نبی آخرالزماںؐ کی حیات طیبہ دوسرا حصہ

نبوت کی تمہید سچے اور اچھے خوابوں سے ہوئی۔ یہ تمہید نزول وحی سے چھ مہینے قبل شروع ہوچکی تھی

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

پہلا حصہ پڑھنے کیلیے یہاں کلک کریں: https://www.express.pk/story/1435385/268/

سیلابوں کی وجہ سے کعبے کی عمارت منہدم ہونے کو تھی ۔ اس کی بنیادوں اور دیواروں میں ضعف آگیا تھا۔ اس لیے قریش نے کعبہ کو ازسرنو تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ قبیلہ قریش کے ہر خاندان نے کعبہ کی تعمیر نو میں حصہ لیا۔

مختلف خاندانوں نے کعبے کے مختلف حصے آپس میں بانٹ لیے، لیکن حجر اسود کی تنصیب کے شرف نے نازک صورتحال پیدا کردی۔ لڑائی کے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی، آخر کار قبیلہ قریش کے سب سے معمر شخص ابو امیہ بن مغیرہ کی اس تجویز سے سب نے اتفاق کیا کہ کلب سے پہلے جو شخص خانہ کعبہ میں داخل ہو اس کا فیصلہ حتمی ہوگا اور سب کو قابل قبول ہوگا۔ خدا کی قدرت دیکھوکہ سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہونے والے آپؐ تھے۔

معتبر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آغاز رسالت سے تقریباً سات سال پہلے آپؐ کو ایک بے آواز نور اور روشنی نظر آنے لگی تھی جس سے آپؐ کے دل کو سکون، خوشی اور اطمینان ملتا تھا۔ ہر سال ایک ماہ کے لیے آپؐ نے اعتکاف اور خود ساختہ طریقہ عبادت یعنی تحنث اور تعبد کے لیے غار حرا کو اپنی اقامت گاہ بنالیا تھا۔ کیا معلوم تھا کہ یہی مقام مستقبل قریب میں وحی کی انتظار گاہ ثابت ہوگا ۔

نبوت کی تمہید سچے اور اچھے خوابوں سے ہوئی۔ یہ تمہید نزول وحی سے چھ مہینے قبل شروع ہوچکی تھی۔ جوکچھ آپؐ خواب میں دیکھتے بعینہ حالت بیداری میں پاتے۔ ایک روز حسب معمول آپؐ غار حرا میں تحنث یعنی عبادت کی محنت میں مصروف تھے اچانک آپؐ پر وحی کا نزول ہوا۔ ماہ رمضان کی شب قدر تھی۔

عالم بالا سے آنے والا فرشتے ، جبریلؑ امین نے آپؐ کو نبوت کی بشارت دی ۔ نبوت کے منصب پر مامورکیا جانے والا پروانۂ تقرری، سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیات پر مشتمل تھا۔ یہ قرآن مجید کی سب سے پہلی آیات ہیں جو آپؐ پر نازل ہوئیں۔ جس وقت آپؐ کے منصب نبوت پر سرفرازی کی رسم تاجپوشی جبریلؑ امین کے ہاتھوں بحکم خداوندی ادا کی گئی اس وقت آپؐ کی عمر مبارک 40 سال اور چھ مہینے تھی۔

پہلی وحی کے بعد پہلا فرض جو مقررکیا گیا نماز تھا۔ جبریلؑ امین نے آپؐ کو وضوکا طریقہ سکھایا اور آپؐ نے جبریل امین کی امامت میں دو رکعت نماز چار سجدوں کے ساتھ ادا کی۔ابتدائی تین سال تک آپؐ نے خفیہ طریقے سے تبلیغ کا کام جاری رکھا۔ عام لوگوں سے اپنی نبوت کا تعارف صیغہ راز میں رکھا۔ صرف ان لوگوں کو تعارف اسلام کے لیے منتخب کیا جو دل کی نگاہ رکھتے تھے، حق کی تلاش میں تھے، صحیح العقل اور سلیم الفطرت تھے۔ جوہر قابل کے ساتھ ساتھ قابل اعتماد بھی تھے۔ اس طرح یہ روشنی کا سفر اندر ہی اندر جاری رہا ۔ تقریباً ڈھائی سال تک دشمنوں کی نظروں پر پردہ غفلت پڑا رہا۔


ایک روز اسلام کی شمعیں ایک گھاٹی میں روشن تھیں اور رب کعبہ کے حضور قیام و سجود ادا کر رہی تھیں کہ دشمن کی نگاہوں نے انھیں دیکھ لیا۔ ابتدائی تین سال میں 133 افراد اسلام کی روشنی سے منور ہوئے۔ مشرف بہ اسلام ہونے والے لوگوں میں قریش کے بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد 118 تھی۔ موالی، غلاموں اور لونڈیوں کی تعداد 9 تھی اور غیر قریش کی تعداد2 تھی۔133 جوہر قابل اور قابل اعتماد کارکن جب پیدا ہوگئے تو حکم الٰہی کے زیر ہدایت آپؐ نے علی الاعلان دعوت عام کا آغاز کیا۔

اسلام کے اولین اظہار کے لیے سب سے پہلے خود آپؐ نے اپنی ذات کا انتخاب کیا۔ حرم میں جاکر نماز پڑھی۔ یہ منظرکفار کی رگ جاہلیت سے دیکھا نہ گیا۔ کفر کی صفوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور وہ آپؐ پر ٹوٹ پڑنے کو تیار ہوئے ہی چاہتے تھے کہ حضرت حارثؓ بن ابی ہالہ شمع رسالت کی حفاظت کے لیے پروانے کی طرح دوڑے ہر طرف سے ان پر تلواریں بے نیام ہوگئیں۔ یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے والے پہلے صحابی تھے جنھوں نے تحفہ نقد جاں رب کعبہ کے حضور پیش کیا۔

دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ اپنے قریب ترین خاندان والوں کو مدعو کیا اور انھیں دعوت اسلام دی جن میں بنی عبدالمطلب، بنی ہاشم، بنی المطلب اور بنی عبد مناف کے لوگ شامل تھے۔ اس موقعے پر آپ کے حقیقی چچا ابو طالب نے آپؐ کی بھرپور اخلاقی مدد کا یقین دلایا۔

اس کے بعد آپؐ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کے تمام خاندانوں کو دعوت اسلام دی۔ اس طرح اپنے تمام رشتے داروں سے اسلام کا تعارف کرادیا اور آپؐ کی نبوت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی۔

تقریباً دو سال تک آپؐ کی نبوت کی مخالفت کا سلسلہ زور و شور کے ساتھ جاری رہا۔ آپؐ کو شاعر، کاہن، مجنوں اور جادوگرکہا گیا۔ شمع الٰہی کو بجھانے کے لیے مختلف جتن کیے۔ مخالفت کی تند وتیز آندھیاں اور طوفان اٹھے لیکن آپؐ صبر و استقامت کا پہاڑ بنے رہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر قریش نے آپؐ سے مصالحتی کوششیں تیزکردیں اور اس سلسلے میں اپنے کئی وفود بھیجے اور آبائی دین کی مخالفت سے آپؐ کا منہ بند کرنے کے لیے عورت ، دولت اور حکومت کی پیش کش کی۔ بااثر امرا اور رؤسائے قریش کا ابو طالب پر دباؤ ڈالا، لیکن جب دھن، دھونس اور دھمکی سے مصالحت کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ ہر دوا بے اثر رہی توکھسیانی بلی کھمبا نوچے کی مثل قریش ذلیل اور چھچھوری حرکات پر اتر آئے۔

آپؐ کا دل توڑنے اور تنگ کرنے کا سامان کیا تاکہ آپؐ کی کمر ہمت ٹوٹ جائے لیکن روح فرسا مظالم توڑے جانے کے باوجود ایک بھی قریش کو ایسا نہیں ملا جو اللہ کی رسی چھوڑنے اور رسالتؐ سے اپنا رشتہ توڑنے کو تیار ہوجائے۔ ہر ایک عشق حقیقی میں گھل گھل کر مرنے میں، آگ کے انگاروں پر لیٹنے میں، ریت کے تپتے بستر پر سونے میں اور سولی پر چڑھنے میں لذت درد کا سامان کرتا رہا۔ چرخ کفر سے برستے ہوئے شعلوں میں مسلمان اف ، آہ ، شکوہ اور شکایت کے بغیر جہاد بالصبر کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ لیکن نظر رسالت سے ان کی تکالیف اور مصائب کو دیکھا نہ گیا ۔ شمع رسالت نے اپنے پروانوں کو کہا ''یہ بہتر ہے کہ تم لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کر جاؤ وہاں کا نجاشی بڑا رحم دل ہے کسی پر ظلم گوارا نہیں کرتا اور وہ برکت و رحمت کی جگہ ہے۔ مصیبت کے پیش نظر تم لوگ وہاں ہجرت کرجاؤ۔''

اس ہدایت رسالت کی روشنی میں پہلی ہجرت رجب 5 نبوی کو عمل میں آئی جس میں 11 مرد اور چار عورتوں کے ایک قافلہ مختصر نے دین کی خاطر ترک وطن کیا اور ہجرت کی راہ اختیار کی۔ وقتاً فوقتاً موقع پاکر چھپ چھپا کر مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی تعداد وہاں 83 تک پہنچ گئی۔ جب کفر کی زمین مسلمانوں کے لیے تنگ ہوگئی۔ زندگی دوبھر ہوگئی تو رسالتؐ نے دوبارہ ہدایت مرحمت فرمائی۔ چنانچہ سن چھ نبوی کو دوسری ہجرت حبشہ شروع ہوئی۔ بڑے دلنشیں انداز میں پیغمبر اسلام اور دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے نجاشی کو متعارف کرایا۔ بعدہ نجاشی کی فرمائش پر سورۂ مریم کے ابتدائی حصے کی تلاوت کی۔ کلام پاک کا اثر نجاشی کے دل میں اتر گیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بندھ گئی۔

کفار کی ہر تدبیر اسلام کی روشنی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ناکام رہی۔کفرکی مخالفت اسلام کی وجہ شہرت بنتی جا رہی تھی۔ اسلام کی برتری اور صداقت کا سکہ لوگوں کے دلوں پر جمتا جا رہا تھا۔ گو اخلاقی جرأت اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اظہار خیال سے گھبراتے تھے۔ خدا کی قدرت نے ایسے حالات پیدا کردیے کہ حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ جیسے بہادر اور جری لوگوں نے دل کی بات زبان پر لے آئے اور6 نبوی میں یکے بعد دیگرے مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ اب توکفارکے غیظ و غضب اور پیچ وتاب کی انتہا ہوگئی، تاہم رسول اکرمؐ ان کٹھن حالات میں بھی علی الاعلان اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔(جاری ہے)
Load Next Story