پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج غلامی کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے
اس دن کو منانے کا مقصد جنسی استحصال جیسے سنگین جرائم کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنا ہے
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں غلامی کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور اس دن کا بنیادی مقصد انسانیت کی آزادی کا شعور متعارف کروانا ہے۔
انسانی قدروں کی اہمیت اوراحساس کے حوالے سے اس دن کوخاص اہمیت حاصل ہے، اس دن کو منانے کا مقصد انسانی اسمگلنگ، بچیوں کی جبری شادی، چائلڈ لیبرکی بدترین شکلیں اورجنسی استحصال جیسے سنگین جرائم کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنا ہے۔ غلامی ایک قصہ پارینہ نہیں بلکہ دور حاضر میں بھی انسانوں کی بڑی تعداد زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔
جبری مشقت، زبردستی کی شادیاں اورانسانی اسمگلنگ جیسے گھناؤنے جرائم آج غلامی کے زمرے میں آتے ہیں، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں چار کروڑ سے زائد افراد غلامی کا شکار ہیں، ان میں سے تقریباً ڈھائی کروڑ کو جبری مشقت اور ڈیڑھ کروڑ کو زبردستی شادیوں کا سامنا ہے۔
ڈھائی کروڑجبری مشقت میں مبتلا افراد میں سے تقریباً ایک کروڑ 60لاکھ افراد کا پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں استحصال ہورہا ہے۔ گھریلوملازمت، تعمیراتی صنعت اور زراعت سے وابستہ افراد پرائیویٹ سیکٹر کے زمرے میں آتے ہیں جب کہ 40 لاکھ افراد ریاستی حکام کے ہاتھوں جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا میں بسنے والے ہر ایک ہزار افراد میں سے 5 آج بھی غلامی کا شکارہیں، اس قسم کی غلامی کے شکار ہر 4 افراد میں سے ایک بچہ ہے۔
انسانی قدروں کی اہمیت اوراحساس کے حوالے سے اس دن کوخاص اہمیت حاصل ہے، اس دن کو منانے کا مقصد انسانی اسمگلنگ، بچیوں کی جبری شادی، چائلڈ لیبرکی بدترین شکلیں اورجنسی استحصال جیسے سنگین جرائم کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنا ہے۔ غلامی ایک قصہ پارینہ نہیں بلکہ دور حاضر میں بھی انسانوں کی بڑی تعداد زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔
جبری مشقت، زبردستی کی شادیاں اورانسانی اسمگلنگ جیسے گھناؤنے جرائم آج غلامی کے زمرے میں آتے ہیں، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں چار کروڑ سے زائد افراد غلامی کا شکار ہیں، ان میں سے تقریباً ڈھائی کروڑ کو جبری مشقت اور ڈیڑھ کروڑ کو زبردستی شادیوں کا سامنا ہے۔
ڈھائی کروڑجبری مشقت میں مبتلا افراد میں سے تقریباً ایک کروڑ 60لاکھ افراد کا پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں استحصال ہورہا ہے۔ گھریلوملازمت، تعمیراتی صنعت اور زراعت سے وابستہ افراد پرائیویٹ سیکٹر کے زمرے میں آتے ہیں جب کہ 40 لاکھ افراد ریاستی حکام کے ہاتھوں جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا میں بسنے والے ہر ایک ہزار افراد میں سے 5 آج بھی غلامی کا شکارہیں، اس قسم کی غلامی کے شکار ہر 4 افراد میں سے ایک بچہ ہے۔