فیصلہ سازی میں ’’یوٹرن‘‘
سیاست سمجھوتے کرنے ہی کا فن ہے، سیاست میں ہر کوئی اپنا موقف وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔
حال ہی میں ''یوٹرن'' سے متعلق بچکانہ انداز میں ایک ہنگامہ کھڑا کیاگیا۔ حکومت کو ''یوٹرنز'' کے لیے مورد الزام ٹھہرانا نہ صرف بدقسمتی ہے بلکہ یہ ایک بے معنی سا الزام ہے۔ اس اصطلاح کے درست معنی سمجھے بغیر حزب اختلاف نے عمران خان کو نشانے پر رکھا۔ اس مہم میں میڈیا میں شامل اپوزیشن کے حامی عناصر نے بھی ان کی خوب معاونت کی۔
اس وقت اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کے ہر اقدام اور ہر بات کی مخالفت اور بھد اڑنے پر تُلی ہوئی ہے۔ شومئی قسمت سے یہ محض مخالفت برائے مخالفت کا رویہ ہے۔ قومی مفاد اور جمہوریت کے صحت مندانہ مستقبل کے لیے معروضی انداز فکر کی ضرورت ہے، ہمیں حالات و واقعات کے مطابق فیصلہ سازی میں کی جانے والی تبدیلیوں کا ادراک کرتے ہوئے ''یوٹرن'' کو محض ایک منفی پہلو کے طور پر پیش کرنے سے صرف نظر کرتے ہوئے حکمت عملی اور پسپائی میں تفریق کرنی چاہیے۔
اگر فیصلہ سازی کے عمل میں بدلتے حالات کے مطابق لچک نہ دکھائی جائے تو کئی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ کسی بڑی تباہی سے بچنے کے لیے بدلتی صورت حال کے مطابق سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔ فیصلوں کو انا کا مسئلہ بنا کر ان پر ہٹ دھرمی نہیں دکھائی جاتی۔ نپولین اور ہٹلر کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان بھی یہی سمجھانا چاہتے تھے ، جب انھوں نے روس کے سرد ترین موسم کے پیش نظر اپنے جرنیلوں کی متفقہ آرا کے برخلاف فیصلے کیے۔
ملک کے موجودہ مسائل تحریک انصاف کے پیدا کردہ نہیں، بدقسمتی سے یہ مسائل ہمیں ہمارے سابقہ حکمرانوں کی برسوں تک جاری رہنے والی بددیانتی اور خراب حکومت کاری کے باعث ورثے میں ملے ہیں۔ جب تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو ملک اقتصادی تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا تھا اور تمام ہی اقتصادی اشاریے زوال پذیری کی نشان دہی کررہے تھے۔
نگراں حکومت سے کیوں تفصیلی رپورٹ نہیں مانگی جاتی کہ اس وقت ملک کی معیشت کن حالات سے دو چار تھی؟ نگراں وزیر خزانہ اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد اختر کے پاس بتانے کے لیے بہت سے دل چسپ حقائق ہوں گے۔ اگرچہ دہائیوں سے جمع ہونے والا ملبہ صاف کرنا اتنا آسان نہیں لیکن عمران عام آدمی کی زندگی میں بہتری اور خوش گوار تبدیلیوں کے لیے امید کا چراغ روشن کرنے میں کام یاب رہے ہیں۔
بیرونی ذرایع سے مالیاتی مدد نہ لینے کے اپنے سابقہ مؤقف سے عمران خان نے قومی مفاد میں یوٹرن لیا۔ انھوں نے اپنے اصولوں اور تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے گہرے دوستوں، چین اور سعودی عرب، سے معاشی بحران کے خاتمے کے لیے مدد طلب کی۔ آئی ایم ایف کی مشروط امداد پر انحصار کرنے کے بجائے ایسے متبادل تلاش کیے جو پاکستانی معاشی حالات کے لیے زیادہ ساز گار اورقومی مفاد میں تھے۔
یہ جلد بازی میں بغیر سوچے سمجھے لیا گیا کوئی ''یوٹرن'' نہیں تھا لیکن پی ٹی آئی کے مخالفین کو پراپیگنڈے کے لیے کچھ بھی ہاتھ آنا چاہیے۔ ان کوششوں کے بعد بہر صورت عمران کی ستائش کرنا ہی بنتی تھی کیوں کہ وہ دوست ہی کیا جن سے مشکل وقت میں مدد طلب نہ کی جاسکے؟ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن چاہتی کیا ہے؟ یہی کہ عوام مشکلات میں گھِرے رہیں، اور لیڈر صاحبان دبئی اور لندن کے فلیٹوں میں عیش کی زندگی گزاریں اور ہائیڈ پارک میں چہل قدمی فرمائیں؟
