پچیس آئینی ترامیم عوامی فلاح کے لیے ایک بھی نہیں

اسمبلی ارکان عوام کے ٹیکس سے تنخواہ پاتے ہیں مگر پچیس آئینی ترامیم میں سے ایک بھی عوامی فلاح سے متعلق نہیں


حیرت انگیز طور پر ان پچیس ترامیم یا قوانین میں ایک بھی عوامی فلاحی قانون کا کوئی ذکر نہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان میں اسمبلی صوبائی ہو یا قومی، سب ایک جیسی ہی ہیں۔ ملک میں اس وقت چودہ اسمبلیاں وقت گزار چکی ہیں او ر پندرہویں اسمبلی نے حلف اٹھا لیا ہے۔ ان سب کے بے شماراجلاس ہو چکے ہیں، مگر ان اجلاسوں میں اب تک عوامی مفاد کا کوئی بل پاس نہ ہو سکا۔ ہر اجلاس میں اسمبلی ممبران کے آپس کے جھگڑے ایک پارٹی ممبران کے دوسری پارٹی ممبران پر سیاسی حملے، ایک دوسرے پر الزامات، تحاریک استحقاق، یا اپنے مفادات کے بل (جو فوراً پاس ہو جاتے ہیں) پر کام ہوتا ہے۔ جبکہ یہ ممبران عوام کے ٹیکس سے بھاری تنخواہیں، آنے جانے کا بزنس کلاس کا کرایہ، اسمبلی حال میں بیٹھنے کی یومیہ کے حساب سے مزدوری، اور ان کا اسمبلی حال میں چائے پانی اور لنچ ڈنر حکومت کے ذمہ ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ اتنا کچھ لے کر عوام کو کیا دیتے ہیں؟

1973 کے آئین میں اب تک پچیس ترامیم ہو چکی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

پہلی ترمیم 1974 میں کی گئی جس میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے طور پر تسلیم کیا گیا، اور پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کرنے کا جائزہ لیا گیا۔

دوسری ترمیم بھی دسمبر 1974 میں کی گئی جس میں قادیانیوں (احمدیوں) کو اقلیت قرار دیا گیا۔

تیسری ترمیم 18 فروری 1975 میں کی گئی جس میں دفعات کے متعلق نمبر تبدیل کیے گئے۔ مثلاً چار کی جگہ پانچ اور دو کی جگہ چار کیا گیا۔

چوتھی ترمیم میں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کا جائزہ لیا گیا اور سنگین جرائم میں قبل از گرفتاری کیس میں عدالتی اختیارات کو کم کیا گیا، یا ختم کر دیا گیا ہے۔

پانچویں ترمیم کی رو سے پاکستان کی تمام صوبائی عدالت عالیہ سے وہ تمام اختیارات واپس لے لیے گئے جن کی مدد سے کوئی بھی عدالت کسی شخص کے بنیادی انسانی حقوق کے فیصلے کر سکتی تھی۔ یہ ترمیم 5 دسمبر 1976 کو کی گئی۔

چھٹی ترمیم 22 دسمبر 1976 کو کی گئی جس کے تحت عدالت عظمیٰ کے منصب اعظم کے حوالے سے یہ نکات داخل کیے گئے کہ منصف اعلیٰ 65 سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہوںگے، اور صوبائی عدالت عالیہ کے منصب اعظم 62 سال کی عمر میں لازماً ریٹائرڈ ہونگے۔

ساتویں ترمیم 1977 میں کی گئی جس کی رو سے وزیر اعظم کو یہ حق دیا گیا کہ وہ صدر پاکستان کی اجازت سے ایک قومی ریفرنڈم کے ذریعے ملک میں عوامی اعتماد کا ووٹ لے سکتا ہے۔ یہ ترمیم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں کی گئی۔

آٹھویں ترمیم 1985 میں کی گئی جس سے حکومت پاکستان پارلیمانی طرز حکومت سے جزوی طور پر صدارتی طرز حکومت میں تبدیل ہوگئی، جس کی رو سے صدر مملکت جب سمجھیں کہ وزیر اعظم نظام حکومت کو درست طور پر نہیں چلا رہے تو صدر مملکت اسمبلی کو برخواست کر سکتے ہیں۔

نویں ترمیم کا بل سینٹ میں منظور ہوا، اسے 17اگست 1986 میں قومی اسمبلی میں بھیج دیا گیا جسے شریعہ بل کانام دیا گیا۔

دسویں ترمیم کے تحت علاقوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا گیا۔

گیارویں ترمیم کے تحت نواز شریف صاحب کی حکومت نے مخصوص نشستوں میں جو اضافہ کیا تھا اسے واپس لے لیا گیا۔

بارہویں ترمیم 26 جولائی 1994 کو کی گئی اور آئین میں شق نمبر 212 کا اضافہ کیا گیا جس کے تحت سنگین جرائم کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا۔

تیرہویں ترمیم 1997 میں نواز شریف کی حکومت نے منظور کی تھی۔ اس ترمیم کی رو سے صدر مملکت کے اختیارات برائے تحلیل اسمبلی ختم ہوگئے۔

چودھویں ترمیم کی رو سے نواز شریف کی حکومت نے وفاداریاں تبدیل کرنے اور ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کی کوشش کی تھی۔

پندرہویں ترمیم کے تحت نواز شریف کی حکومت نے کلی اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کی۔

سولہویں ترمیم کی رو سے نوازشریف نے کوٹہ سسٹم کی میعاد بیس سال سے بڑھا کر چالیس سال کر دی۔

سترہویں ترمیم دسمبر 2003 میں ہوئی۔ اس ترمیم کی رو سے صدر مملکت کے اختیارات کی واپسی اور ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنایاگیا۔

اٹھارہویں ترمیم 18 اپریل 2010 کو کی گئی، اس وقت آصف علی زرداری صدر مملکت تھے۔ اس ترمیم کی رو سے صدارتی اختیارات وزیراعظم کو واپس کیے گئے۔

انیسویں ترمیم کی رو سے اسلام آباد ہائی کورٹس کا قیام اور ججز کی تقرری عمل میں لائی گئی۔

بیسویں ترمیم کا مقصد ایک آزاد الیکشن کمیشن کا قیام اور ایک غیر جانب دار عبوری حکومت کا قیام ہے۔

اکیسویں ترمیم کی رو سے سانحہ اے پی ایس کے بعد ملٹری کورٹس متعارف کروائی گئیں جن کی مدت دو سال تھی۔

بائیسویں ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اہلیت کا دائرہ کار تبدیل کیا گیا۔ اس کی رو سے بیوروکریٹس اور ٹیکنو کریٹس بھی الیکشن کمیشن کے ممبر بن سکیں گے۔

تیئسویں ترمیم ملٹری کورٹس کی مدت دو سال کے لیے تھی جو 6 جنوری 2017 کو ختم ہو رہی تھی، اس کو دو سال کے لیے مزید توسیع دی گئی؛ اب ملٹری کورٹس 6 جنوری 2019 تک کام کر سکیں گی۔

چوبیسویں ترمیم میں نئی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کو دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے۔

پچیسویں ترمیم سے فاٹا کو صوبہ کے پی کے میں ضم کرنے کے لیے صدرمملکت پاکستان نے 31 مئی 2018 میں دستخط کیے۔

حیرت انگیز طور پر ان پچیس ترامیم یا قوانین میں ایک بھی عوامی فلاحی قانون کا کوئی ذکر نہیں۔ جبکہ اسمبلی ارکان عوام کی طرف سے ادا کیے گئے ٹیکس سے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ جس کام کے لیے یہ لوگ منتخب ہوتے ہیں، وہ کام تو کرتے نہیں؛ البتہ سڑکیں گلیاں بناتے ہیں جس کے لیے بلدیاتی ادارے پہلے سے موجود ہیں۔

اس لیے ان سے گزارش ہے کہ یہ اپنا کام کریں، دوسروں کے کام میں مداخلت نہ کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں