ہم پر امن ہیں
پاکستانی قوم متفق ہے کہ ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے چاہئیں لیکن بھارت کے معاملے میں قوم کے جذبات مختلف ہیں۔
کوئی سے دو ملکوں کے درمیان جنگ نہیں ہو رہی یا یوں کہیں کہ باقاعدہ جنگ نہیں ہو رہی لیکن اس سر زمین پر کئی ایسے مقام مل جاتے ہیں جہاں کسی نہ کسی صورت میں جنگ ہو رہی ہے اور دو ملک ایک دوسرے کے خلاف برسر جنگ ہیں۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امن کا نام تو بہت لیا جاتا ہے لیکن حقیقی اور اجتماعی امن مفقود ہے۔ نہ جانے کتنے انسانوں نے دلوں میں کسی نہ کسی کے خلاف جنگ کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور جب بھی انھیں موقع ملتا ہے وہ جنگ شروع کر دیتے ہیں۔
آج کے زمانے میں جنگ کو ہر گز پسند نہیں کیا جاتا جہاں بھی جنگ کا خطرہ نظر آتا ہے وہاں کے باشندے اس جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ آج کے زمانے میں جنگ ایک تباہ کن معاملہ ہے اور جس خطے میں جنگ برپا ہوتی ہے اس میں پھر انسانی زندگی دائو پر لگ جاتی ہے۔ جنگ یہ نہیں دیکھتی کہ اس کی زد میں اسکول آ رہے ہیں یا مدرسے یا عام انسان جنگ ہر جگہ پھیل جاتی ہے اور سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جنگ چھوٹی ہو یا بڑی اس کی تباہی سے انکار ممکن نہیں ہے۔
جنگ کے آسان معنی ہیں انسانوں کی آپس میں جنگ و جدل اور آج کے انسان کے پاس انسانی تباہی کا کون سا اسلحہ موجود نہیں ہے۔ پاکستان کی مثال لے لیجیے ایک پرانا ملک ہے جس کے باشندوں کے پاس کلہاڑی اور تلوار ہی ہوا کرتی تھی جس کا خوف محدود ہوا کرتا تھا لیکن اب ان کلہاڑی اور تلوار کے اسلحے سے آراستہ انسانوں کے پاس کیا کچھ نہیں ہے اب یہی پاکستان ایٹمی اسلحہ کا مالک ہے کیونکہ اس کے روایتی دشمنوں نے بھی ایٹمی اسلحہ حاصل کر لیا ہے اور پاکستان کے پاس یہ کچھ نہیں تھا مگر زندہ رہنے کے لیے پاکستان نے بھی ایٹمی اسلحہ حاصل کر لیا ہے کیونکہ دشمنوں نے اپنے آپ کو ایٹمی طاقت بنا لیا ہے اور دشمن بھی ایسے جن کی جارحیت سے بچنا ہر وقت کا خطرہ ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ یہ جارحیت کب زندہ ہو جائے اور دونوں قدیمی دشمن ملکوں کے عوام کی دشمنی کو بھی زندہ کر دے اور یہ دشمنی اگر دبی رہی تو اس میں برصغیر کے ملکوں کی سلامتی ہے ورنہ ان ملکوں کے عوام کی پرانی دشمنی زندہ ہو سکتی ہے جو اس خطے کے لیے تباہی کا باعث بن سکتی ہے اور برصغیر کے ان ملکوں کے درمیان دشمنی اور بد اعتمادی کا پرانا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے جس کے تصور سے ہی بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، انسانی جسم اس لرزے کو برداشت نہیں کر سکتا۔
برصغیر کے ان ملکوں کے درمیان مدت سے لرزہ بر اندام قسم کے تعلقات جاری ہیں اور جب تک یہ موجود ہیں یہاں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ایک مغل بادشاہ نے سچ کہا تھا کہ یہ میرا سب سے بڑا کارنامہ برصغیر کے اس خطے میں امن کا قیام ہے کیونکہ یہاں کی بدا منی صرف چند انسانی جانوں کی قربانی کا باعث ہی نہیں بن سکتی بلکہ دنیا کے اس خطے میں بد امنی کا زلزلہ بھی برپا کر سکتی ہے جس کے اثرات انسانی زندگی کے لیے ایسی تباہی لا سکتے ہیں جس کی مثال اس خطے کے کئی سابقہ واقعات میں مل سکتی ہے جس نے ہندوستان کے اس وسیع خطے کو خاک و خون میں نہلا دیا اور جس کے برے اور سخت بھیانک اثرات مدتوں سے جاری ہیں اور نہ جانے کب تک جاری رہیں گے۔
پاکستان نے اپنے روایتی دشمن بھارت کی طرف ایک بار پھر امن کا ہاتھ بڑھایا ہے ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پہلی ہی تقریر میں بھارت کو امن کا پیغام دیا یعنی انھوں نے دو ہمسائیوں میں امن کی جانب پہل کر دی مگر اس کا کوئی مثبت جواب ابھی تک نہیں ملا۔
اب پاکستان نے بھارتی سکھوں کی مذہبی عبادت میں آسانی پیدا کرنے کے لیے کرتار پور بارڈر کھولنے کا اعلان کیا ہے جس کی بھارت کی سکھ برادری میں پذیرائی کی جا رہی ہے بھارت نے کرتار پور بارڈر کھولنے کے لیے بھارتی زمین پر سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جب کہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان آج پاکستان میں اس کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھنے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے اس کے اپنے ہمسائے کے ساتھ تعلقات بہتر رہیں حتیٰ کہ ہماری ایک سابقہ حکومت تو بھارتیوں کو پسندیدہ ترین قوم قرار دینے بھی جا رہی تھی۔
ایک بات پر پاکستانی قوم متفق ہے کہ ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے چاہئیں لیکن بھارت کے معاملے میں قوم کے جذبات مختلف ہیں اور ہمارے سیاستدان جو کچھ بھی کہتے اور عمل کرتے رہیں یہ بات واضح ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ہمسایہ ہے اور دشمن ہی رہے گا اس لیے بارڈر کھولنے سے دنیا میں آپ کا امن کی خواہش کا تاثر جا رہا ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں جن کے بارے میں سب کو معلوم ہے اور کراچی میں چینی قونصل خانے پر حالیہ حملہ امن کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش ہے۔
بہر حال دو دشمن نظریات کو ماننے والوں میں امن قائم رکھنا بہت مشکل ہے۔ یہ ہیں مسلمان اور ہندو ان دونوں نظریات اور طبقوں کے درمیان امن اگر کسی حکومت نے قائم رکھا تو وہ تھی انگریزوں کی حکومت جس کی حکمت عملی نے اس خطے میں امن کو زندگی کا ایک مصرف بنا دیا اور اسی کی طاقت پر بدیسی انگریز حکومت کرتے رہے۔ ان کی حکومت نے اس خطے کا رنگ ہی بدل دیا اور برطانوی دور کا ہندوستان ایک نیا ملک بن کر نمودار ہوا۔
انگریزوں کے بعد ایک تو ہندوستان کے عوام کو کسی حد تک غیر جانبدار حکومت نہ مل سکی دوسرے یہاں کے مذہبی اختلافات بھی زندہ رہے اور پہلے سے زیادہ ابھر کر سامنے آئے جس کی وجہ سے برطانوی دور کا ہندوستان رفتہ رفتہ مدہم پڑنے لگا لیکن پھر بھی انگریز حکومت نے ہندوستان میں ایک ایسا طبقہ پیدا کر دیا جو غیر جانبدار سمجھا جاتا تھا اور اب تک اسی طبقے کے زیر اثر کوئی حکومت زیادہ دیر تک باقی رہتی ہے۔
یوں کہیں کہ برطانوی دور کی اصلاحات کسی حد تک زندہ رہیں اور ان کی اس غیر جانبداری کی وجہ سے ہندوستان میں قدرے امن باقی رہا جو اب تک باقی چلا آ رہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ یہ امن اب چلتا ہی رہے گا ہم ہندوستانی اس امن کے عادی ہو چکے ہیں۔