تیزاب کا صحیح استعمال
انڈین ٹیلی ویژن ’’سونی‘‘ سے ایک پروگرام آتا ہے ’’کرائم پٹرول‘‘ کے نام سے جس میں ان جرائم کو موضوع بنایا جاتا ہے۔۔۔
KARACHI / ISLAMABAD:
انڈین ٹیلی ویژن ''سونی'' سے ایک پروگرام آتا ہے ''کرائم پٹرول'' کے نام سے جس میں ان جرائم کو موضوع بنایا جاتا ہے جنھیں پولیس نے حل کر لیا ہے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ پروگرام بالکل سچے واقعات پر مبنی ہوتا ہے۔ کسی بھی بھارتی شہر میں رونما ہونے والے جرائم اور ان کی تفصیل کو ڈرامائی شکل دے کر ناظرین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں اس کا ایک ایپی سوڈ دیکھتے ہوئے اس وقت میں حیرت زدہ رہ گئی، جب ایک شخص تیزاب خریدنے دکان پر جاتا ہے تو دکان کا مالک اس سے تیزاب خریدنے کا لائسنس طلب کرتا ہے۔ جب وہ شخص لائسنس دکھاتا ہے، تب دکان دار اسے تیزاب کی بوتل فروخت کرتا ہے اور اس کا نام پتہ اور لائسنس نمبر وغیرہ رجسٹر میں نوٹ کر لیتا ہے۔ بعد میں اس تیزاب کو ایک لاش جلانے اور اس کا چہرہ مسخ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور پولیس اسی تیزاب فروخت کرنے والے کے تعاون سے اصل مجرم تک پہنچتی ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ تیزاب کا لائسنس مجرم نے کسی ذریعے سے چرایا تھا۔
ایک وہ ملک ہے جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا۔ جہاں لائسنس کے بغیر نہ تو تیزاب بیچا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی خرید سکتا ہے، اور ایک ہم ہیں کہ ہر قسم کا تیزاب اور کیمیکل کھلے عام فٹ پاتھوں پر فروخت ہوتا ہے اور آئے دن اس کا بہترین استعمال یہ کیا جاتا ہے کہ کسی بھی عورت کا چہرہ کسی بھی وقت تیزاب پھینک کر جلایا جا سکتا ہے۔ نہ تیزاب بیچنے والے پکڑ میں آ سکتے ہیں اور نہ پھینکنے والے۔ چند دن پہلے کی ایک خبر کے مطابق خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں ایک سفاک شخص شوکت نے محض اس لیے ٹی وی اداکارہ بشریٰ پر تیزاب پھینک کر اس کا چہرہ جلا دیا کہ اس نے شوکت کا رشتہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ شوکت کوئی جاہل یا اجڈ گنوار نہیں ہے بلکہ پشتو ڈراموں کا پروڈیوسر ہے۔ وہ غنڈوں کی طرح بشریٰ کے گھر میں رات کے وقت دیوار پھاند کر کودا اور بشریٰ، اس کے بھائی اور والدہ پر تیزاب پھینک کر فرار ہو گیا۔ یہ ایک ظالم و سفاک مرد کا رویہ ہے جس کے نزدیک بشریٰ کوئی انسانی وجود نہیں تھی بلکہ کوئی بے جان چیز تھی جسے وہ زور زبردستی اور اپنی مرضی سے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بصورت دیگر اسے اپنے پیروں تلے کچلنے کا حق رکھتا تھا کہ وہ ایک مرد ہے۔ گویا رشتے سے انکار کرنا بشریٰ کا ایسا جرم تھا جس کی سزا اسے اس کا چہرہ جلا کر دی گئی۔ اگر مرد ہونے کے ناتے بشریٰ کا رشتہ حاصل کرنا شوکت کا حق تھا کہ وہ مرد ہے تو اس سے تو بہتر تھا کہ وہ اپنی مردانگی کا مظاہرہ اس طرح کرتا کہ پرانے زمانے کے جنگجو ہیرو کی طرح اپنی محبوبہ کو گھوڑے پر ڈال کر لے جاتا۔
میں اور میرے علاوہ بے شمار سول سوسائٹی کے لوگ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر 1947ء میں ملک تقسیم نہ ہوا ہوتا اور اس کے نتیجے میں سول سوسائٹی کے مہذب اور تعلیم یافتہ افراد ہجرت کر کے پاکستان نہ آئے ہوتے تو یہاں کا منظر نامہ کیسا ہوتا؟ انگریز نے خدا جانے کیوں پاکستان کے لیے ایسی سرزمین کو منتخب کیا جہاں یا تو پہاڑ اور صحرا ہیں یا پھر انتہا پسند قوتیں۔ بلوچستان کو آپ دیکھیے وہاں سرداروں نے اپنی بندوقوں کے بٹ سونے کے بنوائے ہوئے ہیں، لیکن عورتوں کے معاملے میں ان کا رویہ پتھر کے دور کے انسانوں سے بھی گیا گزرا۔۔۔!! کہ عورتوں کو زندہ دفن کرنا بلوچ قوم کی روایت ٹھہری۔ جس کا اظہار پچھلی حکومت میں اسمبلی کے ایک ممبر برملا کر چکے ہیں۔ دوسری طرف صوبہ سرحد کو دیکھ لیجیے۔ جس کا نام تو پبلک کے بے حد اصرار پر بدل دیا گیا، لیکن نام بدلنے سے کیا وہاں عورتوں کے ساتھ ہونے والے اندوہناک رویوں میں کوئی فرق آیا؟ وہی سو سال اور دم والی مثال بیان صادق آتی ہے۔
مہذب اور متمدن سوسائٹی میں عورتوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جاتا جو پاکستان کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں روا رکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے عورتوں کے ساتھ جانوروں جیسا یہ سلوک اب بڑے شہروں میں بھی پہنچ گیا ہے کیونکہ قبائلی روایات کے پابند اور فرسودہ رسم و رواج کے حامل افراد روزگار کی تلاش میں جب بڑے تجارتی اور صنعتی شہروں کی طرف رخ کرتے ہیں تو اپنے رویوں اور رسوم و رواج کی غلاظت بھی اپنے ہمراہ وہاں ساتھ لے جاتے ہیں۔ ضیاء الحق کے دور سے یہ عذاب شہروں پر نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ جس میں عورتوں کا بہیمانہ قتل، ان پر تیزاب پھینکنا، ہیروئن کی آزادانہ خرید و فروخت اور آتشیں اسلحے کا بے محابہ استعمال تھا۔ جو اب پاکستان کے لیے ایک ایسا مرض بن چکا ہے جو لاعلاج ہے۔
ہمارے ہاں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 2013ء میں اکادمی ادیبات پاکستان نے جب خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے تقریب منعقد کی تو میں بھی وہاں مدعو تھی۔ بڑی بڑی تقریریں وہاں ہوئیں۔ لیکن میں نے وہاں بھی یہ سوال اٹھایا تھا کہ بند ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر خواتین کے حوالے سے جو گفتگو کی جاتی ہے کیا اس سے عورت کو کوئی فائدہ ہے جو کاروکاری کا شکار ہو رہی ہے۔ جو ونی اور وٹے سٹے کے شکنجے میں قید ہے، جو ملوں میں مزدوری کر رہی ہے، دوسروں کے گھروں میں کام کر رہی ہے اور جس پر جو چاہتا ہے اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے تیزاب پھینک کر اس کا چہرہ جلا دیتا ہے۔۔۔؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا کیونکہ ایسے دن صرف سرکاری فائلوں کا پیٹ بھرنے اور سرکاری فنڈز کے ''منصفانہ'' استعمال کے لیے منائے جاتے ہیں۔
اسٹیج پر چند بڑے لوگوں کو بٹھا کر دو چار تقریریں کروا دی جاتی ہیں جن میں زیادہ تر مقررین یہ ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں کہ پاکستان میں عورتوں کا مستقبل محفوظ ہے اور ہر حکومت خود ہی یہ ہار اپنے گلے میں ڈالنے کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہے کہ اس کے ''سنہری دور'' میں عورتوں کے لیے جو ترقیاتی منصوبے پیش کیے گئے وہ ان سے پہلے کسی حکومت کے دور میں نظر نہیں آئے۔۔۔۔ لیکن حقیقت کیا ہے۔۔۔؟ چراغ تلے اندھیرا والی بات ہے۔ خواتین کے لیے ترقی کی معراج یہ ٹھہری کہ وہ جدید ترین تراش کے قیمتی لباس، مہنگی جیولری اور سینڈل پہن کر اسمبلی میں جلوہ افروز ہوں جس کے لیے انھیں باقاعدہ ماہانہ بھتہ بھی دیا جائے گا۔۔۔۔ لیکن یہ خواتین ہیں کون۔۔۔؟ کسی سیاسی خانوادے کی بیوی، بیٹی، بہن، چچی، خالہ، پھوپھی، نند یا بھاوج۔۔۔ ان کے مردوں نے اسمبلیوں میں اپنی بالادستی رکھنے کے لیے اپنے ہی گھرانے کی عورتوں کو اسمبلیوں میں پہنچا کر عورتوں کی ترقی کا ''فرض کفایہ'' ادا کر دیا۔۔۔۔ لیکن حقیقت کیا ہے۔۔۔؟ یہی کہ جاہل، وحشی، گنوار اور اجڈ مردوں کے لیے ہر بازار میں تیزاب کی بوتلیں سرعام سجی ہیں۔
جس کا جی چاہے خرید لے اور کسی پر بھی الٹ دے کہ ہم بدقسمتی سے اس خطے میں رہ رہے ہیں جہاں وحشی قبائل کی بالادستی ہے، ہر حکومت بڑے بڑے دعوے کرتی ہے، لیکن آج تک کسی نے کبھی ان مجرموں کو کوئی سزا دلوائی جس نے کسی عورت کو تیزاب سے جلایا؟ کیا فاخرہ کو جلانے والے بلال کھر کو کوئی عدالت یا کوئی حکومت سزا دلوا سکتی ہے۔۔۔؟ نہیں۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک جاگیردار کا بیٹا ہے اور جس ملک پر جاگیرداروں، زمینداروں اور سرداروں کی حکومت ہو وہ اپنے ہی ساتھیوں اور الیکشن میں جتانے والوں کو بھلا کیا سزا دلائیں گے۔ ان سب کے لیے خاص طور سے دیہی پنجاب، بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کے مردوں کے لیے ان کے علاقے ایک ایسی چراگاہ ہیں جن میں موجود عورتوں کو وہ جب چاہیں کتوں کے آگے پھینک دیں، جب چاہیں انھیں زندہ دفن کر دیں، جب چاہیں انھیں اپنے بستر کی زینت بنا لیں اور جب چاہیں بشریٰ اور فاخرہ کی طرح اس پر تیزاب پھینک دیں۔۔۔ اور کوئی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔۔۔۔ افسوس کہ بشریٰ پر تیزاب پھینکنے والا اتنا طاقتور ہے کہ نہ اسے اب تک گرفتار کیا گیا اور نہ ہی صوبے کے بڑے اسپتال نے اس کے خوف سے بشریٰ کا علاج کرنا گوارا کیا۔۔۔۔ اے خدا! یہ پاکستان کیا ایسے ہی خوفناک علاقوں میں بننا تھا۔ انگریز نے خدا جانے کس خوف کے پیش نظر تمام انتہا پسندوں اور جنگلیوں کے علاقے پاکستان میں شامل کر کے کون سی دشمنی کا بدلہ نکالا ہے۔ افسوس کہ بشریٰ کے لیے کسی مذہبی تنظیم یا جماعت نے ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ خیبر پختونخوا میں سے بھی کسی سرکاری اہلکار، حکومتی کارندے، وزیر، اسپیکر یا کسی نے بھی کوئی آواز بلند نہیں کی۔۔۔۔ معاملے کو دبا دیا گیا کہ تیزاب پھینکنے والا اتنا با اثر ہے کہ ڈاکٹروں نے بھی اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ تیزاب سر عام بکتا رہے گا، ابن آدم اس کا استعمال حوا کی بیٹیوں کا چہرہ بگاڑنے کے لیے کرتے رہیں گے کہ پاکستان انہی کے لیے بنا ہے۔۔۔۔!!
انڈین ٹیلی ویژن ''سونی'' سے ایک پروگرام آتا ہے ''کرائم پٹرول'' کے نام سے جس میں ان جرائم کو موضوع بنایا جاتا ہے جنھیں پولیس نے حل کر لیا ہے اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ پروگرام بالکل سچے واقعات پر مبنی ہوتا ہے۔ کسی بھی بھارتی شہر میں رونما ہونے والے جرائم اور ان کی تفصیل کو ڈرامائی شکل دے کر ناظرین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں اس کا ایک ایپی سوڈ دیکھتے ہوئے اس وقت میں حیرت زدہ رہ گئی، جب ایک شخص تیزاب خریدنے دکان پر جاتا ہے تو دکان کا مالک اس سے تیزاب خریدنے کا لائسنس طلب کرتا ہے۔ جب وہ شخص لائسنس دکھاتا ہے، تب دکان دار اسے تیزاب کی بوتل فروخت کرتا ہے اور اس کا نام پتہ اور لائسنس نمبر وغیرہ رجسٹر میں نوٹ کر لیتا ہے۔ بعد میں اس تیزاب کو ایک لاش جلانے اور اس کا چہرہ مسخ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور پولیس اسی تیزاب فروخت کرنے والے کے تعاون سے اصل مجرم تک پہنچتی ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ تیزاب کا لائسنس مجرم نے کسی ذریعے سے چرایا تھا۔
ایک وہ ملک ہے جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا۔ جہاں لائسنس کے بغیر نہ تو تیزاب بیچا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی خرید سکتا ہے، اور ایک ہم ہیں کہ ہر قسم کا تیزاب اور کیمیکل کھلے عام فٹ پاتھوں پر فروخت ہوتا ہے اور آئے دن اس کا بہترین استعمال یہ کیا جاتا ہے کہ کسی بھی عورت کا چہرہ کسی بھی وقت تیزاب پھینک کر جلایا جا سکتا ہے۔ نہ تیزاب بیچنے والے پکڑ میں آ سکتے ہیں اور نہ پھینکنے والے۔ چند دن پہلے کی ایک خبر کے مطابق خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں ایک سفاک شخص شوکت نے محض اس لیے ٹی وی اداکارہ بشریٰ پر تیزاب پھینک کر اس کا چہرہ جلا دیا کہ اس نے شوکت کا رشتہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ شوکت کوئی جاہل یا اجڈ گنوار نہیں ہے بلکہ پشتو ڈراموں کا پروڈیوسر ہے۔ وہ غنڈوں کی طرح بشریٰ کے گھر میں رات کے وقت دیوار پھاند کر کودا اور بشریٰ، اس کے بھائی اور والدہ پر تیزاب پھینک کر فرار ہو گیا۔ یہ ایک ظالم و سفاک مرد کا رویہ ہے جس کے نزدیک بشریٰ کوئی انسانی وجود نہیں تھی بلکہ کوئی بے جان چیز تھی جسے وہ زور زبردستی اور اپنی مرضی سے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ بصورت دیگر اسے اپنے پیروں تلے کچلنے کا حق رکھتا تھا کہ وہ ایک مرد ہے۔ گویا رشتے سے انکار کرنا بشریٰ کا ایسا جرم تھا جس کی سزا اسے اس کا چہرہ جلا کر دی گئی۔ اگر مرد ہونے کے ناتے بشریٰ کا رشتہ حاصل کرنا شوکت کا حق تھا کہ وہ مرد ہے تو اس سے تو بہتر تھا کہ وہ اپنی مردانگی کا مظاہرہ اس طرح کرتا کہ پرانے زمانے کے جنگجو ہیرو کی طرح اپنی محبوبہ کو گھوڑے پر ڈال کر لے جاتا۔
میں اور میرے علاوہ بے شمار سول سوسائٹی کے لوگ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر 1947ء میں ملک تقسیم نہ ہوا ہوتا اور اس کے نتیجے میں سول سوسائٹی کے مہذب اور تعلیم یافتہ افراد ہجرت کر کے پاکستان نہ آئے ہوتے تو یہاں کا منظر نامہ کیسا ہوتا؟ انگریز نے خدا جانے کیوں پاکستان کے لیے ایسی سرزمین کو منتخب کیا جہاں یا تو پہاڑ اور صحرا ہیں یا پھر انتہا پسند قوتیں۔ بلوچستان کو آپ دیکھیے وہاں سرداروں نے اپنی بندوقوں کے بٹ سونے کے بنوائے ہوئے ہیں، لیکن عورتوں کے معاملے میں ان کا رویہ پتھر کے دور کے انسانوں سے بھی گیا گزرا۔۔۔!! کہ عورتوں کو زندہ دفن کرنا بلوچ قوم کی روایت ٹھہری۔ جس کا اظہار پچھلی حکومت میں اسمبلی کے ایک ممبر برملا کر چکے ہیں۔ دوسری طرف صوبہ سرحد کو دیکھ لیجیے۔ جس کا نام تو پبلک کے بے حد اصرار پر بدل دیا گیا، لیکن نام بدلنے سے کیا وہاں عورتوں کے ساتھ ہونے والے اندوہناک رویوں میں کوئی فرق آیا؟ وہی سو سال اور دم والی مثال بیان صادق آتی ہے۔
مہذب اور متمدن سوسائٹی میں عورتوں کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جاتا جو پاکستان کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں روا رکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے عورتوں کے ساتھ جانوروں جیسا یہ سلوک اب بڑے شہروں میں بھی پہنچ گیا ہے کیونکہ قبائلی روایات کے پابند اور فرسودہ رسم و رواج کے حامل افراد روزگار کی تلاش میں جب بڑے تجارتی اور صنعتی شہروں کی طرف رخ کرتے ہیں تو اپنے رویوں اور رسوم و رواج کی غلاظت بھی اپنے ہمراہ وہاں ساتھ لے جاتے ہیں۔ ضیاء الحق کے دور سے یہ عذاب شہروں پر نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ جس میں عورتوں کا بہیمانہ قتل، ان پر تیزاب پھینکنا، ہیروئن کی آزادانہ خرید و فروخت اور آتشیں اسلحے کا بے محابہ استعمال تھا۔ جو اب پاکستان کے لیے ایک ایسا مرض بن چکا ہے جو لاعلاج ہے۔
ہمارے ہاں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ 2013ء میں اکادمی ادیبات پاکستان نے جب خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے تقریب منعقد کی تو میں بھی وہاں مدعو تھی۔ بڑی بڑی تقریریں وہاں ہوئیں۔ لیکن میں نے وہاں بھی یہ سوال اٹھایا تھا کہ بند ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر خواتین کے حوالے سے جو گفتگو کی جاتی ہے کیا اس سے عورت کو کوئی فائدہ ہے جو کاروکاری کا شکار ہو رہی ہے۔ جو ونی اور وٹے سٹے کے شکنجے میں قید ہے، جو ملوں میں مزدوری کر رہی ہے، دوسروں کے گھروں میں کام کر رہی ہے اور جس پر جو چاہتا ہے اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے تیزاب پھینک کر اس کا چہرہ جلا دیتا ہے۔۔۔؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا کیونکہ ایسے دن صرف سرکاری فائلوں کا پیٹ بھرنے اور سرکاری فنڈز کے ''منصفانہ'' استعمال کے لیے منائے جاتے ہیں۔
