سلام ایدھی
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں نعرہ لگایا تھا سلام ٹیچر! لیکن افسوس کہ یہ نعرہ، نعرے ہی تک محدود رہا۔۔۔
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں نعرہ لگایا تھا سلام ٹیچر! لیکن افسوس کہ یہ نعرہ، نعرے ہی تک محدود رہا سلام تو ٹیچر کو سب نے ہی کیا لیکن اس کے مسائل کو حل کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی ۔ہمیشہ کی طرح ان کی حلق تلفی کی گئی اور اس کی جائز محنت کا نصف حصہ بھی اسے نہ ملا، پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تو بے چارے اساتذہ کو پنشن اور دوسری مراعات دینے کا بھی نہ چلن ہے اور نہ کسی انصاف پسند نے اس قسم کی روایات قائم کیں، لیکن یہ بات اپنی جگہ سوفیصد درست ہے کہ اپنے پیشے سے مخلص اساتذہ عزت و احترام اورسلام کے مستحق ہیں لیکن یہ بات نہایت دکھ کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ اساتذہ کے جائز حقوق اپنی جگہ لیکن اب تو اس مقدس پیشے سے وابستگی کی بنا پر ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔
ہر روز اساتذہ کا قتل کسی نہ کسی صورت میں بے دردی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ جس طرح اس معاشرے کے بہت سے لوگ عزت و توقیر کے حق دار ہیں بالکل اسی طرح فلاحی کام کرنیوالے، اپنے سکھ چین کو گنوانے اور زندگی کی پرواہ نہ کرنیوالے بھی ہمارے ملک کا بہت بڑا سرمایہ اور قابل افتخار ہیں۔ انہی اہم لوگوں میں جناب عبدالستار ایدھی بھی ہیں جن کی عظمت کا ہر شخص اعتراف کرتا اور ان کے اعلیٰ ترین کردار کو سلام پیش کرتا ہے۔ عبدالستار ایدھی اور ان کے گھرانے کے ہر فرد نے اپنی زندگیوں کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا ہے۔ہر موقع، ہر سانحے پر عبدالستار ایدھی بذات خود پہنچتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں ۔ اگر وہ نہیں جاپاتے تو ان کے کارکنان ایدھی ایمبولنسوں کو دوڑاتے ہوئے جائے حادثہ پر پہنچ کر، دامے، درمے، سخنے کے مترادف مدد کرنے کی بھرپور طریقے سے کوشش کرتے ہیں۔
جس وقت انھوں نے فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی وہ تنہا تھے اور آج ہر صاحب دل اور انسانیت پسند شخص ان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لیے تیار ہے اور بے شمار اس کارواں میں شامل ہوکر ایدھی صاحب کے متعین کردہ راستے پر گامزن ہیں۔
ان دنوں جناب عبدالستار ایدھی سخت علیل ہیں، لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری وہ اب بھی کام کر رہے ہیں بقول جناب ڈاکٹر ادیب رضوی کے کہ ایدھی کے گردے فیل ہوچکے ہی، عمر بھر ڈائیلائسس ہوگا، انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلاٹیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر ادیب رضوی نے مزید وضاحت کی کہ ملک کے ممتاز سماجی رہنما اور ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی کے لیے کسی قسم کی فکر کی بات نہیں ہے وہ معمول کے تمام کام انجام دے رہے ہیں جب کہ عبدالستار ایدھی کے خاندان کے لوگ انھیں اپنا اپنا گردہ عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔
وہ بلڈ پریشر کے مریض تھے انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ چیک اپ کے بعد ہی یہ حقیقت سامنے آئی ہے۔اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں، لیکن دوسروں کے لیے جینا، ان کے دکھ درد کا خیال رکھنا، انسانیت کی بقا کے لیے پوری زندگی وقف کردینا معمولی بات نہیں ہے انہی جیسے اعلیٰ حضرات کے لیے علامہ اقبال کہہ گئے ہیں کہ ''بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا''
