بدبخت نے سوشل میڈیا کے ذریعے شادی شدہ خاتون کا گھر اجاڑ دیا

خاتون نے گھروالوں کی پسند سے شادی کرلی تو ملزم نے شوہر کو تصاویر بھجوا دیں

خاتون کی جانب سے سائبرایکٹ کے تحت مقدمہ پر ملزم گرفتار۔ فوٹو: فائل

لاہور:
سریاب روڈ کی رہائشی خاتون کی شکایت پر گزشتہ دنوں کوئٹہ میں واقع سائبر کرائم تھانہ کے عملے نے کارروائی کرتے ہوئے ایک شخص کو گرفتار کیا۔ یہ شخص بظاہر لوکل بس کا ڈارئیور تھا لیکن اس کی وجہ سے 28 سالہ خاتون کے کردار پر وہ داغ لگا کہ جس کو دھونے میں ناکامی پر وہ اپنا علاقہ ہی چھوڑنے پر مجبور ہو گئی اور اس نے اسلام آباد میں واقع ایک مدرسہ کو اپنا عارضی مسکن بنا لیا۔

کسی بھی لڑکی کا مستقبل اس کے شوہر کا گھر ہوتا ہے، جہاں والدین اسے یہ عہد لے کر بھیجتے ہیں کہ وہاں سے اب تمہاری میت ہی نکلے گی۔ اب جب شوہر کا سائبان سر پر نہ ہو، والدین بھی دھتکار کر گھر سے نکال دیں اور معاشرے کی گھورتی آنکھیں سرزد ہونے والی غلطی پر پردہ ڈالنے کے بجائے عزت اُچھالتی پھریں تو ایسے میں ایک متاثرہ اور تن تنہا خاتون نے یہ سوچ کر مدرسہ کا رخ کر لیا کہ وہاں اس کو عارضی سائباں میسر ہونے کے ساتھ پڑھائی میں مصروفیت اس پر گزرے تلخ لمحات کی یادیں تازہ ہونے نہیں دے گی۔

ملزم سراج الدین کی گرفتاری سے متعلق تفصیلات جاننے کے لیے کوئٹہ میں واقع جناح ٹاؤن میں سائبر کرائم تھانہ کا رخ کیا تو وہاں موجود ڈپٹی ڈائریکٹر ارسلان منظور سے حاصل ہونے والی معلومات سے یہ انکشاف ہوا کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال میں زیادہ تر خواتین ملوث ہیں۔ ارسلان منظور کے مطابق رواں برس بلوچستان میں جنسی طور پر حراساں کرنے سمیت سائبر کرائم کے زمرے میں آنے والے واقعات میں 6 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ڈپٹی ڈائریکٹر ارسلان منظور کے مطابق گزشتہ ماہ یکم نومبر کو کوئٹہ سریاب روڈ کی رہائشی اور تعلیم یافتہ 28 سالہ خاتون نے سائبر کرائم تھانہ میں اپنی شکایت درج کراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ سراج الدین نامی شخص اس کی طلاق کو موجب بنا ہے۔ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارسلان منظور کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون ملزم سراج الدین کی بس میں سفر کرتی تھی۔


ملزم نے طالبہ کے ساتھ دوستی کرکے تصاویر بنا لی تھیں، تاہم دونوں کے درمیان ایک ماہ سے بھی کم عرصہ تک تعلق برقرار رہا، جس کے بعد خاتون نے ملزم سے اپنا رابطہ منقطع کردیا، اسی دوران خاتون کی شادی ہوگئی اور اس نے اسلام آباد میں سکونیت اختیار کی تو ملزم آگ بگولا ہو گیا اور اس نے خاتون کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے شوہر کو بھیج کر دعویٰ کیا کہ یہ اس کی بیوی ہے، جس پر اس کے شوہر نے خاتون کو طلاق دے دی۔

طلاق ہونے کے بعد جب متاثرہ لڑکی اپنے والدین کے گھر لوٹی تو اس کے والدین نے بھی اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا، جس پر بے سہارا خاتون اسلام آباد میں واقعہ ایک مدرسہ میں زیر تعلیم ہے، لیکن خاتون نے صنفی کمزوری دکھانے کے بجائے ان حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی اور اس نے ملزم کے خلاف پہلے کوئٹہ میں سائبر کرائم تھانہ میں اپنی شکایت درج کرائی جس کے بعد اسلام آباد میں واقع سائبر کرائم میں اپنے کیسز کو منتقل کرایا، تاہم ملزم کی کوئٹہ میں موجودگی پر کیسز کو دوبارہ کوئٹہ منتقل کردیا گیا جس پر ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل نے برق رفتاری سے کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ملزم کو ایک ہفتے کے اندر گرفتارکر لیا۔ دوران تفتیش ملزم نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا،جس پر اسے جیل منتقل کردیا گیا۔ سائبر کرائم ایکٹ کے تحت اس مقدمہ میں ملزم کی ضمانت نہیںہوسکتی اور ملزم کو پانچ سال قید 50 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

سائبر کرائم سیل میں کوئٹہ، نوشکی، چاغی، ڈیرہ مراد جمالی ،قلعہ سیف اللہ، ژوب سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں سے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 302 ہے، جن میں سراج الدین سمیت دیگر پانچ ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سائبر کرائم کے تحت ایک خاتون کیخلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس کے بارے میں ڈپٹی ڈائریکٹر ارسلان منظور کا کہنا تھا کہ خاتون جائیداد کی لالچ میں اپنے شوہر کی بنائی گئی ویڈیو کے ذریعے انہیں بلیک میل کر رہی تھی۔

ملزمہ نے شوہر سے گھر اپنے نام کرنے گاڑی کی خریداری سمیت چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل تک ان ویڈیوز کو ڈھال بنا کراسے بلیک میل کیا، جس پر شوہر کی شکایت پر سائبر کرائم نے جوڈیشل مجسٹریت سے خاتون کی گرفتاری کے ورانٹ حاصل کئے۔ سائبر کرائم کے حوالے سے ملنے والی 302 شکایات میں سے 182 کیسز میں تحقیقات کا عمل جاری ہے جبکہ 120 شکایات کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ تاہم دوسری طرف معاملہ کچھ یوں ہے کہ سائبر کرائم کی وارداتوں میں اضافے کی روک تھام کے لیے قائم ادارہ خود نامساعد مسائل سے دو چار ہے۔

سینکڑوں کیسز میں مصروف عمل سائبر کرائم تھانے کا عملہ صرف 10 افراد پر مشتمل ہے۔ پھر حساس نوعیت کے کیسز میں ڈیوائسز کو گھروں سے نکالنے اور مضبوط شواہد کی موجودگی میں گھروں پر چھاپہ مارنے کے لئے خواتین اہلکار تک موجود نہیں۔ بلوچستان میںکوئٹہ کے علاوہ گوادر میں سائبر کرائم کا تھانہ قائم ہے، جہاں 30 کے قریب کیسز کی تحقیقات جاری ہے۔ لہذا موجودہ ڈیجیٹل دور میں جہاں ایسے جرائم کے ارتکاب میں تیزی دیکھی جا رہی ہے، وہاں عملہ سمیت دیگر سہولیات کی کمی لمحہ فکریہ ہے، جس پر اعلی حکام کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story