متوازی معیشت کے خلاف ٹھوس اقدامات

پاکستان جیسے مفلوک الحال ملک کا بجٹ پیش کرنا ایک مشکل کام ہے۔ کسی حکومت کے لیے اپنے پہلے ہی سال میں ناخوشگوار۔۔۔

ayazbabar@gmail.com

پاکستان جیسے مفلوک الحال ملک کا بجٹ پیش کرنا ایک مشکل کام ہے۔ کسی حکومت کے لیے اپنے پہلے ہی سال میں ناخوشگوار معاشی فیصلے کرنا اور بھی دشوار ہوتا ہے، کیونکہ انتخابی مہم کے دوران کیے جانے والے غیر حقیقت پسندانہ وعدے ابھی ووٹروں کے ذہن میں تازہ ہوتے ہیں۔ مگر ہم سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ کسی حکومت کو، اس سے پہلے کہ اس کی چمک دمک ماند پڑ جائے سخت فیصلے کر لینے چاہییں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کام مشکل تھا خاص طور پر اس لحاظ سے کہ انھیں انتخابات کے صرف ایک ماہ بعد 2013-14 کا بجٹ پیش کرنا پڑا۔ چنانچہ انھوں نے کیا کیا؟ انھوں نے بابو لوگوں کا تیار کردہ بجٹ پیش کر کے ایک محفوظ راستہ اختیارکیا، جس میں ان لوگوں پرمزید ٹیکس لگا دیا گیا جوپہلے ہی ٹیکس دے رہے ہیں اور ٹیکس دینے سے گریز کرنے والوں کو پکڑنے کی خاطر ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کی نیم دلانہ کوشش کی گئی۔

اصل میں وزیر خزانہ کی مشکل یہ ہے کہ ٹیکس دینے سے گریز کرنے والا کاروباری طبقہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا بڑا ووٹ بینک ہے۔ 80 کی دہائی میں ڈاکٹر محبوب الحق نے پہلی بار ویلیو ایڈڈ ٹیکس(VAT) نافذ کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس کی سب سے زیادہ مزاحمت پنجاب حکومت کی خاموش حمایت سے اسی طبقے کی طرف سے کی گئی تھی۔ ذہن پرزور دیجیے کہ اُس وقت کون وزیر اعلیٰ تھا؟ آپ کا اندازہ درُست ہے۔ اُس وقت نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔ جنرل مشرف کی فوجی حکومت کی طرف سے بھی کئی کوششیں کی گئیں مگر شوکت عزیز کو شکست کھانی پڑی اور گزشتہ سندھ حکومت کو ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکس (RGST) کے نفاذ کا اعلان کرنے کے بعد پیچھے ہٹنا پڑا، کیونکہ ایم کیو ایم اور پی ایم ایل (ن) نے جنھیں کاروباری لوگوں کی حمایت حاصل ہے، اس ٹیکس کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ اسحاق ڈار نے ٹیکس کے اس چار حرفی مخفف RGST کا ذکر تک نہیں کیا، حالانکہ یہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے ساتھ اختلاف کا بنیادی سبب تھا۔ انھیں اس بنا پر شک کا فائدہ دیا جاتا ہے کہ انھیں مسلم لیگ (ن) کی سوچ کے مطابق بجٹ پیش کرنے کے لیے بہت کم وقت ملا۔ مگر ان کے ناقدین اس بات کو نہیں مانتے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان کے سیاسی کلچر میں حزب اختلاف کی متوازی کابینہ کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن یہ بات سب کو معلوم تھی کہ سینیٹر اسحاق ڈار پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر خزانہ ہوں گے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انھیں تیاری کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ڈار کے لیے ایک آسانی یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ان کے بہت قریبی مراسم ہیں۔ یہ مراسم انھیںکم سے کم اس تنقید سے بچانے میں ضرور مدد دیں گے جو سیاسی ساتھیوں کی طرف سے ایک روایت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نواز شریف کی پچھلی حکومت میںجب سرتاج عزیز وزیر خزانہ تھے تو اس بھلے آدمی کو اپنی ہی کابینہ کے ساتھیوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ڈاکٹر محبوب الحق کو جو نئے نئے تصورات متعارف کراتے رہتے تھے دو بار مختصر عرصے کے لیے وزیر خزانہ کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا لیکن غلام اسحاق خان کی طرف سے ان کی مخالفت کی گئی اور وہ زر مبادلہ کے بند دروازے کو کھولنے کے سوا اور کوئی بڑا کام نہ کر سکے۔ مسلم لیگ (ن) کی دو حکومتوں کے دوران سرتاج عزیز اور اسحاق ڈار بھی کوئی ایسا متنوع بجٹ پیش کرنے کے قابل نہ ہو سکے جس سے محاصل اور سرمایہ کاری کی شرح بڑھائی جا سکتی۔ مشرف حکومت کے ابتدائی چند سالوں میں شوکت عزیز نے بعض اصلاحات کیں مگر اس کامیابی کا زیادہ تر تعلق غیر ملکی قرضوں کی واپسی میں اُس چھوٹ سے تھاجو قرض دینے والوں نے 9/11 کے بعد پاکستان کو دی تھی۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے جب پہلی بار سیاست میں قدم رکھا تو انھوں نے سندھ کے ایک لائق وزیر خزانہ کی حیثیت سے کام کیا مگر جب انھوں نے مرکز میں زیادہ بڑی ذمے داری سنبھالی تو اُس وقت معیشت کو تین اطراف سے نچوڑا جا رہا تھا۔ ایک ایسے ماحول میںجہاں کوئی مالیاتی یا سیاسی گنجائش نہیں تھی انھوں نے صرف مشکلات سے نکلنے میں تین سال گزار دیے۔

تاہم تجزیہ کاروں کو، بجٹ کو آڑے ہاتھوں لینے سے پہلے کم سے کم پانچ بڑے عوامل کو ذہن میں رکھنا چاہیے: اول، ملک تقریباً خانہ جنگی کا شکار ہے۔ خیبر پختونخوا، فاٹا اور بلوچستان کوبے دریغ دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ اور پاکستان کا تجارتی مرکز کراچی بدستور عدم استحکام کا شکار ہے۔ دوئم، علاقے کی خطرناک صورت حال، پاکستان کی احمقانہ خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی نے ملک کو اور زیادہ دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ سوئم، ہماری قومی افتخار کی نام نہاد پالیسی کے باعث غیر ملکی امداد اور سرمایہ کاری کم ہو گئی ہے۔ چہارم، مسلم لیگ (ن) کوسابق مخلوط حکومت کی طرف سے جوکوئی جرات مندانہ اقتصادی اصلاحات کرنے کے قابل نہیں تھی، چھوڑے ہوئے بہت سے مسائل ورثے میں ملے؛ اور پنجم، عالمی معیشت ابھی تک انحطاط کے طویل دور سے باہر نہیں نکل سکی۔

ان حالات میں وزیر خزانہ سے، جو مسائل میں گھرے ہوئے ہیں کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ ہر نئے وزیر خزانہ کے پاس عام طور سے یہ فن کاری ہوتی ہے کہ مجموعی قومی پیداوار کی کم افزائش اور اس کے نتیجے میں سال گزشتہ کے دوران زیادہ مالیاتی خسارے کو پیش رو حکومت کا چھوڑا ہوا ورثہ بتایا جائے۔ یہ طریقہ کار آنے والے سال کے اہم اہداف پر کام کرنے کے لیے زیادہ سہل بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ انھیں مجموعی قومی پیداوار کی 3.6 فیصد افزائش اوربجٹ میں 8.8 فیصد خسارہ پچھلی حکومت کی طرف سے ملا۔ اسٹیٹ بینک نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میںبجٹ خسارے کا تخمینہ 7.5 فیصد لگایا لیکن وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے بعداس نے اسحاق ڈار کی تقریر کے مطابق اس خسارے کا تخمینہ مجموعی قومی پیداوار کے 8.8 فیصد تک بڑھا دیا۔ اگر 7.5 فیصد خسارے کا تخمینہ درست تھا تو پھر ڈار کے لیے اپنا یہ وعدہ پورا کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے کہ وہ 2013-14 میں خسارے میں 2.5 فیصد کمی کر دیں گے، کیونکہ اس کا مطلب اصل میں خسارے میںصرف 1.3 فیصد کمی لانا ہو گا۔ اور اگر مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی اصل شرح 3.6 فیصد سے زیادہ تھی جسے کہ سال گزشتہ کے اقتصادی اعداد و شمار کی بنیاد بنایا گیا ہے تو اس سے بھی خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔


اِن پُرجوش تقریروں کے برعکس کہ مسلم لیگ (ن) کاسہ گدائی کو توڑ پھینکے گی، ٹھوس زمینی حقائق نے ڈار کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کر دیا ہے۔ اخراجات جاریہ کے عدم توازن کو دور کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے علاوہ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدہ کرنے کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ امداد دینے والے دوسرے بین الاقوامی ادارے، اپنی امداد کا وعدہ کرنے سے قبل، اُس ملک کی معیشت اور اس کی سمت معلوم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے تجزیے پر انحصار کرتے ہیں۔

اس حکومت کے لیے زیادہ بڑا چیلنج یہ ہے کہ غیر ملکی امداد اور سرمایہ کاری کا داخلی بہاؤ تقریباً ختم ہو چکا ہے جب کہ خارجی بہاؤ بڑھ رہا کیونکہ ادائیگیوں کا وقت سر پہ آ چکا ہے۔ 2013 سمیت اگلے چار سال میں صرف آئی ایم ایف کو 5 بلین ڈالر سے زیادہ کی اقساط واپس کرنا ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے سے گریز بڑھ رہا ہے، ان شرائط میں تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان اپنے بجٹ خسارے کو کم کرے، ٹیکس کے محاصل بڑھائے اور زر اعانت دینے کی روش بند کرے۔ جو بات سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم آئی ایم ایف کی بات ماننے سے انکار بھی کر دیں، کوئی بھی عقل مند حکومت ایسے اقدامات نہیں کرے گی۔

فرق یہ ہے کہ اگر عوامی حکومت ہے تو ایسے دولت مند لوگوں پر ٹیکس لگا کر، جو ٹیکس دینے سے گریز کرتے ہیں، اپنے محاصل بڑھائے گی جوہری ہتھیاروں کا ڈھیر لگانے جیسے غیر پیداواری اخراجات کم کرے گی، کفایت شعاری اختیار کرے گی، سبسیڈیز کو ختم کرے گی، جن سے کرپٹ اور بدعنوان سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری ہوتی ہے اور اس کی بجائے غربت کی حد سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کا ہدف مقرر کر کے انھیں یہ سبسڈی دی جائے گی۔

مگر بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے اس مسئلے کے بارے میں نہیں سوچا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے بھی زیادہ توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کے حلقہ انتخاب میں زیادہ تر چھوٹے، متوسط اور بڑے کاروباری لوگ شامل ہیں۔ حال ہی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ کاروباری برادری کو خوش کرنے کے لیے غیر رجسٹرڈ بزنس پر زیادہ شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس لگا کر ٹیکس وصولی کا دائرہ وسیع کرنے کے معمولی اقدامات سے بھی پیچھے ہٹ گئی۔ غیر رجسٹرڈ درمیانے آدمی سے لین دین کرنا، بڑے کاروبار کے لیے بھی فائدہ مند رہتا ہے کیونکہ خرید اور فروخت کو بڑی آسانی کے ساتھ انوائس سے کم یا زیادہ ظاہر کیا جا سکتا ہے، جس سے اصل آمدنی کو چھپانے میں مدد ملتی ہے۔

کاروبار کے حق میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی یہی وہ سوچ ہے جو ملک کے اندر اور باہر کاروباری برادری میں خوشگوار احساس کی لہریں پہنچاتی ہے۔ 1990 میں جب پہلی بارمسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو اس کی کابینہ کی ٹیم نے ہم آہنگی کے ساتھ مل جل کر کام کیا۔ حلف اٹھانے کے تین ماہ کے اندر نواز شریف کی حکومت نے ایک بینک کی نجکاری کے اقدامات شروع کر دیئے۔ اس کے بعد لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) سعید قادر کی قیادت میں کئی صنعتوں کی نجکاری ہوئی۔ پرائیویٹ سیکٹر نے اس پروگرام پر اچھا رد عمل ظاہر کیا حالانکہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے طبقے نے اصولی بنیاد پر نجکاری کی مخالفت کی تھی۔

لیکن غلام اسحاق خان، جو نجی شعبے سے کتراتے تھے ان اقدامات سے خوش نہیں تھے۔ اس صورت حال اور بعض سیاسی اختلافات کے باعث انھوں نے اپریل 1993 میں نون لیگ کی حکومت کو غیر آئینی طریقے سے برطرف کر دیا۔ سپریم کورٹ نے غلام اسحاق خان کے اقدام کو غلط قرار دیا لیکن پھر فوجی جرنیلوں نے مداخلت کی اور نواز شریف کو استعفا دینے پر مجبور کر دیا۔1997 میں مسلم لیگ (ن) بھرپور اکثریت کے ساتھ واپس آئی۔ قومی اسمبلی میں اسے دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ اُس وقت کابینہ کے ارکان ایک دوسرے کے ساتھ کچھ مشکل صورت حال میں مبتلا تھے۔ خواجہ آصف نے جو نجکاری کے وزیر تھے، ایک ٹیلیویژن پروگرام کے لیے انٹرویو میں کیمرے کے سامنے مجھے بتایا کہ دوسرے وزیر ان کے ساتھ تعاون نہیں کر تے اور جب بھی وہ پھنس جاتے ہیں انھیں 'میاں صاحب کی مدد' لینا پڑتی ہے۔

اسحاق ڈار نے بھی جو اُس وقت وزیر تجارت تھے میرے سامنے اس بات کی تصدیق کی کہ کابینہ کے ارکان ایک ٹیم کی حیثیت سے کام نہیں کر رہے۔اِس بار اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہو گا کہ انھیں اپنے ساتھیوں سے کس حد تک تعاون اور وزیر اعظم سے کس حد تک حمایت ملتی ہے۔ دونوں کا کام کٹھن ہے اور ہنی مون ختم ہونے سے پہلے انھیں بہتری کے کچھ آثار دکھانے ہیں۔ امور خارجہ کی اہم وزارت میں اختلافات کے اشارے پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں، جہاںمبینہ طور سے سفیر فاطمی سرتاج عزیز کے ساتھ پنجہ آزمائی کر رہے ہیں۔

ملک کو اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو سنبھالنے کے لیے ہم آہنگ ہو کر کام کرنے والی ایک مضبوط انتظامی ٹیم کی ضرورت ہے۔ کیا وزیر اعظم نواز شریف کی ٹیم کچھ کرنے کے قابل ہو گی؟ یہ پیش گوئی اتنی جلدی نہیں کی جا سکتی۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں ان لوگوں کو چند ماہ کا وقت دینا چاہیے اور پھر یہ سوال کرنا چاہیے۔
Load Next Story