پاک بھارت تعلقات بہتر کیوں نہیں ہوسکتے
دونوں ممالک کو یہ سوچنا ہوگا کہ دنیا کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟
پاک بھارت تعلقات کو ہمیشہ فرانس اور جرمنی کے ساتھ جوڑ کر بہتر کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی وزیر اعظم عمران خان نے کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ماضی کی زنجیروں کو توڑ کر آگے بڑھنا ہوگا کیوں کہ اس کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، جب فرانس اور جرمنی کے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں تو ہمارے کیوں نہیں ہوسکتے؟
فرانس اور جرمنی کی مثال اس لیے دی جاتی ہے کہ یہ دونوں ممالک کئی صدیوں تک ایک دوسرے کے حریف، مخالف اور دشمن رہے، اس میں بیسویں صدی کے دوران دو عالمی جنگوں کا سب سے زیادہ تکلیف دہ وقت بھی شامل ہے،خاص طور پر اس وقت جب نازی ڈکٹیٹرشپ وحشیانہ جرائم کی مرتکب ہوئی۔
اس تناظر میں 55 سال قبل22 جنوری 1963ء کو ہونے والے ''الیزے معاہدے'' کی تاریخی اہمیت اور چارلس ڈی گال جرمن چانسلر کونریڈایڈنائیر کا ساتھ دینے والے پہلے شخص تھے جنہوں نے کبھی نازی دور کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے دومدبرین نے ایک تقریباً ناممکن خواب کو پورا کرتے ہوئے اسے حقیقت کا رنگ دے دیا ہو۔ انھوں نے ایک نئے تاریخی باب کا آغاز کیا اور ان کے جانشینوں نے چند عارضی مشکلات کے بعد اس کا تسلسل برقرار رکھنا تھا۔ اور دور اندیش رہنماؤں نے تاریخ کا ایک نیا صفحہ تحریر کرکے یہ ثابت کردیا۔ صدیوں پرانی دشمنی سے گہری دوستی جنم لے سکتی ہے۔
دنیا میں اپنی نوعیت کے منفرد ترین الیزے معاہدے نے درحقیقت فرانس اور وفاقی جمہوریہ جرمنی کو اداروں کے لحاظ سے متحد کردیا ہے جو کہ دنیا میں اور کہیں نہیں ہے۔ فرانس اور جرمنی کی دوستی کے مستقبل کا تعین کرنے والا الیزے معاہدہ صرف چھ صفحات پر مبنی ہے۔ معاہدے میں کہا گیاہے کہ جرمن اور فرانسیسی حکومتوں کے نمائندے باقاعدہ وقفوں کے بعد ایک دوسرے سے ملاقات اور بات چیت کریں گے۔ سیکیورٹی اور دفاع سے متعلق تمام اہم فیصلے مل جل کر کیے جائیں گے۔اس فیصلے کے باعث 1963ء میں فرانکو جرمن یوتھ آفس کی بنیاد پڑی، فرانکو جرمن ہائی اسکول و جود میںآئے اور فرانس اور جرمنی کے بہت سے شہروں، اسکولوں اور علاقوں کو آپس میں جوڑا گیا جس سے جرمنی اور فرانس کے لاکھوں نوجوانوں کو قریب آنے کا موقع ملا۔ اس معاہدے کا ایک اور نتیجہ فرانکو جرمن ملٹری بریگیڈ کی تشکیل تھی جو 1989ء میں بنائی گئی۔
معاہدے میں کوئی خاص ضرورت شامل نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی اس میں کسی سیاسی مقاصد کا تعین کیا گیا تھا۔اب حال ہی میں گزشتہ اٹھارہ سال میں دونوں ممالک کے سربراہان اور وزرائے خارجہ کے درمیان بہت سی غیر رسمی ملاقاتیں ہوچکی ہیں، یہ ملاقاتیں پہلے اجلاس کے نام پر ہوئیں جو 2001ء میں فرانس کے شہر بلیشم میں منعقد ہوا۔ یہ سب کچھ ناممکن ہوتا ا گر دوستی مشترکہ اقدار کی مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہوتی۔ ان دونوں ممالک اور بین الاقوامی فریم ورک میں خود کو آزادی، برداشت، سب سے زیادہ کمزوروں کی مدد اور ثقافتی وسعت کا عزم دیا۔ تاہم گزشتہ 55 سال کے دوران بعض اوقات جب بات مشترکہ مفادات پر مبنی مسائل کے حل کی ہوئی تو جرمنی اور فرانس نے مختلف موقف اپنائے لیکن ان دونوں ملکوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور باہمی رضامندی سے مسائل کا قابل قبول حل تلاش کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تقریباً 80 سال سے فرانس اور جرمنی میں امن قائم ہے اور ان کے ساتھ پورے یورپ میںبھی امن کا قیام ہے۔ ان سالوں کے دوران سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ سرد جنگ کا خاتمہ ہوا، جرمنی دوبارہ متحد ہوگیا، ڈچ مارک غائب ہوگیا اور یورو کی تخلیق ہوئی۔ گلوبلائزیشن نے دنیا کو تبدیل کردیا اور چین اہم ترین طاقتوںمیں سے ایک طاقت بن چکا ہے۔دنیا اور یورپ میں ان سب تبدیلیوں کے باوجود اس دوران جرمن فرانس تعلقات کئی بار کشیدہ بھی ہوئے لیکن الیزے معاہدے کا فریم ورک جسے دونوں ملکوں کی پالیسیوںمیں بنیادی ستون کی حیثیت حاصل ہے، پر کبھی کوئی سوال نہیں اٹھا۔ پیرس اور برلن کے درمیان دوستی دنیا کے کسی بھی حصے کے مقابلے میں زیادہ توجہ چاہتی ہے۔
تقریباً آدھی صدی سے زائد عرصے کے بعد بھی اگرچہ معاملات حیرت انگیز طور پر بدل چکے ہیں لیکن الیزے معاہدہ فرانکو جرمن مشاورتی عمل کا حصہ ہے لہٰذا جب یہ دو ممالک جو آپسی جنگیں لڑکر لاکھوں جرمنوں اور فرانسیسیوں کی موت کا سبب بن چکے، اس جنگ کے ہارنے کے بعد ایک بار فرانس کو 5ارب فرانک بھی جرمنی کو ادا کرنا پڑے، اور پھر ایک بار تو جرمنی کو فرانس کے دو صوبے بھی بطور تاوان لینا پڑے۔ جب کہ دوسری اور پہلی جنگ عظیم میں بھی دونوں ملکوں کی آپسی تباہ کاریوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ایسے حالات کے بعد ان دو ملکوں کا آپس میں اس قدر باہمی اتحاد سے رہنا کہ دنیا مثال دے، واقعی یہ ایک شاندار مثال ہے۔
اگر پاک بھارت تعلقات کو دیکھا جائے تو یقینا ان دونوں ملکوں کے عوام بھی فرانس اور جرمنی جیسے اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں مگر چند ایسی طاقتیں ہیں جو کبھی ان دونوں ملکوں کو اکٹھا نہیں دیکھ سکتیں۔ جیسے بھارت میں شدت پسند تنظیمیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ پاکستان کے ساتھ بھارتی حکومت کسی قسم کے مذاکرات کرے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان حکومت نے اقتدار میں آنے سے لے کر اب تک کم و بیش 6دفعہ بھارت کو مذاکرات کے آغاز کی دعوت دی ہے مگر بھارتی حکمران چند مجبوریوں کے باعث اس حوالے سے لاچار نظر آتے ہیں۔
اب سوال یہ اُبھرتا ہے کہ برصغیر کے یہ لوگ جو صدیوں سے اکٹھے رہتے آرہے تھے، جن کا کلچر ایک جیسا ہے، جن کا رہن سہن ایک جیسا ہے۔ تو اب یہ لوگ اکٹھے کیوں نہیں رہ سکتے؟ یہ بات بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے دو معاشرے اور قومی ثقافتیں بہت مختلف ہیں اور بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف لگتی ہیں لیکن ہمارے دونوں ممالک مواصلاتی پائپ کی طرح ہیں جو ہر سنجیدہ تعلقات کے معمولی اتار چڑھاؤ اور عارضی بحرانوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اب جب کہ بالآخر 70سال بعد دو ''کھلاڑیوں'' کی کاوشیں رنگ لے آئیںاور کرتار پور بارڈر کو سکھ زائرین کے لیے کھولنے کے حوالے سے اقدامات کا آغاز کر دیا گیاہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ امن عمل ایسے ہی شروع ہوتا ہے۔ علاقائی امن و استحکام اور ہم آہنگی کا سفر صرف ایک راہداری تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ دونوں ممالک کو آگے بڑھ کر ایسی مزیدبے شمار راہداریاں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے قائم کرنی چاہیں۔ آج احترامِ انسانیت کا درس دینے والے باباگورونانک ہمارے درمیان موجود ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ بہت خوش ہوتے کہ ستر سال کے بعد آخرکار انڈیا اور پاکستان نے بھی عوام کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی ضرورت سمجھ لی ہے۔
بطور پاکستانی ہمیں کرتارپور راہداری قائم کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انڈیا میں بھی مسلمانوں کے بہت سے مذہبی مقدس مقامات بشمول اجمیر شریف موجود ہیں، ایک تاریخی درگاہ پاک بھارت سرحد سے ملحقہ بھارتی علاقے راجا تال میں قائم ہے، یہ درگاہ دو عظیم صوفی بزرگوں حضرت خدمت علی شاہ اور حضرت عظمت علی شاہ سے منسوب ہے، قیام پاکستان کے بعد تمام مسلمان آبادی ہجرت کر گئی، بعد میں پاکستانی علاقے سے زائرین درگاہ کی زیارت کے لیے آتے رہے لیکن بارڈر پر خاردار تاریں لگانے کے بعد پاکستانی زائرین کا داخلہ بند ہوگیا۔
یہ امر باعثِ دلچسپی ہے کہ آج اس تاریخی درگاہ کے سجادہ نشین اور زائرین سب کے سب غیرمسلم ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے جانے کے بعدبطور امانت درگاہ کے انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں۔جب دونوں ممالک کی عوام کے درمیان اس طرح کے روابط موجود ہیں تو دونوں ممالک کو یہ سوچنا ہوگا کہ دنیا کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟
فرانس کی معیشت یورپ کی سب سے مضبوط معیشت ہے، جب کہ جرمنی یورپ کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے جب کہ معیشت کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر112اور بھارت کا 67واں نمبر ہے۔لہٰذادونوں ممالک کو سوچنا چاہیے کہ اگر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تینوں ملک مل جائیں تو ان تینوں ملکوں کی آبادی پونے دو ارب کے بنتی ہے، یہ ممالک آپسی تجارت سے ہی اتنے فائدے حاصل کر سکتے ہیں کہ انھیں بیرونی دنیا کی ضرورت ہی نہ رہے۔ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ان دونوں ملکوں کے درمیان صلح وہی ملک نہیں ہونے دے رہے جو ان دونوں ملکوں کو اسلحہ سپلائی کرتے ہیں۔
اور اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس طرح کرنے سے بھارت کے جاسوس پاکستان میں آجائیں گے یا اس طرح کی کوئی دوسری تخریب کاری ہو سکتی ہے تو خدارا اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جاسوسی دشمنوں کے درمیان ہوتی ہے، جب یہ ممالک دوست بن جائیں گے تو ایسا کچھ نہیں ہوگا، اور اگر کوئی ملک ایسا سوچتا یا ایسی شرارت کرتا بھی ہے تو دنیا بھر میں ''الیزے معاہدے'' جیسے بہت سے معاہدے موجود ہیں جن پر عمل کرکے اکٹھا رہا جا سکتا ہے۔
اور اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کیا بنے گا؟ تو جب ساری چیزیں باہمی رضامندی سے ہو سکتی ہیں تو یہ مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک کسی ایک پیچیدہ مسئلے کے حل نہ ہونے کی صورت میں اپنی زندگیوں پر ''اسٹاپر'' نہیں لگا دیتے، بلکہ اُس مسئلے کو Pendingرکھ کر مزید مسئلوں کو حل کرتے ہیں اور آخر میں اُس پیچیدہ مسئلے پر بحث ہوتی ہے۔ لہٰذامسئلہ کشمیر کو بھی اسی طرز سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
فرانس اور جرمنی کی مثال اس لیے دی جاتی ہے کہ یہ دونوں ممالک کئی صدیوں تک ایک دوسرے کے حریف، مخالف اور دشمن رہے، اس میں بیسویں صدی کے دوران دو عالمی جنگوں کا سب سے زیادہ تکلیف دہ وقت بھی شامل ہے،خاص طور پر اس وقت جب نازی ڈکٹیٹرشپ وحشیانہ جرائم کی مرتکب ہوئی۔
اس تناظر میں 55 سال قبل22 جنوری 1963ء کو ہونے والے ''الیزے معاہدے'' کی تاریخی اہمیت اور چارلس ڈی گال جرمن چانسلر کونریڈایڈنائیر کا ساتھ دینے والے پہلے شخص تھے جنہوں نے کبھی نازی دور کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے دومدبرین نے ایک تقریباً ناممکن خواب کو پورا کرتے ہوئے اسے حقیقت کا رنگ دے دیا ہو۔ انھوں نے ایک نئے تاریخی باب کا آغاز کیا اور ان کے جانشینوں نے چند عارضی مشکلات کے بعد اس کا تسلسل برقرار رکھنا تھا۔ اور دور اندیش رہنماؤں نے تاریخ کا ایک نیا صفحہ تحریر کرکے یہ ثابت کردیا۔ صدیوں پرانی دشمنی سے گہری دوستی جنم لے سکتی ہے۔
دنیا میں اپنی نوعیت کے منفرد ترین الیزے معاہدے نے درحقیقت فرانس اور وفاقی جمہوریہ جرمنی کو اداروں کے لحاظ سے متحد کردیا ہے جو کہ دنیا میں اور کہیں نہیں ہے۔ فرانس اور جرمنی کی دوستی کے مستقبل کا تعین کرنے والا الیزے معاہدہ صرف چھ صفحات پر مبنی ہے۔ معاہدے میں کہا گیاہے کہ جرمن اور فرانسیسی حکومتوں کے نمائندے باقاعدہ وقفوں کے بعد ایک دوسرے سے ملاقات اور بات چیت کریں گے۔ سیکیورٹی اور دفاع سے متعلق تمام اہم فیصلے مل جل کر کیے جائیں گے۔اس فیصلے کے باعث 1963ء میں فرانکو جرمن یوتھ آفس کی بنیاد پڑی، فرانکو جرمن ہائی اسکول و جود میںآئے اور فرانس اور جرمنی کے بہت سے شہروں، اسکولوں اور علاقوں کو آپس میں جوڑا گیا جس سے جرمنی اور فرانس کے لاکھوں نوجوانوں کو قریب آنے کا موقع ملا۔ اس معاہدے کا ایک اور نتیجہ فرانکو جرمن ملٹری بریگیڈ کی تشکیل تھی جو 1989ء میں بنائی گئی۔
معاہدے میں کوئی خاص ضرورت شامل نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی اس میں کسی سیاسی مقاصد کا تعین کیا گیا تھا۔اب حال ہی میں گزشتہ اٹھارہ سال میں دونوں ممالک کے سربراہان اور وزرائے خارجہ کے درمیان بہت سی غیر رسمی ملاقاتیں ہوچکی ہیں، یہ ملاقاتیں پہلے اجلاس کے نام پر ہوئیں جو 2001ء میں فرانس کے شہر بلیشم میں منعقد ہوا۔ یہ سب کچھ ناممکن ہوتا ا گر دوستی مشترکہ اقدار کی مضبوط بنیادوں پر استوار نہ ہوتی۔ ان دونوں ممالک اور بین الاقوامی فریم ورک میں خود کو آزادی، برداشت، سب سے زیادہ کمزوروں کی مدد اور ثقافتی وسعت کا عزم دیا۔ تاہم گزشتہ 55 سال کے دوران بعض اوقات جب بات مشترکہ مفادات پر مبنی مسائل کے حل کی ہوئی تو جرمنی اور فرانس نے مختلف موقف اپنائے لیکن ان دونوں ملکوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور باہمی رضامندی سے مسائل کا قابل قبول حل تلاش کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تقریباً 80 سال سے فرانس اور جرمنی میں امن قائم ہے اور ان کے ساتھ پورے یورپ میںبھی امن کا قیام ہے۔ ان سالوں کے دوران سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ سرد جنگ کا خاتمہ ہوا، جرمنی دوبارہ متحد ہوگیا، ڈچ مارک غائب ہوگیا اور یورو کی تخلیق ہوئی۔ گلوبلائزیشن نے دنیا کو تبدیل کردیا اور چین اہم ترین طاقتوںمیں سے ایک طاقت بن چکا ہے۔دنیا اور یورپ میں ان سب تبدیلیوں کے باوجود اس دوران جرمن فرانس تعلقات کئی بار کشیدہ بھی ہوئے لیکن الیزے معاہدے کا فریم ورک جسے دونوں ملکوں کی پالیسیوںمیں بنیادی ستون کی حیثیت حاصل ہے، پر کبھی کوئی سوال نہیں اٹھا۔ پیرس اور برلن کے درمیان دوستی دنیا کے کسی بھی حصے کے مقابلے میں زیادہ توجہ چاہتی ہے۔
تقریباً آدھی صدی سے زائد عرصے کے بعد بھی اگرچہ معاملات حیرت انگیز طور پر بدل چکے ہیں لیکن الیزے معاہدہ فرانکو جرمن مشاورتی عمل کا حصہ ہے لہٰذا جب یہ دو ممالک جو آپسی جنگیں لڑکر لاکھوں جرمنوں اور فرانسیسیوں کی موت کا سبب بن چکے، اس جنگ کے ہارنے کے بعد ایک بار فرانس کو 5ارب فرانک بھی جرمنی کو ادا کرنا پڑے، اور پھر ایک بار تو جرمنی کو فرانس کے دو صوبے بھی بطور تاوان لینا پڑے۔ جب کہ دوسری اور پہلی جنگ عظیم میں بھی دونوں ملکوں کی آپسی تباہ کاریوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ایسے حالات کے بعد ان دو ملکوں کا آپس میں اس قدر باہمی اتحاد سے رہنا کہ دنیا مثال دے، واقعی یہ ایک شاندار مثال ہے۔
اگر پاک بھارت تعلقات کو دیکھا جائے تو یقینا ان دونوں ملکوں کے عوام بھی فرانس اور جرمنی جیسے اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں مگر چند ایسی طاقتیں ہیں جو کبھی ان دونوں ملکوں کو اکٹھا نہیں دیکھ سکتیں۔ جیسے بھارت میں شدت پسند تنظیمیں کبھی نہیں چاہیں گی کہ پاکستان کے ساتھ بھارتی حکومت کسی قسم کے مذاکرات کرے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان حکومت نے اقتدار میں آنے سے لے کر اب تک کم و بیش 6دفعہ بھارت کو مذاکرات کے آغاز کی دعوت دی ہے مگر بھارتی حکمران چند مجبوریوں کے باعث اس حوالے سے لاچار نظر آتے ہیں۔
اب سوال یہ اُبھرتا ہے کہ برصغیر کے یہ لوگ جو صدیوں سے اکٹھے رہتے آرہے تھے، جن کا کلچر ایک جیسا ہے، جن کا رہن سہن ایک جیسا ہے۔ تو اب یہ لوگ اکٹھے کیوں نہیں رہ سکتے؟ یہ بات بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ ہمارے دو معاشرے اور قومی ثقافتیں بہت مختلف ہیں اور بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف لگتی ہیں لیکن ہمارے دونوں ممالک مواصلاتی پائپ کی طرح ہیں جو ہر سنجیدہ تعلقات کے معمولی اتار چڑھاؤ اور عارضی بحرانوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اب جب کہ بالآخر 70سال بعد دو ''کھلاڑیوں'' کی کاوشیں رنگ لے آئیںاور کرتار پور بارڈر کو سکھ زائرین کے لیے کھولنے کے حوالے سے اقدامات کا آغاز کر دیا گیاہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ امن عمل ایسے ہی شروع ہوتا ہے۔ علاقائی امن و استحکام اور ہم آہنگی کا سفر صرف ایک راہداری تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ دونوں ممالک کو آگے بڑھ کر ایسی مزیدبے شمار راہداریاں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے قائم کرنی چاہیں۔ آج احترامِ انسانیت کا درس دینے والے باباگورونانک ہمارے درمیان موجود ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ وہ بہت خوش ہوتے کہ ستر سال کے بعد آخرکار انڈیا اور پاکستان نے بھی عوام کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی ضرورت سمجھ لی ہے۔
بطور پاکستانی ہمیں کرتارپور راہداری قائم کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انڈیا میں بھی مسلمانوں کے بہت سے مذہبی مقدس مقامات بشمول اجمیر شریف موجود ہیں، ایک تاریخی درگاہ پاک بھارت سرحد سے ملحقہ بھارتی علاقے راجا تال میں قائم ہے، یہ درگاہ دو عظیم صوفی بزرگوں حضرت خدمت علی شاہ اور حضرت عظمت علی شاہ سے منسوب ہے، قیام پاکستان کے بعد تمام مسلمان آبادی ہجرت کر گئی، بعد میں پاکستانی علاقے سے زائرین درگاہ کی زیارت کے لیے آتے رہے لیکن بارڈر پر خاردار تاریں لگانے کے بعد پاکستانی زائرین کا داخلہ بند ہوگیا۔
یہ امر باعثِ دلچسپی ہے کہ آج اس تاریخی درگاہ کے سجادہ نشین اور زائرین سب کے سب غیرمسلم ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے جانے کے بعدبطور امانت درگاہ کے انتظامات سنبھالے ہوئے ہیں۔جب دونوں ممالک کی عوام کے درمیان اس طرح کے روابط موجود ہیں تو دونوں ممالک کو یہ سوچنا ہوگا کہ دنیا کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟
فرانس کی معیشت یورپ کی سب سے مضبوط معیشت ہے، جب کہ جرمنی یورپ کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے جب کہ معیشت کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر112اور بھارت کا 67واں نمبر ہے۔لہٰذادونوں ممالک کو سوچنا چاہیے کہ اگر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تینوں ملک مل جائیں تو ان تینوں ملکوں کی آبادی پونے دو ارب کے بنتی ہے، یہ ممالک آپسی تجارت سے ہی اتنے فائدے حاصل کر سکتے ہیں کہ انھیں بیرونی دنیا کی ضرورت ہی نہ رہے۔ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ان دونوں ملکوں کے درمیان صلح وہی ملک نہیں ہونے دے رہے جو ان دونوں ملکوں کو اسلحہ سپلائی کرتے ہیں۔
اور اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس طرح کرنے سے بھارت کے جاسوس پاکستان میں آجائیں گے یا اس طرح کی کوئی دوسری تخریب کاری ہو سکتی ہے تو خدارا اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جاسوسی دشمنوں کے درمیان ہوتی ہے، جب یہ ممالک دوست بن جائیں گے تو ایسا کچھ نہیں ہوگا، اور اگر کوئی ملک ایسا سوچتا یا ایسی شرارت کرتا بھی ہے تو دنیا بھر میں ''الیزے معاہدے'' جیسے بہت سے معاہدے موجود ہیں جن پر عمل کرکے اکٹھا رہا جا سکتا ہے۔
اور اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کیا بنے گا؟ تو جب ساری چیزیں باہمی رضامندی سے ہو سکتی ہیں تو یہ مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک کسی ایک پیچیدہ مسئلے کے حل نہ ہونے کی صورت میں اپنی زندگیوں پر ''اسٹاپر'' نہیں لگا دیتے، بلکہ اُس مسئلے کو Pendingرکھ کر مزید مسئلوں کو حل کرتے ہیں اور آخر میں اُس پیچیدہ مسئلے پر بحث ہوتی ہے۔ لہٰذامسئلہ کشمیر کو بھی اسی طرز سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