گلوبل وارمنگ اور امریکا کا کردار
امریکا کو اپنے خود غرضانہ مفادات میں تھوڑی سی کمی بھی منظور نہیں ہے دنیا بے شک تباہ ہوتی رہے۔
گلوبل وارمنگ (یعنی عالمی حدت) میں اضافے پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن بین الاقوامی معاہدوں کا ڈول ڈالنے کے باوجود صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے اس ضمن میں کوئی نہ کوئی رخنہ اندازی کر دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ''رپھڑ'' ڈالنے میں امریکا بہادر سب سے آگے ہے جو معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود کسی نہ کسی بہانے سے معاہدے سے نکل جاتا ہے۔
پیرس معاہدے سے امریکا کا اخراج اس کی ایک بڑی مثال ہے تاہم اب اقوام متحدہ نے پوری دنیا پر زور دیا ہے کہ گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر کو اپنی کوششوں میں دگنا نہیں بلکہ تین گنا اضافہ کر دینا چاہیے، بصورت دیگر حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
ایک بات تو واضح ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی و خوشحالی اور دنیا کے دیگر ممالک سے برتری کی بنیاد اس کی انڈسٹری ہی ہے اور دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ انڈسٹری کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ ان کے کارخانے جو چوبیس گھنٹے چلتے ہیں اور گلوبل وارمنگ میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔
پیرس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ عالمی حدت میں تھوڑی سی کمی تو ضرور پیدا کی جائے اور صنعتی ممالک اس معاہدے پر آمادہ ہو گئے مگر عین وقت پر امریکا نے معاہدے سے نکل کر اپنی پرانی روش جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ عالمی حدت میں اضافے سے دنیا بھر کے موسم تبدیل ہو رہے ہیں، جہاں بارشیں ہوتی تھیں وہاں اب گردوغبار کے طوفان اٹھتے ہیں اور تو اور جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ ہے۔
پیرس معاہدے میں کوشش کی گئی کہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں بے شک رتی بھر کی حدت میں بھی اگر کمی کر دی جائے تو اس کرہ ارض یعنی ہماری زمین پر دوزخ کا عذاب کچھ کم ہو سکے گا۔ مگر چونکہ اس مقصد کے لیے امریکا بہادر کو اپنی اسلحہ سازی کے کارخانے تھوڑا مدھم کرنا پڑیں گے لیکن امریکا کو اپنے خود غرضانہ مفادات میں تھوڑی سی کمی بھی منظور نہیں ہے دنیا بے شک تباہ ہوتی رہے۔
اس کا سب سے زیادہ بوجھ ترقی پذیر اور غریب ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے حالانکہ عالمی حدت میں اضافہ میں ان ممالک کا کوئی کردار نہیں یا اگر ہے بھی تو بے حد معمولی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی حدت میں کمی کے لیے خرچ ہونے والے اقتصادی اخراجات میں کمی کی تجویز نہایت ڈھٹائی سے مسترد کر دی ہے۔
پیرس معاہدے سے امریکا کا اخراج اس کی ایک بڑی مثال ہے تاہم اب اقوام متحدہ نے پوری دنیا پر زور دیا ہے کہ گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر کو اپنی کوششوں میں دگنا نہیں بلکہ تین گنا اضافہ کر دینا چاہیے، بصورت دیگر حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔
ایک بات تو واضح ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی و خوشحالی اور دنیا کے دیگر ممالک سے برتری کی بنیاد اس کی انڈسٹری ہی ہے اور دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ انڈسٹری کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ ان کے کارخانے جو چوبیس گھنٹے چلتے ہیں اور گلوبل وارمنگ میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔
پیرس معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ عالمی حدت میں تھوڑی سی کمی تو ضرور پیدا کی جائے اور صنعتی ممالک اس معاہدے پر آمادہ ہو گئے مگر عین وقت پر امریکا نے معاہدے سے نکل کر اپنی پرانی روش جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ عالمی حدت میں اضافے سے دنیا بھر کے موسم تبدیل ہو رہے ہیں، جہاں بارشیں ہوتی تھیں وہاں اب گردوغبار کے طوفان اٹھتے ہیں اور تو اور جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ ہے۔
پیرس معاہدے میں کوشش کی گئی کہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں بے شک رتی بھر کی حدت میں بھی اگر کمی کر دی جائے تو اس کرہ ارض یعنی ہماری زمین پر دوزخ کا عذاب کچھ کم ہو سکے گا۔ مگر چونکہ اس مقصد کے لیے امریکا بہادر کو اپنی اسلحہ سازی کے کارخانے تھوڑا مدھم کرنا پڑیں گے لیکن امریکا کو اپنے خود غرضانہ مفادات میں تھوڑی سی کمی بھی منظور نہیں ہے دنیا بے شک تباہ ہوتی رہے۔
اس کا سب سے زیادہ بوجھ ترقی پذیر اور غریب ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے حالانکہ عالمی حدت میں اضافہ میں ان ممالک کا کوئی کردار نہیں یا اگر ہے بھی تو بے حد معمولی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی حدت میں کمی کے لیے خرچ ہونے والے اقتصادی اخراجات میں کمی کی تجویز نہایت ڈھٹائی سے مسترد کر دی ہے۔