پہلی جنگ عظیم کی صد سالہ تقریب
پہلی جنگ عظیم کی تقریب جاری تھی مگر قومی جنگ آزادی اور دہشتگردی کا فرق دنیا ابھی تک سمجھ نہ سکی۔
پہلی جنگ عظیم کی ابتدا کی کوئی واضح اور خاص وجہ نظر نہیں آتی ، اگر غورکیا جائے تو 1914ء میں نسل پرستی اور قوم پرستی مغرب میں بام عروج پر تھی، دوم یہ دور مشینوں کی ایجادات کا بھی تھا جس کا نقشہ علامہ اقبال نے کچھ یوں کھینچا ہے۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
دنیا کی بڑی مارکیٹوں پر قبضہ اور نوآبادیاتی نظام کا استحکام ، اس کے علاوہ بوسنیا، سربیا، یوگو سلاویہ کی لیڈر شپ کے باہمی تنازعات اس کے علاوہ آسٹریا اور ہنگری کے لیڈران نے جرمنی کا وزٹ کیا اور ان کی حمایت کی وجہ سے جرمنی نے ان کو بالکل اس بات کی آزادی دی کہ وہ اپنے اعتبار سے جو مقامی فیصلہ کریں، ان کو اس کی کھلی چھٹی دی جا چکی ہے کیونکہ جرمنی ان دنوں اس دنیا کی ایک بڑی طاقت تھا ، نئی ایجادات اور فنی ترقی میں وہ پیش پیش تھا۔
اسی دوران آسٹریا اور ہنگری نے سربیا پر حملہ کردیا اور بعدازاں اس جنگ میں مخالفین کی صف بندی ہوتی گئی اور وہ اس قدر زیادہ تھی کہ اس جنگ میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ سپاہی اور 60 لاکھ عوام جان سے گئے، جب کہ زخمی اور اپاہج ہونے والوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور بعض ملکوں کا جغرافیہ بھی تبدیل ہوگیا، جس میں مڈل ایسٹ نکتہ عروج پر تھا۔ خلافت عثمانیہ کا زوال اسی جنگ کا پیش خیمہ تھا ، اس وقت یہ موقع نہیں کہ اس جنگ کے ہر نکتے پرگفتگو کی جائے، مگر 100 سال بعد فرانس کے صدرکیمرون نے پیرس میں جو کانفرنس بلائی، یقینا اس پرگفتگو کی ضرورت ہے۔
انھوں نے جس کانفرنس کا اہتمام کیا وہ ہفتہ 10 نومبرکو شروع ہوئی، بظاہرکوئی ایجنڈا نہیں پھر بھی اس میں دنیا کے 70 ممالک نے جمعہ 10 نومبر کو شرکت کی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں نے اس جنگ میں شرکت کی مذمت کی یہ جنگ عظیم آخرکار 1918ء میں ختم ہوئی۔ یہ عجیب المیہ ہے کہ آسٹریلیا اور انڈیا کے 70 ہزار سے زیادہ سپاہی بھی ہلاک ہوئے ، مگر نتائج سے سبق نہ لیا گیا اور دوسری جنگ عظیم پر بھی شروع ہوئی ۔ البتہ دنیا نے اس جنگ کے بعد مستقبل کی جنگوں کا راستہ کسی حد تک روک دیا، مگر ملکوں کے مابین دھڑے بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر بعض ملکوں میں انسانی حقوق کی حق تلفی زوروشور سے جاری ہے۔ بقول تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے ہر ذی حیات کی حیات ہمارا مقصود ہے جب تک ہر ذی حیات کے حقوق کے احترام کی کوشش نہیں کی جاتی ،اس دنیا میں قتل و غارت جاری رہے گی ۔
آج بھی زندہ انسان کا قیمہ بنایا جا رہا ہے جس پر اس کانفرنس میں طیب اردوان نے ڈونلڈ ٹرمپ اور میکرون سے گفتگوکی ہے ، مگر اس گفتگو میں کتنی سچائی ہے اورکس قدر سیاست کے مقاصد ہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ البتہ فرانس کے صدر میکرون نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یمن کی جنگ بندی کی قرارداد اب پیش کی جاسکتی ہے، مگر مشرق وسطیٰ کے ممالک کے مابین خود سخت تناؤ ہے اگر یہ جملہ لکھا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ الفاظ کی جنگ جو پہلے ایران اور سعودی عرب کے مابین تھی اب یہ طیب اردوان صدر ترکی اور سعودی عرب کے مابین شروع ہوچکی ہے کیونکہ خشوگی کی موت کی آڈیو اردوان نے پیرس کانفرنس میں تمام اہم ممالک میں تقسیم کی اور فرانس، جرمنی، امریکا، برطانیہ اور دیگر ملکوں سے شیئر کی۔ لہٰذا اب صورتحال عالمی پلیٹ فارم پر آگئی ہے۔
