پڑوسیوں کے درمیان تعلقات غربت کو شکست
اس دوستی کے لیے دونوں ممالک کا ایک جامع لائحہ عمل پر متفق ہونا ضروری ہے۔
کرتار پور راہداری کھلنے کی خبر اس خطے میں امن کی خواہش کرنے والے لوگوں کے خوابوں کو تقویت دے رہی ہے۔ عوام توقع کر رہے ہیں کہ دونوں ممالک کے کروڑوں شہریوں کی ایک دوسرے کے ملک آمدورفت میں رکاوٹوں کو نرم کریں گے ۔ ایک وقت آئے گا کہ یورپی ممالک کی طرح بھارت اور پاکستان کے شہری بھی دونوں ملکوں میں کسی پابندی کے بغیر آجا سکیں گے۔
دستیاب اطلاعات ظاہرکرتی ہیں کہ کرتارپور سے بھارت کی سرحد 3 سے 4 کلومیٹر دور ہے۔ ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے نارووال اور شکرگڑھ تحصیلیں بھارت کے ضلع گورداسپورکا حصہ تھیں۔ متحدہ پنجاب کی تقسیم کے لیے قائم ہونے والے ریڈ کلف کمیشن کی کھینچی گئی لکیرکے مطابق یہ تحصیلیں پاکستان کے ضلع سیالکوٹ میں شامل ہوگئیں۔ 1991 میں ناروال اور شکرگڑھ کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ کرتار پورکا گوردوارہ سکھوں کی تاریخی عمارت گاہ ہے۔ یہاں سکھ مذہب کے بانی برسوں مقیم رہے۔
بے چارے سکھ بھارتی سرحد سے دوربین کے ذریعے اس گوردوارہ کا نظارہ کرتے ہیں اور دور سے ہی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں، یوں سکھ برادری برسوں سے یہ مطالبہ کرتی رہی کہ بھارت کے سکھوں کو اس مقدس گوردوارے میں عبادت کے لیے پابندیاں ختم کی جائیں، مگر ہمیشہ کبھی سیکیورٹی اورکبھی دیگر وجوہات کی بناء پر یہ معاملہ التواء کا شکار ہوجاتا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی دونوں ممالک کے شہریوں کی دونوں ممالک میں آمدورفت کو آسان اور سہل بنانے پر سوچ و بچار کے ساتھ کوششیں شروع کی تھیں، 1999 میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی دوستی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے اور یادگار پاکستان پر حاضری دی تھی ۔ اس دورے میں لاہور سے دہلی تک دوستی بس چلانے کے ساتھ کرتار پور کوریڈورکھولنے پر حتمی بات چیت مکمل ہوئی تھی۔
اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو وزیر اعظم واجپائی کا دورہ قبول نہیں تھا، یہی وجہ تھی کہ کچھ عرصے بعد کارگل میں محاذ آرائی ہوئی، اس طرح دونوں ممالک میں صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے جاری عمل سبوتاژ ہوا ۔ جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہوئے مگر صدر پرویز مشرف کو اقتدار میں آتے ہی حقیقت کو قبول کرنا پڑا کہ خطے کی ترقی کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات ضروری ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ 2004 میں دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا۔
دونوں ممالک کے سندھ میں کھوکھرا پار، موناباؤ ریلوے لائن کھولنے اور امرتسر سے براستہ لاہور پھر کرتار پور سڑک کے راستے کو فعال کرنے پر اتفاق ہوا۔ کراچی سے مونا باؤ جانے والی ریل گاڑی تو چلنے لگی مگر کرتار پورکوریڈور کا معاملہ التواء کا شکار رہا۔ اگرچہ صدر مشرف کشمیرکا مسئلہ حل کرنے آگرہ گئے مگر پرویز مشرف اور واجپائی نظر نہ آنے والی قوتوں کے دباؤ پر کسی حل پر متفق نہ ہوئے اور تاریخ میں آگرہ کانفرنس ناکام خارجہ پالیسی کا سیاہ باب بن گئی۔ مگر سری نگر سے مظفر آباد تک مسافروں کے لیے بس سروس کے علاوہ سامان کی آمدورفت کا راستہ کھل گیا۔
کرتار پورکوریڈور کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ عجیب حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب 1988میں پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت محترمہ بے نظیر بھٹوکی قیادت میں قائم ہوئی تو انھوں نے بھارتی وزیر اعظم راجیوگاندھی کو اسلام آباد مدعو کیا ۔ دونوں وزرائے اعظم خوشگوار تعلقات کے لیے پرعزم تھے کہ پہلے بے نظیر کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کیا اور پھر راجیوگاندھی تامل ٹائیگرز کے خودکش حملے میں ہلاک ہوگئے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف سکھوں کے مقدس گوردوارے کے راستے کو آسان کرنا چاہتے تھے کہ وہ برطرف کرکے اٹک قلعہ بھیج دیے گئے۔ بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ برسر اقتدار آئیں تو وہ بھارت سے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہاں تھیں مگر محتاط انداز میں قدم بڑھارہی تھیں۔ کراچی میں خراب حالات اور مقتدرہ کے دباؤ پرکراچی میں بھارتی قونصل خانہ بند ہوا۔ بھارت نے بمبئی میں پاکستانی قونصل خانے کے قیام کو وزارت خارجہ کی فائلوں کے ڈھیر میں چھپا دیا۔ دوسری بار وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف نے تو وزیر اعظم واجپائی سے قریبی تعلقات استوار کیے۔ پرویز مشرف، یوسف رضا گیلانی اور پھر میاں نواز شریف کی حکومتیں اس بارے میں خاصی سنجیدہ تھیں مگر سکھوں کا دیرینہ مطالبہ پورا نہ ہوا۔
اس دوران ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات، پٹھان کوٹ گیریژن پر حملے میں، بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے الزامات کے تناظر میں دونوں ممالک کے تعلقات خرابی کی منفی سمت سفرکرگئے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہائی کمیشن کے عملے میں کمی کی۔ بھارت اور پاکستان نے ویزا دینے کے اتنے سخت ضوابط نافذ کیے کہ ویزا نہ ملنے پر دوستی بس اور سمجھوتہ ایکسپریس میں مسافر ناپید ہوگئے۔
بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے دونوں ممالک کے درمیان فضائی سفر کی سہولتوں کو مختصر کردیا، اب کراچی، ممبئی اور دہلی سے پہلے دبئی جانے اور پھر انھیں منزلوں پر پہنچنے کا ایک نیا ہوائی کوریڈور بنا جس سے ایک طرف ٹکٹوںکی قیمت ایک لاکھ روپے تک پہنچی ۔ صرف دہلی ، لاہور، دہلی پی آئی اے کی دو پروازیں دستیاب رہیں۔ بھارت اور پاکستان نے اپنے شہریوں کے ویزے کے حق کو محدود کیا اور مختصر عرصے کے ویزے کے لیے اتنی دستاویزات کو لازمی قرار دیا کہ جتنی امریکا اور کینیڈا مائیگریشن کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ بھارت میں ہندو مذہبی انتہاپسند تنظیم نے جنونیت اور فاشزم کے ایک نئے دورکو اپنایا۔ اب پاکستانی فنکاروں، صحافیوں اور سیاستدانوں کی آمد پر احتجاج ہونے لگا۔ پاکستان سے آنے والے صحافیوں، وکلاء اور فنکاروں کے ویزے بند کیے گئے۔
معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ پہلے ویزا فوری مل جاتا تھا اور نئی دہلی پہنچنے پر افسر سے لے کر چپڑاسی تک خوشگوار انداز میں خیر مقدم کرتا تھا۔ اب تو ایک منصوبہ بندی کے ذریعے دانشوروں اور فنکاروں کی آمدورفت کو روکا گیا ہے۔ اس کا فائدہ دونوں طرف کے انتہاپسندوں نے اٹھایا ۔ معاملہ صرف کرتار پورکوریڈرو کھلنے سے حل نہیں ہوتا مگر اس دوستی کے لیے دونوں ممالک کا ایک جامع لائحہ عمل پر متفق ہونا ضروری ہے۔ اس لائحہ عمل کے تحت کراچی سے بمبئی فری سروس شرو ع کی جائے۔ لاہور کے علاوہ کراچی سے بھی بھارت کے لیے بس سروس شروع ہونی چاہیے۔ دونوں حکومتوں کو راجھستان اور سندھ دونوں پنجاب کو ملانے والے راستوں کو کھولنے پر غورکرنا پڑے گا۔
ماضی میں 65 سال اور زیادہ عمر کے شہریوں کو سرحد پر ویزا دینے، طلبہ، اساتذہ، صحافیوں، وکلاء، ادیبوں، فنکاروں، ڈاکٹر، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کو ان کی مرضی کے شہروں کا ویزا دینے اور پولیس انکوائری سے مستثنیٰ کرنے سے متعلق دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہوا تھا۔ اب دونوں حکومتوں کو اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنیوالے کرکٹ کے سابق کھلاڑی نوجوت سنگھ سدھو کو کرتار پور کوریڈور کھولنے کی خوش خبری دی تھی۔
