بندیا نہیں محراب
پاکستانی وزیر اعظم کا امن کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ بھارت نے ایک بار پھر جھٹک دیا ہے۔
کیا صرف آنے جانے کے راستے کھولنے سے ہی امن ہو سکتا ہے اگر یہ بات درست مان لی جائے تو پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی اُمید کو کوئی نہیں روک سکتا اوراس راستے سے ہی بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی بڑھ سکتے ہیں اور سرحد کے دونوں طرف کے عوام آزادانہ آمدورفت بھی جاری رکھ سکتے ہیں لیکن یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں جتنا بظاہرنظر آرہا ہے ۔یہ آزادی کی تحریک سے بھی پہلے کے مسائل ہیں جو مسلمانوں اور ہندوؤںکے درمیان چلے آرہے ہیں۔
ہندوستان کی دو ٹکڑوں میں تقسیم کو ہندوؤں نے دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا اس لیے جیسے ہی انھیں موقع ملا وہ پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اب باقی ماندہ متحدہ پاکستان بھی ان کو کھٹکتا ہے لیکن یہ باقی ماندہ پاکستان اب نیاایٹمی پاکستان ہے اس لیے اس کے ساتھ محتاط لب و لہجہ میں گفتگو وقت کا تقاضہ اور مجبوری ہے ۔ میں خدانخواستہ یہ کہنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کبھی امن نہیں ہو سکتا۔
ہو سکتا ہے کہ کبھی یہ وقت بھی آجائے جیسے ہمارے نئے نویلے وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا ہے کہ فرانس اور جرمنی یونین بنا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ۔ ماضی سیکھنے کے لیے ہوتا ہے رہنے کے لیے نہیں اور ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگوں کا تصور بھی پاگل پن ہے ۔ بھارت ایک قدم بڑھائے تو ہم دو قدم بڑھائیں گے ۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہم مسئلہ کشمیر حل نہ کر سکے۔
ہمارے وزیر اعظم نے اچھی تقریر کی ہے اور بھارت کو ایک بار پھر امن کی دعوت دی ہے جس کا فوری جواب بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے دے دیا ہے کہ کرتار پور جیسے کتنے بھی راستے کھل جائیں پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے بلکہ انھوں نے سارک کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان کو شاید ہمارے دفتر خارجہ نے مکمل بریفنگ نہیں دی کہ بھارت کے ساتھ بات چیت میں الفاظ کا چناؤ کیا ہونا چاہیے اور کس لہجے میں بات کرنی ہے کیونکہ بھارت وہ دشمن ملک ہے جس کی مثال اس بلے جیسی ہے جس کو آپ جتنا مرضی دودھ پلا دیں وہ موقع دیکھتے ہی ساری دیگچی کو خالی کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہمارے حکمرانوں کو ہمیشہ یہ غلط فہمی رہی کہ بھارت کے ساتھ وفود کے تبادلے کر کے اور سرحد پر شمعیں روشن کر کے یا اپنے محرابوں والے ماتھوں پر بندیا لگاکر ہم ہندوؤں کا دل جیت سکتے ہیں یہ خام خیالی رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی ۔
فرانس اور جرمنی کی یونین ان کو مبارک ہو ہماری یونین تو پاکستان ہی ہے جس کو ہم نے اپنی عزتوں اور آبروؤں کو لٹا کر حاصل کیا بلکہ مکار ہندوؤں سے چھینا تھا، ہم نے یہ ملک تحفے میں حاصل نہیں کیا بلکہ اس کے لیے ہماری ماؤں اور بہنوں نے عصمتوں کی قربانیاں بھی دیں۔ کشمیر میں آج کے روز بھی جو آگ لگی ہوئی ہے اس میں کون جل رہا ہے کیا کسی کو معلوم نہیں ۔ امن کی خواہش تو ہر دل میں پنپتی ہے لیکن کبھی کسی نے یہ غور بھی کیا ہے کہ ایک غریب ملک نے اپنی اوقات سے بڑھ کراگر ایٹم بم بنایا ہے تو بقول چوہدری شجاعت کیا ہم نے ایٹم بم شب برات پر پھوڑنے کے لیے بنایا ہے، ہرگز نہیں یہ ہمارے خطے میں طاقت کے توازن کی ضمانت ہے، کیا کبھی کسی پاکستانی حکمران نے یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ اگر ہم ایٹمی طاقت نہ ہوں تو پھر ہمارا دشمن ہمسایہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن و آشتی ہو لیکن اس امن کے لیے دونوں ملکوں کو اور خاص طور پر بھارت کو یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ پاکستان کا وجود ہی اس کی بقاء کی علامت ہے ۔
ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کا تصور واقعی پاگل پن کی بات ہے، جاپان کے شہرہیروشیما اور ناگا ساکی اس بے رحم تباہی کی مثال ہیں، صدیاں گزر جاتی ہیں لیکن اس تباہ کن ہتھیار کے اثرات ختم نہیں ہوتے ۔ مجھے ایک دفعہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا تھا کہ پاکستان کی ساخت ایسی ہے کہ ہم ایک پٹی کی صورت میں طویل ملک ہیں اگر ہم پر ایٹمی حملہ ہوتا ہے تو حملہ آور کا اپنا نقصان ہم سے زیادہ ہوگا لیکن اگر ہم اپنے دشمن پر حملہ کریں گے تو اس کے شہر ہم سے اتنے دور ہیں کہ اس تباہ کن ہتھیار کے اثرات واپس ہم تک نہیں پہنچیں گے اور صرف پندرہ منٹ میں ہم دشمن کو ملبے کا ڈھیر بنا دیں گے جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔
بہر حال پاکستانی وزیر اعظم کا امن کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ بھارت نے ایک بار پھر جھٹک دیا ہے اور روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن مذاکرات کے علاوہ سارک کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا ہے ۔ بھارتی ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے ہمیں اب اس بات کی سمجھ آجانی چاہیے کہ ہم اس خطے میں امن کے لیے جتنی بھی کوششیں کر لیں وہ سب ناکام ہوجائیں گی کیونکہ بھارتی حکمران کسی اور ہی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں البتہ اس نئی راہداری کا فائدہ ہمارے سکھ دوستوں کو ضرور ہو گا جو اس سے پہلے ایک طویل سفر کر کے اپنے مقدس مقام تک پہنچتے تھے اب وہ صبح شام کرتار پور میں اپنی مذہبی رسومات اور عبادات کر سکیں گے۔
دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں نے پاکستان کے اس فیصلے کو سراہا ہے مگر بھارت شائد یہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان اس معاملے میں بھی سیاست کر رہا ہے یہ بھارت کی غلط فہمی ہے پاکستان نے نیک نیتی سے کرتار پور بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کو بھارتی حکومت نے پہلے تو خوش آئند قرار دیا مگر یکایک اس کو دہشت گردی کی یاد آگئی اور یہ کہنا کہ امن اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے اس کا جواب پاکستانی حکومت کو بھی دینا چاہیے کہ بلوچستان اور حالیہ دنوں میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گردی کی کاروائیوں کے پیچھے کون ہے اب وقت آگیا ہے کہ امن کے راستے کھولنے کے ساتھ ساتھ دشمن بھارت کویہ بھی برملا باور کرانا چاہیے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی تمام تر کڑیاں بھارت سے ہی ملتی ہیں، دیکھتے ہیں ہماری نئی نڈر حکومت اس بات کا اظہار کب اور کیسے کرتی ہے۔ محرابوں والے ماتھوں پر محراب ہی سجتی ہے بندیا نہیں۔
ہندوستان کی دو ٹکڑوں میں تقسیم کو ہندوؤں نے دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا اس لیے جیسے ہی انھیں موقع ملا وہ پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اب باقی ماندہ متحدہ پاکستان بھی ان کو کھٹکتا ہے لیکن یہ باقی ماندہ پاکستان اب نیاایٹمی پاکستان ہے اس لیے اس کے ساتھ محتاط لب و لہجہ میں گفتگو وقت کا تقاضہ اور مجبوری ہے ۔ میں خدانخواستہ یہ کہنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کبھی امن نہیں ہو سکتا۔
ہو سکتا ہے کہ کبھی یہ وقت بھی آجائے جیسے ہمارے نئے نویلے وزیر اعظم عمران خان نے فرمایا ہے کہ فرانس اور جرمنی یونین بنا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ۔ ماضی سیکھنے کے لیے ہوتا ہے رہنے کے لیے نہیں اور ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگوں کا تصور بھی پاگل پن ہے ۔ بھارت ایک قدم بڑھائے تو ہم دو قدم بڑھائیں گے ۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہم مسئلہ کشمیر حل نہ کر سکے۔
ہمارے وزیر اعظم نے اچھی تقریر کی ہے اور بھارت کو ایک بار پھر امن کی دعوت دی ہے جس کا فوری جواب بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے دے دیا ہے کہ کرتار پور جیسے کتنے بھی راستے کھل جائیں پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے بلکہ انھوں نے سارک کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان کو شاید ہمارے دفتر خارجہ نے مکمل بریفنگ نہیں دی کہ بھارت کے ساتھ بات چیت میں الفاظ کا چناؤ کیا ہونا چاہیے اور کس لہجے میں بات کرنی ہے کیونکہ بھارت وہ دشمن ملک ہے جس کی مثال اس بلے جیسی ہے جس کو آپ جتنا مرضی دودھ پلا دیں وہ موقع دیکھتے ہی ساری دیگچی کو خالی کرنے کی کوشش کرے گا۔ ہمارے حکمرانوں کو ہمیشہ یہ غلط فہمی رہی کہ بھارت کے ساتھ وفود کے تبادلے کر کے اور سرحد پر شمعیں روشن کر کے یا اپنے محرابوں والے ماتھوں پر بندیا لگاکر ہم ہندوؤں کا دل جیت سکتے ہیں یہ خام خیالی رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی ۔
فرانس اور جرمنی کی یونین ان کو مبارک ہو ہماری یونین تو پاکستان ہی ہے جس کو ہم نے اپنی عزتوں اور آبروؤں کو لٹا کر حاصل کیا بلکہ مکار ہندوؤں سے چھینا تھا، ہم نے یہ ملک تحفے میں حاصل نہیں کیا بلکہ اس کے لیے ہماری ماؤں اور بہنوں نے عصمتوں کی قربانیاں بھی دیں۔ کشمیر میں آج کے روز بھی جو آگ لگی ہوئی ہے اس میں کون جل رہا ہے کیا کسی کو معلوم نہیں ۔ امن کی خواہش تو ہر دل میں پنپتی ہے لیکن کبھی کسی نے یہ غور بھی کیا ہے کہ ایک غریب ملک نے اپنی اوقات سے بڑھ کراگر ایٹم بم بنایا ہے تو بقول چوہدری شجاعت کیا ہم نے ایٹم بم شب برات پر پھوڑنے کے لیے بنایا ہے، ہرگز نہیں یہ ہمارے خطے میں طاقت کے توازن کی ضمانت ہے، کیا کبھی کسی پاکستانی حکمران نے یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ اگر ہم ایٹمی طاقت نہ ہوں تو پھر ہمارا دشمن ہمسایہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن و آشتی ہو لیکن اس امن کے لیے دونوں ملکوں کو اور خاص طور پر بھارت کو یہ حقیقت ماننی پڑے گی کہ پاکستان کا وجود ہی اس کی بقاء کی علامت ہے ۔
ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کا تصور واقعی پاگل پن کی بات ہے، جاپان کے شہرہیروشیما اور ناگا ساکی اس بے رحم تباہی کی مثال ہیں، صدیاں گزر جاتی ہیں لیکن اس تباہ کن ہتھیار کے اثرات ختم نہیں ہوتے ۔ مجھے ایک دفعہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا تھا کہ پاکستان کی ساخت ایسی ہے کہ ہم ایک پٹی کی صورت میں طویل ملک ہیں اگر ہم پر ایٹمی حملہ ہوتا ہے تو حملہ آور کا اپنا نقصان ہم سے زیادہ ہوگا لیکن اگر ہم اپنے دشمن پر حملہ کریں گے تو اس کے شہر ہم سے اتنے دور ہیں کہ اس تباہ کن ہتھیار کے اثرات واپس ہم تک نہیں پہنچیں گے اور صرف پندرہ منٹ میں ہم دشمن کو ملبے کا ڈھیر بنا دیں گے جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔
بہر حال پاکستانی وزیر اعظم کا امن کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ بھارت نے ایک بار پھر جھٹک دیا ہے اور روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن مذاکرات کے علاوہ سارک کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا ہے ۔ بھارتی ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے ہمیں اب اس بات کی سمجھ آجانی چاہیے کہ ہم اس خطے میں امن کے لیے جتنی بھی کوششیں کر لیں وہ سب ناکام ہوجائیں گی کیونکہ بھارتی حکمران کسی اور ہی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں البتہ اس نئی راہداری کا فائدہ ہمارے سکھ دوستوں کو ضرور ہو گا جو اس سے پہلے ایک طویل سفر کر کے اپنے مقدس مقام تک پہنچتے تھے اب وہ صبح شام کرتار پور میں اپنی مذہبی رسومات اور عبادات کر سکیں گے۔
دنیا بھر میں بسنے والے سکھوں نے پاکستان کے اس فیصلے کو سراہا ہے مگر بھارت شائد یہ سمجھ رہا ہے کہ پاکستان اس معاملے میں بھی سیاست کر رہا ہے یہ بھارت کی غلط فہمی ہے پاکستان نے نیک نیتی سے کرتار پور بارڈر کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کو بھارتی حکومت نے پہلے تو خوش آئند قرار دیا مگر یکایک اس کو دہشت گردی کی یاد آگئی اور یہ کہنا کہ امن اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے اس کا جواب پاکستانی حکومت کو بھی دینا چاہیے کہ بلوچستان اور حالیہ دنوں میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گردی کی کاروائیوں کے پیچھے کون ہے اب وقت آگیا ہے کہ امن کے راستے کھولنے کے ساتھ ساتھ دشمن بھارت کویہ بھی برملا باور کرانا چاہیے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی تمام تر کڑیاں بھارت سے ہی ملتی ہیں، دیکھتے ہیں ہماری نئی نڈر حکومت اس بات کا اظہار کب اور کیسے کرتی ہے۔ محرابوں والے ماتھوں پر محراب ہی سجتی ہے بندیا نہیں۔