حکومت رے حکومت تیری کون سی کل سیدھی
آج حقیقتاً ’’نئے عوامی معاشی معاہدے‘‘ کی (ریاست) ملک اور عوام کے درمیان شدید ضرورت ہے۔
بہت سے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت مڈل کلاس کی حکومت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے جاگیرداروں، سرمایہ کاروں اور ہائی (اونچے) مڈل کلاس کے لوگوں کی حکومت ہے، اگر ایک آدھ غریب مڈل کلاس والا ان کے ساتھ ہو تو الگ بات ہے۔
آج بھی تمام اداروں کے سربراہ اشرافیہ طبقے کے لوگ ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کا طریقہ واردات الیکشن مہم میں ایک دوسرے پر بھرپور الزامات لگانا ہوتا ہے اور وہ عوام سے وعدے کرتے ہیں اس کے بعد جو پارٹی حکومت بناتی ہے وہ گزشتہ حکومت پر خزانہ خالی چھوڑنے کا الزام لگا کر عوامی خزانہ بھرنے کے نام پر عوام پر ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار شروع کر دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں عوامی قوت خرید پر بوجھ در بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
تحریک انصاف ہو یا گزشتہ دور کی تمام حکومتیں ہوں ان تمام نے ملکی تمام اداروں کو تباہ کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔21 نومبرکو ایکسپریس کے صفحہ اول پر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے حوالے سے خبرمیں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں اس کمیٹی نے پاکستان کے تاجروں کو 5 لاکھ ٹن گندم ایکسپورٹ (برآمد) کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ای سی سی نے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی جانب سے اضافی گندم کی ایکسپورٹ سے متعلق تجویز کا جائزہ لیا۔ جس میں پنجاب و سندھ کی صوبائی حکومتوں اور پاسکو نے گندم اور گندم کی مصنوعات کی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت مانگی۔
صرف گندم کے معاملے میں بہت سے لوگوں نے حصہ لیا، لیکن ان تمام افراد میں سے کسی ایک نے بھی عوامی مشکلات کا نہ تو جائزہ لیا کہ عوام کس طرح جی رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اضافی گندم کو ملکی مارکیٹ میں لے آتی تو عوام کو سستی گندم کی شکل میں ریلیف مل جاتا۔ عام ہوٹلوں میں غریبوں کو مقررہ معیارکے وزن کی روٹی مل جاتی، عوام کو سستا آٹا مل جاتا۔ تحریک انصاف کا یہ عوامی خوشحالی کا معمولی وعدہ بھی پورا ہوجاتا، لیکن تحریک انصاف نے یو ٹرن لیا ہے اور ہٹلرودیگر لیڈروں کے لیے کہا کہ انھوں نے یو ٹرن نہ لے کر نقصان کیا۔ عمران خان! تم نے یو ٹرن لے کر عوام کو بڑا دھوکا دیا ہے۔
جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے ہر چیز پر ان ڈائریکٹ ٹیکس لگائے جانے سے تمام ملکی اشیا مہنگی ہوگئی ہیں چکی کا آٹا 47 روپے سے 50 روپے تک ایک کلو گرام ہو چکا ہے، کھانے کا تیل، دالیں، چینی، مرغی، بڑا گوشت و دیگر کچن کی کھانے کی تمام اشیا مہنگی ہوگئی ہیں۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ غربت زدہ عوام کا معیار زندگی اوپر اٹھائے گی لیکن اس کے بعد ہوٹلوں پر روٹیوں کے وزن میں کمی کر دی گئی ہے۔ یعنی قیمت بڑھانے کی بجائے روٹی سکڑگئی ہے۔
قیمتوں کا قد بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت تمام اشیا کی مہنگائی ختم کرنے اور اسے کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ حتیٰ کہ حجاموں نے اپنے ریٹ بڑھا دیے ہیں اسی طرح دیگر کام کرنے والوں نے بھی ریٹ بڑھا دیے ہیں۔ دوسری طرف لا اینڈ آرڈر کے نام پر پورے ملک میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف بھرپور آپریشن جاری ہے۔ ایمپریس مارکیٹ، جامع کلاتھ، فریم مارکیٹ، دوپٹہ گلی، لیاقت آباد سپر مارکیٹ کے علاوہ لائٹ ہاؤس، نالے اور دیگر جگہوں فٹ پاتھوں سے دکانیں گرادی گئی ہیں اگر قائد اعظم اور شہید ملت لیاقت علی خان کے عوامی ملک عوامی خدمت یعنی تمام ادارے عوام کے تابع ہونے چاہئیں کے نظریے پر عمل کیا جاتا تو عوام کو یہ دکھوں، مصیبتوں کے دن دیکھنے نہ پڑتے۔
