میرے نبیؐ سے میرا رشتہ۔۔۔
آپؐ نے بتایا تھا کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو، ایک دوسرے کے حقوق اور اپنے فرائض کا خیال رکھنا۔
کیسے ضبطِ تحریر میں لائے جاسکتے ہیں جذبات، محسوسات، عقیدت و محبت، نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ یہ تو صرف محسوس ہی کیے جاسکتے ہیں، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ دل ہو۔ صرف دل نہیں، کیا دھڑکتا ہوا دل، نہیں نہیں دلِ زندہ۔ اسی لیے تو ڈاکٹر اقبال کو کہنا پڑا: دلِ مُردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ۔
کیا صرف مجرد سچائی ہی راہِ نجات ہے، نہیں ایسا بھی نہیں کہ بتایا گیا ہے کہ سچائی کے لیے شرط ہے، زبانِ صادق کی۔ تو بس طے ہوا کہ یہ دعوی وہ کرے جو دلِ زندہ رکھنے کے ساتھ زبانِ صادق بھی رکھتا ہو، اوہ یہ سعادت تو ہر کس و ناکس کا نصیبا کہاں کہ بس یہ تو نعمتِ خداوندی ہے اور ایسی نعمت، نعمتِ عظمی کہیں جسے۔
دعویٰ تو وہ کرے جسے خدا نے اپنے حبیبؐ کی محبت میں مبتلا کیا ہے، جسے محبت رسول اکرمؐ سے نوازا گیا ہو، جسے یہ نعمتِ دارین عطا کی ہوکہ جس کے سامنے ہر نعمت کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ یہ بھی تو ایک دعوی ہی ہے کہ میرے نبیؐ سے میرا رشتہ! بس یہی ہے مقام فکر، انسان کو اپنی حیثیت معلوم ہے، روز ازل سے معلوم، انسان کو رب تعالٰی نے کم زور پیدا کیا ہے، اسے مکمل بااختیار نہیں بنایا گیا۔ انسانِ کامل تو بس ایک ہی ہیں، واحد جناب سرکار مآب ﷺ۔
انسان کو زندہ رہنے کے لیے سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے سہارے جو اسے کبھی بے سہارا نہ ہونے دیں۔ ایسے سہارے ہیں کہاں، اب تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ وہ واحد انسانِ کاملؐ جن کی ذات گرامی انسانوں کے لیے ہمیشہ ہی روشن رہی اور جس کا ہر پل انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف رہا۔ وہ جو اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا، اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا۔ ایسا نسخۂ کیمیا جو انسانوں کے ہر دکھ کو سکھ میں بدلنے والا، ہر مرض کی شافی دوا، ہر الجھن کی بہترین سلجھن، ہر مسئلے کا پائیدار حل اور ہر زخم کو مندمل کرنے والا ہے۔ ایسا نسخۂ کیمیا جو انسان کاملؐ لائے تھے اور اس پر صحرائے عرب کے بدؤں نے آپؐ کی قیادت میں عمل پیرا ہوکر سارے عالم کی زندگی کو بدل ڈالا تھا۔ وہ جس نے راہ زنوں کو راہ بر بنا ڈالا، جو انسانیت کے لیے باعث ننگ تھے۔
اس انسان کاملؐ کے لائے ہوئے نسخۂ کیمیا پر عمل کرتے ہوئے انسانیت کے لیے رحمت بن گئے کہ وہ جس کے پیروکار تھے، وہ خود رحمت العالمینؐ تھے اور رہیں گے۔ لیکن ہمارا ان سے کیا رشتہ ہے جو ہم بیان کریں! کیا یہی کہ ہم نے آپؐ کی بتائی ہوئی تعلیمات کو یک سر بھلا دیا اور اپنے مسائل کے حل کے لیے اغیار کی طرف دیکھنے لگے۔ کیا یہی کہ آپؐ نے بتایا تھا کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو ایک دوسرے کے حقوق اور اپنے فرائض کا خیال رکھنا۔ لیکن ہم نے کیا کِیا یہی کہ بس اپنے حقوق طلب کیے اور دوسروں کے حقوق کو غصب کیا۔ کیا یہی کہ آپؐ نے بتایا تھا کہ ہرگز ہرگز منتشر مت ہونا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور ہم میں سے ہر ایک نے اپنے الگ الگ مسالک بنالیے اور اپنی الگ الگ مسجدیں بنالیں۔
کیا یہی ہمارا آپؐ سے رشتہ رہ گیا کہ آپؐ نے فرمایا تھا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو، تم میں کوئی تفریق نہیں سوائے تقوی کے، تو پھر کیا ہم نے اس کلیے کو بھلا کر دولت کو معیار نہیں بنالیا۔ کیا یہی ہے رشتہ کہ آپؐ کے ہر فرمان کو ہم نے بھلا دیا اور اپنے راستے اپنے رسول رحمتؐ سے الگ کرلیے (العیاذباللہ)۔ لیکن آفرین ہے کہ ہم پھر بھی یہ دعوی کرتے نہیں تھکتے کہ ہمارا اپنے رسول اکرمؐ سے رشتہ ہے۔ کیا ہم اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی دلیل اور عمل لا سکتے ہیں، یقینا ہمارا جواب نفی میں ہوگا۔
بس یہی ہے مقام سوچ و فکر، ہمیں تنہائی میں سوچنا چاہیے کہ ہمارا رشتہ اپنے نبیؐ سے ہے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس سوچیے کہ یہی مقام سوچ و فکر ہے۔
افسوس صد افسوس ہم میں دل ہی نہیں، اسی لیے تو رب کائنات نے فرمایا کہ ان کی آنکھیں ہیں، لیکن یہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں لیکن یہ سنتے نہیں ہیں۔ کیا ہم ایسے ہی نہیں ہیں۔ بات نکلے گی تو پھر دُور تلک جائے گی۔ بس سوچیے کہ یہی مقام فکر ہے، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ میرے نبیؐ سے میرا رشتہ۔۔۔۔۔۔۔ اک سوالیہ نشان ہے۔ وہ دیکھیے علامہ اقبالؒ کیا کہہ رہے ہیں
دل مُردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
اور یہ بھی کہ
کی محمدؐ سے وفا تُونے، تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
کیا صرف مجرد سچائی ہی راہِ نجات ہے، نہیں ایسا بھی نہیں کہ بتایا گیا ہے کہ سچائی کے لیے شرط ہے، زبانِ صادق کی۔ تو بس طے ہوا کہ یہ دعوی وہ کرے جو دلِ زندہ رکھنے کے ساتھ زبانِ صادق بھی رکھتا ہو، اوہ یہ سعادت تو ہر کس و ناکس کا نصیبا کہاں کہ بس یہ تو نعمتِ خداوندی ہے اور ایسی نعمت، نعمتِ عظمی کہیں جسے۔
دعویٰ تو وہ کرے جسے خدا نے اپنے حبیبؐ کی محبت میں مبتلا کیا ہے، جسے محبت رسول اکرمؐ سے نوازا گیا ہو، جسے یہ نعمتِ دارین عطا کی ہوکہ جس کے سامنے ہر نعمت کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ یہ بھی تو ایک دعوی ہی ہے کہ میرے نبیؐ سے میرا رشتہ! بس یہی ہے مقام فکر، انسان کو اپنی حیثیت معلوم ہے، روز ازل سے معلوم، انسان کو رب تعالٰی نے کم زور پیدا کیا ہے، اسے مکمل بااختیار نہیں بنایا گیا۔ انسانِ کامل تو بس ایک ہی ہیں، واحد جناب سرکار مآب ﷺ۔
