ہم کبھی نہیں ڈوبیں گے

تعجب اس بات پر ہے کہ کسی خفیہ تفتیش میں نہیں کھلی خبروں میں انکشاف ہو رہا ہے کہ فلاں منصوبے یا ڈیل میں فلاں آدمی...


Abdul Qadir Hassan June 29, 2013
[email protected]

اردو نثر نگاروں کے امام، انتہائی قابل احترام ادیب جناب سید انتظار حسین نے آموں کا بہانہ بنا کر مجھ پر ایک پورا کالم لکھ دیا ہے۔ اگرچہ یہ بالکل بلامبالغہ ایک حقیقت ہے کہ اس ٹھیٹھ پنجابی نے اردو زبان انتظار صاحب سے سیکھی' ان کے کالم سبقاً سبقاً پڑھے اور ان کے فیض سے دامن بھرتے رہے لیکن میں اتنا کچھ حاصل نہیں کر سکا کہ اس کا اس طرح ذکر کیا جاتا۔

اتنی فراخدلی اور محبت میری برداشت سے باہر ہے۔ تعجب ہوا جب کراچی کے بعض اہل زبان نے شاگردوں کو میرے کالم غور سے پڑھنے کا مشورہ دیا کہ زبان کیا ہوتی ہے، ان کو معلوم نہیں تھا کہ یہ زبان اہل زبان کے ایک نابغہ روزگار کی دین اور عطیہ ہے اور ہمارے جیسے لوگ ان کے نقال ہیں اور کچھ نہیں۔ ہمارے ہاں صحافت میں اردو نثر انتظار صاحب کے نام سے زندہ ہے یعنی اس کا اگر کوئی معیار ہے تو اس کا ثواب انتظار صاحب کو جاتا ہے۔ بہرحال مجھ پر انھوں نے اتنا بڑا بوجھ ڈال دیا ہے بلکہ لاد دیا ہے کہ اٹھائے نہ بنے۔

اس بوجھ کو دل و جان پر رکھ کر میں آج کی بات کی طرف آتا ہوں۔ ہمارے آج کے حکمران انتظامی اور ترقیاتی اخراجات پورے کرنے اور فوری نوعیت کے قرض اتارنے کے لیے ان دنوں دیوانہ وار ملک کے کونوں کھدروں تک کی تلاشی لے رہے ہیں کہ شاید کوئی مدفون خزانہ کہیں سے دستیاب ہو جائے۔ حکومتوں کے لیے آسان کام عوام پر ٹیکس لگانا ہوتا ہے۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ایک تنکا بھی برداشت نہیں کر سکتے لیکن کچھ کر بھی نہیں سکتے۔

مجھ سمیت لوگ روتے ہیں کہ ان کے صرف پانچ مرلوں کے گھروں پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ لاہور میں میرا ''آبائی'' گھر شاید پانچ مرلے سے بھی کم ہی ہے لیکن اب ٹیکس لگانے والے اسے بھی معاف نہیں کریں گے۔ مہنگائی ہر روز بڑھتی ہے لیکن کاروباری لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ خریدار ووٹروں کی تعداد ان سے بہت زیادہ ہے اور یہ حکمرانوں کو معلوم بھی ہے۔ بہرحال جو بھی ہو وہ برداشت کرنی ہے لیکن ایک عرض بھی کہ جب لوگوں نے بلاشبہ اربوں روپے رشوت میں کما لیے ہیں۔ ریلوے جیسے اداروں کو ختم کر دیا ہے اور پی آئی اے جیسے ادارے اپنا دم لبوں پر لیے پھرتے ہیں۔

تعجب اس بات پر ہے کہ کسی خفیہ تفتیش میں نہیں کھلی خبروں میں انکشاف ہو رہا ہے کہ فلاں منصوبے یا ڈیل میں فلاں آدمی اتنے ارب کھا گیا ہے اور تو اور سپریم کورٹ تک چیخ رہی ہے کہ کچھ کرو۔ ہمارے دونوں سابقہ وزیر اعظم ہمارے ملزموں میں شامل ہیں اور ان کے ساتھ کتنے ہی دوسرے لوگوں کے نام بھی آ رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کو تو نہ جانے مزید کتنے لوگوں کے نام بھی معلوم ہیں جو ظاہر نہیں ہیں لیکن کمزور عوام پر تو بے تکلف ہاتھ ڈال دیا گیا ہے مگر ان اربوں کے رشوت خوروں کو کوئی پوچھ نہیں رہا۔ کیا یہ آئندہ کے لیے کوئی مثال تو قائم نہیں کی جا رہی کہ کھاؤ کوئی پوچھے گا نہیں۔

یہ بات قطعاً ناقابل فہم ہے کہ کڑکی کے اس زمانے میں اربوں کی ناجائز دولت رکھنے والے کیوں محفوظ ہیں۔ وہ اسی ملک میں ہمارے سامنے دندناتے پھرتے ہیں مگر حکمرانوں کی مجال نہیں کہ ان کا ذکر بھی کریں ان پر ہاتھ ڈالنا اور ان سے قومی رقم نکلوانا تو دور کی بات ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ عوام جنھوں نے ملک کی ایک پائی بھی نہیں کھائی ان کو نچوڑا جا رہا ہے جیسے کوئی بے رس لیموں کو نچوڑنے کی کوشش کرے۔ پاکستانیوں کو خوب معلوم ہے کہ ماضی کی حکومتوں میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہے اور وہ کس قدر کنگال کر دیے گئے ہیں۔

ان کو اس حال سے نکالنا کتنا مشکل ہے لیکن یہ کام بہرحال کسی حکمران کو ہی کرنا ہے کیونکہ اس کے لیے اقتدار اور اختیار چاہیے اور وسائل بھی۔ ایک مشہور بحری جہاز کے ڈوبنے کا بے رحم حوالہ پاکستان کو بحری جہاز سمجھ کر دیا جا رہا ہے۔ ایسے پاکستانیوں کی ہمت اور جرأت کی داد ابھی دے ہی رہے تھے کہ ہمارے نئے سیاست دان عمران خان نے اس کی زبردست تائید بھی کر دی اور ہم پاکستانی ہکا بکا ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ ایک صاحب پہلے ہی مدتیں گزریں مکمل طور پر سات سمندر پار مقیم ہیں، دوسرے آدھے پاکستان میں رہتے ہیں، ان دنوں بچوں اور ان کی والدہ سے ملنے لندن گئے ہوئے ہیں جہاں خبر ہے کہ وہ پندرہ بیس دن رہیں گے لیکن ان کی غیرحاضری میں اگر نعوذ باللہ پاکستانی ٹائی ٹینک ڈوب گیا تو پھر کیا ہو گا۔ ہمارے تو کرکٹ کے علاوہ جہاز کا کپتان بھی وہی ہے۔ ہماری حالت تو یہ یا بنا دی گئی ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ سے کسی راہبر کی تلاش اور امید میں بھاگتے پھرتے ہیں۔

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

جب کوئی تیز رو قابو آتا ہے تو خوشی کے اس لمحے میں جب ذرا ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے وہ بھی اتنا زیادہ تیز رو نکلا کہ لندن جا کر دم لیا لیکن جو ہمارے ساتھ موجود ہیں وہ بھی واہگہ کے اس پار کی دنیا کی طرف رسے تڑا رہے ہیں۔ پانی بھی اُدھر سے گیس بھی اُدھر سے بجلی بھی اُدھر سے صرف ووٹر اِدھر پاکستان سے جہاں نہ بجلی ہے نہ پانی نہ گیس صرف اقتدار کے اللّے تللّے ہیں اور وہ بہت ہیں۔ وزرائے کرام جو ہم پر مسلط کیے گئے ہیں وہ کون ہیں، کیا وہ وہی ہیں جنھیں ہم ایک مدت سے کبھی اپوزیشن اور کبھی حکومت دونوں میں باری باری دیکھ رہے ہیں۔

یہ پری چہرہ لوگ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں، یہ سب کسی جادو نگری کے لوگ ہیں، چھلاوے ہیں لیکن شدید خواہش ہے کہ چلیے یہی کچھ کر دکھائیں۔ ہم کب تک کسی نہ کسی تیز رو کے ساتھ بھاگتے رہیں گے۔ میاں صاحبان سے عرض ہے کہ وہ کسی وزیر وغیرہ کو نہیں عوام کو بھی اپنا وزیر اور محکوم سمجھیں۔ ان کو خالی سیاسی میدان ملا ہے وہ اس میں کچھ کر دکھائیں۔ ہتھیلی پر سرسوں بے شک نہ جمائیں' پاکستان کے کھیتوں کو آباد کر دیں۔ ایک کاشتکار اور کسان ہوں اور زمین پر اور اس کے اندر ہی لوٹ جانا ہے۔ بازاروں اور منڈیوں کے ساتھ ساتھ کھیتوں کو بھی آباد دیکھنا چاہتا ہوں اور میاں صاحبان سے یہی عرض کرتا ہوں۔ جس ملک کے کھیت آباد ہوں جس ملک کی منڈیاں اناج سے بھری ہوں وہ ملک بھوکا کیسے مر سکتا ہے وہ ڈوبتا نہیں ہے اور ہم کبھی نہیں ڈوبیں گے۔ کوئی اپنی تسلی کے لیے کچھ بھی کہتا رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں