حکومت کے پہلے 100 دن عمران خان عوام کو مطمئن کر پائیں گے
پی ٹی آئی کی حکومت کی ابھی تک کی کارکردگی عوام سے کئے جانیوالے وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کل اپنے 100 روز مکمل کرنے جا رہی ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ کا شمار اقتدار میں آنے سے پہلے سو دن کا پلان دینے والے دنیا کے چند رہنماوں میں ہوتا ہے۔
عمران خان کی طرح دوسرے رہنماوں کی جانب سے بھی دیئے جانیوالے سوروزہ پلان عوام میں مقبول رہے، تاہم سب سے زیادہ مقبولیت امریکی صدر روزویلٹ کے سو روزہ پلان کو ملی ہے اور اس میں کوئی دو روائے نہیں ہے کہ کسی بھی حکومت کے پہلے سو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور یہ سو دن حکومت کی سمت متعین کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سو روزہ پلان کے حوالے سے امریکی صدر روزویلٹ کے دور اقتدار کے پہلے سودن کو بین الاقوامی تاریخ کا مقبول ترین پروگرام تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر روز ویلٹ کے سوروزہ دور میں ہونیوالی تاریخی قانون سازی نے ملکی سمت کا تعین کیا جو آگے چل کر امریکہ کی ترقی کا سنہری دور ثابت ہوا۔
اس کے علاوہ دوسرے بڑے رہنما ملائشیا کے مہاتیر محمد سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے سو روزہ پلان دیا اگرچہ وہ اس پلان میں کامیاب نہیں ہو سکے اور اس ناکامی کا اعتراف بھی انہوں نے کھُلے دل کے ساتھ عوام کے سامنے کیا کہ سو دن کے لئے یہ ایک ناقابل عمل ایجنڈا تھا مگر مہاتیر محمد نے اپنے ملک و قوم کے روشن مستقبل کیلئے ایک سمت متعین کی جس پر عوام نے بھرپور اعتماد کیا اور پھر مہاتیر محمد کی پالیسیوں کے ثمرات دنیا نے ابھرتے ہوئے ملائشیا کی صورت دیکھے ۔
پاکستان میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کی صورت ایک مثال موجود ہے، اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے سے پہلے کوئی سو روزہ پلان تو نہیں دیا تھا مگران کی طرف سے دیئے جانے والے روٹی،کپڑا اور مکان کے نعرے نے مقبولیت کی معراج حاصل کی اورآج بھی یہ نعرہ پاکستان پیپلز پارٹی کی شناخت ہے کیونکہ 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت بھی پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو کا یہ پانچ سالہ دور ملکی ترقی کیلئے اہم دور ثابت ہوا ہے۔
اس کے بعد میاں محمد نوازشریف نے ملکی سیاست میں ایک نئے دورکا آغاز کیا اور ترقی کے اس ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھے اور ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کیلئے بھٹو دور میں شروع کئے جانیوالے نیوکلیئر پروگرام کو تکمیل تک پہنچایا اور تمام تر عالمی دباو کے باوجود بھارت کے مقابلہ میں ایٹمی دھماکے کرکے عالمی سطح پر ملک کو ایٹمی طاقت نہ صرف ڈکلئیر کیا بلکہ منوایا بھی۔ اس کے بعد تحریک انصاف نے ملکی سیاست کو ایک نیا موڑ دیا اور ملک سے ٹو پارٹی سسٹم کی سیاسی روایت توڑ دی ۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کرپشن کے خاتمے اور فلاحی ریاست کا نعرہ لے کر پُرکشش سوروزہ پلان لے کر عوام میں مقبول ہوئے اور پھر اقتدار میں آکر سو روزہ پلان کا اعلان کیا جو سیاسی مخالفین وناقدین کے ناقابل عمل قرار دیئے جانے کے باوجود عوام میں مقبول ہوا۔ ابھی تحریک انصاف کی حکومت جمعرات کو اپنے سودن مکمل کرنے جا رہی ہے، بادی النظر میں اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس پہلے سودن بارے عوام کے سامنے پیش کرنے کو کچھ نظر نہیں آرہا اور لوگوں کو اپنی چھت فراہم کرنے کی کہانی پچاس لاکھ گھروں سے شروع کر کے خیموں و ٹینٹوں تک پہچ گئی ہے، اسی طرح سفارتی سطح پر کرتارپور راہداری کھولنے کا اتنا بڑا اور اہم فیصلہ کیا گیا مگر بھارتی رہنما سشما سوراج نے اس راہداری کھولنے کی تقریب میں بھی شرکت سے معذرت کرلی ہے۔
