افغانستان سے امریکی انخلاء نئی تباہی لانے والا ہے

کاروبار میں غیر معمولی مندی کا سلسلہ ابھی سے شروع ہو گیا ہے، لوگ ایک اور خانہ جنگی کے خطرے کو محسوس کر رہے ہیں

کاروبار میں غیر معمولی مندی کا سلسلہ ابھی سے شروع ہو گیا ہے، لوگ ایک اور خانہ جنگی کے خطرے کو محسوس کر رہے ہیں. فوٹو : فائل

پچھلے دنوں نیٹو افواج کی جانب سے بیان آیا کہ افغانستان کو امداد کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہاں پر لڑی گئی بارہ سالہ جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ افغان جنگ سے متعلقہ ملکوں اور دیگر اداروں میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ 2014ء میں جب نیٹو اور دیگر اتحادی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی تو جنگ سے تباہ حال اس ملک میں کیا صورتحال جنم لے گی۔کیا افغانستان میں طالبان اور دیگر جنگجوؤں کے حملے تیز ہوجائیں گے۔مقامی افغان حکومت خود کو سنبھال سکے گی اور کیا افغانستان معاشی طورپر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر اس قابل ہوسکے گاکہ اپنے شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرسکے اور یوں ان کو تشدد اور قتل وغارت سے دور رکھ سکے یا انہیں طالبان بننے سے روک سکے۔فی الحال تو ایسی کوئی صورتحال دکھائی نہیں دے رہی۔

فوجی بوٹوں کے ان چار لاکھ جوڑوں کو اس وسیع و عریض شیڈ میں پڑے دیکھنا بہت عجیب سا دکھائی دیتا تھا۔یہ لاکھوں فوجی بوٹ شاید کبھی بھی پہنے نہ جاسکیں۔یہ کابل کی ملی فیکٹری کاشیڈ تھاجہاں پر یہ فوجی بوٹ گرد سے اٹے پلاسٹک کے بیگوں میں رکھے گئے تھے تاکہ یہ ان فوجیوں کو بھیجے جاسکیں جن کے لیے یہ تیار کیے گئے تھے۔تاہم امریکی حکومت کے ساتھ افغان فوجیوں کو بوٹ فراہم کرنے کے معاہدے میں تبدیلی کے بعد شاید ایسا کبھی نہ ہوسکے۔فواد صافی ،جس کے والد نے 1970ء میں یہ فیکٹری قائم کی تھی، اس مشینری کا جائزہ لے رہا تھا جو اس کے خاندان نے بوٹوں کی تیاری کے لیے جرمنی سے درآمد کی تھی۔



''وہ کہتے تھے کہ ہم بوٹوں کی کوالٹی کو بہتر بنائیں لیکن جب ہم نے ایسا کرنے کے لیے جرمنی سے اس قدر مہنگی مشینری منگوائی تو وہ غائب ہوگئے۔''فواد صافی بتا رہا تھا۔

امریکی جریدے ''ٹائم'' کی تازہ اشاعت میں افغانستان کے بارے میں مضمون شائع ہوا ہے جس میں بتایا گیا کہ تین سال قبل ملی شوز فیکٹری کو افغان معیشت کے لیے ایسی مثبت علامت کے طور پر پیش کیا جارہا تھا جو نیٹو کی افواج اور ان کی جنگ افغانستان کے لیے لیکر آئی تھی۔ اب یہ اس بات کی علامت بن چکی ہے کہ نیٹو فوج کے جانے کے بعد افغان معیشت کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔گذشتہ سال امریکہ نے بہت سی دیگر ذمہ داریوں کی طرح افغان سیکورٹی فورسز کو سپلائی کی ذمہ داری بھی افغان حکومت کے سپرد کردی۔ٹھیکے میں رد وبدل ہوا تو ملی فیکٹری میں پروڈکشن رک گئی۔سینکڑوں ملازمین اپنی ملازمتوں سے محروم ہوگئے۔اس طرح صافی خاندان کو بھی ایسا لگا کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے کیونکہ ان کا ٹھیکہ وقت سے پہلے ختم کردیا گیا۔فواد صافی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں آپ ذرا مختلف انداز سے کام کرتے ہیں۔اگر آپ کسی کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں تو آپ کو اسے نبھانا بھی چاہیے۔

