سشما جی حقیقت پسند بنیں

وقت آ گیا ہے کہ بھارتی حکومت کرتار پور سرحد کھلنے کے سیاسی بریک تھروکی صداقت کو سمجھے۔

وقت آ گیا ہے کہ بھارتی حکومت کرتار پور سرحد کھلنے کے سیاسی بریک تھروکی صداقت کو سمجھے۔ فوٹو:فائل

وزیر اعظم عمران خان نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ خطے میں امن کے لیے بھارت اگر ایک قدم بڑھائے گا، تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا ، ہم بھارت کے ساتھ دوستانہ، مضبوط اور مہذب تعلقات چاہتے ہیں، ماضی کی زنجیروںکو توڑتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا، دونوں ایٹمی طاقت ہیں، جنگ کا سوچنا پاگل پن ہو گا، دونوں ممالک کے درمیان بنیادی تنازع کشمیر ہے اور دونوں ممالک کی قیادت کی قوت ارادی سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم بدھ کو یہاں کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

تقریب میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار آفر یدی، وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری، وفاقی و صوبائی وزراء ، بھارتی پنجاب کے وزیر برائے لوکل گورنمنٹ' کلچر و میوزیم نوجوت سنگھ سدھو، بھارت کی وزیر ہرسمرت کور بادل، سکھ برادری کے ارکان اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

وزیراعظم عمران خان نے پاک بھارت تعلقات کے تلخ تناظر میں کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے برصغیر کی تاریخ کی سیاسی سائیکی تبدیل کرنے کی بات کی ہے اور ماضی کی زنجیریں توڑنے پر زور دے کر بھارت کو یاد دلایا کہ تاریخی عوامل کے گہرے ادراک اور زمینی حقائق کو وقت کے تقاضوں کے مطابق طے کرنے کا کھلا آپشن بھارت کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔ تاہم بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کرتار پورکوریڈور کے سنگ بنیاد رکھے جانے کو تاریخی دن قرار دیتے ہوئے اپنی روایتی ہٹ دھرمی بھی ڈھٹائی سے برقرار رکھی اور یہ بھی واضح کر دیا کہ کرتار پور راہداری کا مطلب یہ نہیں کہ اب پاکستان سے دوطرفہ مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔

یعنی واضح کر دیا کہ خطے کی معروضیت بھارتی جمہوریت و سیکولرازم سے ماورا چیز ہے، نئی دہلی میں پریس بریفنگ کے دوران بھارتی وزیر خارجہ نے کہاکہ دوطرفہ بات چیت اور کرتار پور بارڈر دونوں مختلف معاملات ہیں، ان کی منطق یہ تھی کہ گزشتہ کئی سال سے بھارت ہی تو پاکستان سے کرتار پور کوریڈور کھولنے کا مطالبہ کر رہا تھا اور چانکیائی سیاسی داؤ پیچ استعمال کرتے ہوئے ''فیصلہ'' دیا کہ بارڈرکھلنے کا مطلب یہ نہیں کہ اب دوطرفہ تعلقات کا آغاز ہو جائے گا، ساتھ یہ بھی اعتراف کر لیا کہ پہلی بارکسی پاکستانی حکومت نے اس معاملے پر مثبت جواب دیا مگر ان کا اصرار تھا کرتار پور بارڈر سے آمدو رفت کے لیے ویزا ہو گا یا نہیں، یہ ابھی طے ہونا باقی ہے۔


وہ اس بات پر بھی اڑی تھیں کہ ملکوں میں رابطے حکومت سے حکومت کے ہوتے ہیں انفرادی نہیں، نوجوت سدھو کی سرکاری نہیں ذاتی حیثیت میں کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کا سوال اٹھا دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سشما سوراج نے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی ترک کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا، ماضی والی الزام تراشی کا سہارا لیا کہ جب تک پاکستان بھارت میں دہشت گرد کارروائیاں بند نہیں کرتا ، بھارت پاکستان سے کوئی بات چیت نہیں کرے گا اور نہ ہی سارک کانفرنس میں شرکت کرے گا۔

یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے جو سال ہا سال سے پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کو یرغمال بنائے ہوئے ہے، بھارت کسی سیاسی حقیقت ، سفارتی موو، عالمی کوشش اور دوطرفہ مفاہمت اور غیر مشروط مکالمے کی حمایت نہیں کرتا جس میں پاکستان کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کی ہم ممکن پیشکش کو بنا کسی مصلحت کے سامنے رکھنا چاہتا ہو۔

بھارت کی سوئی اٹوٹ انگ پرکل بھی اٹکی ہوئی تھی اور آج بھی وہ سرمو اس قوالی سے نہیں ہوپارہے اور الگ رہتے ہوئے خطے کے سب سے اہم ایشوکے کسی پائیدار حل میں مخلص نہیں، مگر وقت کب کسی کی خواہشات کا اسیر ہوا ہے، سیاسی رعونت ، سفارتی چالاکیوں اور برصغیر کے کروڑوں انسانوں کے حقوق سے انکارکی روش پر قائم رہ کر کیا بھارت اپنی ساکھ بچا سکتا ہے، بھارت کو ایک نہ ایک دن کشمیرکی کڑوی گولی بغیر پانی کے نگلنا ہو گی اور وہ وقت زیادہ دور نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا صائب تھا کہ گزشتہ 70 برسوں میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جو معاملات چلے آ رہے تھے وہ سب کے سامنے ہیں ۔ دونوں ممالک کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کشمیرکا ہے، دنیا کاکوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو انسان حل نہ کر سکے، دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے،کیا ہم یہ ایک مسئلہ حل نہیںکر سکتے۔

وقت آ گیا ہے کہ بھارتی حکومت کرتار پور سرحد کھلنے کے سیاسی بریک تھروکی صداقت کو سمجھے، اپنی بربریت کو لگام دے اور کشمیر کے مسئلے پر مسلمہ سیاسی اقدار اور عملیت پسندی کی روشنی میں پاکستان سے بات چیت کا راستہ اپنائے، آگے بڑھے اور خطے کو درپیش چیلنجزکی ہولناکیوں کو دیکھے اس سے سبق لے تاکہ خطے میں امن و استحکام، ترقی و خوشحالی ، بقائے باہمی اور جمہوریت کے ثمرات سے سب کے حصے میں آئیں ۔ پاکستان اور بھارت لازم ہے کہ کشمیر مسئلے کے حل کا مل کر سنگ بنیاد رکھیں ، اس کام میں دیر نہ کریں۔
Load Next Story