ذکر ان تجاوزات کا
ہمارے یہاں یہ ایک بڑی خرابی ہے جب لوگ اپنی کارروائی شروع کرتے ہیں اسی وقت انھیں روک دینا چاہیے۔
حال ہی میں تجاوزات کے خلاف مہم میں ہونے والی کارروائی میں صدر کے علاقے میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو نظر آرہی ہے جب ایمپریس مارکیٹ کے اردگرد ایک ہزار سے زائد دکانوں کو گرا دیا گیا، جس سے کپڑے، پرندے اور ڈرائی فروٹس کی مارکیٹ ختم کر دی گئی۔ یہ ایک بہت بڑا دلیرانہ قدم تھا جو کراچی شہر کو تجاوزات سے صاف کرنے میں سب سے اہم تھا۔ اس عمل کے خلاف خاصے احتجاج بھی کیے گئے لیکن کارروائی کرنے والوں کی ہمت اور ارادے اس قدر بلند تھے کہ بلڈوزر چلتے گئے۔
ایمپریس مارکیٹ کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ 1884ء میں اس کی بنیاد جیمس فرگوسن نے رکھی جب کہ اس کا نام ملکہ وکٹوریہ کے نام پر یعنی کوئن وکٹوریہ ایمپریس آف انڈیا پر رکھا گیا۔اس زمانے میں یہ باقاعدہ بازارکی ایک جدید طرز تھی جہاں ایک چھت کے نیچے مختلف قسم کی اشیا فروخت کے لیے دستیاب تھیں ۔ ایک طرح سے اسے آج کل کی سپر مارکیٹ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن گزرتے وقت نے جس بدصورتی سے ماضی کے اس سپرمارکیٹ کا برا حال کیا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اچھے لوگ ایمپریس مارکیٹ کے نزدیک سے بھی گزرتے گھبراتے تھے، یہ ایک خوبصورت مشرقی و مغربی فن تعمیرکا شاہکار تھا جس میں چار وسیع گیلریاں بنائی گئیں جو چھیالیس فٹ چوڑی تھی ان میں اندازاً 280 دکانوں اور اسٹالزکی گنجائش تھی، ایک وسیع احاطہ بھی تھا، اسی مارکیٹ سے ملحق ایک پارک بھی ہے جسے جہانگیر پارک کہتے ہیں۔
ایمپریس مارکیٹ سے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ یہ 1857ء کی جنگ آزادی میں کام آنے والے ان سپاہیوں کی یادگار ہے جنھوں نے اپنی جانیں اس جنگ میں گنوائیں۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ کسی زمانے میں اس مارکیٹ میں یا اس کے اردگرد کہیں وہ توپیں بھی نصب تھیں جنھیں ان سپاہیوں کے جسموں کو اڑانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، اب وہ توپیں تو نہ رہیں البتہ چند روز پیشتر بلڈوزر ضرور گڑگڑائے تھے۔
ستر کی دہائی میں صدر کا علاقہ ایسا ہرگز نہ تھا جیسا حالیہ کارروائی سے پہلے تھا۔ اب تو صفائی کروائی جا رہی ہے لیکن پہلے ایسے ہرگز نہ تھا، ایمپریس مارکیٹ میں بہت اچھی تھوک کی دکانیں تھیں جہاں شہر بھر سے لوگ اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے آتے تھے، گھریلو مصالحہ جات، پان چھالیہ، مچھلی، گوشت اور بہت کچھ یہاں تھا پرانی قدریں لوگوں میں ابھی زندہ تھیں ،شاید اسی زمانے میں لوگوں نے اس کے اردگرد طفیلیوں کی مانند گھر کرنا شروع کر دیا تھا۔ اگر ان دکانوں کو اس جگہ کی قیمت اور معیار کے مطابق بیچا جاتا تو یقینا آج وہ کروڑوں روپے کی دکانیں ہیں۔کیا اس طرح کی کارروائیاں اچھی نہیں ہیں؟
اچھی تو ہیں لیکن شاید یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا، ہمارے یہاں یہ ایک بڑی خرابی ہے جب لوگ اپنی کارروائی شروع کرتے ہیں اسی وقت انھیں روک دینا چاہیے لیکن جب سال گزر جاتے ہیں تو لوگ اس جگہ کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ یہ بات الگ ہے کہ اس جگہ سے وہ لاکھوں کروڑوں کما چکے ہیں لیکن پھر بھی غریب کہتے ہیں، آج کسی دور دراز کے علاقے میں بھی کسی دکان کے بارے میں پتہ کریں کہ کتنی قیمت ہے اس کی۔ بات پھر وہیں سے اٹھتی ہے کہ پہلے قدم پر ہی سختی سے کارروائی کی جائے لیکن پہلے ہمارے یہاں ایسا کوئی تصور نہ تھا البتہ ایک زمانے میں کراچی کے سینٹرل کے علاقے بڑے بڑے نالوں پر لوگوں نے تعمیرات کر رکھی تھیں دکانیں، گھر اور نجانے کیا کچھ تھا جو سڑک کے کنارے آباد تھا۔
اس طرح جو اصل جائز تعمیرات کے مالک تھے انھیں سخت دقت کا سامنا تھا خدا خدا کر کے حکومت نے کارروائی کی اور یہ دو حصوں میں ہوئی یعنی ایک کارروائی ستر کی دہائی میں ہوئی جس میں نالوں پر سے دکانیں اٹھائیں جو ناجائز تھیں لیکن پھر دس پندرہ سال بعد ان ناجائز گھروں کو بھی توڑ دیا گیا جو نالوں اور سڑکوں کے اطراف فٹ پاتھوں کو گھیرے ہوئے تھے آج سائٹ کے علاقے جاتے ہوئے آپ کو چوڑی سڑک نظر آئے گی انڈر پاس، فلائی اوورز ہیں یہ سب ان ناجائز تجاوزات کی موجودگی میں ممکن نہ تھیں۔
ایک سینئر سٹیزن ہونے کے ناتے اب کیا خیال ہے آپ کا کہ کیا ایسی کارروائیاں جاری رہنی چاہئیں یا کچھ عرصے بعد پھر سے سب ویسا ہی ہو جائے گا۔
جو علاقہ میں نے ابھی بتایا ہے سڑکوں کے حوالے سے وہاں اب تک بہتر صورتحال ہے لیکن پھر بھی اندر لوگ اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں، یہاں تک کہ لوگوں نے پچھلی گلی میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ ایسا کرنے ہی نہ دیں جو لوگوں کو احتجاج کرنے اور مشتعل ہونے پر ابھارے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور میں فیروز پور روڈ کی جانب اسی طرح کی کارروائی ہوئی پر لوگوں نے کس قدر شدید احتجاج کیا کیونکہ انھوں نے اس کو اپنا حق سمجھ رکھا تھا ایک بات اور بھی ہے کہ اس قسم کی کارروائیاں شہر کے اندر ہو رہی ہیں لیکن ان علاقوں کے بارے میں حکومت کا کیا عمل ہونا چاہیے جہاں قبضہ مافیاز نے پوری پوری سوسائٹی کی زمین پر ناجائزگوٹھ بنا رکھے ہیں جب کہ وہ زمین لوگوں نے اپنے حق حلال کی جمع پونجی سے خریدی ہیں۔
اگر ان زمینوں کے لیے بھی ایسی سخت کارروائیاں ہوں تو بہت اچھا ہوگا۔ لیکن ایسا بھی نہ کریں کہ جو بازار جنھیں بچت بازار کہا جاتا ہے اسے روکا جائے اس طرح غریبوں کے روزگار کے مسائل پیدا ہوں گے کیونکہ بدھ، جمعہ، جمعرات، اتوار، منگل بازار جو مختلف بازار کے نام سے لگتے ہیں ان لوگوں کے لیے جن کی اپنی کوئی دکان نہیں ہے لیکن وہ ان بازاروں سے کماتے ہیں اسی طرح لوگوں کو بھی ذرا کم قیمت میں اشیا ضرور مل جاتی ہیں۔ کیا ان بازاروں کا تعلق بھی تجاوزات سے ہے اس بات پر بھی غور کر لیں تو بہتر ہے۔
ایمپریس مارکیٹ کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ 1884ء میں اس کی بنیاد جیمس فرگوسن نے رکھی جب کہ اس کا نام ملکہ وکٹوریہ کے نام پر یعنی کوئن وکٹوریہ ایمپریس آف انڈیا پر رکھا گیا۔اس زمانے میں یہ باقاعدہ بازارکی ایک جدید طرز تھی جہاں ایک چھت کے نیچے مختلف قسم کی اشیا فروخت کے لیے دستیاب تھیں ۔ ایک طرح سے اسے آج کل کی سپر مارکیٹ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن گزرتے وقت نے جس بدصورتی سے ماضی کے اس سپرمارکیٹ کا برا حال کیا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اچھے لوگ ایمپریس مارکیٹ کے نزدیک سے بھی گزرتے گھبراتے تھے، یہ ایک خوبصورت مشرقی و مغربی فن تعمیرکا شاہکار تھا جس میں چار وسیع گیلریاں بنائی گئیں جو چھیالیس فٹ چوڑی تھی ان میں اندازاً 280 دکانوں اور اسٹالزکی گنجائش تھی، ایک وسیع احاطہ بھی تھا، اسی مارکیٹ سے ملحق ایک پارک بھی ہے جسے جہانگیر پارک کہتے ہیں۔
ایمپریس مارکیٹ سے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ یہ 1857ء کی جنگ آزادی میں کام آنے والے ان سپاہیوں کی یادگار ہے جنھوں نے اپنی جانیں اس جنگ میں گنوائیں۔ سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ کسی زمانے میں اس مارکیٹ میں یا اس کے اردگرد کہیں وہ توپیں بھی نصب تھیں جنھیں ان سپاہیوں کے جسموں کو اڑانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا، اب وہ توپیں تو نہ رہیں البتہ چند روز پیشتر بلڈوزر ضرور گڑگڑائے تھے۔
ستر کی دہائی میں صدر کا علاقہ ایسا ہرگز نہ تھا جیسا حالیہ کارروائی سے پہلے تھا۔ اب تو صفائی کروائی جا رہی ہے لیکن پہلے ایسے ہرگز نہ تھا، ایمپریس مارکیٹ میں بہت اچھی تھوک کی دکانیں تھیں جہاں شہر بھر سے لوگ اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے آتے تھے، گھریلو مصالحہ جات، پان چھالیہ، مچھلی، گوشت اور بہت کچھ یہاں تھا پرانی قدریں لوگوں میں ابھی زندہ تھیں ،شاید اسی زمانے میں لوگوں نے اس کے اردگرد طفیلیوں کی مانند گھر کرنا شروع کر دیا تھا۔ اگر ان دکانوں کو اس جگہ کی قیمت اور معیار کے مطابق بیچا جاتا تو یقینا آج وہ کروڑوں روپے کی دکانیں ہیں۔کیا اس طرح کی کارروائیاں اچھی نہیں ہیں؟
اچھی تو ہیں لیکن شاید یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا، ہمارے یہاں یہ ایک بڑی خرابی ہے جب لوگ اپنی کارروائی شروع کرتے ہیں اسی وقت انھیں روک دینا چاہیے لیکن جب سال گزر جاتے ہیں تو لوگ اس جگہ کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ یہ بات الگ ہے کہ اس جگہ سے وہ لاکھوں کروڑوں کما چکے ہیں لیکن پھر بھی غریب کہتے ہیں، آج کسی دور دراز کے علاقے میں بھی کسی دکان کے بارے میں پتہ کریں کہ کتنی قیمت ہے اس کی۔ بات پھر وہیں سے اٹھتی ہے کہ پہلے قدم پر ہی سختی سے کارروائی کی جائے لیکن پہلے ہمارے یہاں ایسا کوئی تصور نہ تھا البتہ ایک زمانے میں کراچی کے سینٹرل کے علاقے بڑے بڑے نالوں پر لوگوں نے تعمیرات کر رکھی تھیں دکانیں، گھر اور نجانے کیا کچھ تھا جو سڑک کے کنارے آباد تھا۔
اس طرح جو اصل جائز تعمیرات کے مالک تھے انھیں سخت دقت کا سامنا تھا خدا خدا کر کے حکومت نے کارروائی کی اور یہ دو حصوں میں ہوئی یعنی ایک کارروائی ستر کی دہائی میں ہوئی جس میں نالوں پر سے دکانیں اٹھائیں جو ناجائز تھیں لیکن پھر دس پندرہ سال بعد ان ناجائز گھروں کو بھی توڑ دیا گیا جو نالوں اور سڑکوں کے اطراف فٹ پاتھوں کو گھیرے ہوئے تھے آج سائٹ کے علاقے جاتے ہوئے آپ کو چوڑی سڑک نظر آئے گی انڈر پاس، فلائی اوورز ہیں یہ سب ان ناجائز تجاوزات کی موجودگی میں ممکن نہ تھیں۔
ایک سینئر سٹیزن ہونے کے ناتے اب کیا خیال ہے آپ کا کہ کیا ایسی کارروائیاں جاری رہنی چاہئیں یا کچھ عرصے بعد پھر سے سب ویسا ہی ہو جائے گا۔
جو علاقہ میں نے ابھی بتایا ہے سڑکوں کے حوالے سے وہاں اب تک بہتر صورتحال ہے لیکن پھر بھی اندر لوگ اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں، یہاں تک کہ لوگوں نے پچھلی گلی میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ ایسا کرنے ہی نہ دیں جو لوگوں کو احتجاج کرنے اور مشتعل ہونے پر ابھارے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہور میں فیروز پور روڈ کی جانب اسی طرح کی کارروائی ہوئی پر لوگوں نے کس قدر شدید احتجاج کیا کیونکہ انھوں نے اس کو اپنا حق سمجھ رکھا تھا ایک بات اور بھی ہے کہ اس قسم کی کارروائیاں شہر کے اندر ہو رہی ہیں لیکن ان علاقوں کے بارے میں حکومت کا کیا عمل ہونا چاہیے جہاں قبضہ مافیاز نے پوری پوری سوسائٹی کی زمین پر ناجائزگوٹھ بنا رکھے ہیں جب کہ وہ زمین لوگوں نے اپنے حق حلال کی جمع پونجی سے خریدی ہیں۔
اگر ان زمینوں کے لیے بھی ایسی سخت کارروائیاں ہوں تو بہت اچھا ہوگا۔ لیکن ایسا بھی نہ کریں کہ جو بازار جنھیں بچت بازار کہا جاتا ہے اسے روکا جائے اس طرح غریبوں کے روزگار کے مسائل پیدا ہوں گے کیونکہ بدھ، جمعہ، جمعرات، اتوار، منگل بازار جو مختلف بازار کے نام سے لگتے ہیں ان لوگوں کے لیے جن کی اپنی کوئی دکان نہیں ہے لیکن وہ ان بازاروں سے کماتے ہیں اسی طرح لوگوں کو بھی ذرا کم قیمت میں اشیا ضرور مل جاتی ہیں۔ کیا ان بازاروں کا تعلق بھی تجاوزات سے ہے اس بات پر بھی غور کر لیں تو بہتر ہے۔