عصرِ حاضر کی لوح محفوظ پر اوباما کی نظر

این ایس اے اسکینڈل کی تفصیلات

این ایس اے اسکینڈل کی تفصیلات. فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
براعظموں کو ایک دو سرے سے ملانے کے لیے، سمندروں کی تاریک گہرائیوںمیں پھیلائی ہوئی ہزارہا تاریں، ہمارے رازوں کی انتہائی غیرمتوقع امین ہیں۔

ہروہ لفظ جو ہم کسی سے فون پر گفت گو کرتے ہوئے اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں ان ہی تاروں سے گزر کر سامع تک پہنچتا ہے،ہماری ہر ای میل ان ہی پیچیدہ، غیر مرئی ، برقی راستوں سے گزر کر اپنے ہدف تک پہنچتی ہے،ہر وہ تصویر جو ہم اپنے کمپیوٹر پر دیکھتے ہیں اور ہر وہ وڈیو، جس سے ہم چیٹ کے دوران یا کسی ویب سائیٹ پر لطف اندوز ہوتے ہیں، ان ہی تاروں کی مرہون منت ،ہم تک پہنچ پاتی ہے،گویا اگر کوئی ادارہ ان تاروں تک رسائی حاصل کر لے تو ہمارے خیالات، ہماری سوچ، ہمارے ارادے جاننے میں اس کو کوئی دشواری محسوس نہ ہو،ان تاروں تک رسائی حاصل کرنا گویا ہمارے ذہن میں جھانکنے کے مترادف ہے۔

سرحدوں اور فاصلوں سے ماوراء ان فایبر آپٹک کیبلز کواگرعصر حاضر کی لوحِ محفوظ کہا جائے تو یہ کوئی مبالغہ آمیزبات نہیں ہو گی چوں کہ یہ سب تاریں آپس میں جڑی ہوئی ہیں، اس لیے جو بھی ڈیٹا ان سے گزرتا ہے ،اس کو مطلوبہ ٹیکنالوجی اور علم کی مدد سے کسی بھی مقام سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

11 ستمبر2001 کے واقعات کے بعد، امریکا کے اس وقت کے صدر جارج بش نے اپنی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کو القاعدہ کی سرگرمیوںپر نظر رکھنے کے لیے ایک خفیہ اجازت نامہ جاری کیاتھا، جس کے مطابق NSA امریکا سے گزرنے والی ہر قسم کی انٹرنیٹ ٹریفک کو حاصل کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی مجاز قرار دی گئی تھی۔2006 میں AT&T کے سابق ملازم مارک کلین نے جب یہ انکشاف کیا کہ کمپنی نے NSA کواپنے سان فرانسسکو کے دفتر میںجہاں سے فائیبرآپٹک کیبلزامریکا میں داخل ہوتی ہیں، ایک کمپیوٹر سسٹم نصب کرنے کی اجازت دی تھی، تو معلوم پڑا کہ نہ صرف انٹرنیٹ ٹریفک بل کہ امریکا سے کی جانے والی یا امریکا میں موجود کسی بھی شخص کو موصول ہونے والی ہر ٹیلی فونک کال بھی NSA کی د ست رس میں آچکی ہے۔اس انکشاف کے بعد امریکا کے اندر زور و شور سے یہ بحث شروع ہوگئی کہ کیاامریکی قانون کے مطابق اس کی خفیہ ایجنسیاںاس کام کی مجاز ہیں کہ وہ جب چاہیں امریکا میں رہنے والے کسی بھی شخص کی، اس کے علم میں لائے اور اس کی اجازت کے بغیر، مکمل نگرانی کر سکتی ہیں۔

5جون 2013 کو انگریزی اخبار The Guardian نے ایک تہلکہ خیز رپورٹ شائع کی، جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ امریکی صدر بارک اوباما کے ایما پر امریکی خفیہ ایجنسی NSA نے PRISM کے نام سے ایک لامحدود نگرانی کا پروگرام شروع کر رکھا ہے، جس کے ذریعے ان گنت امریکیوں اور کسی بھی امریکی شہری سے، کسی بھی حوالے سے رابطہ رکھنے والے غیر ملکیوں کی بھرپور نگرانی کا عمل عرصۂ دراز سے خفیہ طور پر جاری ہے،ان کی ای میلز، ٹیلیفوں کالوں، ویڈیو چیٹس وغیرہ کا ریکارڈ محفوظ کیا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس عمل میں کمیونیکیشن سروسزاور انٹرنیٹ سروسز سے جڑے بڑے بڑے امریکی ادارے بہ شمول گوگل، مائیکرو سافٹ، ایپل، فیس بک، یاہو, VERISON ، اس عمل میں NSA کو مکمل تعاون فراہم کر رہے ہیں۔