اسٹیج پر چند بڑے لوگوں کو بٹھا کر دو چار تقریریں کروا دی جاتی ہیں جن میں زیادہ تر مقررین یہ ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں کہ پاکستان میں عورتوں کا مستقبل محفوظ ہے اور ہر حکومت خود ہی یہ ہار اپنے گلے میں ڈالنے کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہے کہ اس کے ''سنہری دور'' میں عورتوں کے لیے جو ترقیاتی منصوبے پیش کیے گئے وہ ان سے پہلے کسی حکومت کے دور میں نظر نہیں آئے۔۔۔۔ لیکن حقیقت کیا ہے۔۔۔؟ چراغ تلے اندھیرا والی بات ہے۔ خواتین کے لیے ترقی کی معراج یہ ٹھہری کہ وہ جدید ترین تراش کے قیمتی لباس، مہنگی جیولری اور سینڈل پہن کر اسمبلی میں جلوہ افروز ہوں جس کے لیے انھیں باقاعدہ ماہانہ بھتہ بھی دیا جائے گا۔۔۔۔ لیکن یہ خواتین ہیں کون۔۔۔؟ کسی سیاسی خانوادے کی بیوی، بیٹی، بہن، چچی، خالہ، پھوپھی، نند یا بھاوج۔۔۔ ان کے مردوں نے اسمبلیوں میں اپنی بالادستی رکھنے کے لیے اپنے ہی گھرانے کی عورتوں کو اسمبلیوں میں پہنچا کر عورتوں کی ترقی کا ''فرض کفایہ'' ادا کر دیا۔۔۔۔ لیکن حقیقت کیا ہے۔۔۔؟ یہی کہ جاہل، وحشی، گنوار اور اجڈ مردوں کے لیے ہر بازار میں تیزاب کی بوتلیں سرعام سجی ہیں۔
جس کا جی چاہے خرید لے اور کسی پر بھی الٹ دے کہ ہم بدقسمتی سے اس خطے میں رہ رہے ہیں جہاں وحشی قبائل کی بالادستی ہے، ہر حکومت بڑے بڑے دعوے کرتی ہے، لیکن آج تک کسی نے کبھی ان مجرموں کو کوئی سزا دلوائی جس نے کسی عورت کو تیزاب سے جلایا؟ کیا فاخرہ کو جلانے والے بلال کھر کو کوئی عدالت یا کوئی حکومت سزا دلوا سکتی ہے۔۔۔؟ نہیں۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک جاگیردار کا بیٹا ہے اور جس ملک پر جاگیرداروں، زمینداروں اور سرداروں کی حکومت ہو وہ اپنے ہی ساتھیوں اور الیکشن میں جتانے والوں کو بھلا کیا سزا دلائیں گے۔ ان سب کے لیے خاص طور سے دیہی پنجاب، بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کے مردوں کے لیے ان کے علاقے ایک ایسی چراگاہ ہیں جن میں موجود عورتوں کو وہ جب چاہیں کتوں کے آگے پھینک دیں، جب چاہیں انھیں زندہ دفن کر دیں، جب چاہیں انھیں اپنے بستر کی زینت بنا لیں اور جب چاہیں بشریٰ اور فاخرہ کی طرح اس پر تیزاب پھینک دیں۔۔۔ اور کوئی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔۔۔۔ افسوس کہ بشریٰ پر تیزاب پھینکنے والا اتنا طاقتور ہے کہ نہ اسے اب تک گرفتار کیا گیا اور نہ ہی صوبے کے بڑے اسپتال نے اس کے خوف سے بشریٰ کا علاج کرنا گوارا کیا۔۔۔۔ اے خدا! یہ پاکستان کیا ایسے ہی خوفناک علاقوں میں بننا تھا۔ انگریز نے خدا جانے کس خوف کے پیش نظر تمام انتہا پسندوں اور جنگلیوں کے علاقے پاکستان میں شامل کر کے کون سی دشمنی کا بدلہ نکالا ہے۔ افسوس کہ بشریٰ کے لیے کسی مذہبی تنظیم یا جماعت نے ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ خیبر پختونخوا میں سے بھی کسی سرکاری اہلکار، حکومتی کارندے، وزیر، اسپیکر یا کسی نے بھی کوئی آواز بلند نہیں کی۔۔۔۔ معاملے کو دبا دیا گیا کہ تیزاب پھینکنے والا اتنا با اثر ہے کہ ڈاکٹروں نے بھی اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ تیزاب سر عام بکتا رہے گا، ابن آدم اس کا استعمال حوا کی بیٹیوں کا چہرہ بگاڑنے کے لیے کرتے رہیں گے کہ پاکستان انہی کے لیے بنا ہے۔۔۔۔!!