لہٰذا وزیر اعظم عمران خان نے یہ بہتر کیا کہ سفارتکاری کو اس سمت بڑھانے کے بجائے چین کی سمت تجدید وفا کا ہاتھ بڑھایا ہے گوکہ چین کی سمت سے فوری معاشی امداد کی توقع نہیں مگر بارٹر سسٹم سے بہت سی معاشی ضروریات پوری ہوجائیں گی ، مگر اس بات کے خدشات میں اضافہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی اسمال انڈسٹریز پر اس کے منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ بہرحال یہ وقت عالمی سفارتکاری کا ہرگز نہیں کیونکہ پیرس میں کیمرون نے جنگ عظیم اول کی یادگار سجائی ہے اور 70 ممالک کے حکمران کی شرکت ہے۔
پورا شہر آرٹ اور فن کی تصویر بنا ہے خوشی اور رنج کا عظیم امتزاج ہے۔ امریکی صدرکی یہ امید تھی کہ نیٹو ممالک اپنا حصہ اس میں بڑھائیں اور معاشی برتری کا مظاہرہ کریں جب کہ کیمرون نے یورپی یونین کی فوج کی داغ بیل ڈالنے کی تجویز پیش کی۔ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیٹو کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ دوم یمن کی جنگ بندی کی قرارداد پیش کرنے کا عندیہ دیا۔اس طرح پہلی مرتبہ امریکا اور یورپی ممالک کے موقف میں فرق نظر آیا کہ مغربی دنیا میں اور امریکی دنیا میں ثقافتی دوری پیدا ہوچکی ہے۔ مگر یہ دوری بس ایسی نہیں کہ اس میں بڑے فاصلے ہیں بالکل ایسا ہی تہذیبی فاصلہ کہ مغرب چائے نوشی کو اپنا تجارتی اور ثقافتی ورثہ بنائے ہوئے ہے جب کہ امریکا نشین کافی کو،کوئی بڑی خلیج نہیں، لیکن جیسا کہ میں نے اوپر تحریر کیا ہے کہ پہلی جنگ عظیم قومیت کا جھگڑا تھا ، میکرون نے قومیت کے جھگڑے کی مذمت کی ۔ ہاں وطنیت کو اپنا زیور قرار دیا اور فرانس کی تہذیب وثقافت، ادب و آگہی، آرٹ اورکلچر کا پرچارکیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے خشوگی کی موت کو امن کے راستے کے لیے کچھ کرنے پر قرار داد کو پیش کرنے کا عزم دہرایا۔ جیسے ڈونلڈ ٹرمپ سے پورا کرنے کی امید کی ہے انھوں نے پیرس کو رنگا رنگ قمقموں اور آرٹ کے قافلے سے پرکیا اور کسی بھی نئی بڑی جنگ سے پناہ مانگی۔ امید ہے دنیا کے زیادہ تر ممالک نے جو تقریب میں شریک ہوئے تھے انسانی جانوں کے اس زیاں پر افسوس ضرورکیا ہوگا اور قوموں کی جنگ آزادی اور تخریب کاری میں فرق ضرور محسوس کریں گے۔
ابھی دنیا میں پیرس سے امن کی خبریں نشر ہو رہی تھیں، عالمی لیڈرکی آرا پر تالیاں بج رہی تھیں مگر عین اسی وقت امریکی شہر شکاگو میں شام کے 6 بجے تھے کہ ایک بریکنگ نیوز آئی کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اجلاس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اسرائیل روانہ ہوگئے کیونکہ اسرائیل نے غزہ کے سات افراد کو شہید کردیا اس کے کچھ دیر بعد دوسری بریکنگ نیوز کہ یمن کی جنگ میں شدت آگئی ہے اور اہم یمنی بندرگاہ پر قبضے کے لیے حدیبہ پر شدید جنگ جاری ہے، لیکن کشمیریوں کی جنگ آزادی کی خبر سنانے والا کوئی نہ تھا۔ گوکہ یہ بھی حقوق انسانی کی جنگ ہے، مگر دنیا کو اس جنگ کے لیے شاید جس طرح پیغام دیا جا رہا ہے اس میں کوئی نقص ضرور ہے کیونکہ 70 برس گزرنے کے بعد بھی دنیا کی حکومتوں کو ہمارا موقف سمجھنے میں اس قدر غفلت کیوں ہے۔
پہلی جنگ عظیم کی تقریب جاری تھی مگر قومی جنگ آزادی اور دہشتگردی کا فرق دنیا ابھی تک سمجھ نہ سکی، اگر دنیا نے ماضی سے سبق نہ لیا تو جدید ہتھیاروں کی دوڑ انسانیت کو نابود بھی کرسکتی ہے۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
دنیا کی بڑی مارکیٹوں پر قبضہ اور نوآبادیاتی نظام کا استحکام ، اس کے علاوہ بوسنیا، سربیا، یوگو سلاویہ کی لیڈر شپ کے باہمی تنازعات اس کے علاوہ آسٹریا اور ہنگری کے لیڈران نے جرمنی کا وزٹ کیا اور ان کی حمایت کی وجہ سے جرمنی نے ان کو بالکل اس بات کی آزادی دی کہ وہ اپنے اعتبار سے جو مقامی فیصلہ کریں، ان کو اس کی کھلی چھٹی دی جا چکی ہے کیونکہ جرمنی ان دنوں اس دنیا کی ایک بڑی طاقت تھا ، نئی ایجادات اور فنی ترقی میں وہ پیش پیش تھا۔
اسی دوران آسٹریا اور ہنگری نے سربیا پر حملہ کردیا اور بعدازاں اس جنگ میں مخالفین کی صف بندی ہوتی گئی اور وہ اس قدر زیادہ تھی کہ اس جنگ میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ سپاہی اور 60 لاکھ عوام جان سے گئے، جب کہ زخمی اور اپاہج ہونے والوں کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور بعض ملکوں کا جغرافیہ بھی تبدیل ہوگیا، جس میں مڈل ایسٹ نکتہ عروج پر تھا۔ خلافت عثمانیہ کا زوال اسی جنگ کا پیش خیمہ تھا ، اس وقت یہ موقع نہیں کہ اس جنگ کے ہر نکتے پرگفتگو کی جائے، مگر 100 سال بعد فرانس کے صدرکیمرون نے پیرس میں جو کانفرنس بلائی، یقینا اس پرگفتگو کی ضرورت ہے۔
انھوں نے جس کانفرنس کا اہتمام کیا وہ ہفتہ 10 نومبرکو شروع ہوئی، بظاہرکوئی ایجنڈا نہیں پھر بھی اس میں دنیا کے 70 ممالک نے جمعہ 10 نومبر کو شرکت کی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں نے اس جنگ میں شرکت کی مذمت کی یہ جنگ عظیم آخرکار 1918ء میں ختم ہوئی۔ یہ عجیب المیہ ہے کہ آسٹریلیا اور انڈیا کے 70 ہزار سے زیادہ سپاہی بھی ہلاک ہوئے ، مگر نتائج سے سبق نہ لیا گیا اور دوسری جنگ عظیم پر بھی شروع ہوئی ۔ البتہ دنیا نے اس جنگ کے بعد مستقبل کی جنگوں کا راستہ کسی حد تک روک دیا، مگر ملکوں کے مابین دھڑے بندی کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر بعض ملکوں میں انسانی حقوق کی حق تلفی زوروشور سے جاری ہے۔ بقول تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے ہر ذی حیات کی حیات ہمارا مقصود ہے جب تک ہر ذی حیات کے حقوق کے احترام کی کوشش نہیں کی جاتی ،اس دنیا میں قتل و غارت جاری رہے گی ۔
آج بھی زندہ انسان کا قیمہ بنایا جا رہا ہے جس پر اس کانفرنس میں طیب اردوان نے ڈونلڈ ٹرمپ اور میکرون سے گفتگوکی ہے ، مگر اس گفتگو میں کتنی سچائی ہے اورکس قدر سیاست کے مقاصد ہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ البتہ فرانس کے صدر میکرون نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ یمن کی جنگ بندی کی قرارداد اب پیش کی جاسکتی ہے، مگر مشرق وسطیٰ کے ممالک کے مابین خود سخت تناؤ ہے اگر یہ جملہ لکھا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ الفاظ کی جنگ جو پہلے ایران اور سعودی عرب کے مابین تھی اب یہ طیب اردوان صدر ترکی اور سعودی عرب کے مابین شروع ہوچکی ہے کیونکہ خشوگی کی موت کی آڈیو اردوان نے پیرس کانفرنس میں تمام اہم ممالک میں تقسیم کی اور فرانس، جرمنی، امریکا، برطانیہ اور دیگر ملکوں سے شیئر کی۔ لہٰذا اب صورتحال عالمی پلیٹ فارم پر آگئی ہے۔
