اشرف غنی نے طالبان سے مذاکرات کیلیے 12 رکنی ٹیم بنا دی
جنیوا میں ہونے والے امن مذاکرات میں طالبان شامل نہیں ہیں مگر وہ بہت غور سے مذاکرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے ایک بارہ رکنی ٹیم بنا دی ہے تاہم ساتھ ہی کہا ہے کہ اگر کوئی مفاہمت یا سمجھوتہ ہو گیا تو اس پر عمل درآمد کے لیے کم از کم پانچ سال کا عرصہ لگے گا۔
جنیوا میں ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اشرف غنی نے کہا کہ سترہ سال سے جاری اس افغان جنگ کو اب کسی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے۔ افغان طالبان کا واحد موقف ہے کہ امن مذاکرات سے پہلے تمام غیرملکی فوجوں کو افغانستان سے باہر نکلنا ہو گا۔ جنیوا میں ہونے والے امن مذاکرات میں طالبان شامل نہیں ہیں مگر وہ بہت غور سے مذاکرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
کانفرنس میں افغان لیڈروں کے ہمراہ بین الاقوامی نمائندے بھی موجود ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے زور ڈالا جا رہا ہے کہ مذاکرات کو کسی نتیجے تک پہنچایا جائے۔ صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مجوزہ سمجھوتے میں خواتین کی تکریم اور انھیں برابر کا درجہ دینے کا مطالبہ بھی شامل ہونا چاہیے۔ افغانستان میں آئندہ اپریل کو عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ افغان جنگ کے بارے میں اقوام متحدہ کی دو روزہ کانفرنس جنیوا میں منعقد ہوئی ہے۔
امریکی نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ ہیلی نے طالبان پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں اور اپنی طرف سے مذاکراتی ٹیم کو متعین کریں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایسے اشارے سامنے آئے ہیں' جنھیں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں بحران ختم کرنے کے لیے فریقین سنجیدہ ہیں' پچھلے دنوں روس میں بھی مذاکرات ہوئے تھے جن میں طالبان نے شرکت کی تھی۔
قطر میں قائم طالبان کا دفتر بھی متحرک ہے۔ گو افغانستان کے اندر ابھی حالات اچھے نہیں ہیں' طالبان اور دیگر جنگجو تنظیمیں اپنے ہدف کو نشانہ بنا رہی ہیں جب کہ امریکا اور افغان سیکیورٹی فورسز بھی طالبان کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں لیکن اس کے باوجود آثار سے یہی لگتا ہے کہ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈر بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ تنہا کوئی فریق جنگ نہیں جیت سکتا' اس لیے مذاکرات کی ایسی آپشن ہے جس کے ذریعے فریقین پرامن بقائے باہمی کے اصول پر عمل کر کے افغانستان میں امن قائم کر سکتے ہیں۔
جنیوا میں ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر اشرف غنی نے کہا کہ سترہ سال سے جاری اس افغان جنگ کو اب کسی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے۔ افغان طالبان کا واحد موقف ہے کہ امن مذاکرات سے پہلے تمام غیرملکی فوجوں کو افغانستان سے باہر نکلنا ہو گا۔ جنیوا میں ہونے والے امن مذاکرات میں طالبان شامل نہیں ہیں مگر وہ بہت غور سے مذاکرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
کانفرنس میں افغان لیڈروں کے ہمراہ بین الاقوامی نمائندے بھی موجود ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے زور ڈالا جا رہا ہے کہ مذاکرات کو کسی نتیجے تک پہنچایا جائے۔ صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مجوزہ سمجھوتے میں خواتین کی تکریم اور انھیں برابر کا درجہ دینے کا مطالبہ بھی شامل ہونا چاہیے۔ افغانستان میں آئندہ اپریل کو عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ افغان جنگ کے بارے میں اقوام متحدہ کی دو روزہ کانفرنس جنیوا میں منعقد ہوئی ہے۔
امریکی نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ ہیلی نے طالبان پر زور دیا کہ وہ جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں اور اپنی طرف سے مذاکراتی ٹیم کو متعین کریں۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایسے اشارے سامنے آئے ہیں' جنھیں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں بحران ختم کرنے کے لیے فریقین سنجیدہ ہیں' پچھلے دنوں روس میں بھی مذاکرات ہوئے تھے جن میں طالبان نے شرکت کی تھی۔
قطر میں قائم طالبان کا دفتر بھی متحرک ہے۔ گو افغانستان کے اندر ابھی حالات اچھے نہیں ہیں' طالبان اور دیگر جنگجو تنظیمیں اپنے ہدف کو نشانہ بنا رہی ہیں جب کہ امریکا اور افغان سیکیورٹی فورسز بھی طالبان کے خلاف کارروائی میں مصروف ہیں لیکن اس کے باوجود آثار سے یہی لگتا ہے کہ افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈر بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ تنہا کوئی فریق جنگ نہیں جیت سکتا' اس لیے مذاکرات کی ایسی آپشن ہے جس کے ذریعے فریقین پرامن بقائے باہمی کے اصول پر عمل کر کے افغانستان میں امن قائم کر سکتے ہیں۔