یہ اسکینڈل منظرِ عام پر آتے ہی ساری دنیا کے میڈیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ امریکا اور امریکا سے باہر سماجی حقوق کے حلقوں اور تنظیموں نے امریکی صدر بارک اوباما اوران کی ایڈمنسٹریشن کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایااور وضاحت طلب کی۔اوباماوضاحت کیا دیتے، فرمانے لگے کہ NSA توایک معصوم سا ادارہ ہے جو امریکی قانون کی حدود سے تجاوز کر ہی نہیں سکتابل کہ یہ تو الٹا امریکی مفادات کی حفاظت پر مامورایک ایسا محنتی ادارہ ہے جس کی وجہ سے امریکا بہت سے امریکا مخالف گروپس سے آشنا ہوا اور ان کوامریکا پر برا وقت لانے سے قبل لگام دینے میں کام یاب ہو سکا۔ پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ اوباما صاحب کی نیت اگر اتنی ہی صاف و شفاف تھی تو ایسی رازداریکاہے کو؟کیا دال میں کچھ بھی کالا نہیں؟!

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لیکن ایڈورڈ سنوڈین کی سنی جائے تو ساری کی ساری دال کالی ہے۔امریکی ریاست ہوائی کی ایک حسینہ کی محبت میں گرفتار یہ NSA اسکینڈل منظر عام پر لانے والا وجیہ امریکی نوجوان دنیا میں ایک انقلاب لانے کا آرزو مند ہے۔ چندہی ماہ قبل ایڈورڈ امریکی خفیہ ایجنسی CIA کے لیے کام کرنے والی ایک کمپنی Booze Allen کے عملے میں بہ طور سسٹم ایڈمنسٹریٹر شامل ہوا تھا۔اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران ایک دن ناگاہNSA کا ڈیٹا اس کے ہاتھ لگ گیااور یوں آغاز ہوا امریکی انٹیلی جنس کی تاریخ کے سب سے بڑے اسکینڈل کا ،جس نے منظر عام پرآتے ہی اوبامااور ان کی انتظامیہ کی راتوں کی نیندیں حرام کر دیں۔


ایڈورڈ نے NSA کے سرورز پر موجود ڈیٹا کو اپنی USB Drive میں منتقل کر کے The Guardian کے اخبارنویسوں کے حوالے کر دیا جنہوں نے ایک تفصیلی رپورٹ تیار کر کے اپنے اخبار میں شائع کر دی۔ سوشل میڈیا ، اخباری حلقوں اور سول سوسائیٹی کا اس رپورٹ پر واویلا ابھی شروع ہواہی تھا کہ 6جون 2013 کو The Guardian نے ایک اور تفصیلی رپورٹ شائع کر ماری جس میں امریکی انٹیلی جنس کے ایک انتہائی خفیہ پروگرام PRISM کو منظر عام پر لایا گیا۔اسی رپورٹ میں یہ بات منظر عام پر آئی کہ انٹرنیٹ کی جان سمجھے جانے والے وہ ادارے جن سے ہماراکسی نہ کسی حوالے سے واسطہ پڑتا رہتا ہے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔7 جون 2013کو امریکی صدر بارک اوباما نے ایک پریس کانفرنس بلائی اور PRISM پروگرام کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کی۔ بہ قول اوباما اس خفیہ پروگرام کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیاں امریکی شہریوں کی جاسوسی صرف اسی صورت میں کرتی ہیں جب ان کا کسی غیر ملکی سے کو ئی مشکوک تعلق ہو اوراس سلسلے میں متعلقہ امریکی عدالت ان کو اجازت دے چکی ہو۔

