بھولنا بھی ایک نعمت ہے
ہمیں اس بات کی کوشش اور دعاکرنا چاہیے کہ ہمیں فقط وہ یاد رہے کہ جس کا یاد رہنا اور رکھنا ضروری ہے۔
WASHINGTON DC:
آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے نا کہ آپ کسی کمرے میں کچھ لینے کے لیے جاتے ہیں، وہاں جا کر بتی جلاتے ہیں اور پھر خالی دماغ کے ساتھ کھڑے ہو کر سوچتے ہیں کہ میں اس کمرے میں کیوں آیا۔ واپس اپنے اسی مقام پر آتے ہیں جہاں سے گئے تھے تا کہ دماغ میں بھولی ہوئی چیز آ جائے... ہم سب کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔
آپ اپنے کسی بچے یا کسی ملازم کو پکارتے ہیں، جب وہ آپ کی پکار پر آپ کے پاس پہنچتا ہے تو آپ اسے خالی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ سوچنے لگتے ہیں کہ اسے کس کام سے بلایا تھا، ذہن پر زور دے کر بھی یاد نہیں آتا تو معذرت کر لیتے ہیں اور جونہی وہ منظر سے غائب ہوتے ہیں تو ہمیں یاد آ جاتا ہے۔
کبھی ہم کسی بہت برے خواب سے جاگتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ صبح اٹھ کر کسی سے پوچھنا ہے کہ اس خواب کا کیا مطلب ہے مگر ہوتا یہ ہے صبح اٹھتے ہیں تو حافظے کی پلیٹ سے وہ خواب اس طرح غائب ہوتا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا اور لاکھ کوشش پر بھی اس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا ۔ میں تو سوچتی ہوں کہ شاید ایسا عمر کے ساتھ ساتھ سب کے ساتھ ہوتا ہے مگر اپنے ارد گرد چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا دیکھ کر لگتا ہے کہ ایسا ہونے کے لیے عمر کی کوئی قید ہے نہ حد۔ یاد رکھنا اور بھول جانا ، انسانی دماغ کے ایسے دو افعال ہیں جن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔
کبھی کوئی پرانی یادیں سال ہا سال تک ایک ایک جز کی تفصیل کے ساتھ یاد رہتی ہے اور کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ کالج میں میری بہترین دوست کا کیا نام تھا ۔ کبھی کسی کا برا برتاؤعمر بھر سائے کی طرح ہمارا ساتھی بن جاتا ہے اور لاکھ بھلانے پر بھی نہیں بھولتاتو کبھی ہم کسی کے چھوٹے سے احسان کے باعث ہمیشہ اس کے ممنون اور اس احسان کے زیر بارمحسوس کرتے ہیں ۔ کوئی ہمارے کیے گئے بڑے سے بڑے احسان کو بھلا کر ہمیں موقع پا کر نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتا اور ہم کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کتنا احسان فراموش شخص ہے ، اتنی جلدی ہماری نیکی بھول گیا۔
تنہا بیٹھے ہوں تو کسی کی کہی ہوئی بات کی یاد ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے تو کبھی یاد آ جانے والا کوئی لطیفہ ہلکی سی ہنسی بکھیر کر مزاج کو خوشگوار کر دیتا ہے۔ کسی کا لمس اس کے یاد آنے پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی اسے چھوا ہو تو کبھی کسی کی خوشبو نتھنوں کو معطر کر دیتی ہے۔ کسی بچھڑنے والے کی یاد دل میں چٹکی لیتی ہے تو کسی چلے جانے والے کی یاد آنکھوں کو لبریز کر دیتی ہے۔ کسی اچھے پکوان کو یاد کر کے منہ میں پانی آ جاتا ہے تو کسی دواکا کسیلا ذائقہ یاد آنے پر منہ کڑوا ہو جاتا ہے۔ یہ سب ہمارے دماغ کی کارروائی ہے کہ وہ یادداشت اور بھول جانے کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے۔ کبھی یاد اچھی لگتی ہے اور کبھی بھولنا جان کوفت میں مبتلا کر دیتا ہے، یہ عمل یوں بھی ہوتا ہے کہ کبھی یاد بری لگتی ہے اور بھول جانا نعمت لگتا ہے۔
بھول جاناکسے اچھا لگتا ہے اگر ہم کوئی ضروری بات بھول جائیں اور یاد رکھنا کسے اچھا لگتا ہے اگر کوئی بری یاد عفریت کی طرح عمر بھر ہمارے حافظے سے چمٹ کر رہ جائے ۔ یاد رکھنا ایک نعمت ہے تو یقین کریں کہ بھولنا اس سے بھی بڑی نعمت ہے۔ یادیں اچھی اور بری بھی ہوتی ہیں اس لیے کسی بری یاد کا بھلانا مشکل ہو جاتا ہے اور ہمیں مختلف ذہنی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ اسی طرح کے حالات میں بھولنا نعمت ہے۔ جب انسان کسی بری یاد سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے تو وہ نہیں کر پاتا اور اس کے لیے نشے میں مبتلا ہو جاتا ہے یا نیند کی گولیوں کا سہارا لیتا ہے۔ آپ سے کوئی ایسی فاش غلطی ہوجائے جس سے کسی کی زندگی چلی جائے... کسی کی زندگی کا رخ منفی انداز میں تبدیل ہو جائے، کسی کا ناقابل تلافی نقصان ہو جائے تو آپ لاکھ بے ضمیر ہوں مگر اس کی کسک سے کبھی نجات نہیں پا سکتے اور دعا کرتے ہیں کہ کسی طرح آپ کو بھول جائے کہ کیا ہوا تھا مگر...
اچھی یادوں کو ہم اپنی پٹاری میں رکھنا چاہتے ہیں ، جو کچھ اچھا بھول چکا ہو اسے کرید کرید کر ذہن کے بند صندوقوں سے نکالتے ہیں ۔ خود نہ نکال سکیں تو کسی کی مدد لے لیتے ہیں، پوچھتے ہیں کہ فلاں موقعے پر کس نے کیا کہا تھا، کیا کیا تھا!! بری یادوں پر جتنی بھی مٹی ڈالیں ، یادوں کے تخم ان کے بوجھ میں سے پھر ننھی کونپلوں کی طرح سر نکال لیتے ہیں اور جلد ہی پودا بننا شروع ہو جاتا ہے ۔
سب سے اہم ہے کہ ہم دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا، انھیں نظر انداز کرنا سیکھیں۔ کسی سے ایسی غلطی ہوئی ہو جس پر اسے پچھتاوا ہو اور وہ اس کا کفارہ بھی ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، آپ سے معافی کا خواست گار ہو، آیندہ کے لیے خود کو درست کرنے کا عہد بھی کرے توہم پر لازم ہے کہ ہم وہ سب کچھ بھول جائیں ۔ مگر یہ سب کچھ بھولنا جتنا اہم ہے اتنا ہی زیادہ مشکل ہے۔
اسٹیج کے کسی مزاحیہ فنکار نے اپنے سامعین کو ایک لطیفہ سنایا تو لوگ بے ساختہ اور دیر تک ہنستے رہے۔ اس نے چند منٹوں کے بعد اور باتوں کے درمیان دوبارہ وہی لطیفہ سنایا... اس بار چند لوگ ہنسے مگر بالکل تھوڑا سا۔ اس نے چند اور لطیفے سنائے اور سب سے پہلا سنایا جانے والا لطیفہ تیسری بار سنایا، اس بار کوئی بھی نہ ہنسا۔ اس نے سوال کیا کہ وہ لوگ کیوں نہیں ہنسے۔ سامعین نے کہا، ایک ہی لطیفے پر کوئی کتنی بار ہنس سکتا ہے۔ اس نے مسکرا کر کہا، ہم ایک غم پر تو عمر بھر روتے رہتے ہیں، ایک لطیفے پر بار بار کیوں نہیں ہنس سکتے ۔
ہمارے کسی پیار ے کی وفات ہو جائے تو فوری طور پر لگتا ہے کہ دنیا ختم ہو گئی ہے، ہم اس کے بغیر کیسے جئیں گے۔ آنکھیں تو اشک بہاتی ہی ہیں مگر حلق بھی بند ہو جاتا ہے کہ پانی کا گھونٹ تک حلق سے نہیں اترتا۔ لگتا ہے اس کے بعد نہ پانی ہمارے حلق سے اترے گا نہ کھانا۔ ایک دن گزرتا ہے تو ہم کھا بھی لیتے ہیں کہ زندہ انسانوں کے جسمانی تقاضے بہر حال زندہ ہوتے ہیں ۔ چند دن کے بعد ہمارا دماغ ان کی یاد کو ذہن کے ایک اسٹور میں جمع کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم بار بار اس اسٹور کا دروازہ کھلا ہوا دیکھتے ہیں، جب بھی کوئی پرسہ کرتا ہے یا ان کے بارے میں کوئی بات کرتا ہے۔ چند ماہ کے بعد، زندگی میں آنے والی کوئی خوشی اس غم کو مدہم کرتی ہے، کسی کی امتحان میںکامیابی، کسی کی منگنی، کسی کی شادی، کسی بچے کی پیدائش، کسی کی ترقی ... اس یاد کے اسٹورکے دروازے کے سامنے خوشی ، سامان کی صورت بند باندھتی رہتی ہے ۔
پھر وقت آتا ہے کہ اس پیارے کی یاد کا تعلق مخصوص یادوں سے منسلک ہو جاتا ہے، وہ ہمیں عیدوں پر یاد آتے ہیں، سالگرہ پر یہ ہوتا تھا۔ فلاں کی شادی پر انھوں نے ایسا کہا تھا اور فلاں موقع پر یہ ہوا تھا۔ اس ڈر سے کہ کوئی ہمیں یہ نہ کہے کہ ہم انھیں بھول گئے ہیں، ان کی وفات سے منسلک یادوں کی پرورش کرتے ہیں، ہم بار بار انھیں بہانے بہانے سے یاد کرتے ہیں اور روتے ہیں کہ ان کا غم تازہ رہے۔
ہم جانے والے کے بارے میں جانتے ہیں کہ اسے کبھی لوٹ کر نہیں آنا تو اس کے بارے میں اچھی یادوں کا ذخیرہ رکھیں ، موت کیسے ہوئی، میت کے ساتھ کیا ہوا، جنازے پر کون نہیں آیا، کس نے پرسہ نہیں دیا... ان سب کو بھول جائیں۔ کسی کے ساتھ ظلم ہو، کسی پر تیزاب پھینک دیا جائے، کسی پر کتے چھوڑدئیے جائیں اور اس کی زندگی کو جانوروں سے بد تر بنا دیا جائے، کسی کا بچہ یاکوئی رشتہ دار اغواء ہو جائے اور کبھی لوٹ کر نہ آئے... کسی بچی یا بچے کے ساتھ زیادتی ہو تو اس کے لیے اس کی یاد جونک بن کر چمٹ جاتی ہے اور یہ سب وہ یادیں ہیں جو آپ کی اچھی خاصی زندگی میں ماسوائے تلخیوں کے کچھ نہیں چھوڑتیں اور آپ کی اپنی شخصیت ہی مسخ ہوتی ہے۔
ہمیں اس بات کی کوشش اور دعاکرنا چاہیے کہ ہمیں فقط وہ یاد رہے کہ جس کا یاد رہنا اور رکھنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنے حقوق و فرائض یاد رہیں، اچھے اور برے کے بیچ میں تمیز یاد رہے، گناہ اور ثواب یاد رہے، روز قیامت کی جواب دہی یاد رہے، دوست اور دشمن کی تفریق یاد رہے، ایمان کی سلامتی اور ملک و قوم سے مربوط اپنے فرائض یاد رہیں اور بھول جائیں ہمیں و ہ سب باتیں جو ہمارے لیے بھول جانا ہی بہتر ہے۔
جب بھی کبھی میں خود سے سوال کرتی ہوں کہ ان دونوں میں سے کون سی نعمت بڑی ہے تو جواب مشکل لگتا ہے مگر پھر اعشاریہ کی تفریق سے میں اس بات پر مطمین ہوتی ہوں کہ بھولنا زیادہ بڑی نعمت ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟؟