گواسکر جیسے عظیم کھلاڑی نے بھی ضمیر کا سودا کرلیا

ماضی کے مایہ ناز بھارتی کرکٹرسنیل گواسکربھی حرص کی دلدل میں ایسے پھنسے ہیں کہ ان کا نکلنا محال دکھتا ہے۔

ماضی کے مایہ ناز بھارتی کرکٹرسنیل گواسکربھی حرص کی دلدل میں ایسے پھنسے ہیں کہ ان کا نکلنا محال دکھتا ہے۔ فوٹو : فائل

دولت میں کچھ ایسی کشش ضرور ہے کہ اچھے بھلے سیانے بھی اس کے لیے اپنا سب کچھ حتیٰ کے برسوں کی محنت سے حاصل ہونے والی عزت جیسی انمول چیز بھی گنوانے پر تیار ہوجاتے ہیں۔

ماضی کے مایہ ناز بھارتی کرکٹرسنیل گواسکربھی حرص کی دلدل میں ایسے پھنسے ہیں کہ ان کا نکلنا محال دکھتا ہے۔بھارتی کرکٹ بورڈ کے درپردہ تنخواہ دارہونے سے ان کی شہرت کو ایسا بٹا لگاہے ، جس کا نشان آسانی سے نہیں جائے گا۔افسوس!اس عظیم کھلاڑی نے گھاٹے کا سودا کیا۔ مصلحت جس کے عمل کامعیار بن جائے اس آدمی کے پلے کچھ نہیں رہتا۔کرکٹ سے متعلق تقریر وتحریر میں جب ذہنی آزادی ہی میسر نہ رہے تو پھرشائقین کو گواسکر سے ٹھنڈے ٹھاراور پھسپسے تبصرے ہی سننے کوملیں گے۔

فکر محبوس ہوتو کوئی تازہ بات کی بھی کیسے جاسکتی ہے،پھر تو گھسی پٹی اور فرسودہ باتوں کا سہارا ہی لینا پڑتا ہے، اور بات سے تاثیر بھی جاتی رہتی ہے۔دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے، اور گواسکرکا بھی بھلے وقتوں میں تواس بات پر یقین رہا کہ وہ خیالات کے اظہار میں دماغ کے بجائے دل کی آوازپر کان دھرتے ہیں لیکن اب تولگتا ہے دل تو درکنار دماغ بھی کہیں بہت پیچھے رہ گیاہے اور ان کی فکر کا سوتاکرکٹ اسٹیبلشمنٹ کے دفتر سے پھوٹتا ہے۔حالیہ برسوں میں عام شائقین کرکٹ اور اسپورٹس سے متعلق صحافی تو ان کے رویے سے کئی بار مایوس ہوئے ہی لیکن ہندوستان کا وہ دانش ور طبقہ جو کرکٹ سے گہری وابستگی رکھتا ہے اورمنطقی اور غیرجذباتی انداز میں تواتر سے اس کھیل کے بارے میں لکھتارہتا ہے،اسے بھی سنیل گواسکر نے آزردہ کردیا۔

گذشتہ ماہ آئی پی ایل میں میچ فکسنگ اسکینڈل سامنے آیاتوبھارتی کرکٹ بورڈکو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بورڈ کے سربراہ سے عہدہ چھوڑنے کامطالبہ کیا گیا۔ یہ قضیہ جو بھارتی کرکٹ کو رسوا کرگیا، اس سے بھی گواسکرکے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی اور انھوں نے بورڈ کے کردار پر کوئی سوال نہ اٹھایا۔ اس چپ سے ناموربھارتی صحافی اور کالم نویس آ کارپٹیل اس قدر چراغ پا ہوئے کہ انھوں نے ایکسپریس ٹربیون میں''گواسکر کی شرمناک خاموشی''کے عنوان سے کالم لکھ ڈالا۔