سب جانتے ہیں کہ ایسا ہمیشہ نہیں ہوگا۔لیکن اب جبکہ بین الاقوامی فوج کے نکلنے سے پہلے افغانستان سے غیرملکیوں اور ڈالروں کا انخلا شروع ہوچکا ہے تو کابل کے لوگ پریشان ہیں کہ اب ان کاکیا بنے گا۔افغانستان بالخصوص کابل میں معیشت کا زیادہ تر دارومدار جنگ سے متعلقہ صنعت پر ہے۔اس وقت کابل میں اس سے متعلقہ پرکشش ٹھیکے جیسے لاجسٹک فرمز اور پرائیویٹ سکیورٹی اداروں کے کنٹریکٹ ختم کیے جارہے ہیں۔افغانستان کے لیے عالمی امداد میں کمی آنے سے ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے بے روزگار ہورہے ہیں جبکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں پہلے ہی بیروزگاری کی شرح پچاس فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔افغان حکومت نے حال ہی میں تخمینہ لگایا تھا کہ بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی خلیج پر قابو پانے کے لیے اسے پانچ لاکھ ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاہم افغانیوں کو یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوسکے گا اور اگر ہوا بھی تو وقت پر نہیں ہوگا جبکہ انہیں اس وقت ملازمتوں کی اشد ضرورت ہے۔بڑی تعداد میں افغان باشندے اپنا بوریا بستر باندھ رہے ہیں اور ملک کو چھوڑنے کی تیاری کررہے ہیں۔

''ہر افغان کو یقین ہے کہ ایک بہت بڑی معاشی تباہی آنے کو ہے۔ہر کوئی ملک سے نکلنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔'' یہ الفاظ افغانستان میں ہیومن رائٹس واچ کی محقق ہیدر بار کے ہیں۔

امداد نے نکما کردیا
تاہم ہرکوئی قیامت کے اس منظر نامے پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔افغانستان کی معیشت ترقی کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ورلڈ بنک کے مطابق گذشتہ دس سال کے دوران افغانستان کی جی ڈی پی میں اوسطاً دس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔اگرچہ 2001ء میں امریکی اتحادی فوج کے حملے کے بعد سے افغانستان میں کروڑوں ڈالر کی رقم امداد اور سرمایہ کاری کی صورت میں منتقل کی جاچکی ہے جس میںاب بہت کمی آرہی ہے لیکن اس کے اثرات ایک دم راتوں رات میں ختم نہیں ہوجائیں گے۔عالمی امدادی اداروں نے 2016ء تک افغانستان کو سو لہ ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے تاکہ افغان حکومت ایک پرامن ملک کی معیشت کی طرف پیش رفت کرسکے جو ایک ایسی منزل ہے۔



جس کے بارے میں افغان حکومت کا اندازہ ہے کہ اس کو حاصل کرنے میں کم ازکم دس سال کا عرصہ لگے گا۔بڑی تعداد میں افغان باشندوں کاخیال ہے کہ افغانستان میں پرامن حالات تو دور کی بات ، الٹا لگتا ہے کہ بہت بڑا بحران دستک دے رہا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ افغانستان کبھی بھی ایک امیر ملک نہیں رہا اور جنگ کے دوران جو دسیوں ارب ڈالر سول یا فوجی امداد کی صورت میںآتے رہے ہیں ، انہوں نے لوگوں میں غیرحقیقی توقعات کو جنم دیا۔''ٹائم'' سے گفتگو کرتے ہوئے افغان وزیرخزانہ عمر زخلوال کا کہنا تھا کہ ہمیں کبھی ایسی توقعات نہیں رکھنی چاہیے تھیں کہ امداد ہمیشہ آتی رہے گی لیکن جس طرح یہ امداد دی گئی اس نے افغان حکومت اور لوگوں میں انحصار کا رجحان پیدا کردیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس انحصار کے رجحان کو ختم کرنا ہے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ جتنی چادر ہے اس کے مطابق پاؤں پھیلائے جائیں۔لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ ایسا کیسے ہوگا اور یہ کہ اگلے سال جب افغانستان سے غیرملکی فوجیں واپس چلی جائیں گی تو کیا ہوگا۔