میجر جنرل سکندر مرزا، جنرل ایوب خان، محمد علی بوگرا، فیروز خان نون، چوہدری محمد علی سمیت سول و ملٹری بیورو کریسی نے عوام کو اپنا غلام بنائے رکھنے پر عمل کیا ۔ ملکی معیشت کو عوام کے تابع کرنے کی بجائے اپنے تابع کرنے کے ساتھ عوام اور معیشت کو امریکی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دینے کا کردار ادا کیا۔ ملک کے تمام بجٹوں کو امریکا کی غلامی میں بنایا اور تیار کیا گیا۔ اسی روش پر اب تک تمام ملکی ادارے چلتے آئے ہیں۔
راقم الحروف نے جب راولپنڈی میں 4 نومبر سے 6 نومبر 1999ء کے دوران ملکی معاشی آزادی، ملکی دفاع کی آزادی کی بات کی تو کسی نے بھی اس بات کی حمایت نہیں جب ملکی اور عوامی معاشی آزادی بحال ہو گی تو پھرملک ترقی کرے گا، بلکہ الٹا دھمکایا گیا یہ سب کو علم ہے کہ لیاقت علی خان کوجاگیرداروں نے امریکا، برطانیہ و دیگر کے ایما پرراولپنڈی میں قتل کیا تھا۔ اس کے بعد یہ جاگیردار طبقہ مادر پدر آزاد ہو کر اپنے مفاد کے لیے ملکی وسائل اور عوامی حقوق غصب کرنے لگا تو آج تک ایسا ہو رہاہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے ہم وطنوں سے غداری کے صلے میں غلام ہندوستان میں ان غداروں کو جاگیریں دیں۔
جاگیروں کو پہلی مرتبہ ذاتی ملکیت قرار دیا گیا۔ آج تک انھی جاگیرداروں کی اولادیں پاکستان کے عوام اور عوامی وسائل پر قابض وحاکم بنتے آ رہے ہیں۔ بڑے دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج عوام کوقربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے، اگر حکمران انگریزوں کی بخشش میں دی ہوئی جاگیروں کی قربانی ملکی مفاد میں دے دیں تو ملک پر کوئی قرض ہی نہ رہے نہ ہی ملک در ملک بھیک مانگنی پڑے۔ اسد عمر وزیر خزانہ کاروباری شخص ہیں، اگر یہ ایمانداری سے صرف اور صرف چین کی طرح ڈالر کو نکیل ڈال دے تو باہر منتقل ہونے والا سرمایہ جو امپورٹ کی شکل میں ہو رہا ہے وہ رک جاتا۔ ڈالر کو جنس بناکر ملکی مارکیٹ کو تباہ کیا جارہاہے اور ایسا کرنے والے کون ہیں یہ سب معاشی ماہرین جو حکومت کا حصہ ہیں ان کو پتہ ہے۔ کرپشن کی جڑ موجودہ معاشی سسٹم ہے۔
آج حقیقتاً ''نئے عوامی معاشی معاہدے'' کی (ریاست) ملک اور عوام کے درمیان شدید ضرورت ہے۔ انگریزوں کے دور میں ایک پرچون کی دکان کھولنے کے لیے لائسنس لینا پڑتا تھا۔ انگریز منصوبہ بندی کرتے تھے جو ان کے مفاد میں ہوتی تھی، ہمارے ہاں کاغذی منصوبہ بندیاں آئے روز ہوتی ہیں لیکن عملاً صفر ہی نظر آتا ہے۔ معاشی ماہرین کی ٹیم اسد عمر سمیت کوئی عوامی خوشحالی کی عملاً تبدیلی نہیں لاسکے۔ چین، سعودی عرب ودیگر یا آئی ایم ایف سے قرض لینا یا مدد کے نام پر قرض لینا عوام کے لیے کوئی خوشحالی کا پیغام نہیں ہے۔ کیونکہ قرض ادائیگی جلد یا دیرسے عوام کی قوت خرید (جیب) سے ہی کی جائے گی۔ دوسرا عوامی سرمایہ امپورٹ کی شکل میں باہر منتقل ہو رہا ہے تیسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیاں مادر پدر آزاد ہو کر عوامی قوت خرید لوٹ رہی ہیں۔
خون میں چکنائی کی ایک قسم کوکنٹرول کرنے والی دوائی Pitaloa ایک ملی گرام کی گولیوں کا ایک پیکٹ جس میں 10 گولیاں ہوتی ہیں۔ اس کی بنانے کی تاریخ نومبر 2017ء تھی اور ایکسپائرنگ تاریخ نومبر 2018ء تھی اس ایک پیکٹ کی قیمت 119 روپے تھی۔ اس کے ساتھ یہی گولی کا پیکٹ جس پر بنانے کی تاریخ 10 اگست 2018ء رہے اس کی ایکسپائرنگ تاریخ 9اگست 2020ء لکھی ہوئی ہے۔ اس کی قیمت 150 روپے کر دی گئی ہے۔ اس طرح ان گولیوں کی قیمت ایک پیکٹ 10 گولیوں کی قیمت میں یکدم 131 روپے بڑھا دیے گئے ہیں۔ اسی طرح دیگر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کیا تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) و دیگر پارٹیوں کے جاگیردار، سرمایہ دار عوام کے لیے عوامی ترقی کا یہی معیار برقرار رکھیں گے جو 16 اکتوبر 1951ء کے بعد سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی سول و ملٹری بیوروکریسی نے عوام کی ترقی کے لیے جس انتظامی و سیاسی ڈھانچے کی بنیاد رکھی تھی۔