ایک لیڈر میں مقامی و عالمی سطح پر بدلتی صورت حال کے نتیجے میں سامنے آنے والے حقائق کے مطابق فیصلوں میں لچک پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ وہ ابہام اور بے یقینی کے مقابلے کے لیے تغیرات کو قبول کرکے نئی راہیں تلاش کرتا ہے تاکہ قوم کسی نئی مصیبت کا شکار نہ ہو۔ عمران خان نے ثابت کردیا کہ وہ آج کے حالات میں آیندہ کے امکانات دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کے مطابق ملک و قوم کی بہتری کے اقدامات کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔
سیاست سمجھوتے کرنے ہی کا فن ہے، سیاست میں ہر کوئی اپنا موقف وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔ قومی مفاد کے لیے بعض مرتبہ سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں جیسا کہ وزیر اعظم کررہے ہیں، انھوں نے خود کو بدلتے حالات کے مطابق لچک دکھانے والا ایک بابصیرت لیڈر ثابت کیا ہے۔ دنیا کا کون سا سیاست دان ہے جو اپنا ہر وعدہ پورا کرسکا؟
وزیر اعظم عمران خان کی بھد صرف اس لیے اُڑائی جاتی ہے کہ وہ عوامی مفاد میں فیصلوں کی تبدیلی کو یو ٹرن کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ عمران خان نے بجا طور پر کہا:''حقیقی لیڈر کو یوٹرن کے لیے تیار رہنا چاہیے۔'' وہ اسی سے مؤثر رہتا ہے۔ عمران خان حکومت کے خلاف اور حزب اختلاف کی جانب سے ہونے والے پراپیگنڈے کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔
بانیان پاکستان کے بعد شاید پہلی مرتبہ عمران خان میں لوگوں کو ایک ایسا لیڈر نظر آتا ہے جس پر وہ اعتبار کرتے ہیں ، اسے سچا اور دیانت دار جانتے ہیں ، جس کی ثابت قدمی اور دیانت کو کسی بھی مفاد اور حرص سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
عمران خان پر تنقید کرنے والوں کے پاس کوئی جواز نہیں، وہ لوٹ مار جاری رکھنے کے لیے دراصل احتساب کی گرفت سے نکلنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم مسلسل اپنی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں اور تجربات سے سیکھتے ہوئے حکمت عملی اور منصوبوں میں مناسب تبدیلیاں بھی کررہے ہیں۔ بالخصوص ماضی کی حکومتوں کی نااہلی کے باعث پیدا ہونے والے حالات میں متبادل حکمت عملی اپنانے اور منصوبوں کو حالات کے مطابق ڈھالنے میں کیا خرابی ہے؟ ناقدین پر اس سوال کا جواب قرض ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
اس وقت اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کے ہر اقدام اور ہر بات کی مخالفت اور بھد اڑنے پر تُلی ہوئی ہے۔ شومئی قسمت سے یہ محض مخالفت برائے مخالفت کا رویہ ہے۔ قومی مفاد اور جمہوریت کے صحت مندانہ مستقبل کے لیے معروضی انداز فکر کی ضرورت ہے، ہمیں حالات و واقعات کے مطابق فیصلہ سازی میں کی جانے والی تبدیلیوں کا ادراک کرتے ہوئے ''یوٹرن'' کو محض ایک منفی پہلو کے طور پر پیش کرنے سے صرف نظر کرتے ہوئے حکمت عملی اور پسپائی میں تفریق کرنی چاہیے۔
اگر فیصلہ سازی کے عمل میں بدلتے حالات کے مطابق لچک نہ دکھائی جائے تو کئی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ کسی بڑی تباہی سے بچنے کے لیے بدلتی صورت حال کے مطابق سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔ فیصلوں کو انا کا مسئلہ بنا کر ان پر ہٹ دھرمی نہیں دکھائی جاتی۔ نپولین اور ہٹلر کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان بھی یہی سمجھانا چاہتے تھے ، جب انھوں نے روس کے سرد ترین موسم کے پیش نظر اپنے جرنیلوں کی متفقہ آرا کے برخلاف فیصلے کیے۔
ملک کے موجودہ مسائل تحریک انصاف کے پیدا کردہ نہیں، بدقسمتی سے یہ مسائل ہمیں ہمارے سابقہ حکمرانوں کی برسوں تک جاری رہنے والی بددیانتی اور خراب حکومت کاری کے باعث ورثے میں ملے ہیں۔ جب تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو ملک اقتصادی تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا تھا اور تمام ہی اقتصادی اشاریے زوال پذیری کی نشان دہی کررہے تھے۔
نگراں حکومت سے کیوں تفصیلی رپورٹ نہیں مانگی جاتی کہ اس وقت ملک کی معیشت کن حالات سے دو چار تھی؟ نگراں وزیر خزانہ اور سابق گورنر اسٹیٹ بینک شمشاد اختر کے پاس بتانے کے لیے بہت سے دل چسپ حقائق ہوں گے۔ اگرچہ دہائیوں سے جمع ہونے والا ملبہ صاف کرنا اتنا آسان نہیں لیکن عمران عام آدمی کی زندگی میں بہتری اور خوش گوار تبدیلیوں کے لیے امید کا چراغ روشن کرنے میں کام یاب رہے ہیں۔
بیرونی ذرایع سے مالیاتی مدد نہ لینے کے اپنے سابقہ مؤقف سے عمران خان نے قومی مفاد میں یوٹرن لیا۔ انھوں نے اپنے اصولوں اور تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے گہرے دوستوں، چین اور سعودی عرب، سے معاشی بحران کے خاتمے کے لیے مدد طلب کی۔ آئی ایم ایف کی مشروط امداد پر انحصار کرنے کے بجائے ایسے متبادل تلاش کیے جو پاکستانی معاشی حالات کے لیے زیادہ ساز گار اورقومی مفاد میں تھے۔
یہ جلد بازی میں بغیر سوچے سمجھے لیا گیا کوئی ''یوٹرن'' نہیں تھا لیکن پی ٹی آئی کے مخالفین کو پراپیگنڈے کے لیے کچھ بھی ہاتھ آنا چاہیے۔ ان کوششوں کے بعد بہر صورت عمران کی ستائش کرنا ہی بنتی تھی کیوں کہ وہ دوست ہی کیا جن سے مشکل وقت میں مدد طلب نہ کی جاسکے؟ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن چاہتی کیا ہے؟ یہی کہ عوام مشکلات میں گھِرے رہیں، اور لیڈر صاحبان دبئی اور لندن کے فلیٹوں میں عیش کی زندگی گزاریں اور ہائیڈ پارک میں چہل قدمی فرمائیں؟
ایک لیڈر میں مقامی و عالمی سطح پر بدلتی صورت حال کے نتیجے میں سامنے آنے والے حقائق کے مطابق فیصلوں میں لچک پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ وہ ابہام اور بے یقینی کے مقابلے کے لیے تغیرات کو قبول کرکے نئی راہیں تلاش کرتا ہے تاکہ قوم کسی نئی مصیبت کا شکار نہ ہو۔ عمران خان نے ثابت کردیا کہ وہ آج کے حالات میں آیندہ کے امکانات دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کے مطابق ملک و قوم کی بہتری کے اقدامات کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔
سیاست سمجھوتے کرنے ہی کا فن ہے، سیاست میں ہر کوئی اپنا موقف وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔ قومی مفاد کے لیے بعض مرتبہ سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں جیسا کہ وزیر اعظم کررہے ہیں، انھوں نے خود کو بدلتے حالات کے مطابق لچک دکھانے والا ایک بابصیرت لیڈر ثابت کیا ہے۔ دنیا کا کون سا سیاست دان ہے جو اپنا ہر وعدہ پورا کرسکا؟
وزیر اعظم عمران خان کی بھد صرف اس لیے اُڑائی جاتی ہے کہ وہ عوامی مفاد میں فیصلوں کی تبدیلی کو یو ٹرن کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ عمران خان نے بجا طور پر کہا:''حقیقی لیڈر کو یوٹرن کے لیے تیار رہنا چاہیے۔'' وہ اسی سے مؤثر رہتا ہے۔ عمران خان حکومت کے خلاف اور حزب اختلاف کی جانب سے ہونے والے پراپیگنڈے کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔
بانیان پاکستان کے بعد شاید پہلی مرتبہ عمران خان میں لوگوں کو ایک ایسا لیڈر نظر آتا ہے جس پر وہ اعتبار کرتے ہیں ، اسے سچا اور دیانت دار جانتے ہیں ، جس کی ثابت قدمی اور دیانت کو کسی بھی مفاد اور حرص سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
عمران خان پر تنقید کرنے والوں کے پاس کوئی جواز نہیں، وہ لوٹ مار جاری رکھنے کے لیے دراصل احتساب کی گرفت سے نکلنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم مسلسل اپنی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں اور تجربات سے سیکھتے ہوئے حکمت عملی اور منصوبوں میں مناسب تبدیلیاں بھی کررہے ہیں۔ بالخصوص ماضی کی حکومتوں کی نااہلی کے باعث پیدا ہونے والے حالات میں متبادل حکمت عملی اپنانے اور منصوبوں کو حالات کے مطابق ڈھالنے میں کیا خرابی ہے؟ ناقدین پر اس سوال کا جواب قرض ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)