انسان کو زندہ رہنے کے لیے سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے سہارے جو اسے کبھی بے سہارا نہ ہونے دیں۔ ایسے سہارے ہیں کہاں، اب تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ وہ واحد انسانِ کاملؐ جن کی ذات گرامی انسانوں کے لیے ہمیشہ ہی روشن رہی اور جس کا ہر پل انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف رہا۔ وہ جو اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا، اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا۔ ایسا نسخۂ کیمیا جو انسانوں کے ہر دکھ کو سکھ میں بدلنے والا، ہر مرض کی شافی دوا، ہر الجھن کی بہترین سلجھن، ہر مسئلے کا پائیدار حل اور ہر زخم کو مندمل کرنے والا ہے۔ ایسا نسخۂ کیمیا جو انسان کاملؐ لائے تھے اور اس پر صحرائے عرب کے بدؤں نے آپؐ کی قیادت میں عمل پیرا ہوکر سارے عالم کی زندگی کو بدل ڈالا تھا۔ وہ جس نے راہ زنوں کو راہ بر بنا ڈالا، جو انسانیت کے لیے باعث ننگ تھے۔
اس انسان کاملؐ کے لائے ہوئے نسخۂ کیمیا پر عمل کرتے ہوئے انسانیت کے لیے رحمت بن گئے کہ وہ جس کے پیروکار تھے، وہ خود رحمت العالمینؐ تھے اور رہیں گے۔ لیکن ہمارا ان سے کیا رشتہ ہے جو ہم بیان کریں! کیا یہی کہ ہم نے آپؐ کی بتائی ہوئی تعلیمات کو یک سر بھلا دیا اور اپنے مسائل کے حل کے لیے اغیار کی طرف دیکھنے لگے۔ کیا یہی کہ آپؐ نے بتایا تھا کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو ایک دوسرے کے حقوق اور اپنے فرائض کا خیال رکھنا۔ لیکن ہم نے کیا کِیا یہی کہ بس اپنے حقوق طلب کیے اور دوسروں کے حقوق کو غصب کیا۔ کیا یہی کہ آپؐ نے بتایا تھا کہ ہرگز ہرگز منتشر مت ہونا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور ہم میں سے ہر ایک نے اپنے الگ الگ مسالک بنالیے اور اپنی الگ الگ مسجدیں بنالیں۔
کیا یہی ہمارا آپؐ سے رشتہ رہ گیا کہ آپؐ نے فرمایا تھا کہ تم سب آدم کی اولاد ہو، تم میں کوئی تفریق نہیں سوائے تقوی کے، تو پھر کیا ہم نے اس کلیے کو بھلا کر دولت کو معیار نہیں بنالیا۔ کیا یہی ہے رشتہ کہ آپؐ کے ہر فرمان کو ہم نے بھلا دیا اور اپنے راستے اپنے رسول رحمتؐ سے الگ کرلیے (العیاذباللہ)۔ لیکن آفرین ہے کہ ہم پھر بھی یہ دعوی کرتے نہیں تھکتے کہ ہمارا اپنے رسول اکرمؐ سے رشتہ ہے۔ کیا ہم اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی دلیل اور عمل لا سکتے ہیں، یقینا ہمارا جواب نفی میں ہوگا۔
بس یہی ہے مقام سوچ و فکر، ہمیں تنہائی میں سوچنا چاہیے کہ ہمارا رشتہ اپنے نبیؐ سے ہے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس سوچیے کہ یہی مقام سوچ و فکر ہے۔
افسوس صد افسوس ہم میں دل ہی نہیں، اسی لیے تو رب کائنات نے فرمایا کہ ان کی آنکھیں ہیں، لیکن یہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں لیکن یہ سنتے نہیں ہیں۔ کیا ہم ایسے ہی نہیں ہیں۔ بات نکلے گی تو پھر دُور تلک جائے گی۔ بس سوچیے کہ یہی مقام فکر ہے، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ میرے نبیؐ سے میرا رشتہ۔۔۔۔۔۔۔ اک سوالیہ نشان ہے۔ وہ دیکھیے علامہ اقبالؒ کیا کہہ رہے ہیں
دل مُردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
اور یہ بھی کہ
کی محمدؐ سے وفا تُونے، تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں