پاک بھارت دوستی
پاکستان میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے بہت بڑے مضمرات ہیں جس سے پورے خطے کو فائدہ ہوسکتاہے۔
حال ہی میں کرتار پور کوریڈور بننے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی سطح پر بہت مثبت پیش رفت ہوئی ہے ۔سوال پیدا ہوتاہے کہ اتنی مثبت پیش رفت اب ہی کیوں ؟ تاریخ میں نگاہ ڈالیں تو محترمہ بے نطیر بھٹو نے راجیوگاندھی کے ساتھ سفارتی سطح پربہت پیش قدمی کی ۔لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھارت کے ساتھ حالات بہتر بنانے کی پاداش میں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ محترمہ پر سیکیورٹی رسک کا بھی الزام لگادیا گیا۔
دائیں بازو کی ہی جماعتیں جب حکومت میں آتی ہیں تو پھر اس قسم کے سفارتی معاملات پر تعلقات بہتر ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں ۔وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی حکمت عملی کے اوپر تنقید نسبتاََ کم ہوتی ہے ۔کیونکہ آخرکار وہی خود تنقید کرنے والے ہوتے ہیں۔مثال کے طورپر پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کو زیادہ قدامت پسند سمجھا جاتاتھا جب کہ پیپلز پارٹی کو پروگریسو کہا جاتاتھا۔لیکن جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی توپھر واجپائی صاحب پاکستان تشریف لائے اورپاک بھارت تعلقات بہت جلدی سے بہتری کی جانب گامزن ہوئے۔
اسی طرح دوسری جانب کانگریس کی نسبت بھارتی جنتا پارٹی کو پاکستان مخالف سمجھا جاتاتھا۔لیکن بھارتی جنتا پارٹی کاہی وزیراعظم واجپائی نے پاکستان یاترا کی اور تعلقات میں بہت بہتری لے کر آئے ۔جب کہ کانگریس کے زمانے میں اس حد تک کی بہتری نا ہوسکی ۔عمران خان صاحب کو مقتدر حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے بڑے اقدامات لینے میں موجودہ حکومت کامیاب ہوسکی ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت اپنے بدترین معاشی دور سے گزررہاہے ۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں اورموجودہ حکومت کی بھارت کی جانب سفارتی معاملات میں سفارتی سطح پر پالیسی میں تبدیلی سمجھ میں آنا شروع ہوجاتی ہے ۔پاکستان کو اس وقت تجارت کی ضرورت ہے ۔پاکستان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری اس وقت تباہی کے کنارے پر ہے اور پاکستان کے ڈیم نہ بنانے کی وجہ سے تیل سے مہنگی بجلی پیدا کررہاہے ۔ اس مہنگی بجلی سے مینوفیکچرنگ انڈسٹری ایسی پروڈکٹ پیدا نہیں کرسکتی جو بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کی مد میں مقابلہ کرسکیں ۔
پاکستان کی معاشی ترقی کا صرف ایک حل ٹریڈ اور سروس سیکٹر ہے جس میں سیاحت اور فنانشل سروسز وغیرہ شامل ہیں ۔تجارت کو کامیاب بنانے کے لیے علاقائی تجارت انتہائی اہم ہے ۔پاکستان کی دونوں سرحدوں پر اس وقت حالات کشیدہ ہیں ۔افغانستان کے ساتھ اور بھارت کے ساتھ تعلقات اپنی تاریخ کی بدترین سطح پر موجودہیں۔ایسی صورتحال کے اندر تجارت کا فروغ پانا محال ہے ۔شاید ان سب حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی لانے کا فیصلہ کیاہے ۔
بڑی تبدیلی کا ایک نمونہ کرتارپور کوریڈور کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔پاکستان میں تجارت اور بین الاقوامی سرمایہ کاری تبھی ہوسکتی ہے جب پاکستان کے اندر اپنے امن وامان کی صورتحال بہترہوجائے ۔ پاکستان کے امن وامان کو صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات اور ان ممالک کے اند رکے بھی امن وامان کی صورتحال کابہترہونا ضروری ہے ۔بالخصوص افغانستان کے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں تو بھارت اورپاکستان کی مشترکہ حکمت عملی کے نتیجے میں افغانستان میں امن قائم ہوسکتاہے ۔
اوراس امن قائم ہونے سے امریکا سمیت افغانستان حکومت اوریہاں تک کہ پورا خطہ ہی فائدہ اٹھا سکتاہے ۔ پاکستان میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے بہت بڑے مضمرات ہیں جس سے پورے خطے کو فائدہ ہوسکتاہے۔ افغانستان سے تاپی گیس پائپ لائن بھی گزر کر پاکستان آرہی ہے اور گیس پائپ لائن بھارت بھی جانی ہے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب بھارت اور افغانستان کے باہمی تعلقات بہتر ہوجائیں اور یہاں پر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے ۔
دائیں بازو کی ہی جماعتیں جب حکومت میں آتی ہیں تو پھر اس قسم کے سفارتی معاملات پر تعلقات بہتر ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں ۔وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی حکمت عملی کے اوپر تنقید نسبتاََ کم ہوتی ہے ۔کیونکہ آخرکار وہی خود تنقید کرنے والے ہوتے ہیں۔مثال کے طورپر پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کو زیادہ قدامت پسند سمجھا جاتاتھا جب کہ پیپلز پارٹی کو پروگریسو کہا جاتاتھا۔لیکن جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی توپھر واجپائی صاحب پاکستان تشریف لائے اورپاک بھارت تعلقات بہت جلدی سے بہتری کی جانب گامزن ہوئے۔
اسی طرح دوسری جانب کانگریس کی نسبت بھارتی جنتا پارٹی کو پاکستان مخالف سمجھا جاتاتھا۔لیکن بھارتی جنتا پارٹی کاہی وزیراعظم واجپائی نے پاکستان یاترا کی اور تعلقات میں بہت بہتری لے کر آئے ۔جب کہ کانگریس کے زمانے میں اس حد تک کی بہتری نا ہوسکی ۔عمران خان صاحب کو مقتدر حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے بڑے اقدامات لینے میں موجودہ حکومت کامیاب ہوسکی ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت اپنے بدترین معاشی دور سے گزررہاہے ۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں اورموجودہ حکومت کی بھارت کی جانب سفارتی معاملات میں سفارتی سطح پر پالیسی میں تبدیلی سمجھ میں آنا شروع ہوجاتی ہے ۔پاکستان کو اس وقت تجارت کی ضرورت ہے ۔پاکستان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری اس وقت تباہی کے کنارے پر ہے اور پاکستان کے ڈیم نہ بنانے کی وجہ سے تیل سے مہنگی بجلی پیدا کررہاہے ۔ اس مہنگی بجلی سے مینوفیکچرنگ انڈسٹری ایسی پروڈکٹ پیدا نہیں کرسکتی جو بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کی مد میں مقابلہ کرسکیں ۔
پاکستان کی معاشی ترقی کا صرف ایک حل ٹریڈ اور سروس سیکٹر ہے جس میں سیاحت اور فنانشل سروسز وغیرہ شامل ہیں ۔تجارت کو کامیاب بنانے کے لیے علاقائی تجارت انتہائی اہم ہے ۔پاکستان کی دونوں سرحدوں پر اس وقت حالات کشیدہ ہیں ۔افغانستان کے ساتھ اور بھارت کے ساتھ تعلقات اپنی تاریخ کی بدترین سطح پر موجودہیں۔ایسی صورتحال کے اندر تجارت کا فروغ پانا محال ہے ۔شاید ان سب حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی لانے کا فیصلہ کیاہے ۔
بڑی تبدیلی کا ایک نمونہ کرتارپور کوریڈور کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔پاکستان میں تجارت اور بین الاقوامی سرمایہ کاری تبھی ہوسکتی ہے جب پاکستان کے اندر اپنے امن وامان کی صورتحال بہترہوجائے ۔ پاکستان کے امن وامان کو صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات اور ان ممالک کے اند رکے بھی امن وامان کی صورتحال کابہترہونا ضروری ہے ۔بالخصوص افغانستان کے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں تو بھارت اورپاکستان کی مشترکہ حکمت عملی کے نتیجے میں افغانستان میں امن قائم ہوسکتاہے ۔
اوراس امن قائم ہونے سے امریکا سمیت افغانستان حکومت اوریہاں تک کہ پورا خطہ ہی فائدہ اٹھا سکتاہے ۔ پاکستان میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے بہت بڑے مضمرات ہیں جس سے پورے خطے کو فائدہ ہوسکتاہے۔ افغانستان سے تاپی گیس پائپ لائن بھی گزر کر پاکستان آرہی ہے اور گیس پائپ لائن بھارت بھی جانی ہے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب بھارت اور افغانستان کے باہمی تعلقات بہتر ہوجائیں اور یہاں پر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے ۔