ہائی کورٹس کے نئے بینچوں کا مطالبہ
اگر نظام انصاف ٹھیک کام نہیں کر رہاتو کیا کسی اور کو اجازت ہے کہ وہ عدلیہ کو ٹھیک کرنے کا کام شروع کر دے۔
پاکستان کی عدلیہ بلا شبہ اس وقت بڑے بڑے کام کر رہی ہے۔ ڈیم بنا رہی ہے۔ کرپٹ سیاستدانوں کو نا اہل کر رہی ہے۔ کرپشن کے خلاف جنگ کر رہی ہے۔ آبادی پر کنٹرول کے لیے مہم چلانے جا رہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان تو ڈیموں کے لیے فنڈز بھی خود جمع کر رہے ہیں۔ اسپتالوں کے دورے کر رہی ہے۔ پرائیوٹ میڈیکل کالجز کا معیار چیک کر رہی ہے۔ ان کی فیسوں کو ٹھیک کر رہی ہے۔ نجی اسکولوں کی فیسوں کو ریگولیٹ کر رہی ہے۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن کی نگرانی کر رہی ہے۔ اسپتالوں میں داخل ملزمان کے کمرے چیک کر رہی ہے۔ ملک میں اس وقت جوڈیشل ایکٹوازم بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ پاکستان میں ایک متحرک عدلیہ نظر آرہی ہے جس کی ہر چیز پر نظر ہے۔
بہرحال میرے ایک دوست کا خیال ہے کہ عدلیہ بہت سے کاموں میں الجھ گئی ہے۔ سنجیدہ قانونی ماہرین کا ایک بااثر طبقہ جوڈیشل ایکٹوازم کے بھی حق میں نہیں ہے لیکن بھائی جب حکومت اپنے کرنے کے کام نہیں کریگی تو کسی کو تو کرنے ہیں۔ اگر حکومتیں ڈیم نہیں بنائیں گی تو کسی کو تو کرنا ہے۔ ایسے میں ریاستی ادارے ریاست کو بچانے کے لیے آگے نہیں آئیں گے تو کون آئے گا۔ باہر سے تو کسی طاقت کے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اگر حکومت اسپتال ٹھیک نہیں کرے گی تو چیف جسٹس بھی نہ جائیں تو مریض مر جائیں گے۔ اگر پرائیوٹ میڈیکل کالج ڈیپارٹمنٹل اسٹور بن گئے ہیں تو عدلیہ بھی ایکشن نہ لے تو کون لے۔ اگر حکومت سڑکوں پر سے تجاوزات نہ اٹھائے تو کیا عدلیہ نے انھیں ختم کر کے گناہ کیا ہے۔ اگر کسی بھی حکومت کو پاکستان میں بڑھتی آبادی کا کوئی احساس نہیں تو کیا عدلیہ بھی خاموش بیٹھی رہی۔
لیکن دوسری طرف بھی ایک دلیل ہے کہ اگر نظام انصاف ٹھیک کام نہیں کر رہاتو کیا کسی اور کو اجازت ہے کہ وہ عدلیہ کو ٹھیک کرنے کا کام شروع کر دے۔ عدلیہ کے ذمے داران کا پہلا کام نظام انصاف کو ٹھیک کرنا ہے۔ اگر پاکستان کو ایک نظام حکومت کے تحت چلنا ہے تو سب کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہنا ہوگا۔
کیا کسی کو اندازہ ہے کہ پنجاب کے کئی شہروں میں اس وقت ماتحت عدالتوں کی تالہ بندی کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ وکلا کر رہے ہیں۔ روزانہ سیکڑوں مقدمات کی سماعت نہیں ہو رہی ہے۔ سائل وکلاء کے سامنے بے بس ہیں۔ لیکن نظام انصاف اور حکومت خاموش ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تالہ بندی کا کون ذمے دار ہے۔ ویسے تو پاکستان کے نظام عدل میں تاریخ پر تاریخ کا ایسا نظام رائج ہو چکا ہے کہ ا س تالہ بندی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔کیونکہ اگر عدالتیں کھلی بھی ہوتیں تو تاریخ پر تاریخ ہی ہونی تھی۔ لیکن پھر بھی تالہ بندی کس مہذب معاشرہ کی نشانی ہے؟
