پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ جی ایس ٹی کا دائرہ وسیع سندھ کا بجٹ منظور اپوزیشن کا احتجاج

اپوزیشن میں شامل تمام جماعتوں کےارکان نے’’نو،نو‘‘ کےنعرےلگائے،ٹیکس واپس لینےتک سیاسی وقانونی جدوجہد کرینگے,ارکان.

کراچی :سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ کی منظوری پر ایم کیو ایم اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ارکان واک آئوٹ کرکے ایوان سے باہرجارہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

سندھ اسمبلی نے ہفتے کو فنانس بل 2013کی منظوری دے دی جس کے مطابق سندھ میں پراپرٹی ٹیکس اور انفرااسٹرکچر سیس کی شرح میں اضافہ کردیا گیا ہے اورخدمات پر جنرل سیلزٹیکس (جی ایس ٹی )کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔

اس کا اطلاق یکم جولائی 2013 سے ہوگا ۔ دوسری جانب اپوزیشن میں شامل تمام جماعتوں نے بل کی مخالفت کی اور احتجاجاً اجلاس سے بائیکاٹ کیا ۔ جب فنانس بل ایوان میں پیش کیا گیا تو تمام اپوزیشن ارکان نے اپنی بینچوں پر کھڑے ہوکر''نو''، ''نو''کے نعرے لگائے۔ ایم کیو ایم کے سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے سے صرف شہری علاقے ہی متاثر ہوں گے۔ رواں مالی سال کے 11 مہینے میں پراپرٹی ٹیکس کی مد میں ایک ارب 30 کروڑ روپے وصول ہوئے، جن میں سے صرف کراچی سے ایک ارب20 کروڑ روپے وصول کیے گئے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ فنانس بل واپس لیا جائے۔ اس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے بل میں کوئی ترمیم پیش نہیں کی گئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن نے اس بل کو تسلیم کرلیا ہے۔

سید سردار احمد نے کہا کہ ہمیں بل کا گزٹ نوٹیفیکیشن آج ہی ملا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم نے 17جون کو بجٹ پیش کرنے کے ساتھ ہی یہ بل ارکان کو دے دیا تھا لہٰذا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بل کی کاپی ارکان کے پاس نہیں تھیں ۔ ایم کیو ایم کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (فنکنشنل)، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے بھی احتجاجاً بائیکاٹ کیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاھ نے اس بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ خدمات پر سیلز ٹیکس صوبوں کو دلوانے کے لیے سندھ نے بہت جدوجہد کی ہے اور ہماری ان کوششوں میں سید سردار احمد نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔ بل کا مطالعہ کرنے کے لیے12 دن کا وقت کافی تھا، اگر اپوزیشن والے چاہتے تو ترامیم لا سکتے تھے۔ ہم نے ان لوگوں پر ٹیکس لگایا ہے جو دے سکتے ہیں، ٹیکس کے دائرے میں امرا کو لایا گیا ہے، اس سے غریبوں کو فائدہ ہوگا۔انھوں نے کہا کہ پراپرٹی ٹیکس براہ راست کراچی میٹروپولیٹن اور ہر ضلع کی مقامی حکومتوں کو چلا جائے گا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کے ایم سی کو زیادہ پیسے ملنے پر اپوزیشن کو کیوں اعتراض ہے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ اپوزیشن نے بجٹ کی منظوری کے آخری مرحلے میں ایوان سے بائیکاٹ کیا، تعمیری تنقید اپوزیشن کا حق ہے لیکن تنقید برائے تنقید قابل قبول نہیں ہے۔ بعد ازاں اپوزیشن کی عدم موجودگی میں اسمبلی نے فنانس بل کی منظوری دے دی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس موقع پر سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ، محکمہ خزانہ، محکمہ قانون اور پی ڈبلیو ڈی کے تمام افسران اور ملازمین اور اسمبلی سیکریٹریٹ کے میڈیکل ملازمین کو3,3 ماہ کی اضافی تنخواہیں دینے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔ فنانس بل کے مطابق پراپرٹی ٹیکس کی شرح 20فیصد سے بڑھاکر25فیصد کردی گئی ہے۔سندھ انفراسٹراکچرسیس میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ ٹیکس بندرگاہ سے درآمد اور برآمد کیے جانے والے سامان سے وزن کے حساب سے وصول کیا جاتا ہے۔

فنانس بل کے مطابق خدمات پر جی ایس ٹی کا دائرہ ان خدمات تک بھی بڑھادیا گیا ہے ،جن پر پہلے سندھ میں ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا۔اب ایڈورٹائزنگ ایجنٹس ،کموڈٹی بروکرز،میرج ہالزاور لانز، ایونٹ مینجمنٹ ،پبلک بانڈڈو یئر ہائوسز،اسپانسرشپ، بزنس سپورٹ سروسز،لیگل پریکٹیشنرزاور کنسلٹنٹ، اکائوٹنٹس اورآڈیٹرز،سافٹ ویئریاآئی ٹی بیسڈسسٹم ڈیولپمنٹ کنسلٹنٹس،ٹیکس کنسلٹنٹس ،اسپیشلائز ڈ ایجنسیز، مارکیٹ ریسرج ایجنسیز،سرویئرز،آئوٹ ڈور فوٹو گرافرز اور ویڈیوگرافرز،مینجمنٹ کنسلٹنٹس،آٹوورکشاپ ، ہیلتھ کیئرسینٹرز،جم یافزیکل فٹنس سینٹرز،باڈی مساج سینٹرز، پیڈی کیورسینٹرز،نمائشوں،لیبراور مین پاورسپلائی ،مینوفیکچرنگ اور پروسیسنگ سروسز،ریس کلبزاور دیگرسروسزپر16فیصد جی ایس ٹی وصول کیا جائے گا جبکہ سیکیورٹی ا یجنسیز پر16فیصدکی بجائے 10فیصد ٹیکس وصول کیاجائے گا۔انٹرنیٹ اور براڈبینڈ سروسزپر چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔




اب1500روپے ماہانہ سے زیادہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں پر ٹیکس عائد ہوگاتاہم طلباء اور گھریلواستعمال پر ٹیکس کی چھوٹ برقرار رہے گی ۔ بیوٹی پارلرز، جیم، فٹنس اور سلمنگ سینٹرز وغیرہ پر 16 کی بجائے 10 فیصد جی ایس ٹی وصول کیا جائے گا۔ ہوٹلوں پر پہلے سے تجویز کردہ 7.5 فیصد بیڈ ٹیکس واپس لے لیا گیا ہے تاہم ہوٹل اپنی سروسز پر جی ایس ٹی بدستور دیتے رہیں گے۔ کنسٹرکٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کی اس تجویز کو قبول کرلیا گیا ہے کہ ان سے 4فیصد ٹیکس وصول کیا جائے۔ شراب کی تجارت اور درآمد کے لیے لائسنس فیس بالترتیب 6 لاکھ سے بڑھا کر 8 لاکھ روپے اور ساڑھے 3 لاکھ روپے سے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کردی گئی ہے۔ قبل ازیں مسلم لیگ (فنکنشنل) کے پارلیمانی لیڈر امتیاز احمد شیخ نے خیرپور کے قصبے کنب میں پولیس کے ہاتھوں اپنے کارکن عبدالستار کے قتل پر سخت احتجاج کیا اور کہا کہ ہمارے خلاف سندھ میں سیاسی انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور 80 اور90 کا دور واپس آگیا ہے۔

وزیر معدنیات و معدنی ترقی اور اینٹی کرپشن منظور حسین وسان نے کہا کہ فنکنشل لیگ والے خود ہی قتل کررہے ہیں اور خود ہی سازشیں کررہے ہیں، اس قتل کا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ مخالفین کو پھنسایا جاسکے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کا اعلان کیا۔ امتیاز شیخ نے اپنے نکتہ اعتراض پر کہا کہ وزیر اعلیٰ خود ہی اعتراف کرتے ہیں کہ چیف سیکریٹری، آئی جی اور ہوم سیکریٹری ان کا کہنا نہیں مانتے، وہ ایسے بے بس وزیر اعلیٰ ہیں، نااہل افسران کو پولیس میں ضم کردیا گیا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ منظور حسین وسان نے اس موقع پر کہا کہ جہاں یہ واقعہ ہوا ہے یہ علاقہ میرے حلقے میں شامل ہے۔11 مئی کے انتخابات کے بعد16 مئی کو فنکنشنل لیگ کے صدر صدر الدین شاہ راشدی اور سیکریٹری جنرل امتیاز شیخ نے ہڑتال کی کال دی تھی اور شہر بند کرایا گیا تھا۔ ایک گیس اسٹیشن پر فائرنگ کرکے اس کے مالک کو قتل کردیا گیا تھا، بعد میں ہمارے مزید 3کارکنوں کو شہید کردیا گیا، ہمارا ایک کارکن امتیاز وسان اغوا ہوا، صوبے کا وزیر اعلیٰ بھی ہمارا ہے، میں خود وزیر ہوں لیکن ایف آئی آر درج نہیں ہورہی۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس علاقے میں کس کا زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ منظور وسان نے کہا کہ مفاہمت نے ہمیں سب سے زیادہ تباہ کیا ہے۔ ہم نے اپنے مخالفین کے خلاف کچھ نہیں کیا لیکن جب ہمارے مخالفین کی باری آتی ہے تو وہ ہمارے خلاف سب کچھ کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہکنب میں ہونے والے واقعے پر مجھے بہت افسوس ہے لیکن میں اس کی ذمہ داری پیر صدر الدین شاہ راشدی پر ڈالوں گا۔ ہمارے رکن قومی اسمبلی نواب وسان کے خلاف ایف آئی آر درج ہے، پیر صدر الدین شاہ راشدی کے خلاف ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہوسکتی؟۔ اسپیکر آغا سراج درانی نے وزیر اعلیٰ سندھ سے کہا کہ ایسے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کی جائے جو حکومت کو غیر مستحکم کررہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (فنکنشنل) کے رہنما امتیاز احمد شیخ اور مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ گذشتہ روز اسمبلی کے فلور پر سیاسی انتقامی کارروائیاں نہ کیے جانے کے وزیر اعلیٰ سندھ کے دعوے کا جواب ہمیں رات کو کنب میں ہمارے ایک کارکن کو شہید کرکے دیا گیا ہے۔

سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 22 سے کامیاب ہونے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر عبدالستار راجپر نے ہفتہ کو رکن سندھ اسمبلی کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سمیت تمام جماعتوں نے سندھ میں ٹیکسوں کی شرح میں اضافے اور بعض خدمات پر سیلز ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کے خلاف سیاسی اور قانونی جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک یہ ٹیکس واپس نہیں لیے جائیں گے، جدوجہد جاری رہے گی۔ہفتے کو سندھ اسمبلی کے اجلاس کے بعد اپوزیشن لیڈر فیصل علی سبزواری نے اپوزیشن کی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے بجٹ تقاریر میں بھی اس بل کی مخالفت کی تھی، سرکاری بینچوں نے ازخود یہ بل منظور کرلیا ہے، پراپرٹی ٹیکس کی شرح میں 20 سے25 فیصد اضافہ ظلم اور ناانصافی ہے۔ اسی طرح انفراسٹریکچر سیس میں اضافے سے بھی شہری ٹرانسپورٹرز متاثر ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ صوبے اور ملک کی معیشت میں سب سے زیادہ آمدنی زرعی شعبے سے ہوتی ہے لیکن اس شعبہ سے ٹیکس کی وصولیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔زمیندار اور وڈیرے یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی پیداوار کا 50 فیصد حصہ ہاری کو دیتے ہیں لیکن میں نے آج تک کسی ہاری کے پاس لینڈ کروزر یا جی ایم سی نہیں دیکھی۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ پراپرٹی ٹیکس اور انفرااسٹرکچر کی شرحوں میں اضافے سے شہری علاقے ہی متاثر ہوں گے، اسی طرح سیلز ٹیکس کا دائرہ بڑھانے سے بھی صرف شہری علاقے ہی متاثر ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سیلز ٹیکس سب پر 16 فیصد کی شرح سے لیا جائے گا۔ ہم سندھ میں ٹیکسوں کے اس اضافے اور نفاذ کے خلاف اپنی سیاسی اور قانونی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

مسلم لیگ (فنکنشنل) کے پارلیمانی لیڈر امتیاز احمد شیخ نے کہا کہ سندھ حکومت کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ اس نے ٹیکس فری بجٹ پیش کیا ہے، ہم ٹیکسوں میں اضافے کو سندھ کے عوام کے مفاد میں مسترد کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سندھ کے لوگوں کی بھلائی کے لیے بجٹ میں کوئی بڑا منصوبہ پیش نہیں کیا گیا ہے اور گذشتہ 5 سال میں ترقیاتی منصوبے پر کوئی رقم خرچ نہیں کی گئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ خان مروت نے کہا کہ سندھ میں بدنیتی کی بنیاد پر ٹیکس لگائے گئے ہیں، اس سے مہنگائی کا سونامی آئے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سید حفیظ الدین نے کہا کہ وفاقی بجٹ کے بعد سندھ بجٹ میں بھی عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے، یہ عوام کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی ہے۔
Load Next Story