پراپرٹی کا کاروبار
2014ء کے بارے میں افغانیوں کی رائے کیا ہے اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آپ کس سے بات کررہے ہیں۔بعض لوگ 2014ء کے بارے میں بات کرتے ہوئے لرزتے دکھائی دیتے ہیں اور بعض لوگ بہت زیادہ پُرامید ہیں لیکن ایک چیز پر سب متفق ہیں کہ وقت ایک سا نہیں رہے گا اور بہت بڑی تبدیلی آئے گی ۔یہ تبدیلی کیسی ہوگی ، اس کا پتہ چلانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔پورے کابل میں بے شمار گھروں اور رہائشوں اور ہوٹلوں کے کمروں کے باہر ''کرائے پر خالی ہے'' کے بورڈ آویزاں ہیں۔کابل کے وسط میں محفوظ دروازے والا ہوٹل ہے جس میں 35 کے قریب کمرے ہیں۔اس کے علاوہ اس حویلی نما ہوٹل میں سوانا باتھ ، ورل پول اور سیف روم بھی ہے۔یہ ہوٹل ایک غیرملکی سیکورٹی کمپنی نے پچاس ہزار ڈالر ماہانہ لے رکھا تھا لیکن اب یہ ہوٹل گذشتہ ایک سال سے خالی پڑا ہے( پرائیویٹ سیکورٹی کا کنٹرول اب افغان سیکورٹی فورسز اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے اور غیرملکی کمپنیاں واپس لوٹ رہی ہیں)۔اس حویلی نما ہوٹل کا مالک اب اسے بیس ہزار ڈالر ماہانہ پر دینے کے لیے تیار ہے لیکن پھر بھی کوئی گاہک نہیں مل رہا۔

''تین سال پہلے ہم گھروں کی تلاش میں تھے۔'' کابل میں جائیدادوں کے کاروبار سے وابستہ نوین رئیل اسٹیٹ کے نقیب اللہ شیرانی کاکہنا تھا۔

نقیب اللہ شیرانی نے اس وقت کاروبار کا آغاز کیا تھا جب شہر پر غیرملکی امداد اور گرانٹس کی بارش ہورہی تھی۔لیکن اب شیرانی کا کہنا ہے کہ ان کی فروخت چالیس فیصد تک کم ہوچکی ہے۔ غیرملکی گاہک کوٹھیاں اور بنگلے کرائے پر نہیں لے رہے۔یہاں تک کہ وہ افغان باشندے بھی پراپرٹی نہیں خرید رہے جو اس کے متحمل ہیں اور ان کے پاس پیسے بھی موجود ہیں ۔ یہ افغان اگلے سال کا انتظار کررہے ہیں کہ اس وقت حالات کیا ہوتے ہیں جب غیرملکی افواج ملک سے نکل جائیں گی۔شیرانی کاکہنا تھا کہ اس وقت وہ ایک پائی بھی نہیں کمارہے تاہم وہ اس کے باوجود بقاء کی کوشش جاری رکھیں گے۔

ہر اقتصادی شعبہ زوال پذیر
افغان وزیرخزانہ عمر زخلوال نے بتایا کہ پراپرٹی کا کاروبار واحد بزنس نہیں جو اس تمام صورت حال سے متاثر ہوا ہے۔سرمایہ کاری بھی زوال پذیر ہے ۔پرائیویٹ کنسٹرکشن کا بزنس زوال پذیر ہے۔تجارت زوال پذیر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ سال کے دوران پرائیویٹ سیکٹر کا مورال بہت بری طرح متاثر ہوا ہے۔انہوں نے ورلڈ بنک کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2012ء میں افغانستان میں نئی فرمز کی رجسٹریشن کی شرح میں آٹھ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔زخلوال نے اس صورت حال کی ذمہ داری ان سیاست دانوں اور جنگجوؤں پر بھی عائد کی جو خوف پھیلا رہے ہیں کیونکہ ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ افغانستان میں بدامنی اور بے چینی رہے۔تاہم سرمایہ کاروں اور شہریوں کے جو تحفظات ہیں وہ بے سبب نہیں۔



رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اگرچہ افغانستان میںاربوں ڈالر خرچ کیے گئے لیکن اس کے باوجود افغان حکومت کابل سے باہر بہتر انداز میں حکومت کرنے اور افغان شہریوں کوبنیادی سہولتیں دینے میں ناکام ہے۔ جدید انڈسٹریز قائم کرنا اور لاکھوں لوگوں کو روزگار دینا تو بہت دور کی بات ہے۔ہیومن رائٹس واچ کی ہیدر بار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بڑے پیمانے پر غیرملکی امداد اور پیسہ آتا رہا ہے لیکن اس پیسے سے اس وقت کے لیے کچھ نہیں کیا گیا جب ملک میں امدادی پیسہ آنا بند ہوچکا ہوگا۔زخلوال اور بہت سے لوگوں کا شکوہ ہے کہ افغانستان میں آنے والا زیادہ تر پیسہ حکومتی بجٹ میں شامل کرنے کے بجائے عالمی امدادی اداروں کی مرضی کے مطابق خرچ کیا گیا اور اگر کوئی پیسہ حکومت کی جانب سے خرچ بھی کیا گیا تو کچھ پتہ نہیں کہ اس میں سے کتنا پیسہ اصل کام کے بجائے حکام کی جیبوں میں چلا گیا۔


تاہم غیرملکی امداد سے افغانستان کو فائدہ بھی ہوا۔خاص طور پر ماضی میں صحت کے شعبے اور لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے میں خاصی بہتری ہوئی جبکہ امریکی محکمہ دفا ع کے مطابق اب افغان فورسز ملک کے نوے فیصد حصے میں سیکورٹی آپریشن کی قیادت کررہی ہیں۔تاہم ملک میں امن وامان کی حالت دن بدن خراب ہورہی ہے کیونکہ طالبان نے 2014ء میں غیرملکی افواج کے نکلنے سے پہلے ہی حملے تیز کردیے ہیں۔ملک کا نصف سے زائد حصہ جو پہلے محفوظ تھا ،اب ''نوگو زون'' بن چکا ہے۔

ڈراؤنا خواب
اس صورت حال میں افغان وزارت خزانہ اورکابل میں وہ تمام حلقے جو ملک میں سرمایہ کاری لانے کی کوشش کررہے ہیں ، ان کو ناکامی سے دوچار کردیا ہے۔ورلڈ بنک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق افغان حکومت کے کل سرکاری اخراجات کا بیس فیصد اندرون ملک ریونیو کے ذریعے آتا ہے۔اس صورت حال کو بدلنے کے لیے افغان حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر نوکریاں پیدا کرے تاکہ مایوسی کے شکار نوجوانوں کو طالبان اور دیگر جنگجو گروپوں کے ساتھ شامل ہونے سے روکا جائے لیکن اگر ملک میں تشدد کی حالت بدتر ہوتی ہے توسرمایہ کاروں کو راغب کرنا ناممکن ہوگا۔'' افغانستان میں یوایس ایڈ کی مشن ڈائریکٹر کین یاما شیتا بتارہی تھیں۔''آپ کو افغانستان میں ذاتی اور معاشی تحفظ کا احساس اجاگر کرنا ہوگا تاکہ قابل اور باصلاحیت لوگوں کو ملک سے جانے سے روکا جائے۔بصورت دیگر ملک اچھے منتظمین سے محروم ہوجائے گا اور وہی صورت حال واپس لوٹ آئے گی جو نوے کی دہائی میں طالبان کی حکمرانی کے دوران تھی۔یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے جو ہمیں راتوں کو جاگتے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔''

سمیر شریفی کی داستان الم
افغانستان میں نوجوان کس طرح مایوسی کا شکار ہیں ، اس کا جیتا جاگتا ثبوت سمیر شریفی ہے۔شریقی اپنی گرد آلود ٹویوٹا کرولا میں بیٹھا تھا اور مایوسی کے ساتھ سودا سلف کے اس کھوکھے کو دیکھ رہا تھا جو بند پڑا تھا۔بائیس سالہ سمیر شریفی ایک سال قبل ایک چھوٹی سی دکان کا مالک تھا لیکن خریدار نہ ہونے کی وجہ سے اس نے دکان کو بند کردیا تھا۔کچھ عرصہ قبل اس نے سمگلروں کے ایک گروہ کو ہزاروں ڈالر دیے جو کہ اس کی کل جمع پونجی تھی تاکہ وہ اسے فرانس پہنچادیں تاہم فرانس کے لیے جاتے ہوئے وہ یونان میں پھنس کر رہ گیا۔ سمگلروں نے اس سے دس ہزار ڈالر مزید مانگے تا کہ وہ اسے آگے فرانس لے جاسکیں۔شریفی کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا جس کی وجہ سے وہ تین مہینے تک ایک ایسے کھنڈر نما ہوٹل میں مقیم رہا جس کی کھڑکیاں تک نہ تھیں۔آخرکار تنگ آکر اس نے خود کو یونان کے حکام کے حوالے کردیا تاکہ وہ اسے ڈی پورٹ کردیں۔شریفی کہتا ہے:

