مذہبی سیاحت کو فروغ دینے سے پاکستان کو بہت فائدہ ہو گا
پاکستان میں اقلیتوں کومکمل آزادی کے باوجود عالمی سطح پرمنفی تاثر دیا جاتا ہے
اگرایک جانب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں کہ''مذہب نہیں سکھاتاآپس میں بیررکھنا'' تودوسری جانب ہمارے ملک پاکستان کا آئین بھی کہتا ہے کہ یہاں ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی اور اس پر عمل کرنے کا حق حاصل ہے اور ہر مذہبی گروہ اور فرقہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، برقرار اور ان کا انتظام کرنے کا حق حاصل ہے ،کسی شخص کو کوئی ایسا خاص محصول ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا ۔
جس کی آمدنی اس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی تبلیغ و ترویج پر صرف کی جائے، اسی طرح کسی مذہبی ادارے کے سلسلے میں محصول لگانے کی بابت استثناء یا رعایت منظور کرنے میں کسی فرقے کے خلاف کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا، اسی طرح مملکت، اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا، جن میں وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں ان کی مناسب نمائندگی شامل ہے تحفظ کرے گی۔ یہ آئین کی وہ شقیں ہیں جو اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں، اسی آئین کے تحت وہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کا ممبر بننے کا حق بھی رکھتے ہیں ۔ اس طرح یہ ممبران اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
ایم پی اے سردار رمیش سنگھ اروڑا:
وہ بڑا تاریخی لمحہ تھا جب سردار رمیش سنگھ اروڑا نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی قانون سازاسمبلی میں قدم رکھا ،67سال میں پہلی مرتبہ سکھ برادری کے کسی فرد کو پنجاب اسمبلی کا ممبر بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ پاکستان میں اقلیتوں کو قانونی طور پر مکمل تحفظ حاصل ہے اور جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کے علاوہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے کا بھی حق رکھتے ہیں ۔ سردار رمیش سنگھ اروڑا مسلم لیگ ن کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشست پر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی کا زیادہ حصہ سماج کی خدمت کرتے ہوئے گزرا ہے، خاص طور پر غریبوں کے حالات بدلنے کے لئے وہ ہر دم کوشاں رہتے ہیں ۔ سردار رمیش سنگھ اروڑا ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے گریجوایشن کی ، اس کے بعد ایم بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔99ء میں ان کا خاندان ننکانہ صاحب سے کرتار پور ضلع نارووال میں آ کر آباد ہو گیا ، یہاں پر ان کے بڑے بھائی گورد وارہ کرتار پور کے گرنتھی ہیں ۔ سردار رمیش سنگھ اروڑا گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے جنرل سیکرٹری اور نیشنل کمیٹی فار ہیومینٹی کے ممبر ہیں ۔
سردار رمیش سنگھ اروڑا کو انسانیت کی خدمت کا بہت شوق ہے اس لئے انھوں نے نارووال میں معجز فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی جس کے تحت وہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی بحالی اور بہتری کے لیے سرگرم رہتے ہیں ، اس ادارے کے تحت مائیکروفنانس اور ہر طرح سے مدد بہم پہنچائی جاتی ہے ، کسانوں کو زرعی قرضے اور کھاد وبیج خریدنے میں مدد کی جاتی ہے۔ -12 2011ء کے سیلاب میں پنجاب اور سندھ میں متاثرین کی بحالی کے لئے بھرپور کوشش کی گئی ، جس میں خوراک ، ادویات،شیلٹر کی فراہمی اور کسانوں کو کھاد ،بیج وغیرہ فراہم کئے گئے ۔
معجز فاؤنڈیشن اس وقت پنجاب اور سندھ میں کام کر رہی ہے ، رمیش سنگھ اروڑا کا کہنا ہے کہ معجز فاؤنڈیشن کے تحت مدد کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ متاثرہ فرد کا تعلق کس مذہب سے ہے ، ایسا صرف اور صرف انسانیت کے ناتے کیا جاتا ہے۔ سیاست میں آمد کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما، وفاقی وزیر اطلاعات احسن اقبال سے ان کی دوستی ہے۔انھوں نے انھیں سیاست میں آنے کی دعوت یہ کہہ کر دی کہ انسانیت کی خدمت تو آپ پہلے ہی کر رہے ہیں تو کیوں نہ سیاست میں آ کر اس کار خیر کو سر انجام دیں، اس سے خدمت کرنے کے بہتر مواقع میسر آ ئیں گے، یوں وہ سیاست میں آ گئے۔
سردار رمیش سنگھ اروڑانے بتایا''اب میں ایم پی اے بن چکا ہوں ، ملک و قوم کی خدمت کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ ہندو ، سکھ ، عیسائی یا مسلمان نہیں بلکہ بطور پاکستانی کام کروں گا، میری ساری توجہ غریب طبقے کی بہتری کی طرف ہے ، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ ہماری تنظیم معجز فاؤنڈ یشن اس کے لئے بھرپور کام کر رہی ہے ، اب پہلے سے بھی زیادہ کو شش کی جائے گی، معیشت کی بحالی مسلم لیگ ن کا نعرہ ہے ، اس نعرے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا، پیپلز پارٹی کے دورحکومت سے قبل پچیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے اب شرح 35فیصد ہو گئی ہے یعنی غربت میں اضافہ ہوا ہے ، ایسے افراد کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں ، انھیں ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، یہی غربت میں کمی کا بہترین طریقہ ہے۔
رہی بات اقلیتوں کے حقوق کی تو انھیں ہر فورم پر اجاگر کرنے اور مسائل حل کرنے کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اقلیتوں کو ملک میں ہر طرح کے حقوق پہلے سے حاصل ہیں اس کے لئے قانون موجود ہے مگر اسے مکمل بالادستی حاصل نہیں ، ہمیں آپس میں مشترکہ اقدار کی بات کرنی چاہیے جیسے میں نے اسمبلی میں سورہ اخلاص پڑھی کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی بات کی گئی ہے تو یہ چیز سکھوں اور مسلمانوں میں مشترک ہے، میرے اس اقدام کو سب نے سراہا۔ میرے خیال میں اس سے بھی بڑا مسئلہ امیر اور غریب میںفرق کا ہے ، امیر اپنے وسائل کی وجہ سے غریب کو دبا رہا ہے اس میں مذہب کا امتیا ز نہیں ہے ، غریب چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو دولت مند افراد اس کا استحصال کرتے ہیں ، اس لئے غریبوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے''۔
پاکستان اور بھارت میں مقد س مقامات کی زیارت کے لئے آنے اور جانے والوں کی سہولتو ں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، ہماری کوشش ہو گی کہ اس کلچر کو پروان چڑھائیں جیسے کٹاس ہندوؤں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے ، اس سے پاکستان کو ثقافتی طور پر بہت فائدہ ہو گا، کیونکہ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ، دنیا بھر میں اس کا غلط تصور پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ، یہاں پر اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ ان کے آئیڈیل کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ سیاست میں ان کے آئیڈیل احسن اقبال ہیں ، وہ صاف ستھری سیاست کے قائل ہیں ، وہ انھی کی پیروی کریں گے۔
ایم پی اے ڈاکٹر سردار سورن سنگھ :
پاکستان کا آئین اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے، آئین کی انہی شقوں کی روشنی میں مینارٹیزکے حقوق کے تحفظ کے لیے خیبر پختون خوا کی تاریخ میں سکھ برادری سے پہلی مرتبہ 1985ء سے عملی سیاست و جدوجہد کے ذریعے اقلیتوں کی خصوصی نشستوں پر منتخب ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سردار سورن سنگھ بھی کوشاں ہیں، انہوں نے 1964ء میں بونیر کے علاقے پاچا کلے(پیربابا) میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے سکول سے حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول پاچا سے میٹرک، پشاور بورڈ سے ایف اے، ملاکنڈ یونی ورسٹی سے بیچلر آف آرٹس کی اسناد حاصل کیں، ساتھ ہی میڈیکل ٹیکنیشن کورس، آئیوویدک میڈیسن کورس بھی کر ڈالے، ہیومیو ڈاکٹر بھی ہیں، بھرپور عائلی زندگی گزار رہے ہیں، دو شادیاں کر رکھی ہیں، جن سے پانچ بچے ہیں جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ماضی بازیافت کرتے ہوئے جب گویا ہوئے تو ان کے پر اثراور بے ضرر لہجے سے گویا پھول جھڑنے لگے، دوران نشست مہمانوں کی تواضع کرتے بھی نظر آئے اور تکلم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
کہتے ہیں کہ ضیاء الحق دور میں سٹوڈنس پالٹکس کے ذریعے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور سکھ، پارسی، بدھ مت، کیلاشی، بہائی برادری کے حقوق کے لیے ایم پی بنڈارا کا ساتھ دیا، بعد میں پشاور سے تعلق رکھنے والے سردار بیربل سنگھ کا بھرپور ساتھ دیا، اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے سردار گیان چند سنگھ کی سنگت بھی کی، عوامی خدمت کا یہ سلسلہ رکا نہیں اور مشرف دور میں جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے تحصیل کونسلر ڈگر منتخب ہوئے جس سے براہ راست عوامی خدمت کا موقع ملا ،اس دوران بلا امتیاز عوامی خدمت میں جت گئے جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ اسی خدمت کے لیے اسمبلی فلور تک رسائی حاصل ہو چکی۔ ڈاکٹر سورن سنگھ کے بقول پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے تبدیلی کے نعرے اور قائد عمران خان کی پرخلوص شخصیت سے متاثر ہو کر دو سال قبل لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ عام میں متوسط طبقے کی ترجمانی کرنے والی جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا، جب کہ اس موقع پر سکھ برادری کی جانب سے عمران خان کو مذہبی نشان تلواربھی پیش کی، بتاتے ہیں کہ اس سے قبل جب عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنے میں حیات آباد میں سٹیج پر تقریر شروع کی تو عمران خان اس سے کافی متاثر ہوئے اور سٹیج پر آکر معروف صحافی حامد میر نے انٹرویوبھی لیا۔
پارٹی میں شمولیت کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف سے عقیدت اور بھی بڑھ گئی کہ یہاں موروثی، وڈیرہ ازم، چوہدری ازم اور نواب ازم کے برعکس جمہوری عمل نے اس جماعت کی وقعت و اہمیت مزید بڑھا دی ہے، اس جمہوری عمل سے متاثر ہو کر اس جمہوری سفر میں شامل ہوا تو خیبر پختون خوا کی سطح پر صوبائی جنرل سیکرٹری مینارٹی کا تاج میرے سر سج گیا اور جب مرکزی سطح پر موقع ملا تو مرکزی جنرل سیکرٹری مینارٹی کی بھاری ذمہ داری میرے کاندھوں پر آپڑی۔ ڈاکٹر سردار سورن سنگھ نے اپنے روایتی پرخلوص لہجے میں کہا کہ تحریک انصاف حقیقتاً تبدیلی کے نعرے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے جس کا ایک واضح ثبوت صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے شخص کا اقلیتوں کی خصوصی نشستوں پر انتخاب ہے، 2005ء کے زلزلے سے لے کر آج تک سکھ برادری اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی خدمت کے حوالے سے ان کے پاس ایک لمبی داستان تھی۔
جس کے اعتراف میں قوم نے انہیں گولڈ میڈل سے بھی نوازا۔ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے ممبر اور صدر کے عہدے پر کئی سال تک خدمات دینے والے سورن سنگھ کا کہنا تھا کہ مظفر آباد، حسن ابدال اور دیگر مقامات پر متاثرین کو خوراک، میڈیکل اور تعلیمی سہولیات کے علاوہ دیگر آسانیاں بہم پہنچانے کے لیے کبھی کیمپ کی شکل میں تو کبھی کمیٹیوں کی شکل میں کام کرتے رہے، اسی بناء پر شرمنی گوردوارہ پر پندھک کمیٹی امرتسر ہندوستان اور گوردوارہ ننکانہ صاحب کی جانب سے گولڈ میڈل حاصل ہونے کا اعزاز ان ہی کے پاس ہے، مستقبل میں عوامی اور اقلیتوں کی خدمات اور ان کے حقوق کے لیے انہوں نے لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ پاکستان سرکار کی جانب سے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کے ہم پہلے ہی سے مشکور و ممنون ہیں لیکن پھر بھی اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے تعلیم، صحت اور اقلیتوں کی مکمل مذہبی آزادی کے لیے کوشاں رہیں گے، اس ضمن میں سرکار سے ہمارا مطالبہ بھی ہے کہ اقلیتوں کو تعلیم کے برابر اور مساویانہ حقوق و سہولیات کی فراہمی کے لیے پہلے سے مختص کوٹہ میں اضافہ ناگزیر ہے، اس سمے میڈیکل کالجز، جناح کالج اور صوبے کے دیگر ٹاپ کالجز میں اقلیتی برادری کے لیے نہ صرف کوٹہ مخصوص کیا جائے بل کہ پہلے سے مختص کوٹے میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا جائے،
چوں کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر صحت کے شعبے سے منسلک ہیں اس لیے اس شعبے میں ان کو پروموشن کے بھرپور مواقع فراہم کئے جائیں اور پہلے سے مختص فنڈ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ناگزیر ہے، ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت میں بیوہ اور یتیم بچوں کی امداد کے لیے جو فنڈ ریلیز کیا گیا تھا اس کا مکمل ڈیٹا منگوا کر مکمل چھان بین کی جائے گی، ڈاکٹر سردار سورن سنگھ کایہ بھی کہنا تھا کہ حکومت مسلم برادری کے لیے سرکاری سطح پر مختص حج کوٹے کی طرح مینارٹیز کے لیے بھی مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے کوٹہ مختص کرے ، جس کے تحت ہندو برادری گنگا جمنا میں تیرت یاترا اور سکھ برادری دربار صاحب امرتسر (گولڈن ٹمپل) کی زیارت سرکاری سطح پر کر سکیں گے، اسی طرح سکھ برادری کے لیے جہاں یہ رہائش پذیر ہوں وہاں شمشان گھاٹ کے لیے اراضی وقف کی جائے، ان کا کہنا تھا کہ مینارٹیز سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کی اپنے علاقوں میں تعیناتی کے لیے اسمبلی فلور سمیت ہر فورم پر آواز اٹھاؤں گا تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ فرائض منصبی انجام دے سکیں، اس کے ساتھ ہی تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے حقوق کے لیے ہر فورم پر جدوجہد جاری رکھوں گا،
انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ کیلاش، ہندو، پارسی، بدھ مت، بالمیک اور سکھ برادری کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو مشترکہ مسائل، حقوق اور ترقی و خوش حالی کے لیے اپنی سعی جاری رکھے گی، ڈاکٹر سورن سنگھ کا یہ بھی ماننا تھا کہ بہائی قوم عملی سیاست سے دور ہے انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ان سے بات کر کے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے راضی کیا جائے گا، پاکستان میں مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کو مثالی قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو اپنے مذہب اور دیگر تہوار و رسومات کی ادائیگی میں مکمل آزادی ہے جس کو دنیا کے سامنے ہم بطور مثال پیش کر سکتے ہیں۔
جس کی آمدنی اس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی تبلیغ و ترویج پر صرف کی جائے، اسی طرح کسی مذہبی ادارے کے سلسلے میں محصول لگانے کی بابت استثناء یا رعایت منظور کرنے میں کسی فرقے کے خلاف کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا، اسی طرح مملکت، اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا، جن میں وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں ان کی مناسب نمائندگی شامل ہے تحفظ کرے گی۔ یہ آئین کی وہ شقیں ہیں جو اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں، اسی آئین کے تحت وہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کا ممبر بننے کا حق بھی رکھتے ہیں ۔ اس طرح یہ ممبران اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
ایم پی اے سردار رمیش سنگھ اروڑا:
وہ بڑا تاریخی لمحہ تھا جب سردار رمیش سنگھ اروڑا نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی قانون سازاسمبلی میں قدم رکھا ،67سال میں پہلی مرتبہ سکھ برادری کے کسی فرد کو پنجاب اسمبلی کا ممبر بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ پاکستان میں اقلیتوں کو قانونی طور پر مکمل تحفظ حاصل ہے اور جنرل نشستوں پر الیکشن لڑنے کے علاوہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے کا بھی حق رکھتے ہیں ۔ سردار رمیش سنگھ اروڑا مسلم لیگ ن کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشست پر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی کا زیادہ حصہ سماج کی خدمت کرتے ہوئے گزرا ہے، خاص طور پر غریبوں کے حالات بدلنے کے لئے وہ ہر دم کوشاں رہتے ہیں ۔ سردار رمیش سنگھ اروڑا ننکانہ صاحب میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے گریجوایشن کی ، اس کے بعد ایم بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔99ء میں ان کا خاندان ننکانہ صاحب سے کرتار پور ضلع نارووال میں آ کر آباد ہو گیا ، یہاں پر ان کے بڑے بھائی گورد وارہ کرتار پور کے گرنتھی ہیں ۔ سردار رمیش سنگھ اروڑا گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے جنرل سیکرٹری اور نیشنل کمیٹی فار ہیومینٹی کے ممبر ہیں ۔
سردار رمیش سنگھ اروڑا کو انسانیت کی خدمت کا بہت شوق ہے اس لئے انھوں نے نارووال میں معجز فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی جس کے تحت وہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی بحالی اور بہتری کے لیے سرگرم رہتے ہیں ، اس ادارے کے تحت مائیکروفنانس اور ہر طرح سے مدد بہم پہنچائی جاتی ہے ، کسانوں کو زرعی قرضے اور کھاد وبیج خریدنے میں مدد کی جاتی ہے۔ -12 2011ء کے سیلاب میں پنجاب اور سندھ میں متاثرین کی بحالی کے لئے بھرپور کوشش کی گئی ، جس میں خوراک ، ادویات،شیلٹر کی فراہمی اور کسانوں کو کھاد ،بیج وغیرہ فراہم کئے گئے ۔
معجز فاؤنڈیشن اس وقت پنجاب اور سندھ میں کام کر رہی ہے ، رمیش سنگھ اروڑا کا کہنا ہے کہ معجز فاؤنڈیشن کے تحت مدد کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ متاثرہ فرد کا تعلق کس مذہب سے ہے ، ایسا صرف اور صرف انسانیت کے ناتے کیا جاتا ہے۔ سیاست میں آمد کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما، وفاقی وزیر اطلاعات احسن اقبال سے ان کی دوستی ہے۔انھوں نے انھیں سیاست میں آنے کی دعوت یہ کہہ کر دی کہ انسانیت کی خدمت تو آپ پہلے ہی کر رہے ہیں تو کیوں نہ سیاست میں آ کر اس کار خیر کو سر انجام دیں، اس سے خدمت کرنے کے بہتر مواقع میسر آ ئیں گے، یوں وہ سیاست میں آ گئے۔
سردار رمیش سنگھ اروڑانے بتایا''اب میں ایم پی اے بن چکا ہوں ، ملک و قوم کی خدمت کے لئے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ ہندو ، سکھ ، عیسائی یا مسلمان نہیں بلکہ بطور پاکستانی کام کروں گا، میری ساری توجہ غریب طبقے کی بہتری کی طرف ہے ، جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ ہماری تنظیم معجز فاؤنڈ یشن اس کے لئے بھرپور کام کر رہی ہے ، اب پہلے سے بھی زیادہ کو شش کی جائے گی، معیشت کی بحالی مسلم لیگ ن کا نعرہ ہے ، اس نعرے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا، پیپلز پارٹی کے دورحکومت سے قبل پچیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے اب شرح 35فیصد ہو گئی ہے یعنی غربت میں اضافہ ہوا ہے ، ایسے افراد کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں ، انھیں ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، یہی غربت میں کمی کا بہترین طریقہ ہے۔
رہی بات اقلیتوں کے حقوق کی تو انھیں ہر فورم پر اجاگر کرنے اور مسائل حل کرنے کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اقلیتوں کو ملک میں ہر طرح کے حقوق پہلے سے حاصل ہیں اس کے لئے قانون موجود ہے مگر اسے مکمل بالادستی حاصل نہیں ، ہمیں آپس میں مشترکہ اقدار کی بات کرنی چاہیے جیسے میں نے اسمبلی میں سورہ اخلاص پڑھی کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی بات کی گئی ہے تو یہ چیز سکھوں اور مسلمانوں میں مشترک ہے، میرے اس اقدام کو سب نے سراہا۔ میرے خیال میں اس سے بھی بڑا مسئلہ امیر اور غریب میںفرق کا ہے ، امیر اپنے وسائل کی وجہ سے غریب کو دبا رہا ہے اس میں مذہب کا امتیا ز نہیں ہے ، غریب چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو دولت مند افراد اس کا استحصال کرتے ہیں ، اس لئے غریبوں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے''۔
پاکستان اور بھارت میں مقد س مقامات کی زیارت کے لئے آنے اور جانے والوں کی سہولتو ں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، ہماری کوشش ہو گی کہ اس کلچر کو پروان چڑھائیں جیسے کٹاس ہندوؤں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے ، اس سے پاکستان کو ثقافتی طور پر بہت فائدہ ہو گا، کیونکہ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ، دنیا بھر میں اس کا غلط تصور پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ، یہاں پر اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ ان کے آئیڈیل کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ سیاست میں ان کے آئیڈیل احسن اقبال ہیں ، وہ صاف ستھری سیاست کے قائل ہیں ، وہ انھی کی پیروی کریں گے۔
ایم پی اے ڈاکٹر سردار سورن سنگھ :
پاکستان کا آئین اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے، آئین کی انہی شقوں کی روشنی میں مینارٹیزکے حقوق کے تحفظ کے لیے خیبر پختون خوا کی تاریخ میں سکھ برادری سے پہلی مرتبہ 1985ء سے عملی سیاست و جدوجہد کے ذریعے اقلیتوں کی خصوصی نشستوں پر منتخب ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر سردار سورن سنگھ بھی کوشاں ہیں، انہوں نے 1964ء میں بونیر کے علاقے پاچا کلے(پیربابا) میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے سکول سے حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول پاچا سے میٹرک، پشاور بورڈ سے ایف اے، ملاکنڈ یونی ورسٹی سے بیچلر آف آرٹس کی اسناد حاصل کیں، ساتھ ہی میڈیکل ٹیکنیشن کورس، آئیوویدک میڈیسن کورس بھی کر ڈالے، ہیومیو ڈاکٹر بھی ہیں، بھرپور عائلی زندگی گزار رہے ہیں، دو شادیاں کر رکھی ہیں، جن سے پانچ بچے ہیں جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ماضی بازیافت کرتے ہوئے جب گویا ہوئے تو ان کے پر اثراور بے ضرر لہجے سے گویا پھول جھڑنے لگے، دوران نشست مہمانوں کی تواضع کرتے بھی نظر آئے اور تکلم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
کہتے ہیں کہ ضیاء الحق دور میں سٹوڈنس پالٹکس کے ذریعے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور سکھ، پارسی، بدھ مت، کیلاشی، بہائی برادری کے حقوق کے لیے ایم پی بنڈارا کا ساتھ دیا، بعد میں پشاور سے تعلق رکھنے والے سردار بیربل سنگھ کا بھرپور ساتھ دیا، اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے سردار گیان چند سنگھ کی سنگت بھی کی، عوامی خدمت کا یہ سلسلہ رکا نہیں اور مشرف دور میں جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے تحصیل کونسلر ڈگر منتخب ہوئے جس سے براہ راست عوامی خدمت کا موقع ملا ،اس دوران بلا امتیاز عوامی خدمت میں جت گئے جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ اسی خدمت کے لیے اسمبلی فلور تک رسائی حاصل ہو چکی۔ ڈاکٹر سورن سنگھ کے بقول پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے تبدیلی کے نعرے اور قائد عمران خان کی پرخلوص شخصیت سے متاثر ہو کر دو سال قبل لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ عام میں متوسط طبقے کی ترجمانی کرنے والی جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا، جب کہ اس موقع پر سکھ برادری کی جانب سے عمران خان کو مذہبی نشان تلواربھی پیش کی، بتاتے ہیں کہ اس سے قبل جب عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت میں نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنے میں حیات آباد میں سٹیج پر تقریر شروع کی تو عمران خان اس سے کافی متاثر ہوئے اور سٹیج پر آکر معروف صحافی حامد میر نے انٹرویوبھی لیا۔
پارٹی میں شمولیت کے بعد عمران خان اور تحریک انصاف سے عقیدت اور بھی بڑھ گئی کہ یہاں موروثی، وڈیرہ ازم، چوہدری ازم اور نواب ازم کے برعکس جمہوری عمل نے اس جماعت کی وقعت و اہمیت مزید بڑھا دی ہے، اس جمہوری عمل سے متاثر ہو کر اس جمہوری سفر میں شامل ہوا تو خیبر پختون خوا کی سطح پر صوبائی جنرل سیکرٹری مینارٹی کا تاج میرے سر سج گیا اور جب مرکزی سطح پر موقع ملا تو مرکزی جنرل سیکرٹری مینارٹی کی بھاری ذمہ داری میرے کاندھوں پر آپڑی۔ ڈاکٹر سردار سورن سنگھ نے اپنے روایتی پرخلوص لہجے میں کہا کہ تحریک انصاف حقیقتاً تبدیلی کے نعرے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے جس کا ایک واضح ثبوت صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے شخص کا اقلیتوں کی خصوصی نشستوں پر انتخاب ہے، 2005ء کے زلزلے سے لے کر آج تک سکھ برادری اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی خدمت کے حوالے سے ان کے پاس ایک لمبی داستان تھی۔
جس کے اعتراف میں قوم نے انہیں گولڈ میڈل سے بھی نوازا۔ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے ممبر اور صدر کے عہدے پر کئی سال تک خدمات دینے والے سورن سنگھ کا کہنا تھا کہ مظفر آباد، حسن ابدال اور دیگر مقامات پر متاثرین کو خوراک، میڈیکل اور تعلیمی سہولیات کے علاوہ دیگر آسانیاں بہم پہنچانے کے لیے کبھی کیمپ کی شکل میں تو کبھی کمیٹیوں کی شکل میں کام کرتے رہے، اسی بناء پر شرمنی گوردوارہ پر پندھک کمیٹی امرتسر ہندوستان اور گوردوارہ ننکانہ صاحب کی جانب سے گولڈ میڈل حاصل ہونے کا اعزاز ان ہی کے پاس ہے، مستقبل میں عوامی اور اقلیتوں کی خدمات اور ان کے حقوق کے لیے انہوں نے لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ پاکستان سرکار کی جانب سے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کے ہم پہلے ہی سے مشکور و ممنون ہیں لیکن پھر بھی اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے تعلیم، صحت اور اقلیتوں کی مکمل مذہبی آزادی کے لیے کوشاں رہیں گے، اس ضمن میں سرکار سے ہمارا مطالبہ بھی ہے کہ اقلیتوں کو تعلیم کے برابر اور مساویانہ حقوق و سہولیات کی فراہمی کے لیے پہلے سے مختص کوٹہ میں اضافہ ناگزیر ہے، اس سمے میڈیکل کالجز، جناح کالج اور صوبے کے دیگر ٹاپ کالجز میں اقلیتی برادری کے لیے نہ صرف کوٹہ مخصوص کیا جائے بل کہ پہلے سے مختص کوٹے میں خاطر خواہ اضافہ بھی کیا جائے،
چوں کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر صحت کے شعبے سے منسلک ہیں اس لیے اس شعبے میں ان کو پروموشن کے بھرپور مواقع فراہم کئے جائیں اور پہلے سے مختص فنڈ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ناگزیر ہے، ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت میں بیوہ اور یتیم بچوں کی امداد کے لیے جو فنڈ ریلیز کیا گیا تھا اس کا مکمل ڈیٹا منگوا کر مکمل چھان بین کی جائے گی، ڈاکٹر سردار سورن سنگھ کایہ بھی کہنا تھا کہ حکومت مسلم برادری کے لیے سرکاری سطح پر مختص حج کوٹے کی طرح مینارٹیز کے لیے بھی مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے کوٹہ مختص کرے ، جس کے تحت ہندو برادری گنگا جمنا میں تیرت یاترا اور سکھ برادری دربار صاحب امرتسر (گولڈن ٹمپل) کی زیارت سرکاری سطح پر کر سکیں گے، اسی طرح سکھ برادری کے لیے جہاں یہ رہائش پذیر ہوں وہاں شمشان گھاٹ کے لیے اراضی وقف کی جائے، ان کا کہنا تھا کہ مینارٹیز سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کی اپنے علاقوں میں تعیناتی کے لیے اسمبلی فلور سمیت ہر فورم پر آواز اٹھاؤں گا تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ فرائض منصبی انجام دے سکیں، اس کے ساتھ ہی تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے حقوق کے لیے ہر فورم پر جدوجہد جاری رکھوں گا،
انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ کیلاش، ہندو، پارسی، بدھ مت، بالمیک اور سکھ برادری کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو مشترکہ مسائل، حقوق اور ترقی و خوش حالی کے لیے اپنی سعی جاری رکھے گی، ڈاکٹر سورن سنگھ کا یہ بھی ماننا تھا کہ بہائی قوم عملی سیاست سے دور ہے انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ان سے بات کر کے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے راضی کیا جائے گا، پاکستان میں مذہبی رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کو مثالی قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو اپنے مذہب اور دیگر تہوار و رسومات کی ادائیگی میں مکمل آزادی ہے جس کو دنیا کے سامنے ہم بطور مثال پیش کر سکتے ہیں۔