امریکا اور چین نے ایک دوسرے پر عائد نئے ٹیکس معطل کردیے
امریکا اور چین نے جنوری 2019 سے ایک دوسرے کی درآمدی اشیاء پر مزید نئے ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا
امریکی اور چینی صدور نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر عائد ٹیکسوں کی نئے شرح کو معطل کر کے معاملات کے حل کے لیے مذاکرات پر اتفاق کرلیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ارجنٹائن میں جی-20 سمٹ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان کامیاب ملاقات میں فریقین کے درمیان تجارتی اور معاشی تنازعات پر قائم ڈیڈ لاک عارضی طور پر ختم ہوگیا ہے۔
امریکی اور چین کے صدور نے ایک دوسرے کی درآمدی اشیاء پر لگائے جانے والے ٹیکسوں کی نئی شرح کو 90 دن کے لیے معطل کردیا ہے اور اس دوران معاشی تنازعات کو حل کرنے کے لیے مذاکرات پر اتفاق کرلیا ہے۔ فریقین نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر جنوری 2019 سے ٹیکسوں کی نئی شرح عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکا اور چین کے درمیان تجارتی تنازعے کا آغاز صدر ٹرمپ کے پہلے خطاب سے ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اس تنازع نے تجارتی جنگ کی شکل اس وقت اختیار کرلی جب صدر ٹرمپ نے امریکی تجارتی پالیسی کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے تجارتی جنگ کو پسندیدہ امر قرار دیا۔
امریکی صدر کے معاشی پالیسی سے متعلق متنازعہ بیان پر مشیر تجارت مستعفی ہوگئے تھے جب کہ وائٹ ہاؤس انتظامیہ میں بھی مزید تبدیلیاں ہوئی تھیں، بعد ازاں امریکا نے چینی مصنوعات پر درآمدی ٹیکس میں اضافہ کیا جس کے جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی اور یہ سلسلہ تاحال جاری تھا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ارجنٹائن میں جی-20 سمٹ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان کامیاب ملاقات میں فریقین کے درمیان تجارتی اور معاشی تنازعات پر قائم ڈیڈ لاک عارضی طور پر ختم ہوگیا ہے۔
امریکی اور چین کے صدور نے ایک دوسرے کی درآمدی اشیاء پر لگائے جانے والے ٹیکسوں کی نئی شرح کو 90 دن کے لیے معطل کردیا ہے اور اس دوران معاشی تنازعات کو حل کرنے کے لیے مذاکرات پر اتفاق کرلیا ہے۔ فریقین نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر جنوری 2019 سے ٹیکسوں کی نئی شرح عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکا اور چین کے درمیان تجارتی تنازعے کا آغاز صدر ٹرمپ کے پہلے خطاب سے ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اس تنازع نے تجارتی جنگ کی شکل اس وقت اختیار کرلی جب صدر ٹرمپ نے امریکی تجارتی پالیسی کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے تجارتی جنگ کو پسندیدہ امر قرار دیا۔
امریکی صدر کے معاشی پالیسی سے متعلق متنازعہ بیان پر مشیر تجارت مستعفی ہوگئے تھے جب کہ وائٹ ہاؤس انتظامیہ میں بھی مزید تبدیلیاں ہوئی تھیں، بعد ازاں امریکا نے چینی مصنوعات پر درآمدی ٹیکس میں اضافہ کیا جس کے جواب میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی اور یہ سلسلہ تاحال جاری تھا۔