''میری تمام جمع پونجی ضائع ہوگئی۔اب میں نوکری کی تلاش میں ہوں لیکن کہیں بھی کام نہیں مل رہا۔اب تو ایک دن بھی گذارنا مشکل ہوچکا ہے۔''

ایک افغان گاؤں
کابل سے باہر تو لوگوں کے حالات اور بھی خراب ہیں۔ ڈے نا نامی گاؤں کابل سے صرف تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس گاؤں کو جانے والی سڑک سے بگرام کا ہوائی اڈہ صاف دکھائی دیتا ہے۔یہ مئی کی ایک گرم دوپہرہے۔ اپنے بہترین لباسوں میں ملبوس ننھی لڑکیاں ڈے نا میں گھومتی پھرتی دکھائی دے رہی ہیں۔یہاں پر شادی کا فنکشن ہورہا ہے اور ان بچیوں کے والدین شادی والے گھر میں کھانا کھانے میں مشغول ہیں۔اس گاؤں میں بڑی تعداد میں انجیر اور چیری کے درخت ہیں جن سے بڑی تعداد میں لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ لیکن گاؤں میں سینکڑوں گھر اور ہزاروں لوگ ہیں ، اس لیے یہ پھل سب کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی نہیں۔کئی سالوں سے یہاں کے مردوں کا دستور رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر غیرقانونی طور پر ایران چلے جاتے ہیں، پھر واپس آجاتے ہیں اور پھر دوبارہ ایران چلے جاتے ہیں۔بائیس سالہ اسلم نے بتایا کہ وہ پہلی بار پندرہ سال کی عمر میں ایران گیا تھا لیکن چند سال بعد اسے ڈی پورٹ کردیا گیا۔ اب وہ ڈے نا کے بہت سے لوگوں کی طرح بے روزگار ہے۔اس نے بتایا کہ پورے افغانستان میں یہی حال ہے۔

اگلے سال غیرملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی تو ڈے نا میں بھی زندگی اسی طرح معمول پر آجائے گی جس طرح کئی سالوں سے تھی۔ملک کے دیگر علاقوں میں بھی لگ بھگ یہی صورت حال ہوگی کیونکہ اب تک جو ابھی اربوں ڈالر کی فوجی و اقتصادی امداد افغانستان میں آئی ہے ، اس کا ملک کی طویل المعیاد بہتری پر بہت کم اثرپڑا ہے۔ ملک کی ایک تہائی آبادی اب بھی خط غربت سے نیچے کی زندگی گذارتی ہے۔2013ء کے مطابق ملک میں اوسط عمر پچاس سال ہے اور یہ بھی گذشتہ عشرے کے دوران بڑھی ہے ورنہ اس سے پہلے اور بھی کم تھی۔ 75فیصد آبادی لکھنے پڑھنے سے قاصر ہے۔

ایک این جی اوPeace dividend trust کی 2009ء کی اسٹڈی کے مطابق ماسوائے سیکورٹی اور فوجی اخراجات کے افغانستان میں پہنچنے والی امداد کے ہر ڈالر کا چالیس سینٹ سے بھی کم حصہ مقامی معیشت کو تنخواہوں کے ذریعے ملا۔تاہم اب جبکہ یہ امداد کم ہورہی ہے تو کابل میں اس کمی کوبھی بہت شدت کے ساتھ محسوس کیا جائے گا بالخصوص وہ علاقے جہاں تشدد کا رجحان زیادہ رہا ہے اور جہاں افواج کی موجودگی بھی زیادہ رہی ہے اور یوں ان کو غیرملکی امداد میں سے بھی بڑا حصہ ملتا رہا ہے۔افغان حکومت کے لیے یہ چیلنج ہوگا کہ وہ معلوم کرے کہ اسے کس طرح اتنا سرمایہ پیدا کرنا ہے اوراس کو شفاف طریقے سے تقسیم کرنا ہے تاکہ ڈے نا جیسے دیہات پیچھے نہ رہ جائیں اور یوں قتل وغارت میں شریک نہ ہوجائیں۔

افغانستان کی قدرتی دولت
پیسہ کہاں سے آئے گا؟افغانستان کے معدنی وسائل اور تیل و گیس کے ذرائع کو امریکہ ،جو افغانستان کو سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والا ملک ہے،بڑی شدت کے ساتھ استعمال میں لانے کی کوششیں کررہا ہے۔2013ء میں افغانستان کے لیے یو ایس ایڈ کی ٹوٹل امداد 1.6 ارب ڈالر ہوگی جبکہ اس کے مقابلے ایشیائی ترقیاتی بنک اس عرصے میں صرف 527.4 ملین ڈالر دے گا۔افغانستان کے معدنیات، تیل اور گیس کے ذرائع وہ دولت ہے جس کو استعمال میں لا کر بڑے پیمانے پر نہ صرف ریونیو بلکہ روزگار بھی پیدا کیا جاسکتا ہے۔تاہم بہت کم لوگوں کو اس بات کی امید ہے کہ افغانستان میں کان کنی اور تیل و گیس نکالنے کے لیے مطلوبہ ماحول واپس آسکے گا جبکہ معدنیات نکالنے اور ان کو ٹرانسپورٹ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر غیرملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی تاکہ اس کام کے لیے سنجیدہ آغاز ہوسکے۔اس طرح اگر ملکی زراعت کو بہتر بنانے کے لیے پیسہ لگایا جائے تو اس کے بھی بہت اچھے فوری نتائج برامد ہوسکتے ہیں کیونکہ افغانستان کی ٹوٹل جی ڈی پی کا ایک تہائی سے ایک چوتھائی تک زراعت سے آتا ہے۔لیکن چونکہ مغرب میں افغانستان کو امداد کے لیے پبلک سپورٹ کم ہورہی ہے اس لیے مذکورہ شعبوں کو ترقی دینے کی ذمہ داری حکومت کو ہی اپنے ذمہ لینی ہوگی۔اس بارے میں یوایس ایڈ کے کین یاشا میتا کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی پیش رفت دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ تبھی ہم اس امداد کا جواز پیش کرسکتے ہیں جو ہم فراہم کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان کے لیے یوایس ایڈ کی امداد بھی تیزی سے کم ہورہی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2010ء میں عروج کے دنوں میں یہ امداد ساڑھے تین ارب ڈالر تھی جو 2013ء میں ڈیڑھ ارب ڈالر تک رہ گئی ہے۔کین یاشا میتا کے بقول ہمیں یہ بات ظاہر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس سیاسی عزم موجود ہے۔

بہرحال یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاست دانوں ، فوجیوں اور عالمی امدادی اداروں کے بجائے اصل میں افغان باشندے ہیں جنہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ 2014ء کے بعد کا افغان کیسا ہوگا۔ بڑی تعداد میں افغان باشندے ملک سے جارہے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو اس کی سکت نہیں رکھتے جبکہ بہت سے ایسے ہیں جو اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتے۔

امید زندہ رہتی ہے
فواد صافی بھی ایسے لوگوں میں سے ہے جو ملک نہیں چھوڑنا چاہتے اور اس کے بجائے اپنے وطن کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔فواد اپنی فیکٹری کے آفس میں ایک بڑے صوفے پربیٹھا یو ٹیوب پر اپنی فیکٹری کی اس وقت کی ویڈیو دیکھتا ہے جب وہاں پر کام عروج پر تھا۔کئی سالوں قبل فواد صافی کے باپ کو اغوا کرلیا گیا تھا اور تاوان کے بعد رہا کیا گیا تھا۔اس کے بعد اس کے خاندان نے فیکٹری کے ارد گرد اونچی اونچی دیواریں کھڑی کرلیں اور خاردار تاریں لگا لیں۔ وہ فیکٹری میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں تاہم فواد اب بھی جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو اس کے ساتھ دو چار سکیورٹی گارڈ ضرور ہوتے ہیں۔ایک اکیس سالہ بانکے سے دکھائی دینے والے نوجوان کے لیے یہ ایک نارمل زندگی نہیں۔اس کی عمر کے اس کے بہت سے دوست جو کابل کے انٹرنیشل سکول میں پڑھتے تھے ، امریکہ یا یورپ جاچکے ہیں اور وہاں پر مزے کی زندگی گذار رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فواد کا دماغ چل گیا ہے جو وہ ابھی تک افغانستان میں رہتا ہے۔