8جون کو اخبار The Guardian نے ان معلومات کو منظر عام پر لانے والے امریکی شہری ایڈورڈ سنوڈین کا ایک انٹرویو شائع کیا۔ اس انٹرویو میں ایڈورڈ نے اخبار کو بتایا کہ کیسے اس نے NSA سے یہ ڈیٹا حاصل کیا اور یہ سب معلومات دنیا کے سامنے لانے کا اس کا مقصدکیا تھا۔ایڈورڈ نے یہ بھی بتایا کہ وہ امریکا سے بھاگ کر ہانگ کانگ پہنچ چکا ہے اور سیاسی پناہ کا امیدوار ہے۔اس سلسے میں حکومت چین ،ایڈورڈ سے تفتیش کے بعد یہ فیصلہ کرے گی کہ کیا اس کو سیاسی پناہ دے دی جائے یا امریکا کے حوالے کر دیا جائے۔ اسی دوران امریکی ریاست ہوائی میں بسنے والی ایڈورڈ کی گرل فرینڈ اپنے بلاگ کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر ایڈورڈ کو مطلع کرتی رہی کہ کیسے ایڈورڈ کی یاد اس کو ستارہی ہے اور یہ کہ وہ کتنا اس کو مس کر رہی ہے۔ ایڈورڈ نے اخبار کو بتایا کہ امریکی ریاست ہوائی میں وہ $200,000 سالانہ کما رہا تھا اور اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ اپنے ذاتی گھر میں ایک پرسکون زندگی گزار تا تھا۔ لیکن اس نے یہ سب کچھ دنیا پہ PRISM پروگرام کی حقیقت افشا کرنے کے لیے داؤ پر لگا دیا۔

PRISM پروگرام کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد چند موجودہ اور سابقہ ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس اہل کاروں نے ایک اور انکشاف کیا کہ یہ پروگرام تو امریکی انٹیلی جنس اداروں کی جاسوسی کرنے کی صلاحیتوں کا عشرعشیر بھی نہیں، دراصل امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہماری ہر حرکت پرنظر رکھنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتی ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے جس قسم کے علم اور ٹیکنالوجی کی ان کو ضرورت ہے، وہ اس سے بھی لیس ہو چکی ہیں۔ان ماہرین کے مطابق امریکا سے گزرنے والی ہر قسم کی انٹرنیٹ ٹریفک کو NSA کے ہیڈکوارٹرمیںمحفوظ کیا جاتا ہے، جہاں موجود بڑے بڑے سپر کمپیوٹرز انٹیلی جنس اہل کاروں کی زیر نگرانی ان تمام معلومات کا تجزیہ کرکے اپنے مخصوص ہدف تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔معلومات کے مطابق ایسے ہتھ کنڈوںسے حاصل کردہ ڈیٹا میں سے قابل عمل مواد اکٹھا کر کے روزانہ کی بنیاد پر امریکی صدر کی بریفنگ میں شامل کیا جاتا ہے جس کے بعد اس پر اوباما اپنی حکمت عملی کے مطابق فیصلے صادر کرتے ہیں۔ ان تمام ماہرین نے انٹرویو کے دوران اس بات پر اصرار کیا کہ ان کے نام کو صیغۂ راز میں رکھا جائے کیوں کہ امریکی قانون کے مطابق انہیں ایسی معلومات فراہم کرنے پر سخت سزا مل سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک گہری امریکی سازش ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ہر شخص کو پہلے تو چند امریکی اداروں پر انحصار کرنے کے لیے راغب کیا جائے اور جب وہ ان پر انحصار کرنے لگے تو پھر اس کی بھرپور نگرانی کی جائے۔ Google, Microsoft, Apple, Yahoo, Facebook جیسے ادارے وہ ادارے ہیں جن کو ہمارے بارے میں وہ باتیں بھی معلوم ہوتی ہیں جنہیں ہم خود بھول چکے ہوتے ہیں۔آج سے دس سال قبل ہم نے کس شخص کو ای میل میں کیا لکھا تھا،کس ویب سائٹ پرہم کیا کرنے گئے تھے،کس وقت ہم نے کس شخص سے انٹرنیٹ کے ذریعے کیوں رابطہ کیا تھا، ہم نے آڈیو، ویڈیو چیٹ کس شخص سے کی تھی، ہم نے اس چیٹ میں کیا کیا کچھ کہا تھا، ہمارا تعلق کس ملک کے کس شہر سے ہے، ہم کو ن سا انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر استعمال کرتے ہیں، ہمارے کمپیوٹر میں کون کون سے سافٹ وئیر انسٹال ہیں، ان سے ہم کیا کام لیتے ہیں، ہمارا گھر کا پتہ کیا ہے، ہمارا دفتر کہاں ہے، ہم شادی شدہ ہیں یا کنورے، ہماری کس کس سے دوستی ہے، ہماری عادات کیا ہیں، ہم انٹرنیٹ پر کیا ڈھونڈتے رہتے ہیں، ہمارے انٹرنیٹ استعمال کرنے کے اوقات کیا ہیں؟؟؟ اور ان جیسے بے شمار سوالات کے جوابات ۔۔۔ سب ان اداروں کے ڈیٹابیس میں محفوظ ہیں۔ یہ گویا ایک ڈیجیٹل لوح محفوظ ہے جو ہماری ہر حرکت کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلسل محفوظ کرتی جا رہی ہے اور ہم کو اس کی کانوں کان خبر بھی نہیں ہو پاتی۔ جو بھی ڈیٹا اس طریقے سے محفوظ کیا جاتا ہے، اس میں سے کچھ بھی حذف نہیں کیا جاتا کیوں کہ نہ جانے کب امریکی حکومت کو کس چیز کی ضرو رت پڑ جائے۔

تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ بدنامی کے بعد یہ ادارے اب ہر روز اپنی وضاحتیں دیتے نظر آتے ہیں اور پریس کانفرنسیں کر کر کے بتا رہے ہیںکہ ان کا امریکی سیکیورٹی ایجنسی سے کچھ لینا دینا نہیں، ہاں البتہ امریکی عدالتوں کے حکم پر انہیں جو بھی معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، وہ امریکی قانون کی پاس داری کرتے ہوئے مطلوبہ معلومات متعلقہ ایجنسی کے حوالے کردیتے ہیں، کیوں کہ یہ ان کی مجبوری ہے۔

ہائے رے یہ مجبوریاں!
دوسری طرف چین کی چاندی ہو سکتی ہے بل کہ ایڈورڈ سنوڈین اس کے لیے غیرمتوقع طور پر سونے کی کان ثابت ہوسکتا ہے۔ سیاسی پناہ کے عوض چین ایڈورڈ سے یقینا ان تمام معلومات کا تقاضا کرے گا جو اس نے NSA سے چرائی ہیں اور اس طرح امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہزاروں راز امریکا مخالف چین کے ہاتھ لگ جائیں گے۔کیا معلوم ان معلومات کی بنیاد پر کل کو چین بھی ہم پر نظر رکھنے کے اتنا ہی قابل ہو جائے جتنا آج امریکا ہے۔ چین کو مطلوبہ معلومات فراہم کرنے پر راضی نہ ہونے پر ایڈورڈ کو یقینا ہانگ کانگ سے نکلنا پڑے گا اور کسی اور ملک سے سیاسی پنا ہ کی درخواست کرنی پڑے گی اور ہو سکتا ہے کہ اسی دوران امریکا اس کو قابو میں کر کے امریکہ واپس لے جا کر غداری کا مقدمہ چلا دے۔ایڈورڈ سنوڈین نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ ہو سکتا ہے امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے راز افشا کرنے کی پاداش میںاس کو قتل کرنے کی کوشش کریں۔

امریکی عوام کا اس اسکینڈل پر ردعمل بھی یقینا دید و شنید کے لائق ہوگا ۔کیا اپنے عوام کے دباؤ میں آکر امریکا ایسے ہو ش رباانٹیلی جنس منصوبوں سے باز آ جائے گا ؟ یا ایک بار پھر اپنی قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک کرپہلے سے بھی بڑھ کر ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے گا؟ خیر جو بھی ہو گا وہ تو ہمارے علم میں آہی جائے گالیکن سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ ہمارے بارے میں جو بھی معلومات ابھی تک امریکا کے ہتھے چڑھ چکی ہیں ان کو امریکا کس طرح اپنے حق میں استعمال کرے گا؟امریکی صدر بارک اوباما کی نظریں عصر حاضر کی لوح محفوظ پر ہیں اور یہ حقیقت اس دنیا میں بسنے والے کسی بھی شخص کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔
Load Next Story