پنجاب کے بڑے شہروں کے وکلا یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے بینچ مختلف شہروں میں بنائے جائیں تا کہ انھیں مقدمات کے لیے اپنے اپنے شہروں سے نہ آنا پڑے۔ بھکر کے وکلا کا موقف ہے کہ انھیں ملتان قریب ہے، اس لیے انھیں لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ سے منسلک کر دیا جائے۔ فیصل آباد ،گوجرانوالہ، سیالکوٹ سمیت دیگر سب شہر ہائی کورٹ کے بینچ مانگ رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے پنجاب کے مختلف شہروں میں بنچوں کا قیام کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے۔ آج دنیا ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ انٹر نیٹ نے رابطوں کو آسان بنا دیا ہے۔ اس لیے آج کی دنیا کا پچاس سال پہلے کی دنیا سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ تا ہم پچاس پہلے بھی لاہور کے علاوہ ملتان بہاولپور اور راولپنڈی میں لاہور ہائی کورٹ کے بینچ قائم کیے گئے تھے۔ یہ بینچ آج بھی فعال ہیں۔ نصف صدی سے وہاں مقدمات سنے جا رہے ہیں۔ اس لیے ایسا نہیں ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے مختلف شہروں میں بینچ قائم کرنے کی کوئی روا یت موجود نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تین شہروں میں پہلے سے ہی بینچ قائم ہیں تو کیا اب جب کہ آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ مقدمات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ تو کیا بنچوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں ہم اس بات پر بضد ہیں کہ مزید بینچ قائم نہیں کیے جا سکتے۔
یہ بھی درست ہے کہ بنچوں کے قیام کے لیے کوئی منصفانہ اصول ہونا چاہیے۔ کیا ہم آبادی کی بنیاد پر بینچ قائم کریں گے۔ ڈویژن کی سطح پر بینچ قائم کریں گے۔ ضلع کی سطح پر بینچ قائم کریں گے۔ یا جو شہر بھی مطالبہ اور احتجاج کرے گا وہاں بینچ قائم کر دیں گے۔ یقینا اس ضمن میں کوئی اصول اور قواعد طے کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں ملک میں ڈیم بننے کے تنازعات عدلیہ حل کر رہی ہے۔ وہاں بنچوں کے قیام کا تنازعہ حل نہ ہونا نا قابل فہم ہے۔
اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے تین بینچ کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان بنچوں کے کام کرنے کے حوالے سے بھی مسائل ہیں۔ ان بنچوں میں اعلی عدلیہ کے ججز کو مستقل تعینات نہیں کیا جا تا۔ لاہور ہائی کورٹ سے عارضی طور پر ججز کو وہاں کام کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ کسی کو ایک ماہ کے لیے کسی کو چند ہفتوں کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ کسی کو اگلے احکامات تک وہاں کام کرنے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے۔ میری رائے میں یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان بنچوں میں ججز کو کم از کم تین سال کے لیے تعینات کیا جانا چاہیے۔ تاکہ وہ اس بینچ کو فعال کر سکیں۔ اس کو بہتر کر سکیں وہاں انتطامی بہتری لا سکیں۔ مقدمات کو نبٹانے کے لیے کوئی جامعہ لائحہ عمل بنا سکیں۔ پچاس سال گزرنے کے بعد بھی یہ بینچ عارضی بنچوں کے طور پر ہی کام کر رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ بدلتے تقاضوں کے مطابق عدلیہ نئے فیصلے کرے۔ چیف جسٹس پاکستان ملک بھر میں ہر ڈویژنل سطح پر متعلقہ ہائی کورٹ کا بینچ قائم کرنے کا فیصلہ کر دیں۔ ہر بینچ میں کم از کم دو جج ضرور ہوں۔ کیسز کی مارکنگ بھی وہیں کی جائے۔ اس ڈویژن کی ماتحت عدلیہ بھی اسی بینچ کے ماتحت کام کرے۔ بینچ میں ججز کو کم از کم تین سال کے لیے تعینات کیا جائے۔ میں یہ تو نہیں کہہ رہا کہ اس سے کوئی انقلاب آجائے گا لیکن لوگوں کی تکلیف میں ضرور کمی ہوگی۔