیادتیوں کا شکار ہیں۔
اس رپورٹ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہر دور میں عورت کا خود کو منوانا ایک خطا سے زیادہ کچھ نہیں، وہ کتنی بھی ڈگریاں کیوں نہ حاصل کر لے، معاشرے کا کوئی بھی اونچا منصب کیوں نہ سنبھال لے، اس کے حصے کا جہنم کبھی ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ رواں سال مارچ کے مہینے میں لندن کانفرنس میں بیس سے زائد ممالک کی خواتین سیاستدان جمع ہوئیں اور اپنے اپنے ملکوں میں سیاستدان عورتوں کے ساتھ ہونے والے بدسلوکی کے واقعات منظرِعام پر لائیں۔ ایشیا، افریقا، یورپ، لاطینی امریکا غرض کون سا خطہ ہے جہاں عورتوں کو سیاست میں مردانہ سیاست کا نشانہ نہ بنایا جا رہا ہو۔
سیاست کی یہ بھیانک قیمت ہر جگہ عورت چکا رہی ہے۔ نہ صرف پارلیمان میں بلکہ خاندان، گلیوں، سڑکوں اور سوشل میڈیا پر بھی یہ متضاد رویوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ روانڈا جیسے غریب اور ناخواندہ ملک میں اس وقت سب سے زیادہ عورتیں بطور پارلیمنٹ ممبر کام کر رہی ہیں۔ دنیا کی 38 ریاستوں کی پارلیمان میں عورتوں کی نمایندگی دس فی صد ہے، لیکن سیاست کا یہ سفر ان کے لیے نہایت پُرخار ہے، جس پر اکثریت خاموش ہے۔
میکسیکو کی چونتیس سالہ سیاستدان اور عورتوں کے حقوق کی نمایندہ ایلیسا کی داستان بے حد تکلیف دہ ہے۔ انجنیئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دیہی علاقوں میں انسانی حقوق کی آگاہی کے لیے کام کر نے لگی۔ تین سال قبل میونسپلٹی کی طرف سے حکم آیا کہ عورتیں عوامی معاملات میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ اس حکم کے خلاف اس نے اسمبلی میں آواز بلند کی، جس کی پاداش میں اس کا گھر،گاڑی اور دیگر املاک جلا دی گئیں، اس کے بھائی اور منگیترکو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنا کر جان سے مار دیا گیا، ایلسی کے والدین کو زدوکوب کیا گیا اور خود اس کو سڑکوں پرگھسیٹا ، مارا پیٹا گیا اور اس کے بال کاٹ دیے گئے۔
تشدد کرنے والوں نے اس سے کہا کہ یہ ان معاملات میں بولنے کی سزا ہے جن سے تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ ایلسی کی درخواست پر میکسیکو حکومت نے اسے تحفظ دیا اور تین سال اس نے ایک وائر لیس سیٹ کے ساتھ باڑ والے گھر میں قیدیوں کی طرح گزارے لیکن سیاسی سرگرمیاں وہاں سے بھی جاری رکھیں۔ گزشتہ سال نئی میونسپلٹی کے لیے دو خواتین امیدواروں نے فتح حاصل کی جن میں ایک ایلسی تھی اور رواں سال وہ کانگریس کے لیے منتخب کر لی گئی۔ بے دریغ قربانیوں کے بعد اس نے اپنے مقصد میں فتح حاصل کی اور اب وہ باقاعدہ سیاست کا حصہ ہے لیکن سوشل میڈیا پر بدستور دھمکیوں کی زد میں رہتی ہے۔
میکسیکو ہی نہیں بلکہ پورے لاطینی امریکا میں سیاستدان عورتوں کا برا حال ہے۔ مختلف سیاسی عہدوں پر اس وقت ستائیس فی صد عورتیں کام کر رہی ہیں، لیکن وہ ہر وقت جسمانی اور ذہنی تشدد کی لپیٹ میں رہتی ہیں۔ اسی سال مارچ میں برازیل کی سیاستدان ماریلی فرانکو کو قتل کر دیا گیا۔ وہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی تھی سو جس ظلم کے خلاف کمربستہ تھی اسی کی بھینٹ چڑھادی گئی، لیکن ماریلی کی موت نے عورتوں کو مزید دلیرکر دیا، اب برازیل میں پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ عورتیں سیاست کی بساط پر مہرے چلنے کو تیار کھڑی ہیں۔ یہی دردناک صورت حال ہنڈوراس اور لاطینی امریکا کے دیگر ممالک میں بھی ہے۔