کئی برس پہلے جب ایڈیٹر کی حیثیت سے ہماری ملاقات اہم شخصیات سے ہوئی تھی، انہی میں میوزیشن سہیل رانا اور عبدالستار ایدھی کے علاوہ بھی قابل قدر شخصیات شامل تھیں ان دنوں ہم ماہنامہ ''چاند گاڑی'' بچوں کا رسالہ میں کام کیا کرتے تھے، چیف ایڈیٹر آغا مسعود حسین تھے یہ اور دوسرے رسائل عبداللہ دادا بھائی کی نگرانی میں نکلا کرتے تھے۔ برابر میں ہی حسنین کاظمی صاحب کا دفتر تھا جہاں سے ماہنامہ یا پھر سہ ماہی رسالہ ''دائرے'' نکلا کرتا تھا جس سے ڈاکٹر مشرف احمد بھی وابستہ تھے، ہماری اکثر ڈاکٹر مشرف اور پروفیسر حسنین کاظمی سے ملاقات ہوجایا کرتی تھی جو ہمارے لیے باعث مسرت تھی۔
جب ہم ایدھی صاحب سے ملاقات کرنے ان کا انٹرویو لینے پہنچے تو وہ ننگے پاؤں کھدر کا لباس پہنے دوسرے کارکنان کے ساتھ ایک عام آدمی کی طرح کاموں میں مصروف تھے۔
اس بات سے سب واقف ہیں کہ ان کی نشست و برخاست نہایت سادگی ہے۔ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ ہی وہ بڑا آدمی ہے جس کی محنت اور انسانوں سے محبت کے حوالے سے ایک نہیں کئی ادارے وجود میں آچکے ہیں اور سالہا سال سے کام کر رہے ہیں ایک بچوں کا ادارہ کورنگی میں ہے جہاں ہم نے اپنے رسالے کے لیے بچوں کا بھی انٹرویو لیا تھا اور جب ایک ''جیب کترے'' بچے کی سرگزشت سنی تو ہمارے ذہن میں افسانہ لکھنے کی ترغیب پیدا ہوئی اور اس طرح ''گلاب فن'' افسانہ وجود میں آیا۔
خواتین کے لیے بفرزون یا نارتھ کراچی میں ایک بہت بڑا سینٹر (وہاں بھی ہم جاچکے ہیں انٹرویو کے لیے ) ہے جہاں بیمار و مظلوم خواتین زندگی کے دن گزارتی ہیں اس ادارے میں ایسی بھی نوجوان لڑکیاں موجود ہیں جن کی بھابھیوں نے انھیں نفسیاتی مریضہ کا نام دے کر داخل کرادیا ہے، وہ آٹھ آٹھ آنسو روتی ہیں، فریاد کرتی ہیں کہ ان کے گھر والے انھیں لے جائیں، مسئلہ یہ ہے کہ غیر تو غیر ہوتے ہیں اپنے سگے بھائی ہی اپنی ماں جائی کے ساتھ ظلم کے شریک کار ہوں اور خود محتاج خانے میں چھوڑ آئیں پھر کس سے شکوہ؟ لیکن ہے بڑے ہی شرم اور غم کی بات کہ کبھی بھائی، بہنوں کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں تو کبھی والدین کو اس قسم کے اداروں میں چھوڑ آتے ہیں، اس موقعے پر ایسی نافرمان اور بے حس اولاد سے میری مودبانہ درخواست ہے کہ وہ اپنی جنت کو واپس لے آئیں۔ اپنے آپ کو جہنم سے بچالیں، یہ والدین ہی اولاد کے لیے جنت بھی ہیں اور جہنم بھی۔ بیویوں پر والدین کو قربان نہ کریں ، بیوی دوبارہ مل سکتی ہے لیکن وہاں نہیں۔ گھر کے تمام افراد سے یکساں سلوک کرنا چاہیے۔
ایدھی صاحب کی خدمت خلق اپنے ملک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی وہ کام کر رہے ہیں اور پاکستان کے ہر شہر میں ایدھی سینٹرز موجود ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں کارکنان ہیں جو جذبہ خدمت سے معمور ہوکر لاشوں کو اٹھاتے ہیں نہلاتے دھلاتے ہیں اور پھر سرد خانے کے سپردکردیتے ہیں۔ مسخ شدہ اور تعفن زدہ لاشوں کی آخری خدمات انجام دینا آسان کام نہیں ہے لیکن عبدالستار ایدھی خود بھی ان سوختہ اور گلی سڑی لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے نہلاتے دھلاتے اور کفن پہناتے اور پھر نمبر الاٹ کردیتے ہیں لواحقین آتے ہیں نمبر دیکھ کر اپنے پیارے کی لاش لے جاتے ہیں، ہر کام منظم طریقے سے کیا جاتا ہے۔ آج کل تو ہر گھر میں تقریباً یہ طریقہ اپنالیا گیا ہے کہ گھر کے کسی بھی فرد کی فوتگی کے بعد اسے ایدھی سینٹر میں منتقل کر دیا جاتا ہے، سارے کام ایک ہی جگہ پر آسانی سے ہوجاتے ہیں گھروں کے بھی کچھ مسائل ہیں وہ یہ کہ زیادہ تر لوگ فلیٹوں اور چھوٹے مکانوں میں رہتے ہیں جہاں نہلانے دھلانے کی جگہ میسر نہیں آتی دوسرا یہ کہ نہلانے والوں کی بھی کمی ہے اس کی وجہ پہلے کی طرح انھیں روزگار نہیں ملتا ہے۔
چھوٹے گھر ہوں یا بڑے اب مرنے والوں کے لواحقین ایدھی صاحب کی تمام سہولتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور یہ رواج بن چکا ہے بہرحال عبدالستار ایدھی آپ جیسے حضرات اس معاشرے میں بہت کم ہیں۔ ہم آپ کی فلاحی خدمات، جذبہ، صلہ رحمی کو ہاتھ اٹھاکر سلام کرتے ہیں، سلام ایدھی!