ریذیڈنسی حملہ اور بلوچستان کا نقطہ نظر
پاکستان کا عمومی مزاج جذباتی ہے، بالخصوص ملکی سالمیت سے متعلق معاملات پر بات کرتے ہوئے اچھے خاصے معتدل مزاج افراد۔۔۔
پاکستان کا عمومی مزاج جذباتی ہے، بالخصوص ملکی سالمیت سے متعلق معاملات پر بات کرتے ہوئے اچھے خاصے معتدل مزاج افراد بھی اسی جذباتیت کا شکارہوجاتے ہیں۔ جذبات کوئی بری چیز نہیں، لیکن ان کی رو میں بہہ جانے کے باعث اکثر ہم معاملات کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھاوے کی جانب لے جاتے ہیں۔کچھ ایسا ہی معاملہ زیارت میں واقع ریذیڈنسی پر ہوئے حملے کے موقعے پر دیکھنے میں آیا۔
اس قدیم عمارت سے متعلق محب وطن پاکستانیوں کا جذباتی ردِ عمل تو سمجھ آتا تھا لیکن معتدل مزاج سمجھے جانے والے جمہوریت پسند دانشوروں کا جذباتی واویلا اور معاملات کو یک رخے انداز میں دیکھنے کی علت کسی حد تک حیران کن تھی۔ ان اعتدال پسند احباب کی جانب سے جو نقطہ نظر سامنے آیا، اس میں دوچار باتیں اہم تھیں۔ مثلاََ ایک تو یہ کہ اس طرح کے 'غیر اخلاقی' حملوں کے باعث بلوچ گوریلے پاکستان کے لبرل حلقوں میں پائی جانے والی اخلاقی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، دوم یہ کہ اسے محض بانی پاکستانی کی آخری آرام گاہ کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ یہ خود اس خطے کی قدیم طرزِ تعمیر کا ایک شاہکار (کلچرل ہیرٹیج) تھی، اس نوعیت کی شاید ہی کوئی عمارت اب اس پورے خطے میں کہیں موجود ہے۔ اس لیے اس کی تباہی اپنی ہی شاخ کو کاٹنے کے مترادف ہے۔
بلوچستان کے معاملے کو (بالخصوص مزاحمتی تحریک کو) محض دو بھائیوں کے اندرونی جھگڑے یا 'بیرونی سازشوں' کا شاخسانہ سمجھنے والی آنکھ بلاشبہ اس سطح سے آگے نہیں جا سکتی۔ ایک دوسرا اہم معاملہ میڈیا کی یک رخی کوریج کا بھی ہے۔ جب بلوچستان میں ایک خاتون پروفیسر ،ناظمہ طالب کے قتل کو بلوچ مزاحمتی تنظیموں نے قبول کیا تھا تو 'اخلاقیات' کی کچھ ایسی ہی بحث تب بھی میڈیا میں چھڑی تھی(گو کہ اس واقعے نے خود ان تنظیموں کے اندر بھی عورتوں پر ہاتھ نہ اٹھانے کی روایات کی بحث چھیڑ دی تھی، جس کے نتیجے میں اس نوعیت کے مزید واقعات نہ ہوئے) ۔اب جب کہ ایک بار پھر اس واقعے کے نتیجے میں جنگی اخلاقیات کا طعنہ دیا گیا تو ان مزاحمتی تنظیموں نے یاد دلایا کہ جب ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوتا، تو اس پر کسی مذہبی ،سیاسی تنظیم یا لبرل افراد کا کوئی احتجاج سامنے نہیں آتا۔ لیکن یہ جواز ان تنظیموں کے لیے قابل قبول نہیں۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ مزاحمتی تنظیمیں اپنے ایجنڈے میں واضح ہیں۔ یہ نہ وفاق کی بات کرتی ہیں، نہ ہی کسی قسم کی خود مختاری کی۔ ان کا یک نقاطی ایجنڈا علیحدگی ہے۔ اس ایجنڈے پہ پاکستان کی کون سی قوت ان کی بھلا کس طرح کی اخلاقی حمایت کر سکتی ہے؟زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو لوگ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرتے ہوں، انھیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر انھیں قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے۔
اول تو پاکستانی کے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں ایسا ہونا ممکن نہیں، دوم اس کا حتمی نتیجہ موت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ سوم یہ کہ ان تنظیموں نے کب بھلا کسی اخلاقی حمایت کی ضرورت محسوس کی یا اس کا مطالبہ کیا ہے؟ ان کی 'حتمی سچائی' طے شدہ ہے ۔ وہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں سمجھتے ۔ اُن کے لیے اُن کی حمایت صرف یہی ہو سکتی ہے کہ کوئی بندوق لے کر ان کے ساتھ پہاڑوں پر چلا جائے۔ باقی شہری مزاج کی حامل، جمہوری نوعیت کی کوئی بھی حمایت نہ انھیں کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے، نہ انھیں اس کی کوئی ضرورت ہے۔
اس لحاظ سے زیارت ریذیڈنسی پر حملہ ،اہلِ پاکستان کے لیے کیسا ہی 'شاک' کیوں نہ ہو، فریقِ مخالف کے لیے یہ محض ایک ہدف کی تکمیل ہے؛ جیسے ریلوے ٹریک اڑانا، جیسے بجلی کے کھمبے اڑانا،جیسے دیگر تنصیبات کو نقصان پہنچانا۔ البتہ اس پر پاکستانی عوام نے جس صدمے کا اظہار کیا ہے، وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس واقعے کے ذمے داروں کو اتنی خوشی شاید اس عمارت کو اڑا کر نہ ہوئی ہو، جتنی اس کیفیت پر ہوئی ہو گی۔ ایک دن کے لیے ہی سہی اگر یہ سارا میڈیا ان کی ایک سرگرمی پر سوگ میں مبتلا ہو جائے توان کی خوشی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے!
ایک طعنہ یہ بھی تھا کہ اگر بلوچستان میں جناح صاحب کی نشانیاں ہی مٹانی ہیں تو کیا ایک روز خان آف قلات کے محل کو بھی اڑا دیا جائے گا، جہاں جناح صاحب مہمان بن کر رہے۔ یہ سوال بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے مزاج سے ناآشنائی کا ایک اور مظہر ہے۔ یہ تنظیمیں بارہا کہہ چکی ہیں کہ سرداروں اور نوابوں کی تمام نشانیاں ،بلوچستان میں جبر اور استحصال کی علامت ہیں۔ ماضی میں انھیں نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، مستقبل میں بھی بعید نہیں۔ زیر زمیں تنظیموں کا معاملہ یہ ہے کہ اپنی محدود صلاحیت کے باعث یہ آسان ہدف تلاش کرتی ہیں، جس میں اپنا نقصان کم سے کم ہو۔ اس لیے ان کے اہداف کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
اب رہی بات کلچرل ہیری ٹیج کی تو ذرا ایک لمحے کے لیے اِن تنظیموں کے موقف کو انہی کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کیجیے۔جب ایک قوم اپنے تشخص کی بقا سے دوچار ہو، اس کے لیے قومی وجود کو سنبھالنا اہم ہوگا یا کلچرل ہیری ٹیج کا بچاؤ؟جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہوں، غربت اور ذلت کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہوں، ڈگریاں بیچ کر ہتھیار خرید رہے ہوں، وہاں اہمیت انسان کو بچانے کی ہے یا قومی ورثوں کی؟جہاں سماج مجموعی طور پر انتشار کا شکار ہو، معاشرہ بری طرح سے شکست و ریخت میں مبتلا ہو، وہاں پہلے سماج بچائے جائیں یا چند عمارتیں؟
اخلاقیات کا تقاضا ریاست سے زیادہ شدت کے ساتھ کیا جانا چاہیے کہ ریاست ہی بنیادی ادارہ ہے، جسے ماں کی طرح ہونا چاہیے۔ جب ملک کا ایک حصہ اکیسویں صدی میں اور ایک حصہ اٹھارویں صدی میں رہ رہا ہوتو پھر متحارب فریقین سے اخلاقیات کے تقاضے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ملک کا ایک حصہ جب پیداواری عمل میں شرکت سے ہی قاصر ہو، تو پھر سرحدوں کی تبدیلی کیسی ہی غیر پیداواری سرگرمی کیوں نہ ہو، عوام کا اس میں شریک ہونا فطری امر ہوگا۔پیداواری عمل میں بامعنی شرکت کے بغیر ،مختلف النوع گروہو ں کو محض جذباتی لگاؤ کی بنا پر تادیر جوڑ کر نہیں رکھا جا سکتا۔ جب ملک کا ہر شہری یکساں انسانی جمہوری حقوق سے فیض یاب ہو رہا ہو اور ملک عوامی فلاحی ریاست کا حامل ہوگا، تبھی ایسی ہر کارروائی عوام دشمن کہلائی جا سکے گی۔
یہ وہ پینسٹھ سال کا بویا ہوا بیج ہے، جس کا ثمر اگر آج کی نسل کو اٹھانا پڑ رہا ہے، تو اسے افسوس اُن بونے والوں پر کرنا چاہیے نہ کہ اس کے ثمر پر۔ تھوہر کا بیج بو کر گلاب کے اگنے کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے؟ آج اگر پاکستان کے عوام دوست قوتوں کے لیے مستقبل کی بہتری کا کوئی امکان ہے تو بس اتنا کہ پہلے کانٹوں کی اس فصل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور پھر نئے سرے سے محبتوں کی فصل اگائیں...تاکہ آنے والی نسلیں ایسے المیوں سے دوچار نہ ہوں، اور آپ کے حق میں دعا کر سکیں۔