افریقا میں بھی سیاستدان عورتوں کو بے شمار چیلینجزکا سامنا ہے۔ مستقل امن اس خطے کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مضبوط مردانہ سیاسی نظام میں عورتیں بہ مشکل پھنس کر اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ لاکھ مشکلوں اور دھمکیوں کے بعد بھی ڈٹی ہوئی ہیں گویا اعلان کر رہی ہیں کہ گھرکی طرح ریاست چلانا بھی تم مردوں کے بس کی بات نہیں، کیونکہ اس کام میں جس تحمل، محبت اور شفقت کی ضرورت ہوتی ہے، مرد کے خمیر میں وہ مٹی نہیں ہوتی۔
عورت گھرکوگھر بناتی ہے لیکن افریقا میں سیاستدان عورتیں افریقی ملکوں میں گھر جیسا سکون لانے کی خواہش مند ہیں ۔1990ء سے اپنا آپ منوانے کے لیے یہ عورتیں سر دھڑکی بازی لگا رہی ہیں۔ اس وقت افریقا کی سیاست میں عورتوں کی نمایندگی کم وبیش یورپ کے برابر ہے، جو ایک بڑی فتح ہے، لیکن ان کا مسئلہ بھی جنسی ، جسمانی اور ذہنی تشدد ہے جس سے وہ آئے دن گزرتی ہیں۔ یہاں کی سیاستدان خواتین کے ساتھ مارپٹائی تو روزکا معمول ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھرکی سیاستدان عورتوں کی اَسّی فی صد تعداد تشدد کا شکار ہے۔ حال ہی میں مختلف یورپی ممالک کی 123سیاست داں خواتین کے اس ضمن میں تفصیلی انٹرویوز لیے گئے، جن میں سے 47 فی صد نے اعتراف کیا کہ وہ تشدد اور دھمکیوں کی لپیٹ میں رہتی ہیں۔ ان میں سے68 فی صد انتہائی نامناسب اور غلیظ جملوں اورکمنٹس سے نوازی جاتی ہیں، 25 فی صد باقاعدہ جنسی تشدد کا شکار بنائی گئی ہیں اور58 فی صد سیاست دان خواتین سوشل میڈیا پر نازیبا سلوک کا سامنا کر رہی ہیں۔
پاکستان کی ہی بات کی جائے تو یہاں بھی سیاستدان خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی کمی نہیں۔ فاطمہ جناح اور بینظیر بھٹوکی کردارکشی کی مہمات چلائی گئیں اور حزب اختلاف کی بعض خواتین کے ساتھ جیلوں میں انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔
بہت دکھ کی بات ہے کہ'' می ٹو'' کا شکار صرف عام عورتیں یا اداکارائیں ہی نہیں بلکہ سیاست کے میدان میں معرکے سر کرنے والی عورتیں بھی ہیں۔ یہ عورتیں جو دنیا میں طاقت کی علامت سمجھی جاتی ہیں، اپنے دفاع کے لیے کم زور پڑ چکی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ان سیاستدان عورتوں میں سے صرف23.5 ہیں جو اپنے ساتھ ہونے والے سفاکانہ سلوک پر اپنی زبان کھولتی ہیں، باقی سب خاموش ہیں ۔ نجانے کیوں؟
دنیا بھر میں اتنی بڑی تعداد میں عورتوں کا سیاسی میدان میں مردوں کو پچھاڑنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ماں جیسی دھرتی کو اگر نفرت کے شعلوں سے بچانا ہے تو اقتدارواختیار اب ان نرم دلوں اورگداز ہاتھوں میں منتقل کرنا نہایت ضروری ہے۔ انتقامی اور جنگی عالمی سیاست کی لہروں میں انسانیت کی ڈوبتی نائوکے چپو سنبھالنے کے لیے عورتیں دنیا کے ہر خطے میں مستعد ہو چکی ہیں ۔
اس وقت برطانیہ، نیوزی لینڈ، ماریشئس، آسٹریلیا، نیپال، کروشیا، مالٹا، چلی، اسٹونیا، لیتھونیا، جرمنی،آئس لینڈ، ناروے، بنگلہ دیش، میانمار، پیرو، سربیا اور نیمیبیا میں عورتیں بطور سربراہِ مملکت کام کررہی ہیں، جو بین الاقوامی سربراہان کا 6.3 فی صد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمینٹ کی سیٹیں بھی ایک بڑی تعداد میں خواتین کے پاس ہیں ۔
عورت ہر میدان کی طرح سیاست کے میدان میں بھی مرد کے تعمیرکردہ مدفن کو توڑکر مد مقابل آ توگئی لیکن صد افسوس نصف سے بھی زیادہ سیاستدان خواتین مردوں کے نازیبا رویوں، جنسی ہراسانی اور دھمکیوں کی زد میں رہتی ہیں، یہاں تک کہ کئی ممالک میں تو دھمکیوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے قتل بھی کر دی گئیں۔ گلوبل سروے کے مطابق دنیا بھر میں کل سیاستدان عورتوں میں سے چوالیس فی صد بدسلوکی اور زیادتیوں کا شکار ہیں۔
اس رپورٹ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہر دور میں عورت کا خود کو منوانا ایک خطا سے زیادہ کچھ نہیں، وہ کتنی بھی ڈگریاں کیوں نہ حاصل کر لے، معاشرے کا کوئی بھی اونچا منصب کیوں نہ سنبھال لے، اس کے حصے کا جہنم کبھی ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ رواں سال مارچ کے مہینے میں لندن کانفرنس میں بیس سے زائد ممالک کی خواتین سیاستدان جمع ہوئیں اور اپنے اپنے ملکوں میں سیاستدان عورتوں کے ساتھ ہونے والے بدسلوکی کے واقعات منظرِعام پر لائیں۔ ایشیا، افریقا، یورپ، لاطینی امریکا غرض کون سا خطہ ہے جہاں عورتوں کو سیاست میں مردانہ سیاست کا نشانہ نہ بنایا جا رہا ہو۔
سیاست کی یہ بھیانک قیمت ہر جگہ عورت چکا رہی ہے۔ نہ صرف پارلیمان میں بلکہ خاندان، گلیوں، سڑکوں اور سوشل میڈیا پر بھی یہ متضاد رویوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ روانڈا جیسے غریب اور ناخواندہ ملک میں اس وقت سب سے زیادہ عورتیں بطور پارلیمنٹ ممبر کام کر رہی ہیں۔ دنیا کی 38 ریاستوں کی پارلیمان میں عورتوں کی نمایندگی دس فی صد ہے، لیکن سیاست کا یہ سفر ان کے لیے نہایت پُرخار ہے، جس پر اکثریت خاموش ہے۔
میکسیکو کی چونتیس سالہ سیاستدان اور عورتوں کے حقوق کی نمایندہ ایلیسا کی داستان بے حد تکلیف دہ ہے۔ انجنیئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دیہی علاقوں میں انسانی حقوق کی آگاہی کے لیے کام کر نے لگی۔ تین سال قبل میونسپلٹی کی طرف سے حکم آیا کہ عورتیں عوامی معاملات میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ اس حکم کے خلاف اس نے اسمبلی میں آواز بلند کی، جس کی پاداش میں اس کا گھر،گاڑی اور دیگر املاک جلا دی گئیں، اس کے بھائی اور منگیترکو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنا کر جان سے مار دیا گیا، ایلسی کے والدین کو زدوکوب کیا گیا اور خود اس کو سڑکوں پرگھسیٹا ، مارا پیٹا گیا اور اس کے بال کاٹ دیے گئے۔
تشدد کرنے والوں نے اس سے کہا کہ یہ ان معاملات میں بولنے کی سزا ہے جن سے تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ ایلسی کی درخواست پر میکسیکو حکومت نے اسے تحفظ دیا اور تین سال اس نے ایک وائر لیس سیٹ کے ساتھ باڑ والے گھر میں قیدیوں کی طرح گزارے لیکن سیاسی سرگرمیاں وہاں سے بھی جاری رکھیں۔ گزشتہ سال نئی میونسپلٹی کے لیے دو خواتین امیدواروں نے فتح حاصل کی جن میں ایک ایلسی تھی اور رواں سال وہ کانگریس کے لیے منتخب کر لی گئی۔ بے دریغ قربانیوں کے بعد اس نے اپنے مقصد میں فتح حاصل کی اور اب وہ باقاعدہ سیاست کا حصہ ہے لیکن سوشل میڈیا پر بدستور دھمکیوں کی زد میں رہتی ہے۔
میکسیکو ہی نہیں بلکہ پورے لاطینی امریکا میں سیاستدان عورتوں کا برا حال ہے۔ مختلف سیاسی عہدوں پر اس وقت ستائیس فی صد عورتیں کام کر رہی ہیں، لیکن وہ ہر وقت جسمانی اور ذہنی تشدد کی لپیٹ میں رہتی ہیں۔ اسی سال مارچ میں برازیل کی سیاستدان ماریلی فرانکو کو قتل کر دیا گیا۔ وہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی تھی سو جس ظلم کے خلاف کمربستہ تھی اسی کی بھینٹ چڑھادی گئی، لیکن ماریلی کی موت نے عورتوں کو مزید دلیرکر دیا، اب برازیل میں پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ عورتیں سیاست کی بساط پر مہرے چلنے کو تیار کھڑی ہیں۔ یہی دردناک صورت حال ہنڈوراس اور لاطینی امریکا کے دیگر ممالک میں بھی ہے۔
افریقا میں بھی سیاستدان عورتوں کو بے شمار چیلینجزکا سامنا ہے۔ مستقل امن اس خطے کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مضبوط مردانہ سیاسی نظام میں عورتیں بہ مشکل پھنس کر اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ لاکھ مشکلوں اور دھمکیوں کے بعد بھی ڈٹی ہوئی ہیں گویا اعلان کر رہی ہیں کہ گھرکی طرح ریاست چلانا بھی تم مردوں کے بس کی بات نہیں، کیونکہ اس کام میں جس تحمل، محبت اور شفقت کی ضرورت ہوتی ہے، مرد کے خمیر میں وہ مٹی نہیں ہوتی۔
عورت گھرکوگھر بناتی ہے لیکن افریقا میں سیاستدان عورتیں افریقی ملکوں میں گھر جیسا سکون لانے کی خواہش مند ہیں ۔1990ء سے اپنا آپ منوانے کے لیے یہ عورتیں سر دھڑکی بازی لگا رہی ہیں۔ اس وقت افریقا کی سیاست میں عورتوں کی نمایندگی کم وبیش یورپ کے برابر ہے، جو ایک بڑی فتح ہے، لیکن ان کا مسئلہ بھی جنسی ، جسمانی اور ذہنی تشدد ہے جس سے وہ آئے دن گزرتی ہیں۔ یہاں کی سیاستدان خواتین کے ساتھ مارپٹائی تو روزکا معمول ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھرکی سیاستدان عورتوں کی اَسّی فی صد تعداد تشدد کا شکار ہے۔ حال ہی میں مختلف یورپی ممالک کی 123سیاست داں خواتین کے اس ضمن میں تفصیلی انٹرویوز لیے گئے، جن میں سے 47 فی صد نے اعتراف کیا کہ وہ تشدد اور دھمکیوں کی لپیٹ میں رہتی ہیں۔ ان میں سے68 فی صد انتہائی نامناسب اور غلیظ جملوں اورکمنٹس سے نوازی جاتی ہیں، 25 فی صد باقاعدہ جنسی تشدد کا شکار بنائی گئی ہیں اور58 فی صد سیاست دان خواتین سوشل میڈیا پر نازیبا سلوک کا سامنا کر رہی ہیں۔
پاکستان کی ہی بات کی جائے تو یہاں بھی سیاستدان خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی کمی نہیں۔ فاطمہ جناح اور بینظیر بھٹوکی کردارکشی کی مہمات چلائی گئیں اور حزب اختلاف کی بعض خواتین کے ساتھ جیلوں میں انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔
بہت دکھ کی بات ہے کہ'' می ٹو'' کا شکار صرف عام عورتیں یا اداکارائیں ہی نہیں بلکہ سیاست کے میدان میں معرکے سر کرنے والی عورتیں بھی ہیں۔ یہ عورتیں جو دنیا میں طاقت کی علامت سمجھی جاتی ہیں، اپنے دفاع کے لیے کم زور پڑ چکی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ان سیاستدان عورتوں میں سے صرف23.5 ہیں جو اپنے ساتھ ہونے والے سفاکانہ سلوک پر اپنی زبان کھولتی ہیں، باقی سب خاموش ہیں ۔ نجانے کیوں؟