سانحہ بلدیہ ٹاؤن جرمنی میں ٹیکسٹائل کمپنی کیخلاف زرتلافی کا مقدمہ
کمپنی چاروں متاثرین کو فی کس 30 ہزار یورو زرتلافی کی مد میں ادا کرے، والدہ مقتول اعجاز احمد
جرمنی کی عدالت میں سانحہ بلدیہ ٹاؤں سے متعلق جرمن ٹیکسٹائل کمپنی (کے آئی کے) کیخلاف مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں سانحے کا شکار ہونے والی فیکٹری میں جرمن ٹیکسٹائل کمپنی 'کے آئی کے' کے ملبوسات تیار ہوتے تھے۔ 2012 میں فیکٹری میں آگ لگ جانے سے تقریباً 250 سے زائد ورکرز جاں بحق ہو گئے تھے جن میں ایک اعجاز احمد بھی شامل تھا، اعجاز احمد کی والدہ سعیدہ خاتون نے جرمنی میں کمپنی کیخلاف مقدمہ دائر کیا۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی متاثرہ خاتون اور تین رشتہ داروں کی جانب سے عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا کہ جرمن ٹیکسٹائل کمپنی ان چاروں کو فی کس 30 ہزار یورو زرتلافی کی مد میں ادا کرے۔
درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ 'کے آئی کے' کمپنی کراچی کی فیکٹری میں تیار ہونے والے ملبوسات کی بڑی خریدار تھی، لہٰذا کمپنی بھی فیکٹری کی حالات کی نصف ذمہ دار ہے۔ دوسری جانب کے آئی کے کمپنی نے الزامات کو رد کیا اور کہا مذکورہ مقدمہ قانونی حدود سے باہر ہے۔
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں سانحے کا شکار ہونے والی فیکٹری میں جرمن ٹیکسٹائل کمپنی 'کے آئی کے' کے ملبوسات تیار ہوتے تھے۔ 2012 میں فیکٹری میں آگ لگ جانے سے تقریباً 250 سے زائد ورکرز جاں بحق ہو گئے تھے جن میں ایک اعجاز احمد بھی شامل تھا، اعجاز احمد کی والدہ سعیدہ خاتون نے جرمنی میں کمپنی کیخلاف مقدمہ دائر کیا۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی متاثرہ خاتون اور تین رشتہ داروں کی جانب سے عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا کہ جرمن ٹیکسٹائل کمپنی ان چاروں کو فی کس 30 ہزار یورو زرتلافی کی مد میں ادا کرے۔
درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ 'کے آئی کے' کمپنی کراچی کی فیکٹری میں تیار ہونے والے ملبوسات کی بڑی خریدار تھی، لہٰذا کمپنی بھی فیکٹری کی حالات کی نصف ذمہ دار ہے۔ دوسری جانب کے آئی کے کمپنی نے الزامات کو رد کیا اور کہا مذکورہ مقدمہ قانونی حدود سے باہر ہے۔