سیاسی و سفارتی حلقوں کی جانب سے اسے حکومت کی بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ جب خود پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان بھارتی قیادت کو بڑے عہدوں پر بونے لوگوں کے براجمان ہونے سے تعبیر کرچکے ہوں اور ٹوئٹر کے ذریعے اپنا یہ پیغام پوری دنیا میں پہنچا چکے ہوں تو اس کے بعد حالات معمول پر آنے تک اس قسم کی دعوت دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مگراس بھارتی روایتی ہٹ دھرمی کے باوجودکرتارپور راہداری کھولنا اس حکومت کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے جس نے بھارت کو ایک بڑی مشکل سے دوچار کردیا ہے۔
اس اقدام نے بھارت کو اپنے ہی ملک میں دفاعی پوزیشن پر ڈالدیا ہے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کی حکومت کو پہلے سو دن میں ملک کو درپیش مالی بحران پر بھی کسی حد تک قابو پانے میں کامیابی نصیب ہوئی ہے اور سعودی پیکیج کے بعد معاشی دیوالیہ پن کا خطرہ ٹل گیا ہے، تاہم خطرے کی تلوار ابھی لٹک رہی ہے جسے ہٹانے کیلئے تحریک انصاف کی قیادت اپنے انتخابی دعووں اور قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کئے جانیوالے اعلان سے منحرف ہوکر سعودی عرب کے بعد چین، یو اے ای اور آئی ایم ایف و عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ مالی پیکیجز و پروگرامز کیلئے مصروف عمل ہو چکی ہے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کا ایک دور ہو چکا ہے جو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث ناکام ہوچکا ہے مگر ابھی تعلق ٹوٹا نہیں ہے مذاکرات کا دوسرا دور ہونے جا رہا ہے۔
البتہ قانون سازی کے حوالے سے تحریک انصاف کی پہلی سو روزہ کارکردگی صفر ہے۔ اور یہی نہیں معاشی لحاظ سے بھی ابھی تک تحریک انصاف کوئی سمت متعین نہیں کرسکی ہے تمام اقتصادی اعشاریئے گراوٹ کا شکار ہیں اور سیاسی مخالفین تحریک انصاف کی جانب سے احتساب اور سیاسی رہنماوں کی گرفتاریوں کو بھی اسی ناکامی سے جوڑ رہے ہیں۔ سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے انتقامی احتساب اور گرفتاریاں کر رہی ہے تاکہ اپنے ووٹرز کو ساتھ منسلک رکھا جاسکے اور پی ٹی آئی کی حکومتی کارکردگی سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے۔
دوسری جانب حکومت اپنی سو روزہ کارکردگی عوام کے سامنے پیش کرنے کی تیاریاں مکمل کر رہی ہے جس کیلئے وزیراعظم عمران خان نے منگل کو اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کی جس میں حکومت کے 100 روزہ پلان پر عملدرآمد و عوامی فلاحی منصوبوں کے بارے میں بھی جامع حکمت عملی اور عملی اقدامات کا جائزہ لیا گیا اور وزیراعظم کی تقریر میں شروع کئے جانے والے ان فلاحی منصوبوں کو بطور خاصل شامل کیا جا رہا ہے۔ اجلاس میں پارٹی رہنما، وفاقی وزراء، مشیر اور معاونین خصوصی نے اپنی اپنی وزارتوں اور ڈویژنز کی جانب سے سو روزہ پلان پر رپورٹس پیش کی ہیں اور ان رپورٹس کی بنیاد پر مرتب کردہ کارکردگی رپورٹ کے تناظر میں وزیراعظم 29 نومبر کو 100روزہ پلان سے متعلق قوم کو اعتماد میں لیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنے آئیڈیل مہاتیر محمد کی طرح عوام کے سامنے آکر اپنے سو روزہ پلان کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں اور عوام کو سمت کے تعین کے بارے میں آگاہ کرکے روشن مستقل کی نوید سناتے ہیں یا پھر کوئی نئی حکمت عملی پیش کریں گے ،کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی ابھی تک کی کارکردگی عوام سے کئے جانیوالے وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
عمران خان کی طرح دوسرے رہنماوں کی جانب سے بھی دیئے جانیوالے سوروزہ پلان عوام میں مقبول رہے، تاہم سب سے زیادہ مقبولیت امریکی صدر روزویلٹ کے سو روزہ پلان کو ملی ہے اور اس میں کوئی دو روائے نہیں ہے کہ کسی بھی حکومت کے پہلے سو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور یہ سو دن حکومت کی سمت متعین کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سو روزہ پلان کے حوالے سے امریکی صدر روزویلٹ کے دور اقتدار کے پہلے سودن کو بین الاقوامی تاریخ کا مقبول ترین پروگرام تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر روز ویلٹ کے سوروزہ دور میں ہونیوالی تاریخی قانون سازی نے ملکی سمت کا تعین کیا جو آگے چل کر امریکہ کی ترقی کا سنہری دور ثابت ہوا۔
اس کے علاوہ دوسرے بڑے رہنما ملائشیا کے مہاتیر محمد سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے سو روزہ پلان دیا اگرچہ وہ اس پلان میں کامیاب نہیں ہو سکے اور اس ناکامی کا اعتراف بھی انہوں نے کھُلے دل کے ساتھ عوام کے سامنے کیا کہ سو دن کے لئے یہ ایک ناقابل عمل ایجنڈا تھا مگر مہاتیر محمد نے اپنے ملک و قوم کے روشن مستقبل کیلئے ایک سمت متعین کی جس پر عوام نے بھرپور اعتماد کیا اور پھر مہاتیر محمد کی پالیسیوں کے ثمرات دنیا نے ابھرتے ہوئے ملائشیا کی صورت دیکھے ۔
پاکستان میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کی صورت ایک مثال موجود ہے، اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے سے پہلے کوئی سو روزہ پلان تو نہیں دیا تھا مگران کی طرف سے دیئے جانے والے روٹی،کپڑا اور مکان کے نعرے نے مقبولیت کی معراج حاصل کی اورآج بھی یہ نعرہ پاکستان پیپلز پارٹی کی شناخت ہے کیونکہ 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت بھی پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو کا یہ پانچ سالہ دور ملکی ترقی کیلئے اہم دور ثابت ہوا ہے۔
اس کے بعد میاں محمد نوازشریف نے ملکی سیاست میں ایک نئے دورکا آغاز کیا اور ترقی کے اس ایجنڈے کو لے کر آگے بڑھے اور ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کیلئے بھٹو دور میں شروع کئے جانیوالے نیوکلیئر پروگرام کو تکمیل تک پہنچایا اور تمام تر عالمی دباو کے باوجود بھارت کے مقابلہ میں ایٹمی دھماکے کرکے عالمی سطح پر ملک کو ایٹمی طاقت نہ صرف ڈکلئیر کیا بلکہ منوایا بھی۔ اس کے بعد تحریک انصاف نے ملکی سیاست کو ایک نیا موڑ دیا اور ملک سے ٹو پارٹی سسٹم کی سیاسی روایت توڑ دی ۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کرپشن کے خاتمے اور فلاحی ریاست کا نعرہ لے کر پُرکشش سوروزہ پلان لے کر عوام میں مقبول ہوئے اور پھر اقتدار میں آکر سو روزہ پلان کا اعلان کیا جو سیاسی مخالفین وناقدین کے ناقابل عمل قرار دیئے جانے کے باوجود عوام میں مقبول ہوا۔ ابھی تحریک انصاف کی حکومت جمعرات کو اپنے سودن مکمل کرنے جا رہی ہے، بادی النظر میں اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس پہلے سودن بارے عوام کے سامنے پیش کرنے کو کچھ نظر نہیں آرہا اور لوگوں کو اپنی چھت فراہم کرنے کی کہانی پچاس لاکھ گھروں سے شروع کر کے خیموں و ٹینٹوں تک پہچ گئی ہے، اسی طرح سفارتی سطح پر کرتارپور راہداری کھولنے کا اتنا بڑا اور اہم فیصلہ کیا گیا مگر بھارتی رہنما سشما سوراج نے اس راہداری کھولنے کی تقریب میں بھی شرکت سے معذرت کرلی ہے۔
سیاسی و سفارتی حلقوں کی جانب سے اسے حکومت کی بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ جب خود پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان بھارتی قیادت کو بڑے عہدوں پر بونے لوگوں کے براجمان ہونے سے تعبیر کرچکے ہوں اور ٹوئٹر کے ذریعے اپنا یہ پیغام پوری دنیا میں پہنچا چکے ہوں تو اس کے بعد حالات معمول پر آنے تک اس قسم کی دعوت دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مگراس بھارتی روایتی ہٹ دھرمی کے باوجودکرتارپور راہداری کھولنا اس حکومت کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے جس نے بھارت کو ایک بڑی مشکل سے دوچار کردیا ہے۔
اس اقدام نے بھارت کو اپنے ہی ملک میں دفاعی پوزیشن پر ڈالدیا ہے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کی حکومت کو پہلے سو دن میں ملک کو درپیش مالی بحران پر بھی کسی حد تک قابو پانے میں کامیابی نصیب ہوئی ہے اور سعودی پیکیج کے بعد معاشی دیوالیہ پن کا خطرہ ٹل گیا ہے، تاہم خطرے کی تلوار ابھی لٹک رہی ہے جسے ہٹانے کیلئے تحریک انصاف کی قیادت اپنے انتخابی دعووں اور قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کئے جانیوالے اعلان سے منحرف ہوکر سعودی عرب کے بعد چین، یو اے ای اور آئی ایم ایف و عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ مالی پیکیجز و پروگرامز کیلئے مصروف عمل ہو چکی ہے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کا ایک دور ہو چکا ہے جو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث ناکام ہوچکا ہے مگر ابھی تعلق ٹوٹا نہیں ہے مذاکرات کا دوسرا دور ہونے جا رہا ہے۔
البتہ قانون سازی کے حوالے سے تحریک انصاف کی پہلی سو روزہ کارکردگی صفر ہے۔ اور یہی نہیں معاشی لحاظ سے بھی ابھی تک تحریک انصاف کوئی سمت متعین نہیں کرسکی ہے تمام اقتصادی اعشاریئے گراوٹ کا شکار ہیں اور سیاسی مخالفین تحریک انصاف کی جانب سے احتساب اور سیاسی رہنماوں کی گرفتاریوں کو بھی اسی ناکامی سے جوڑ رہے ہیں۔ سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے انتقامی احتساب اور گرفتاریاں کر رہی ہے تاکہ اپنے ووٹرز کو ساتھ منسلک رکھا جاسکے اور پی ٹی آئی کی حکومتی کارکردگی سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے۔
دوسری جانب حکومت اپنی سو روزہ کارکردگی عوام کے سامنے پیش کرنے کی تیاریاں مکمل کر رہی ہے جس کیلئے وزیراعظم عمران خان نے منگل کو اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کی جس میں حکومت کے 100 روزہ پلان پر عملدرآمد و عوامی فلاحی منصوبوں کے بارے میں بھی جامع حکمت عملی اور عملی اقدامات کا جائزہ لیا گیا اور وزیراعظم کی تقریر میں شروع کئے جانے والے ان فلاحی منصوبوں کو بطور خاصل شامل کیا جا رہا ہے۔ اجلاس میں پارٹی رہنما، وفاقی وزراء، مشیر اور معاونین خصوصی نے اپنی اپنی وزارتوں اور ڈویژنز کی جانب سے سو روزہ پلان پر رپورٹس پیش کی ہیں اور ان رپورٹس کی بنیاد پر مرتب کردہ کارکردگی رپورٹ کے تناظر میں وزیراعظم 29 نومبر کو 100روزہ پلان سے متعلق قوم کو اعتماد میں لیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنے آئیڈیل مہاتیر محمد کی طرح عوام کے سامنے آکر اپنے سو روزہ پلان کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں اور عوام کو سمت کے تعین کے بارے میں آگاہ کرکے روشن مستقل کی نوید سناتے ہیں یا پھر کوئی نئی حکمت عملی پیش کریں گے ،کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی ابھی تک کی کارکردگی عوام سے کئے جانیوالے وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