اب اس فضاء میں حکومت کو تجارتی شعبے میں بھی بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا مسئلہ حل کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے تجارتی میدان میں تعلقات مستحکم ہوں۔ خطے میں موجود ہر شخص کو ذہنی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ پڑوسی تبدیل نہیں ہونگے مگر پڑوسیوں کے درمیان خوشگوار تعلقات سے غربت کو شکست دی جاسکتی ہے۔
دستیاب اطلاعات ظاہرکرتی ہیں کہ کرتارپور سے بھارت کی سرحد 3 سے 4 کلومیٹر دور ہے۔ ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے نارووال اور شکرگڑھ تحصیلیں بھارت کے ضلع گورداسپورکا حصہ تھیں۔ متحدہ پنجاب کی تقسیم کے لیے قائم ہونے والے ریڈ کلف کمیشن کی کھینچی گئی لکیرکے مطابق یہ تحصیلیں پاکستان کے ضلع سیالکوٹ میں شامل ہوگئیں۔ 1991 میں ناروال اور شکرگڑھ کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ کرتار پورکا گوردوارہ سکھوں کی تاریخی عمارت گاہ ہے۔ یہاں سکھ مذہب کے بانی برسوں مقیم رہے۔
بے چارے سکھ بھارتی سرحد سے دوربین کے ذریعے اس گوردوارہ کا نظارہ کرتے ہیں اور دور سے ہی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں، یوں سکھ برادری برسوں سے یہ مطالبہ کرتی رہی کہ بھارت کے سکھوں کو اس مقدس گوردوارے میں عبادت کے لیے پابندیاں ختم کی جائیں، مگر ہمیشہ کبھی سیکیورٹی اورکبھی دیگر وجوہات کی بناء پر یہ معاملہ التواء کا شکار ہوجاتا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی دونوں ممالک کے شہریوں کی دونوں ممالک میں آمدورفت کو آسان اور سہل بنانے پر سوچ و بچار کے ساتھ کوششیں شروع کی تھیں، 1999 میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی دوستی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے اور یادگار پاکستان پر حاضری دی تھی ۔ اس دورے میں لاہور سے دہلی تک دوستی بس چلانے کے ساتھ کرتار پور کوریڈورکھولنے پر حتمی بات چیت مکمل ہوئی تھی۔
اس وقت اسٹیبلشمنٹ کو وزیر اعظم واجپائی کا دورہ قبول نہیں تھا، یہی وجہ تھی کہ کچھ عرصے بعد کارگل میں محاذ آرائی ہوئی، اس طرح دونوں ممالک میں صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے جاری عمل سبوتاژ ہوا ۔ جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہوئے مگر صدر پرویز مشرف کو اقتدار میں آتے ہی حقیقت کو قبول کرنا پڑا کہ خطے کی ترقی کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان معمول کے تعلقات ضروری ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ 2004 میں دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا۔
دونوں ممالک کے سندھ میں کھوکھرا پار، موناباؤ ریلوے لائن کھولنے اور امرتسر سے براستہ لاہور پھر کرتار پور سڑک کے راستے کو فعال کرنے پر اتفاق ہوا۔ کراچی سے مونا باؤ جانے والی ریل گاڑی تو چلنے لگی مگر کرتار پورکوریڈور کا معاملہ التواء کا شکار رہا۔ اگرچہ صدر مشرف کشمیرکا مسئلہ حل کرنے آگرہ گئے مگر پرویز مشرف اور واجپائی نظر نہ آنے والی قوتوں کے دباؤ پر کسی حل پر متفق نہ ہوئے اور تاریخ میں آگرہ کانفرنس ناکام خارجہ پالیسی کا سیاہ باب بن گئی۔ مگر سری نگر سے مظفر آباد تک مسافروں کے لیے بس سروس کے علاوہ سامان کی آمدورفت کا راستہ کھل گیا۔
کرتار پورکوریڈور کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ عجیب حقیقت سامنے آتی ہے کہ جب 1988میں پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت محترمہ بے نظیر بھٹوکی قیادت میں قائم ہوئی تو انھوں نے بھارتی وزیر اعظم راجیوگاندھی کو اسلام آباد مدعو کیا ۔ دونوں وزرائے اعظم خوشگوار تعلقات کے لیے پرعزم تھے کہ پہلے بے نظیر کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کیا اور پھر راجیوگاندھی تامل ٹائیگرز کے خودکش حملے میں ہلاک ہوگئے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف سکھوں کے مقدس گوردوارے کے راستے کو آسان کرنا چاہتے تھے کہ وہ برطرف کرکے اٹک قلعہ بھیج دیے گئے۔ بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ برسر اقتدار آئیں تو وہ بھارت سے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہاں تھیں مگر محتاط انداز میں قدم بڑھارہی تھیں۔ کراچی میں خراب حالات اور مقتدرہ کے دباؤ پرکراچی میں بھارتی قونصل خانہ بند ہوا۔ بھارت نے بمبئی میں پاکستانی قونصل خانے کے قیام کو وزارت خارجہ کی فائلوں کے ڈھیر میں چھپا دیا۔ دوسری بار وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف نے تو وزیر اعظم واجپائی سے قریبی تعلقات استوار کیے۔ پرویز مشرف، یوسف رضا گیلانی اور پھر میاں نواز شریف کی حکومتیں اس بارے میں خاصی سنجیدہ تھیں مگر سکھوں کا دیرینہ مطالبہ پورا نہ ہوا۔
اس دوران ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات، پٹھان کوٹ گیریژن پر حملے میں، بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے الزامات کے تناظر میں دونوں ممالک کے تعلقات خرابی کی منفی سمت سفرکرگئے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہائی کمیشن کے عملے میں کمی کی۔ بھارت اور پاکستان نے ویزا دینے کے اتنے سخت ضوابط نافذ کیے کہ ویزا نہ ملنے پر دوستی بس اور سمجھوتہ ایکسپریس میں مسافر ناپید ہوگئے۔
بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے دونوں ممالک کے درمیان فضائی سفر کی سہولتوں کو مختصر کردیا، اب کراچی، ممبئی اور دہلی سے پہلے دبئی جانے اور پھر انھیں منزلوں پر پہنچنے کا ایک نیا ہوائی کوریڈور بنا جس سے ایک طرف ٹکٹوںکی قیمت ایک لاکھ روپے تک پہنچی ۔ صرف دہلی ، لاہور، دہلی پی آئی اے کی دو پروازیں دستیاب رہیں۔ بھارت اور پاکستان نے اپنے شہریوں کے ویزے کے حق کو محدود کیا اور مختصر عرصے کے ویزے کے لیے اتنی دستاویزات کو لازمی قرار دیا کہ جتنی امریکا اور کینیڈا مائیگریشن کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ بھارت میں ہندو مذہبی انتہاپسند تنظیم نے جنونیت اور فاشزم کے ایک نئے دورکو اپنایا۔ اب پاکستانی فنکاروں، صحافیوں اور سیاستدانوں کی آمد پر احتجاج ہونے لگا۔ پاکستان سے آنے والے صحافیوں، وکلاء اور فنکاروں کے ویزے بند کیے گئے۔
معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ پہلے ویزا فوری مل جاتا تھا اور نئی دہلی پہنچنے پر افسر سے لے کر چپڑاسی تک خوشگوار انداز میں خیر مقدم کرتا تھا۔ اب تو ایک منصوبہ بندی کے ذریعے دانشوروں اور فنکاروں کی آمدورفت کو روکا گیا ہے۔ اس کا فائدہ دونوں طرف کے انتہاپسندوں نے اٹھایا ۔ معاملہ صرف کرتار پورکوریڈرو کھلنے سے حل نہیں ہوتا مگر اس دوستی کے لیے دونوں ممالک کا ایک جامع لائحہ عمل پر متفق ہونا ضروری ہے۔ اس لائحہ عمل کے تحت کراچی سے بمبئی فری سروس شرو ع کی جائے۔ لاہور کے علاوہ کراچی سے بھی بھارت کے لیے بس سروس شروع ہونی چاہیے۔ دونوں حکومتوں کو راجھستان اور سندھ دونوں پنجاب کو ملانے والے راستوں کو کھولنے پر غورکرنا پڑے گا۔
ماضی میں 65 سال اور زیادہ عمر کے شہریوں کو سرحد پر ویزا دینے، طلبہ، اساتذہ، صحافیوں، وکلاء، ادیبوں، فنکاروں، ڈاکٹر، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کو ان کی مرضی کے شہروں کا ویزا دینے اور پولیس انکوائری سے مستثنیٰ کرنے سے متعلق دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہوا تھا۔ اب دونوں حکومتوں کو اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنیوالے کرکٹ کے سابق کھلاڑی نوجوت سنگھ سدھو کو کرتار پور کوریڈور کھولنے کی خوش خبری دی تھی۔
اب اس فضاء میں حکومت کو تجارتی شعبے میں بھی بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا مسئلہ حل کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے تجارتی میدان میں تعلقات مستحکم ہوں۔ خطے میں موجود ہر شخص کو ذہنی طور پر اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ پڑوسی تبدیل نہیں ہونگے مگر پڑوسیوں کے درمیان خوشگوار تعلقات سے غربت کو شکست دی جاسکتی ہے۔