''ان کا مقصد محض زندگی کے مزے کرنا ہے۔'' فواد صافی دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ لیکن سنجیدہ لہجے میں بتارہا تھا۔''لیکن میرا مقصد ہے کہ میں یہاں پر ہی رہوں اور اپنے ملک کی مدد کروں۔'' یہ کہتے ہوئے فواد نے یو ٹیوب پر اپنی فیکٹری کی ایک اور ویڈیو کھولی۔ ویڈیو میں دکھایا جارہا تھا کہ فیکٹری میں مرد و زن تندہی کے ساتھ کام کررہے ہیں۔عورتیں مشینوں پرجھکی چمڑے کو سی رہی ہیں جبکہ مرد ورکر چمڑے کے اپر کے ساتھ سول لگا کر ہزاروں بوٹوں کی تیاری میں مشغول ہیں۔
''افغانستان میرا ملک ہے اور میں یہیں رہوں گا۔'' فواد نے پرعزم لہجے میں بتایا۔''کاروباری سودے ختم بھی ہوجائیں، امید پھر بھی زندہ رہتی ہے۔''

*

2014ء میں بھی طالبان چھائے رہیں گے
ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد بھی امکان ہے کہ طالبان منظر نامے پر چھائے رہیں گے۔رپورٹ کے مطابق اس بات کا خدشہ ہے کہ اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان نہ صرف حکومت پر حملے تیز کردیں گے بلکہ ملک میں خانہ جنگی بھی تیز ہوجائے گی۔ایک طالبان لیڈر ملا آغا جان معتصم کا کہنا ہے کہ افغانستان گذشتہ تیس سال سے لہولہان ہے کیونکہ غیرملکی سازشیوں نے افغانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑوانے کا گھناؤنا ہتھکنڈہ اپنایا ہوا ہے۔آغا جان معتصم افغانستان میں سیز فائر کے حامی ہیں اور اسی کی پاداش میں گذشتہ سال اگست میں ا ن پر کراچی میں حملہ ہوا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔

معتصم کا کہنا ہے کہ اگلے سال امریکی و اتحادی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی اور اگر اس سے پہلے افغان قوم کسی معاہدے پر نہ پہنچی تو ملک میں اسی طرح ایک بار پھر خانہ جنگی شروع ہوجائے گی جس طرح سوویت یونین کے جانے کے بعد شروع ہوگئی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ سوویت یونین کے جانے کے بعد خانہ جنگی نے افغانستان کو تباہ کردیا تھا اور اسی کے نتیجے میں ایک اور غیرملکی (امریکی)جارحیت کاراستہ ہموار ہوا۔

امریکہ کے چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ڈمپسی نے بھی کہا ہے کہ طالبان بدستور افغانستان کے لیے ایک طویل المعیاد خطرہ رہیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہاں علاقوں کے لیے جنگ ہوتی رہی ہے اور یہ جنگ اب بھی جاری رہے گی۔ادھر وہ افغان شہری بھی خوفزدہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اتحادی فوج کی کسی بھی طریقے سے مدد کی تھی ۔ان لوگوں کو خوف ہے کہ اتحادی فوج کے جانے کے بعد طالبان انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ایک افغان باشندے نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اگر آپ افغانستان میں کسی غیرملکی کے ساتھ کام کرتے ہیں تو آپ کو کافر یا جاسوس کہا جاتا ہے۔

اس نے مزید کہا کہ ایک بار طالبان کو پتہ چل جائے کہ آپ نے یا آپ کے گھر میں سے کسی نے غیرملکی یا اتحادی فوج کے لیے کام کیا ہے تو آپ کی جان بچنا مشکل ہے۔اس نے بتایا کہ اس کا بڑا بھائی امریکی فوجیوں کے ساتھ ترجمان کے طور پرکام کرتا تھا ، اسے قتل کی دھمکیاں ملیں تو اس کے آقاؤں نے اسے دو آپشن دیے ، اول یہ کہ ملازمت چھوڑ دے اور دوئم چار سو ڈالر لے اور کلاشنکوف خرید کر اپنا دفاع خود کرے۔یاد رہے کہ افغانستان پر حملے کے بعد اتحادی اور امریکی افواج نے ترجمان کے طور پر ہزاروں افغان باشندوں کی مدد حاصل کی تھی اور اب یہ تمام لوگ اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔
Load Next Story