لہٰذا وزیر اعظم عمران خان نے یہ بہتر کیا کہ سفارتکاری کو اس سمت بڑھانے کے بجائے چین کی سمت تجدید وفا کا ہاتھ بڑھایا ہے گوکہ چین کی سمت سے فوری معاشی امداد کی توقع نہیں مگر بارٹر سسٹم سے بہت سی معاشی ضروریات پوری ہوجائیں گی ، مگر اس بات کے خدشات میں اضافہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی اسمال انڈسٹریز پر اس کے منفی اثرات پڑسکتے ہیں۔ بہرحال یہ وقت عالمی سفارتکاری کا ہرگز نہیں کیونکہ پیرس میں کیمرون نے جنگ عظیم اول کی یادگار سجائی ہے اور 70 ممالک کے حکمران کی شرکت ہے۔
پورا شہر آرٹ اور فن کی تصویر بنا ہے خوشی اور رنج کا عظیم امتزاج ہے۔ امریکی صدرکی یہ امید تھی کہ نیٹو ممالک اپنا حصہ اس میں بڑھائیں اور معاشی برتری کا مظاہرہ کریں جب کہ کیمرون نے یورپی یونین کی فوج کی داغ بیل ڈالنے کی تجویز پیش کی۔ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیٹو کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ دوم یمن کی جنگ بندی کی قرارداد پیش کرنے کا عندیہ دیا۔اس طرح پہلی مرتبہ امریکا اور یورپی ممالک کے موقف میں فرق نظر آیا کہ مغربی دنیا میں اور امریکی دنیا میں ثقافتی دوری پیدا ہوچکی ہے۔ مگر یہ دوری بس ایسی نہیں کہ اس میں بڑے فاصلے ہیں بالکل ایسا ہی تہذیبی فاصلہ کہ مغرب چائے نوشی کو اپنا تجارتی اور ثقافتی ورثہ بنائے ہوئے ہے جب کہ امریکا نشین کافی کو،کوئی بڑی خلیج نہیں، لیکن جیسا کہ میں نے اوپر تحریر کیا ہے کہ پہلی جنگ عظیم قومیت کا جھگڑا تھا ، میکرون نے قومیت کے جھگڑے کی مذمت کی ۔ ہاں وطنیت کو اپنا زیور قرار دیا اور فرانس کی تہذیب وثقافت، ادب و آگہی، آرٹ اورکلچر کا پرچارکیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے خشوگی کی موت کو امن کے راستے کے لیے کچھ کرنے پر قرار داد کو پیش کرنے کا عزم دہرایا۔ جیسے ڈونلڈ ٹرمپ سے پورا کرنے کی امید کی ہے انھوں نے پیرس کو رنگا رنگ قمقموں اور آرٹ کے قافلے سے پرکیا اور کسی بھی نئی بڑی جنگ سے پناہ مانگی۔ امید ہے دنیا کے زیادہ تر ممالک نے جو تقریب میں شریک ہوئے تھے انسانی جانوں کے اس زیاں پر افسوس ضرورکیا ہوگا اور قوموں کی جنگ آزادی اور تخریب کاری میں فرق ضرور محسوس کریں گے۔
ابھی دنیا میں پیرس سے امن کی خبریں نشر ہو رہی تھیں، عالمی لیڈرکی آرا پر تالیاں بج رہی تھیں مگر عین اسی وقت امریکی شہر شکاگو میں شام کے 6 بجے تھے کہ ایک بریکنگ نیوز آئی کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اجلاس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اسرائیل روانہ ہوگئے کیونکہ اسرائیل نے غزہ کے سات افراد کو شہید کردیا اس کے کچھ دیر بعد دوسری بریکنگ نیوز کہ یمن کی جنگ میں شدت آگئی ہے اور اہم یمنی بندرگاہ پر قبضے کے لیے حدیبہ پر شدید جنگ جاری ہے، لیکن کشمیریوں کی جنگ آزادی کی خبر سنانے والا کوئی نہ تھا۔ گوکہ یہ بھی حقوق انسانی کی جنگ ہے، مگر دنیا کو اس جنگ کے لیے شاید جس طرح پیغام دیا جا رہا ہے اس میں کوئی نقص ضرور ہے کیونکہ 70 برس گزرنے کے بعد بھی دنیا کی حکومتوں کو ہمارا موقف سمجھنے میں اس قدر غفلت کیوں ہے۔
پہلی جنگ عظیم کی تقریب جاری تھی مگر قومی جنگ آزادی اور دہشتگردی کا فرق دنیا ابھی تک سمجھ نہ سکی، اگر دنیا نے ماضی سے سبق نہ لیا تو جدید ہتھیاروں کی دوڑ انسانیت کو نابود بھی کرسکتی ہے۔