گواسکرنے بورڈ کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ''میری سمجھ سے باہرہے کہ چند کھلاڑیوں کے انفرادی عمل کا ذمہ دار ایک تنظیم کو کیونکر قراردیا جاسکتا ہے،بی سی سی آئی ان کھلاڑیوں پر دن کے چوبیس گھنٹوں اور سال کے 365دن تو کنٹرول نہیں رکھ سکتی۔ یہ بھی باقی تنظیموں کی طرح سے ہے،جس میں کچھ برے لوگ ہوں گے،لیکن اس کی وجہ سے آپ پوری تنظیم کو مورد الزام نہیں ٹھہراسکتے۔''میچ فکسنگ اسکینڈل میں داماد کا نام آنے پرسری نواسن پر عہدہ چھوڑنے کے لیے دبائو اور بھی بڑھ گیا تب بھی گواسکر نے اپنی آواز کو زبان خلق سے ہم آہنگ نہ کیا اوراس نازک موضوع پر لکھنے سے کنی کترا گئے اور اس واقعہ کو معرض بحث میں لانے کے بجائے آسٹریلیوی کھلاڑی ڈیوڈ وارنر کی طرف سے غیر شائستہ زبان استعمال کرنے کے معاملے پرخامہ فرسائی کی۔

پٹیل نے اپنے کالم میں بتایا کہ وہ جس زمانے میں سورت میں پڑھ رہے تھے تو اسکول کے طالب علموں کی ایک ٹولی سنیل گواسکر کا دم بھرتی تو دوسری ٹولی کپیل دیو کی نام لیوا تھی، ان کا شمارالبتہ سنیل گواسکرکے عشاق میں ہوتا۔ اب برسوں بعد گواسکر کے طرز عمل نے پٹیل کو اپنی رائے سے رجوع کرنے پر مجبور کردیا ہے اور اب وہ کہتے ہیں کہ اگرکپیل دیو کے حامیوں میں ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ ان کے بقول ''گواسکر کی خاموشی شرمناک ہے اور وہ ان سب کے لیے جو کئی دھائیوں سے ان کے فین تھے، باعث خجالت ہیں۔ ان میں سے ایک میں بھی ہوں۔''پٹیل نے بڑے دکھ سے بیان کیا ہے کہ سنیل گواسکر کی ریٹائرمنٹ کے بعد اسے یہ پتا لگ گیا تھا کہ اس کا ہیرو پرفیکٹ نہیں ہے اور ایسا اس وقت ہوا جب گواسکر کے بمبئی جم خانہ کے لاکر میں سے رقم ملنے کی خبر نکلی۔

پٹیل اس وقت جس اخبار کی ادارت کررہے تھے، اس کے چیئرمین کاگواسکر سے دوستانہ تھا لہٰذا اس خبر کی بابت انھیں ''ہتھ ہولا'' رکھنے کا حکم ملا۔ ممتاز بھارتی صحافی اور آوٹ لک کے سابق ایڈیٹرونود مہتا اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ اظہرالدین نے جنوری2001ء میں پہلی بار میچ فکسنگ کے الزامات کے حوالے سے گفتگو کی تو کہا کہ بمبئی لابی حسد کی وجہ سے ان کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ بھارت کے اس سابق کپتان نے یہ سوال بھی اٹھایا ''کوئی بمبئی جم خانہ کلب کے لاکرز سے مختلف کرنسیوں میں ملنے والے سنیل گواسکر کے ستر لاکھ روپے کی بات نہیں کرتا۔''2008ء میں آئی پی ایل کے آغاز کے بعد سے سنیل گواسکر اور روی شاستری چپکے سے بورڈ کے نمک خوار بن گئے، یہ حقیقت اس وقت عیاں ہوئی، جب ''ممبئی مرر''نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھانڈا پھوڑدیاکہ دونوں بورڈ سے بھاری رقم بٹور رہے ہیں۔



اسٹوری بریک کرنے والے صحافی کے بقول' سادہ لفظوں میں کنٹریکٹ کا مطلب یہ ہے کہ ٹی وی اور اخباری کالموں کے ذریعے سنیل گواسکراور روی شاستری کے جو خیالات ہم تک پہنچتے ہیں، وہ ہمیشہ ان کے اپنے نہیں ہوتے بلکہ وہ اکثر بورڈ کانقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔پروفیشنل میڈیا مین کے لبادے میں بی سی سی آئی کے ترجمان کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ڈی آر ایس جیسے متنازع ایشوز پربورڈ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، اور ساتھ میں بھارتی ٹیم کے خلاف دیے جانے والے امپائرنگ کے غلط فیصلوں کو اجاگر جبکہ حریف ٹیم کے خلاف ایسے فیصلوں کو نظرانداز کردیتے ہیں۔''


دو برس قبل جب بھارتی ٹیم ٹیسٹ میچوں میں بری طرح پٹ رہی تھی اور ماہرین کی طرف سے اس کی ذمہ داری آئی پی ایل پر ڈالی جارہی تھی تو اس وقت بھی سنیل گواسکرکے منہ سے اس لیگ کے مضراثرات کے بارے میں کچھ سننے کو نہ ملا ۔اس چپ پرنامور بھارتی تاریخ دان رام چندر گوہانے جن کی کرکٹ پر لکھی کتابوں کو بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس زمانے میں ''گواسکر اور شاستری کی پراسرار خاموشی ''کے عنوان سے مضمون رقم کیا، جس میں یہ سوال اٹھایا کہ آئی پی ایل سے بھارتی ٹیسٹ کرکٹ کو پہنچنے والے ضرر پربات کیوں نہیں کرتے؟اور پھر یہ راز کی بات بھی منکشف کرڈالی کہ آخر یہ دونوں منہ میں گھگنیاں کیوں ڈالے رہتے ہیں۔اس سال ہندوستان مسلسل آٹھ ٹیسٹ میچ ہارا۔چار انگلینڈ سے۔چار آسٹریلیا سے۔

انھی دنوں عمران خان بھی ہندوستان میںپہلے نواب منصور علی خان پٹودی میموریل لیکچر دینے پہنچے تو انھوں نے باقاعدہ طور پر تقریر کا آغازکرنے سے قبل ازراہ تفنن کہا کہ وہ پہلے توسامعین کو ہندوستانی ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، جو لگاتارآٹھ ٹیسٹ میچ ہارگئی۔اپنے لیکچر میں عمران خان نے بھارتی ٹیم کی ناقص کارکردگی کا ملبہ آئی پی ایل پرگرایا اور یہ بات زور دے کر کہی کہ ٹیسٹ کرکٹ ہی اصل کرکٹ ہے اور اس کے ذریعے سے ہی کسی کھلاڑی کی صلاحیت کاصحیح اندازہ ہوسکتا ہے۔عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو ان جگہوں پر فروغ دیناچاہیے، جہاں کرکٹ زیادہ مقبول نہیں، اور انھوں نے کیری پیکر کو کسی زمانے میں یہ تجویز دی بھی تھی۔عمران خان ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی سیاسی مصروفیات کی بنا پر کرکٹ سے تعلق قائم نہ رکھ سکے، اس واسطے ان کے پاس گذشتہ بیس برسوں کی کرکٹ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں لیکن اس کے باوجود ان کا وژن ہے کہ وہ فوراً بات کی تہہ تک پہنچ گئے اور بتادیا کہ بھارتی ٹیم آخر ٹیسٹ کرکٹ میں کیوں پسپا ہورہی ہے۔

عمران خان جو نکتہ سمجھ رہے تھے آخر گرائونڈ میں بیٹھ کر اپنی ٹیم کا کھیل قریب سے دیکھنے والے سنیل گواسکر اور روی شاستری کو کیوں نہیں سمجھ میں آرہا؟اور وہ اصل بات کرنے کے بجائے ادھر ادھر کی کیوں ہانکتے رہے ؟اس لیے نہیں کہ انھیں کرکٹ کا پتا نہیں اوروہ جانتے نہیں کہ آئی پی ایل ٹیسٹ کرکٹ کی جڑ کاٹتی ہے۔اور اسی کی وجہ سے بھارتی ٹیم کو آسٹریلیا اور انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز میں عبرتناک شکست ہوئی اور اسے گھر کا شیر قرار دیا گیا۔ بات محص اتنی ہے کہ آجر کی طرف سے سنیل گواسکر اور روی شاستری کو سچ سے اس عوام کو آگاہ کرنے پر پابندی ہے، جنھوں نے انھیں سالہا سال سے محبوب بنا رکھا ہے، لیکن انھیں لوگوں کے پیار کی بہ نسبت نوٹ عزیز ہیں۔

اور اب آخر میں سنیل گواسکر کے بارے میں ایک اور ہندوستانی تاریخ دان مکل کیسوان کی کرکٹ سے متعلق کتاب "Men In White"سے چھوٹا سا ٹکرا جس میں وہ بتاتے ہیں کہ سنیل گواسکر بھارتی ٹیم کے دورۂ آسٹریلیا کے دوران کس قدردوغلے پن سے کام لیتے رہے۔ ان کے خیال میں لیجنڈری بیٹسمین عوام کے سامنے بات کرنے میں خاصے محتاط ہیں، اور اسی باعث وہ بور ٹی وی کمنٹیٹر ہیں اور ان کاجوش میں آنا بھی بے ساختہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا عمل ہوتا ہے۔وہ بیان کرتے ہیں کہ بھارتی ٹیم کے دورۂ آسٹریلیا میں گواسکر چینل نائن کی کمنٹری ٹیم کاحصہ تھے۔چینل نائن کی کمنٹری آسٹریلیا اور دنیا بھر میں نشر ہوتی لیکن دن کے اختتام پرگواسکر خصوصی طور پر میچ پرجوگفتگو کرتے، وہ صرف ہندوستان میں دکھائی جاتی،اس نشریے میں وہ آسٹریلین امپائروں کے غلط فیصلوںپر جی کھول کر تنقیدکرتے لیکن اسی معاملے کو وہ چینل نائن پرکمنٹری کرتے ہوئے گول کرجاتے تاکہ ان کی نوکری پکی رہے۔n

وینگسارکر سے بے وفائی
دلیپ وینگسارکربھارت کے اسٹار بیٹسمین تھے۔ 116 ٹیسٹ میچوںمیں وہ شریک رہے۔ واحد غیر ملکی کھلاڑی ہیں ، جنھوں نے لارڈز کے میدان میں تین بار سنچری کی۔ دفعہ بھارتی ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔بھارتی ٹیم میں وہ طویل عرصہ سنیل گواسکراور روی شاستری کے ساتھی رہے۔1983ء میں کپیل دیو کی کپتانی میں ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کا تینوں حصہ تھے۔1992ء میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد وینگسارکرنے بمبئی میں نئے ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے دن رات ایک کردیا۔

اس طرح کی کوشش شاید ہی ان کے رتبے کے کسی دوسرے ٹیسٹ کرکٹر نے کی ہو۔ ضرورت مند کھلاڑیوں کی اسکول فیس اور میڈیکل فیس کا انتظام کرتے، ہندوستان بھر میں نئے ٹیلنٹ کے ساتھ سفر میں رہتے اور ان سارے کاموں کا کبھی ایک دھیلا بھی وصول نہیں کیا۔ممبئی کے ایک سنیئر اسپورٹس صحافی کے بقول ، اس نے کبھی بھی کسی سابق کھلاڑی کو نئے ٹیلنٹ کے لیے اتنازیادہ تردد کرتے نہیں دیکھا۔ہندوستان میں ممبئی کرکٹ ایسوسی ایشن کا انتخاب بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کہ یہ شہر عظیم کرکٹر فراہم کرنے میں ہمیشہ فراخ دل رہا ہے ۔2011ء میں ہونے والے انتخابات میں دلیپ وینگسارکر صدر کے عہدے کے انتخاب کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے مدمقابل معروف سیاستدان جو اب اس دنیا میں نہیں ، ولاس رائو دیش مکھ تھے،جن کی کرکٹ سے کبھی خاص دلچسپی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

موصوف کرکٹ سے محبت یا انتظامی معاملات میں سدھار کے جذبہ سے بھی الیکشن میں نہیں کودے تھے بلکہ ممبئی حملوں کی وجہ سے سیاسی اعتبار سے ان کی ساکھ کو دھچکا لگا اور انھیں اپنی وزارت اعلیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تو وہ اس کھیل کے ذریعے سے اپنے سماجی اسٹیٹس کو بحال کرنا چاہ رہے تھے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کو بھلا بھلے مانس وینگسارکر سے کیا فائدہ مل سکتا تھالہٰذا اس کی ہمدردیاںظاہر سی بات ہے، کرکٹ سے نابلد سیاستدان سے تھیں لیکن یہ جو دونوں معتبر ،سنیل گواسکر اور روی شاستری ہیں، ان دونوں نے بھی اس مرحلے پراپنے اس سابق ساتھی کا ساتھ نہ دیا، جس کی اپنے ملک اور بمبئی کرکٹ کے لیے بے پناہ خدمات تھیں، جن سے ان دونوں سابق اسٹارزسے زیادہ کون واقف ہوگا۔ لیکن دونوں نے مصلحت کی چادر اوڑھے رکھی اور وینگسارکر کی حمایت میں نہیں آئے کہ مبادا بورڈ ان سے خفا ہوجائے اور وہ جو سالانہ لاکھوں کروڑوں ان کے اکائونٹ میں منتقل ہورہے ہیں، ان کا سلسلہ نہ رک جائے۔

رام چندر گوہا کے جس مضمون سے ہم نے مذکورہ بالا معلومات کشید کی ہیں اس میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ گو شاستری اور گواسکر دونوں کا رویہ ایک جیسا ہے مگر کرکٹ کے چاہنے والوں کوگواسکرکے رویے سے زیادہ مایوسی ہوئی،جس کی ایک وجہ تو ان کے نزدیک یہ ہے کہ شاستری توایک گزارے لائق آل رائونڈر تھے جبکہ گواسکر کا شمار کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔دوسرے یہ کہ شاستری کی شہرت کبھی بھی ایک بے غرض آدمی کے طور پر نہیں رہی جبکہ ماضی میں گواسکراپنے ساتھی کھلاڑیوں کے حقوق کی جنگ لڑتا رہا ہے۔اس سلسلے میں وہ بتاتے ہیں کہ پلیئر ایسوسی ایشن بنوانے میں وہ پیش پیش رہااور ممبئی میں مقیم سابق ٹیسٹ کرکٹروں کو فلیٹ فراہم کرنے کے لیے کامیاب مہم بھی چلائی۔سیاسی اعتبار سے بات کی جائے تب بھی گواسکر نے دو مواقعوں پر بڑی جرات دکھائی، ایک ابر 1992ء کے ورلڈ کے کے بعد بال ٹھاکرے کی دھمکیوں کے باوجود وہ کراچی میں آئے۔

ان کا موقف تھا کہ وہ پاکستان ایک کرکٹر اور ایشین کی حیثیت سے جارہے ہیں۔ دوسرا واقعہ اس سے بھی اہم ہے۔ 1992ء میں انھوں نے بمبئی میں بلوائیوں کے نرغے میں آئے ایک مسلمان گھرانے کی جان بڑی بہادری سے بچائی۔ ان دو واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گواسکر کے اندر کا انسان معمولی انسان نہیں ہے لیکن انسانوں کی بعض کمزوریاں ہوتی ہیں، اور دولت کی ہوس تو بڑے بڑوں کو راہ سے بھٹکا دیتی ہے لیکن بات پھر وہی ہے کہ گواسکر ایسے عظیم کرکٹر کا چھوٹا پن کرکٹ سے محبت کرنے والوں کو زیادہ دکھ دیتا ہے۔
Load Next Story