آگ کرسچن ہے یا مسلمان
بوسنیا میں انسانوں پر جوکچھ گزری ، وہ نام نہاد انسانوں کی ہی کارگزاری تھی ۔
بوسنیا کا ذکر ان لوگوں پر آسیب کی طرح سوار ہو جاتا ہے جنھوں نے اس کے بارے میں کچھ جان لیا ہو، میں ان میں سے ایک ہوں۔ شاید اسی لیے وہاں سے متعلق کتابوں کی تلاش میں رہتی ہوں۔ ایک ایسی ہی کتاب ''خونی ہمسائے'' ہے جو ایک امریکی نژاد یہودی پیٹرماس نے لکھی اور میرے لیے راجا عاطف حیات گوتم لے کر آیا۔ ان دنوں اس کی بہن صائمہ حیات اٹلی میں ہے اور بوسنیا کا ایک پھیرا لگا کر آئی ہے۔
پیٹرماس اس محصور اور مجبور شہر میں دو برس رہا اور وہاں سے اپنے مکتوب بھیجتا رہا۔اس کے یہی ڈسپیچ کتابی شکل میں شائع ہوئے تو لوگوں کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ خود ان تمام اذیتوں سے گزر رہے ہیں جن سے بوسنیا کے رہنے والے دوچار ہوئے۔ پیٹر مغربی مدبروں سے بہت ناراض ہے۔ وہ ان کی منافقت پر دانت پیستا ہے۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو وہ بہ طور خاص اپنے طنزیہ اور تیزابی جملوں کا نشانہ بناتا ہے۔
پیٹرماس کی یہ کتاب ثقلین شوکت نے ترجمہ کی اور سہیل گوویندی نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ رچرڈ برنسٹن نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے مضمون کا نام ''بھیڑیوں کیمانند شکار کرتے ہوئے دو پایہ حیوان'' رکھا تھا۔ یہ کتاب ان ہی دو پایہ حیوانوں کے بارے میں ہے۔
پیٹرماس نے عجب دل آویز انداز میں '' فرہاد پاشا مسجد'' کا ذکرکیا ہے۔ اس مسجد کی بات وہ یوں کرتا ہے کہ :
'' یہ جگہ'' فرہاد پاشا مسجد تھی ، عثمانی سلطنت کے ابتدائی دور میں اسے سفید پتھروں سے تعمیرکیا گیا ۔ ہوٹل بوسنیا سے مسجد کا پیدل راستہ آدھ میل تھا، مگر تاریخی فاصلہ تقریباً پانچ صدیوں کا تھا ۔ 1583ء میں تعمیر ہونے والی اس مسجدکا ڈیزائن بس مناسب ہی تھا ، شاید رقبے کے اعتبار سے یہ نوٹرے ڈیم کلیسا سے آدھی تھی، اسے عظمت وجلال کے مظاہرے کے لیے نہیں، بلکہ متاثرکرنے اور برداشت کرتے رہنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا ۔ یہ ایک آبشارکی سی وضع داری کے ساتھ بوڑھی ہوئی تھی جو اپنی جگہ پر قائم دائم تھی جب کہ اس کے اردگرد کا ماحول لوگوں اور فطرت کے ہاتھوں بدلتا رہا ۔ تاریخ کے رندے سے بچ نکلنے والوں کو زندہ رہنے کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں پڑتی، ابدیت فطرتاً ان میں درآتی ہے، فرہاد پاشا مسجد کا معاملہ بھی ایسا ہی لگتا تھا۔ اس کے لیے بھی اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم کی مرتب کردہ عالمی ورثے کی فہرست میں یقینی جگہ بنتی تھی۔ آپ اس طرح کی عمارت کا جادو حقیقتاً محسوس کرسکتے ہیں، جب آپ اس کے کسی قدیم پتھر پر اپنا ہاتھ رکھتے ہیں۔ کیا کیا کچھ نہیں بیت گیا جب سے ، چار صدیاں قبل ، چیتھڑوں میں ملبوس کسی مزدور نے اسے اس جگہ پر جمایا تھا ؟ تحریک اصلاح ، تحریک احیائے علوم ، ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بنیاد ، نپولین، صنعتی انقلاب ، دو عظیم جنگیں اور سرد جنگ ۔ مسجد اب بھی زندہ تھی ، اپنے وجود کی مقصدیت کو پورا کرتی ہوئی، مسلمان طبقے کا دل اور عبادت گاہ ۔ یہ ان بہت سی یادگاروں اور تاریخی عمارتوں سے بالکل الٹ تھی جن کی نصابی کتب میں پوجا ہوتی ہے یا صرف سیاح اُنہیں پوجتے ہیں، اُن کو چھونے سے زندگی محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ یہ صرف دیکھنے کے لیے تھیں (اکثر اوقات انھیں دیکھنے کے لیے قیمت ادا کرنی پڑتی تھی )۔ یہ جگہیں ... 'کلوژیم' اور 'ٹاور آف لندن ' اور 'ممنوعہ شہر ' سب مردہ تھے ، لینن کی ممی کی طرح ۔ جسم موجود ہے ، مگر اس کے پاس دل نہیں ہے جو دھڑکتا ہو کیونکہ یہ عرصہ ہوا نکالا جاچکا تھا ۔ فرہاد پاشا مسجد جدا تھی ، صرف اس کے کسی پتھر کو چھوئیں، موذن کو مینار پر سے مسلمانوں کو نمازکے لیے پکارتے ہوئے سنیں ، داخلی راستے پر لوگوں کے جوتے اتارنے کی آواز سنیں اور چار سو سال سے یکساں رفتار کے ساتھ دھڑکتے ہوئے دل کی صدا محسوس کریں ۔''
فرہاد پاشا مسجد یا دوسری مسجدیں کیوں تباہ کی گئیں ، اس بارے میں پیٹر لکھتا ہے :
''سب سے زیادہ مکروہ وہ سیاہ نشانات تھے جو ہر قصبے یا شہرکے مرکز میں دکھائی دیتے تھے ۔ ان کا ایک ہی مطلب تھا : تباہ شدہ مسجد ۔ نسلی صفائی کا مقصد صرف مسلمانوں کو یہاں سے بھگانا ہی نہیں تھا : اس کا مقصد ہر اس نشان کو مٹا دینا تھا جس سے سراغ مل سکے کہ کبھی بوسنیا میں مسلمان آباد بھی تھے ۔ مقصد تاریخ کو قتل کرنا تھا ، اگر آپ ایسا کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے آپ کو تاریخ کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل چیرنا پڑے گا، بوسنیا کی مسلمان آبادی کے ساتھ اس سلوک کے لیے ان کی مسجدیں تباہ کردینے سے زیادہ اورکوئی فعل کارگر نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک دفعہ ایسا ہوجاتا تو آپ ماضی کو جس طرح چاہیں مسنح شدہ شکل میں ڈھال سکتے تھے ، فرینکنسٹائن کی مانند''۔
پیٹر ان بوڑھی عورتوں کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے جو چیخ چیخ کر امریکا سے یہ درخواست کرتی تھیں کہ اگر امریکی ہمیں کوئی امن معاہدہ نہیں دے سکتے ، ہمیں سرب وحشیوں سے نہیں بچاسکتے تو کم ازکم وہ ہم پر یہ رحم کریں کہ اپنے جنگی جہاز بھیجیں اور اپنے بموں سے ہمیں ہلاک کردیں ۔ پیٹر یہ التجائیں سن کر امریکی صدر اور دوسرے سیاستدانوں کو برا بھلا کہتا ، وہ ایک امریکی شہری اور صحافی کے طور پر شرمندہ ہوتا، وہ دردمند دل رکھنے والا انسان تھا ۔ صحافت کا پیشہ اختیار کرنا کچھ غلط بات نہ تھی لیکن بوسنیا کی خوفناک جنگ کی رپورٹنگ کا فیصلہ کرنا اور پھر دو برس تک وہاں محاذِ جنگ پر انسانیت کی آخری حد تک توہین دیکھنا ، ایک بہت مشکل امتحان تھا جس سے وہ گزرتا رہا اور اپنے اخبار '' واشنگٹن پوسٹ'' کو چشم دید واقعات لکھ کر بھیجتا رہا ۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی یہ رپورٹیں امریکی حکمرانوں کو مجبورکریں گی کہ وہ سرب ظالموں کا راستہ روکیں اور بوسنیا کے مظلوم لوگوں کی مدد کو پہنچیں لیکن اس کی اس شدید خواہش کے باوجود امریکا خاموش رہا۔ امریکی حکمران وہ سب کچھ ہوتے دیکھتے رہے جو ناقابل معافی تھا ۔ جنگ جب بند ہوئی تو نہ وہ لوگ پکڑے گئے جنھوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا ، نہ مہاجرین کی حفاظت کے لیے امن قائم کرنے والی فوجوں نے کچھ کیا ۔ پیٹر اپنے اندر ابلتے ہوئے طوفان کو اپنے آخری ڈسپیچ میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ ''انھوں (امریکیوں اور یورپی حکمرانوں ) نے تین سال تک سوائے 200,000 انسانوں کو قتل ہوتے دیکھنے کے سوا اورکچھ نہیں کیا ۔ 1995ء کی گرمیوں میں صرف چند ہفتے کی بمباری نے سربوں پر یہ واضح کردیا کہ مغربی راہ نُماؤں کی بھی ، حیران کن طور پر ، برداشت کی ایک حد ہے ، اور اُنہیں صرف آدھے بوسنیا پر ہی قناعت کرنی ہوگی، جو انھوں نے کیا ۔ ہمارے راہنما انصاف کے نام پر اس سے کہیں زیادہ کا مطالبہ کر سکتے تھے ، انصاف کے نام پر اس سے کہیں زیادہ کرسکتے تھے مگر انھوں نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا ۔ ایسی شرائط پر جنگ روکنے کے لیے ، جومیلا زووچ کو خوش کریں ، انھوں نے نسلی صفائی کا انعام نہ دینے کے اپنے وعدے بھلادیے۔ وہ ظالم کو مناتے رہے۔ انھوں نے اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑے اہم تاریخی سبق کو بھی فراموش کر دیا ۔ امن کی ضمانت بھاری بھرکم معاہدہ یا اسے نافذ کرنے والی فوج نہیں دے سکتی،اس کی ضمانت انصاف دیتا ہے۔''
بوسنیا کے المیے کے بارے میں 1994کے آخر میں، جب بلقان جھگڑے سے متعلق ہر شخص کو اندازہ ہوگیا کہ بوسنیا کو ڈگمگاتا ہوا چھوڑ دیا گیا ہے، ''نیویارک ٹائمز'' میں ایک غیر معمولی اعلانِ مرگ شائع ہوا۔ روایتی سیاہ حاشیے کے ساتھ ، اس پر مغرب کی سیاسی اور ثقافتی اشرافیہ کے ستر سے زائد لوگوں کے دستخط تھے ، اس کی عبارت تھی :
سرائیوو کے محاصرے کے ہزارویں دن کے موقعے پر
ہمارے وعدوں ،
اصولوں ،اور اخلاقی قدروں کی
وفات کی یاد میں : بوسنیا ، 1994
بوسنیا میں انسانوں پر جوکچھ گزری ، وہ نام نہاد انسانوں کی ہی کارگزاری تھی ۔ نسلی اور مذہبی نفرت کا یہ اندوہناک کھیل کہیں بھی کھیلا جاسکتا ہے ۔ ہم سب کو اس نفرت سے خوف کھانا چاہیے جو ہمیں حیوانوں سے اسفل ترین درجے پر اتار دے ۔ دنیا کے مختلف خطوں اورعلاقوں میں جیسی نفرتیں پروان چڑھائی جا رہی ہیں۔ مقتدر طاقتوں کے وحشیانہ رویے اور دوسری قوموں کے بارے میں توہین آمیزگفتگو ، کسی بھی وقت اورکہیں بھی کسی شعلے کو بھڑکا سکتی ہے۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ جب مسطار میں آگ لگ جایا کرتی تھی تو یہ پوچھا جاتا تھا کہ وہ آگ کرسچن ہے یا مسلمان اور اسے بجھانے کے لیے فائر انجن کس اسٹیشن سے جائے گا۔
پیٹرماس اس محصور اور مجبور شہر میں دو برس رہا اور وہاں سے اپنے مکتوب بھیجتا رہا۔اس کے یہی ڈسپیچ کتابی شکل میں شائع ہوئے تو لوگوں کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ خود ان تمام اذیتوں سے گزر رہے ہیں جن سے بوسنیا کے رہنے والے دوچار ہوئے۔ پیٹر مغربی مدبروں سے بہت ناراض ہے۔ وہ ان کی منافقت پر دانت پیستا ہے۔ اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو وہ بہ طور خاص اپنے طنزیہ اور تیزابی جملوں کا نشانہ بناتا ہے۔
پیٹرماس کی یہ کتاب ثقلین شوکت نے ترجمہ کی اور سہیل گوویندی نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ رچرڈ برنسٹن نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے مضمون کا نام ''بھیڑیوں کیمانند شکار کرتے ہوئے دو پایہ حیوان'' رکھا تھا۔ یہ کتاب ان ہی دو پایہ حیوانوں کے بارے میں ہے۔
پیٹرماس نے عجب دل آویز انداز میں '' فرہاد پاشا مسجد'' کا ذکرکیا ہے۔ اس مسجد کی بات وہ یوں کرتا ہے کہ :
'' یہ جگہ'' فرہاد پاشا مسجد تھی ، عثمانی سلطنت کے ابتدائی دور میں اسے سفید پتھروں سے تعمیرکیا گیا ۔ ہوٹل بوسنیا سے مسجد کا پیدل راستہ آدھ میل تھا، مگر تاریخی فاصلہ تقریباً پانچ صدیوں کا تھا ۔ 1583ء میں تعمیر ہونے والی اس مسجدکا ڈیزائن بس مناسب ہی تھا ، شاید رقبے کے اعتبار سے یہ نوٹرے ڈیم کلیسا سے آدھی تھی، اسے عظمت وجلال کے مظاہرے کے لیے نہیں، بلکہ متاثرکرنے اور برداشت کرتے رہنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا ۔ یہ ایک آبشارکی سی وضع داری کے ساتھ بوڑھی ہوئی تھی جو اپنی جگہ پر قائم دائم تھی جب کہ اس کے اردگرد کا ماحول لوگوں اور فطرت کے ہاتھوں بدلتا رہا ۔ تاریخ کے رندے سے بچ نکلنے والوں کو زندہ رہنے کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں پڑتی، ابدیت فطرتاً ان میں درآتی ہے، فرہاد پاشا مسجد کا معاملہ بھی ایسا ہی لگتا تھا۔ اس کے لیے بھی اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم کی مرتب کردہ عالمی ورثے کی فہرست میں یقینی جگہ بنتی تھی۔ آپ اس طرح کی عمارت کا جادو حقیقتاً محسوس کرسکتے ہیں، جب آپ اس کے کسی قدیم پتھر پر اپنا ہاتھ رکھتے ہیں۔ کیا کیا کچھ نہیں بیت گیا جب سے ، چار صدیاں قبل ، چیتھڑوں میں ملبوس کسی مزدور نے اسے اس جگہ پر جمایا تھا ؟ تحریک اصلاح ، تحریک احیائے علوم ، ریاست ہائے متحدہ امریکا کی بنیاد ، نپولین، صنعتی انقلاب ، دو عظیم جنگیں اور سرد جنگ ۔ مسجد اب بھی زندہ تھی ، اپنے وجود کی مقصدیت کو پورا کرتی ہوئی، مسلمان طبقے کا دل اور عبادت گاہ ۔ یہ ان بہت سی یادگاروں اور تاریخی عمارتوں سے بالکل الٹ تھی جن کی نصابی کتب میں پوجا ہوتی ہے یا صرف سیاح اُنہیں پوجتے ہیں، اُن کو چھونے سے زندگی محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ یہ صرف دیکھنے کے لیے تھیں (اکثر اوقات انھیں دیکھنے کے لیے قیمت ادا کرنی پڑتی تھی )۔ یہ جگہیں ... 'کلوژیم' اور 'ٹاور آف لندن ' اور 'ممنوعہ شہر ' سب مردہ تھے ، لینن کی ممی کی طرح ۔ جسم موجود ہے ، مگر اس کے پاس دل نہیں ہے جو دھڑکتا ہو کیونکہ یہ عرصہ ہوا نکالا جاچکا تھا ۔ فرہاد پاشا مسجد جدا تھی ، صرف اس کے کسی پتھر کو چھوئیں، موذن کو مینار پر سے مسلمانوں کو نمازکے لیے پکارتے ہوئے سنیں ، داخلی راستے پر لوگوں کے جوتے اتارنے کی آواز سنیں اور چار سو سال سے یکساں رفتار کے ساتھ دھڑکتے ہوئے دل کی صدا محسوس کریں ۔''
فرہاد پاشا مسجد یا دوسری مسجدیں کیوں تباہ کی گئیں ، اس بارے میں پیٹر لکھتا ہے :
''سب سے زیادہ مکروہ وہ سیاہ نشانات تھے جو ہر قصبے یا شہرکے مرکز میں دکھائی دیتے تھے ۔ ان کا ایک ہی مطلب تھا : تباہ شدہ مسجد ۔ نسلی صفائی کا مقصد صرف مسلمانوں کو یہاں سے بھگانا ہی نہیں تھا : اس کا مقصد ہر اس نشان کو مٹا دینا تھا جس سے سراغ مل سکے کہ کبھی بوسنیا میں مسلمان آباد بھی تھے ۔ مقصد تاریخ کو قتل کرنا تھا ، اگر آپ ایسا کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے آپ کو تاریخ کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل چیرنا پڑے گا، بوسنیا کی مسلمان آبادی کے ساتھ اس سلوک کے لیے ان کی مسجدیں تباہ کردینے سے زیادہ اورکوئی فعل کارگر نہیں ہو سکتا تھا۔ ایک دفعہ ایسا ہوجاتا تو آپ ماضی کو جس طرح چاہیں مسنح شدہ شکل میں ڈھال سکتے تھے ، فرینکنسٹائن کی مانند''۔
پیٹر ان بوڑھی عورتوں کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے جو چیخ چیخ کر امریکا سے یہ درخواست کرتی تھیں کہ اگر امریکی ہمیں کوئی امن معاہدہ نہیں دے سکتے ، ہمیں سرب وحشیوں سے نہیں بچاسکتے تو کم ازکم وہ ہم پر یہ رحم کریں کہ اپنے جنگی جہاز بھیجیں اور اپنے بموں سے ہمیں ہلاک کردیں ۔ پیٹر یہ التجائیں سن کر امریکی صدر اور دوسرے سیاستدانوں کو برا بھلا کہتا ، وہ ایک امریکی شہری اور صحافی کے طور پر شرمندہ ہوتا، وہ دردمند دل رکھنے والا انسان تھا ۔ صحافت کا پیشہ اختیار کرنا کچھ غلط بات نہ تھی لیکن بوسنیا کی خوفناک جنگ کی رپورٹنگ کا فیصلہ کرنا اور پھر دو برس تک وہاں محاذِ جنگ پر انسانیت کی آخری حد تک توہین دیکھنا ، ایک بہت مشکل امتحان تھا جس سے وہ گزرتا رہا اور اپنے اخبار '' واشنگٹن پوسٹ'' کو چشم دید واقعات لکھ کر بھیجتا رہا ۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی یہ رپورٹیں امریکی حکمرانوں کو مجبورکریں گی کہ وہ سرب ظالموں کا راستہ روکیں اور بوسنیا کے مظلوم لوگوں کی مدد کو پہنچیں لیکن اس کی اس شدید خواہش کے باوجود امریکا خاموش رہا۔ امریکی حکمران وہ سب کچھ ہوتے دیکھتے رہے جو ناقابل معافی تھا ۔ جنگ جب بند ہوئی تو نہ وہ لوگ پکڑے گئے جنھوں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا ، نہ مہاجرین کی حفاظت کے لیے امن قائم کرنے والی فوجوں نے کچھ کیا ۔ پیٹر اپنے اندر ابلتے ہوئے طوفان کو اپنے آخری ڈسپیچ میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ ''انھوں (امریکیوں اور یورپی حکمرانوں ) نے تین سال تک سوائے 200,000 انسانوں کو قتل ہوتے دیکھنے کے سوا اورکچھ نہیں کیا ۔ 1995ء کی گرمیوں میں صرف چند ہفتے کی بمباری نے سربوں پر یہ واضح کردیا کہ مغربی راہ نُماؤں کی بھی ، حیران کن طور پر ، برداشت کی ایک حد ہے ، اور اُنہیں صرف آدھے بوسنیا پر ہی قناعت کرنی ہوگی، جو انھوں نے کیا ۔ ہمارے راہنما انصاف کے نام پر اس سے کہیں زیادہ کا مطالبہ کر سکتے تھے ، انصاف کے نام پر اس سے کہیں زیادہ کرسکتے تھے مگر انھوں نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا ۔ ایسی شرائط پر جنگ روکنے کے لیے ، جومیلا زووچ کو خوش کریں ، انھوں نے نسلی صفائی کا انعام نہ دینے کے اپنے وعدے بھلادیے۔ وہ ظالم کو مناتے رہے۔ انھوں نے اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑے اہم تاریخی سبق کو بھی فراموش کر دیا ۔ امن کی ضمانت بھاری بھرکم معاہدہ یا اسے نافذ کرنے والی فوج نہیں دے سکتی،اس کی ضمانت انصاف دیتا ہے۔''
بوسنیا کے المیے کے بارے میں 1994کے آخر میں، جب بلقان جھگڑے سے متعلق ہر شخص کو اندازہ ہوگیا کہ بوسنیا کو ڈگمگاتا ہوا چھوڑ دیا گیا ہے، ''نیویارک ٹائمز'' میں ایک غیر معمولی اعلانِ مرگ شائع ہوا۔ روایتی سیاہ حاشیے کے ساتھ ، اس پر مغرب کی سیاسی اور ثقافتی اشرافیہ کے ستر سے زائد لوگوں کے دستخط تھے ، اس کی عبارت تھی :
سرائیوو کے محاصرے کے ہزارویں دن کے موقعے پر
ہمارے وعدوں ،
اصولوں ،اور اخلاقی قدروں کی
وفات کی یاد میں : بوسنیا ، 1994
بوسنیا میں انسانوں پر جوکچھ گزری ، وہ نام نہاد انسانوں کی ہی کارگزاری تھی ۔ نسلی اور مذہبی نفرت کا یہ اندوہناک کھیل کہیں بھی کھیلا جاسکتا ہے ۔ ہم سب کو اس نفرت سے خوف کھانا چاہیے جو ہمیں حیوانوں سے اسفل ترین درجے پر اتار دے ۔ دنیا کے مختلف خطوں اورعلاقوں میں جیسی نفرتیں پروان چڑھائی جا رہی ہیں۔ مقتدر طاقتوں کے وحشیانہ رویے اور دوسری قوموں کے بارے میں توہین آمیزگفتگو ، کسی بھی وقت اورکہیں بھی کسی شعلے کو بھڑکا سکتی ہے۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ جب مسطار میں آگ لگ جایا کرتی تھی تو یہ پوچھا جاتا تھا کہ وہ آگ کرسچن ہے یا مسلمان اور اسے بجھانے کے لیے فائر انجن کس اسٹیشن سے جائے گا۔