حکومت کے 100 دن

حکومت نے بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کے لیے روایتی ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں۔


Dr Tauseef Ahmed Khan November 28, 2018
[email protected]

عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کی حکومت نے 100 دن پورے کرلیے مگر سوائے وفاقی بجٹ کی منظوری کے پارلیمنٹ میں کوئی قانون سازی نہ ہوسکی۔ اسی دوران وزیر اطلاعات کے سینیٹ میں داخلے پر پابندی لگی۔ قومی اسمبلی وزراء کی زور بیانی کی بناء پر ہنگامے کا شکار ہوئی۔ عوام پر مہنگائی کی بارش ہوئی۔ صرف مقامی اشیاء کی قیمتوں میں 30 سے 40 گنا اضافہ ہوا۔

وزیر اعظم عمران خان نے سیاست میں یوٹرن کے فوائد پر بحث کا آغاز کیا۔ وفاقی وزراء اور گورنر صاحبان سیاست میں مؤقف تبدیل کرنے کی اہمیت اور تاریخ میں اس کے فوائد بیان کرنے لگے۔ وزیر اعظم عمران خان چین گئے۔ وفاقی حکومت نے اعلان کیا کہ چین نے ملک کو مالیاتی بحران سے نکالنے کے لیے خطیر رقم دی ہے۔ چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے مزید مذاکرات ہونگے۔

عمران خان نے کہا کہ چین نے ملک کی معیشت کو بچانے کے لیے حیرت انگیز پیکیج دینے کا عندیہ دیا ہے مگر اس پیکیج سے متعلق اعداد و شمار کو ظاہر نہیں کیا جاسکتا ورنہ دیگر ممالک بھی اسی طرح کے پیکیج کے متمنی ہونگے۔ مگر پھر حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے مگر چین سے قرضوں کی تفصیلات کے مطالبے پر معاملات طے نہ ہوئے۔ عمران خان کی حکومت نے اقتدار سنھالتے ہی کئی محاذوں پر طبع آزمائی کی ہوئی ہے۔

وفاقی وزراء حزب اختلاف کو بدعنوان اور چور قرار دیتے اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے جیل جانے کی باتوں کی اس طرح تکرار کرتے ہیں کہ اسمبلیوں کا ماحول بگڑ جاتا ہے۔ پھر دوسری طرف سے گولہ باری شروع ہوجاتی ہے۔ یوں اسمبلیوں میں ایک دوسرے پر الزامات اور غیر پارلیمانی گفتگو کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

پارلیمان کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ صرف 2002ء سے قائم ہونے والی اسمبلیوں کی روداد کا مطالعہ کیا جائے تو 2018ء میں قائم ہونے والی اسمبلیاں اس لحاظ سے منفرد نظر آتی ہیں کہ حزب اقتدار کے ارکان مخالف اراکین کو مشتعل کرنے کا فریضہ مقدس فرض کے طور پر انجام دیتے ہیں جب کہ یہ روایت رہی کہ ہمیشہ حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے اراکین اور خاص طور پر وزراء اسمبلی کی کارروائی کو معمول پر چلانے کے لیے نرم اور خوشگوار لہجہ اختیار کرتے ہیں۔

ایک استاد نے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے اس بیان پر کہ حزب اختلاف اسمبلیوں میں قبرستان جیسی خاموشی چاہتی ہے کہا کہ اس بیان سے تو محسوس ہوتا ہے کہ فواد چوہدری اپنے آپ کو حزب اختلاف کی بنچوںپر ہی تصور کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی میں بگاڑ کی ایک اہم وجہ حکومت کا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو نہ دینے کا فیصلہ ہے۔

پارلیمانی روایت کے مطابق قائد حزب اختلاف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہوتے ہیں۔ ریاستی اداروں میں شفافیت کے لیے میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید نے میثاق جمہوریت میں عہد کیا تھا کہ ان کے دور میں یہ عہدہ قائد حزب اختلاف کے پاس ہوگا ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں نے اس روایت کو پروان چڑھایا مگر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کو یہ عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں حکومت اور حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد یکساں ہوتی ہے۔ پھر ہر وزارت کے اکاؤنٹس کے بارے میں جانچ پڑتال کے لیے اس کمیٹی کی ذیلی کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیں۔

ہر وزارت کے اکاؤنٹس کے بارے میں اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان کے اعتراض کی رپورٹ منسلک ہوتی ہے، یوں کمیٹی کا سربراہ ایک طرح سے علامتی سربراہ ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ جب تک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا فیصلہ نہیں ہوگا ایوان میں باقی وزارتوں کے لیے کمیٹیاں قائم ہوسکیں گی اور نہ ہی کارروائی چل سکے گی۔

اس صورتحال کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی میں ایک بھی قانون کا مسودہ پیش نہیں کرپائی۔ پھر وزیر اعظم عمران خان کے عظیم سیاستدانوں کے یو ٹرن کے بارے میں بیان سے سیاسی صورتحال مزید کشمکش کا شکار ہوچکی ہے۔ اگرچہ دونوں طرف سے اس موضوع پر دلچسپ دلائل دیے جارہے ہیں مگر خبروں کے پس منظر پر توجہ دینے والے بعض سینئر صحافی کہتے ہیں کہ اگر حکومت خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی پر سوچ رہی ہے تو پھر یو ٹرن کی منطق سمجھ میں آتی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ گزشتہ ماہ ایک اسرائیلی طیارے کی مبینہ طور پر اسلام آباد آمد کی خبروں کے بعد شاید اسرائیل سے کسی قسم کے روابط کی پالیسی وضع کی جارہی ہے۔ اسی لیے تحریک انصاف کی حکومت نے یو ٹرن کا فلسفہ پیش کیا ہے مگر پارلیمنٹ کے درجہ حرارت کے بڑھنے اور خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی خبروں سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ 100 دنوں کے دوران پیٹرل، گیس اور مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کے نرخ بھی بڑھ گئے ہیں۔

حکومت نے تو درآمدی اشیاء پر بھی بھاری ٹیکس لگانے کا اعلان کیا ہے مگر پورے ملک میں ملکی اشیاء کی قیمتوں میں 30 سے 40فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین اقتصادیات اس خدشہ کااظہار کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہوں یا نہ ہوں مہنگائی کا ایک اور بڑا طوفان آنے والا ہے۔ جب بھی کوئی حکومت برسر اقتدار آتی ہے تو عوام کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں میں رعایتوں اور مراعات کا اعلان کرتی ہے مگر اس حکومت کے دور میں عوام کو مہنگائی کی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے کہ جس کا ماضی میں تصور نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے گلگت کے دورے کے دوران اپنی تقریر میں یہ نعرہ لگایا کہ ''10روپے کی روٹی 15 روپے کا نان، یہ ہے نیا پاکستان''۔ تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور اور عمران خان نے اپنے جلسوں میں نیا پاکستان میں عوام کے حالات کار کی تبدیلی کے لیے سیکڑوں وعدے کیے تھے۔ ان میں مہنگائی کا خاتمہ ، روزگار کی فراہمی، سستا مکان، صحت کی سہولتیں اور مفت تعلیم جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔

عمران خان بار بار کہتے تھے کہ وہ انتخابی دھاندلی کے الزام پر ہر حلقے کو کھول دیں گے مگر سعد رفیق کی درخواست پر اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا اور اب حکومت پارلیمنٹ کی انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والی کمیٹی کو فری ہینڈ دینے کو تیار نہیں۔ تحریک انصاف کا ایک وعدہ اچھی طرز حکومت اور بیوروکریسی کو کسی دباؤ کے بغیر کام کرنے کے بارے میں تھا۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے مقرر کردہ آئی جی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی اور سندھ ہائی کورٹ نے مداخلت کی تو عمران خان نے اپنے جلسوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور تحریک انصاف کی حکومت نے مختصر عرصے میں ہی پنجاب اور اسلام آباد کے انسپیکٹر جنرل پولیس سمیت متعدد افسروں کے تبادلے کیے۔

جب پنجاب کے دو ڈپٹی کمشنروں نے سیاسی دباؤ کا معاملہ سوشل میڈیا کے سپرد کیا تو وزیر اعظم نے ان افسروں کی سخت مذمت کی۔ 100 دن کے عرصہ میں بہت سے انتظامی افسروں کے مختصر مدت کے تبادلے ہوئے اور وزیر اطلاعات نے تو یہ تک فرمایا کہ اگر وزیر اعظم آئی جی کا تبادلہ نہیں کرسکتے تو حکومت کرنے کا کیا فائدہ۔ اس تناظر میں عوام کے لیے ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت میں فرق مشکل ہوگیا ہے۔ ابھی تک اعلیٰ عدالتیں موجودہ حکومت کے ساتھ منصفانہ سلوک کررہی ہیں مگر حکومت کی 100 دنوں کی کارکردگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس کوئی واضح پروگرام نہیں ہے۔

حکومت نے بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کے لیے روایتی ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں۔ سیاستدانوں اور تاجروں کو احتساب کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سول سوسائٹی کو مختلف طریقوں کے ذریعے مفلوج کیا گیا ہے۔ حکومت بار بار اعلان کے باوجود میڈیا کے بحران کو ختم کرنے کے لیے حقیقی اقدامات نہیں کررہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت میڈیا کے بکھرنے کی منتظر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزراء گزشتہ 100 دنوں سے کرپشن کے الزامات کا ڈھنڈورا پیٹنے کے علاوہ عوام کو کچھ نہیں دے پارہے۔ یہ 100 دن تحریک انصاف کی حکومت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں