یادگار ہوائی سفر

میرا پہلا ہوائی سفر جو افسوس ناک نتیجے کا حامل ٹھہرا سرکاری خرچ پر تھا۔

h.sethi@hotmail.com

سن 1969ء میں راولپنڈی میں تعیناتی کے دوران صبح عدالت پہنچا تو ڈپٹی کمشنر نے بلا کر مجھے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کا ٹکٹ اور ایک سیل بند لفافہ دے کر حکم دیا کہ ابھی ایئرپورٹ پہنچ کر دس بجے والی فلائٹ سے لاہور پہنچو، وہاں تمہیں لینے کے لیے سرکاری ڈرائیور آیا ہوگا جو تمہیں چیف سیکریٹری پنجاب کے دفتر لے جائے گا۔ یہ خط چیف سیکریٹری کو دینا وہ تمہیں ایک سیل بند پیکٹ دیں گے وہی ڈرائیور تمہیں واپس ایئرپورٹ لے جائیگا، تم اگلی فلائٹ سے واپس راولپنڈی آکر وہ پیکٹ میرے سپرد کر دینا اس کے بعد تم فارغ ہو۔

وہ میرا پہلا ہوائی سفر تھا۔ اس وقت جنرل یحییٰ خاں بیمار فیلڈ مارشل ایوب خاں کو فارغ کر کے اقتدار پر قابض ہو چکے تھے کچھ روز بعد میرے پہلے ڈپٹی کمشنر محمد اشرف اور پہلے کمشنر ایم ایچ شاہ سمیت 303 افسروں کو جنرل یحییٰ کے حکم پر کرپشن الزامات کی بنیاد پر نوکری سے برطرف کردینے کی خبر اخبارات کے صفحہ اول پر شائع ہوئی تو مجھے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ میاں جو سیل بند پیکٹ تم چیف سیکریٹری پنجاب سے لے کر آئے تھے وہ ان متعدد افسروں کا ریکارڈ تھا جن کو صدر جنرل یحییٰ خاں نے ملازمت سے نکالنے کے لیے چن رکھا تھا۔ یعنی میرے پہلے ہوائی سفر کے ساتھ میرے پہلے ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کی برخاستگی کا حکم بھی شامل تھا۔

میرا پہلا ہوائی سفر جو افسوس ناک نتیجے کا حامل ٹھہرا سرکاری خرچ پر تھا جس سے مجھے سابق وزرائے اعظم کے بے شمار بیرون ممالک کے دورے یاد آئے اکثر دوروں میں مسافروں کی تعداد سیکڑوں میں ہوتی تھی ان میں دورے سے متعلق ماہرین اور مدد گار بمشکل ایک درجن جب کہ باقی تمام سیر سپاٹے والے مصاحبین اور سفارشی ہوتے تھے جو سرکاری خرچ پر قیام و طعام، پکنک اور سیرو تفریخ کے مزے لیتے۔ یہ ایک دو غیر ملکی دوروں کا نہیں مستقل تماشہ تھا۔

جن 303 افسروں کو یحییٰ خاں نے ملازمتوں سے فارغ کیا ان کا قصور تو میرے علم میں نہیں لیکن اپنے کمشنر کے بچے کی شادی پر کمشنر ہائوس کی سجاوٹ اور روشنیوں کی چکا چوند یاد ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ کوئی مہمان خالی ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ متعدد مہمان تحفہ کار کی ڈکی میں یا ہمراہ لائی جانے والی ویگن پر لائے تھے۔ موصوف کے سرکاری مکان پر منعقد ہونے والی اس شاہانہ شادی اور قیمتی تحائف کے انبار کا چرچا دور دور تک پھیل گیا تھا جو ان پر آئی مصیبت کا ایک بنیادی سبب بنا جب کہ میجر اشرف کا ایوب خان سے قرب ان کے خلاف گیا کیونکہ جنرل یحییٰ خاں نے ایوب خاں سے اقتدار کسی اصول کی بنیاد پر نہیں زبردستی چھینا تھا۔ اس بارے میرا ذریعۂ علم شوکت ایوب تھا جس سے دوستی کی وجہ سے میں ریحانہ گائوں ایوب خاں کی نماز جنازہ پر بھی گیا جب کہ شوکت ایوب میری شادی میں بھر پور طریقے سے شامل رہا تھا۔


اپنے PIA سے پہلے ہوائی سفر کی وجہ سے میں اس شاندار ایئرلائن کو جس کا ایک سینئر پائیلٹ اور دو فلائٹ انجینئر میرے قریبی عزیز رہے کبھی نہیں بھلا سکتا۔کیونکہ ان ہی کے دور ملازمت میں PIA نے کئی غیر ملکی ایئرلائنز کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ ایئرلائنز ہیں جنھوں نے بڑا نام پیدا کیا جب کہ ہماری ایئرلائن جس کا ماٹو کبھی ''باکمال لوگ لاجواب پرواز'' تھا اب اس حالت کو پہنچ گئی ہے کہ اس کے ہوائی جہاز کبھی رن وے سے اتر جاتے ہیں تو کبھی مرمت کے بعد ہینگر سے باہر نکلتے ہوئے دوسرے جہاز سے جا ٹکراتے ہیں، کبھی کسی ملک کے ہوائی اڈے پر جرمانے بھرتے جب کہ اس کی خراب کارکردگی اور Over Staffing اس کے مسلسل خسارے کا سبب بن گئی ہے۔

یحییٰ خان نے اقتدار میں آتے ہی ان بیورو کریٹوں کو چن چن کر ملازمت سے سبکدوش کیا تھا جس کے بارے میں ایوب خاں سے قرب کی رپورٹ تھی۔ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی میجر اشرف ان میں اسی لیے شامل کیے گئے اس کا ایک ثبوت تو سیکڑوں لوگوں نے چکلالہ ایئرپورٹ پر دیکھا کہ ایک بار جنرل ایوب بیرون ملکی دورے سے آ کر جہاز سے باہر نکلے تو انھوں نے قطار میں کھڑے ان کو خوش آمدید کہنے والے VIP حضرات کو نظر انداز کر کے کچھ فاصلے پر کھڑے ڈپٹی کمشنر کو سیڑھیاں اترتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کر کے پاس بلا لیا اور اسے لے کر جہاز کے دوسری طرف لے جا کر کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے پھر ریڈ کارپٹ پر کھڑے لوگوں کی طرف سے مصافحہ کرنے کے لیے متوجہ ہوئے یہ تمام منظر ڈیوٹی پر موجود میں نے بھی کچھ حیرت سے دیکھا۔

گجرات میں تعیناتی ہوئی تو چند روز کے بعد ایک ریٹائرڈ ایئرفورس افسر ملاقات کے لیے آئے اور کسی روز رات کے کھانے کی دعوت دی، رخصت ہوتے وقت انھوں نے کہا کہ یہ ڈنر کی دعوت جنرل رانی کی طرف سے ہے اور وہ ان کی کنفرمیشن کے لیے دو روز کے بعد دوبارہ آئیں گے۔ وہ صاحب رخصت ہو گئے تو میں حیرت اور پریشانی میں مبتلا ہو گیا کہ یہ رانی نام کی جنرل کون ہے۔ ایک مقامی معتبر شخص سے دریافت کیا تو وہ ہنسا اور بتایا کہ ایک رانی نامی خاتون پولیس افسر کی بیگم اور جنرل یحییٰ صدر پاکستان کی معتمد خاص ہے اور جنرل رانی کے نام سے مشہور ہے۔

میری وہ پوسٹنگ بطور سٹی مجسٹریٹ تھی لہٰذا احتیاط لازمی تھی میں نے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ کچھ عرصہ قبل جنرل رانی کے ہاں پارٹی پر مدعو ایک افسر سے کچھ بے تکلفی سرزد ہو گئی تھی جس کی پاداش میں اسے تھپڑ کھانے پڑے تھے۔ میرے لیے اتنا ہی کافی تھا لہٰذا میں نے ڈنر پر جانے سے معذرت کر لی۔ کچھ عرصہ کے بعد لاہور کے فورٹریس اسٹیڈیم میں سالانہ ہارس اینڈ کیٹل شو پر جانا ہوا تو میرے ساتھی نے VIP Enclosure میں بیٹھی ایک فیملی کی طرف میری توجہ مبذول کروا کر بتایا کہ اس گروپ کے مرکز میں جنرل رانی بیٹھی ہیں۔
Load Next Story