کیا یہ عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے

ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو جو ان کی نااہلیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

پاکستان میں اس وقت دو مسئلے ایسے ہیں جنہوں نے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی غربت، بھوک، بیماری، بے روزگاری، مہنگائی حتیٰ کہ گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ جیسے سلگتے ہوئے مسائل کو بھی اپنے پروں کے اندر چھپالیا ہے۔ یہ دو مسئلے ہیں دہشت گردی اور جنرل (ر) مشرف کا مقدمہ بغاوت۔ جہاں تک مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ ہے، یہ مسئلہ نہ صرف میڈیا کا اہم ترین مسئلہ بن گیا ہے بلکہ ملک کے تعلیم یافتہ، ناخواندہ سب ہی کی توجہ اس مسئلے پر مرکوز ہے۔

حالانکہ اس مسئلے کے اچھے یا برے پہلوؤں کا عوام سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہمارے جمہوری حلقوں نے اس مسئلے کو جمہوریت اور پاکستان کے مستقبل سے اس طرح جوڑدیا ہے کہ اگر باغی کو سزا نہ ملی تو خدانخواستہ پاکستان کا مستقبل تاریک ہوجائے گا اور آئین کے اس باغی کو سزا مل گئی تو پاکستان کا مستقبل روشن ہوجائے گا۔ ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو جو ان کی نااہلیوں کا نتیجہ ہوتی ہے دبانے اور عوام کی ناراضگی کا رخ موڑنے کے لیے ہمیشہ ایسے مسائل کھڑے کردیے جن کا عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں لیکن حکمران طبقہ ان معنوی مسائل کے ذریعے عوام کی توجہ ان کے مسائل سے ہٹانے میں کامیاب رہا۔

جہاں تک دہشت گردی کا مسئلہ ہے، بلاشبہ اس سے نہ صرف ہر روز درجنوں بے گناہ انسان اپنی جان سے جا رہے ہیں بلکہ اس مسئلے نے عوام کو اس قدر دہشت زدہ کردیا ہے کہ وہ اپنی بھوک، غربت ، بے کاری، بیماری سب بھول گئے ہیں اور اپنی جان کی خیر منانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے جو علاقے دہشت گردوں کا ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں ان میں خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی سرفہرست ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت دہشت گردی کی روک تھام میں ناکامی سمیت بہت سارے مسئلوں میں ناکام رہی ہے اور اس کی اسی ناکامی کی وجہ سے عوام نے 11 مئی کو اسے مسترد کردیا لیکن جس پارٹی کو ان سنگین مسائل کے حل کی امیدیں عوام نے اقتدار کے محلوں میں پہنچایا وہ پارٹی ابھی تک سوچ بچار میں مصروف ہے، اس حوالے سے یہ دلچسپ خبر آئی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ممتاز بھٹو کی تجاویز بہت پسند آئیں۔

ہمیں بجاطور پر ممتاز بھٹو سے یہ شکایت ہے کہ دس سال سے عوام دہشت گردی کی نذر ہورہے ہیں اور ممتاز بھٹو اتنی قیمتی تجاویز اپنی جیب میں رکھے بیٹھے ہیں۔ اس مسئلے سے اس ملک کے 18 کروڑ عوام براہ راست متاثر ہورہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اب تک 70 ہزار عوام اس دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں تو ممتاز بھٹو کیا مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آنے کے انتظار میں ہر روز عوام کا خون بہتا دیکھتے رہے؟ چلیے دیر آید درست آید۔ چوہدری نثار علی خان کو ممتاز بھٹو کی تجاویز پر عمل کرکے پاکستان کے عوام کو دہشت گردی کے عذاب سے نجات دلانا چاہیے۔

کراچی میں ویسے تو ہر روز ہی درجنوں بے گناہ انسان اپنے خون میں نہا رہے ہیں لیکن بعض وقت ایسے افراد بھی اس بے لگام دہشت گردی کا نشانہ بن جاتے ہیں جن کا شمار معاشرے کے معزز لوگوں میں ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں سندھ ہائیکورٹ کے ایک محترم جج جسٹس مقبول باقر شامل ہیں جنھیں کراچی کے ایک معروف ترین علاقے شاہراہ لیاقت پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، دہشت گردی کی اس بہیمانہ واردات میں 9 افراد جاں بحق ہوئے اور خوش قسمتی سے جج صاحب صرف شدید زخمی ہوئے لیکن ان کی جان بچ گئی، وہ اسپتال میں زیر علاج رہے اور سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے ازراہ کرم جسٹس صاحب کی مزاج پرسی اسپتال بہ نفس نفیس جاکر کی اور اس واردات کی تحقیق کے لیے ایک 6 رکنی کمیٹی بنادی۔ کراچی کی اس واردات کے ساتھ ساتھ پختونخوا کے علاقے حیات آباد میں ایس ایچ او کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں ایس ایچ او جاں بحق ہوگیا۔


جسٹس مقبول باقر کو دہشت گردوں کی طرف سے مسلسل دھمکیاں ملتی رہی تھیں جس کی وجہ سے ان کی سیکیورٹی سخت کردی گئی تھی۔ لیکن ان کے راستے میں کھڑی ایک موٹرسائیکل کو جب ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑادیا گیا تو اس کا دھماکا اتنا شدید تھا کہ جسٹس صاحب کی گاڑی کے آگے پیچھے چلنے والی موبائلیں اور دائیں بائیں چلنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی موٹرسائیکلیں ہوا میں اڑ گئیں، جسٹس صاحب کی گاڑی بھی تباہ ہوگئی لیکن بہرحال ان کی جان بچ گئی۔

جسٹس مقبول باقر پر وحشیانہ حملے پر غور کے لیے سندھ ہائی کورٹ کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں اس بہیمانہ واردات کی مذمت کی گئی اور اس بات پر سخت ناراضگی اور تشویش کا اظہار کیا گیا کہ عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ کراچی میں اب تک سیکڑوں دہشت گردوں کو رنگے ہاتھوں ہتھیاروں کے ڈھیروں کے ساتھ پکڑا گیا اور ان دہشت گردوں نے سیکڑوں افراد کے قتل کا اعتراف بھی کیا لیکن میڈیا میں نہ ان دہشت گردوں کے ٹرائل کی خبریں آتی ہیں نہ انھیں دی جانے والی سزاؤں کا ذکر ملتا ہے، نہ ان سزاؤں پر عملدرآمد کی خبر ملتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی مہذب دنیا میں سزائے موت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن سوال یہ ہے کہ جب بے گناہوں کا خون پانی کی طرح بہایا جائے، قاتل آزاد گھوم رہے ہوں اور ہر شہری موت کے خوف سے مرا جارہا ہو تو پھر ان بے رحم قاتلوں کو بے گناہ اور معصوم شہریوں کے قتل سے روکنے کا کون سا طریقہ رہ جاتا ہے؟ کیا انسانی حقوق کی تنظیمیں اور قاتلوں کو سزائے موت دینے کی مخالفت کرنے والے اس سوال کا جواب دینے کی زحمت کریں گے؟ ذرا عوام میں جاکر اس حوالے سے ان کی رائے معلوم کی جائے تو نوے فیصد عوام آپ کو یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ ان بے رحم قاتلوں کو جب تک چوراہوں پر نہیں لٹکایا جائے گا اس قتل عام کو روکنا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔

پختونخوا کے نو منتخب ایم پی اے کو دہشت گردوں نے قتل کردیا، تازہ اطلاعات کے مطابق پولیس نے مقتول ایم پی اے فرید خان کے قاتلوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ ان قاتلوں کا تعلق ہنگو سے بتایا جاتا ہے جنہوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے مرکز میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے کمانڈر کا ٹیلیفون آیا کہ ایم پی اے فرید خان کو قتل کردیا جائے اور انھوں نے اپنے کمانڈر کے حکم کی تعمیل میں فرید خان کو قتل کردیا۔ ان قاتلوں نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ انھوں نے 36 سے زائد لوگوں کی گردنیں کاٹیں اور گولیوں کا نشانہ بنایا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ قانون اور انصاف کے پورے نظام کو اپنے جوتوں تلے روند کر ٹیلیفون پر سزائے موت کا حکم صاد کر رہے ہیں اور ان کے کارندے اس سزا پر آنکھ بند کرکے عملدرآمد کر رہے ہیں انھیں کیا سزا ملنی چاہیے؟

حیرت کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو ہم جاہل کہتے ہیں وہ کس قدر منظم طریقوں سے کس قدر منصوبہ بندی کے ساتھ کس قدر ٹائمنگ کے ساتھ کیسی موثر حکمت عملی کے ساتھ دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں، کیا وہ جاہل ہوسکتے ہیں؟ دس سال سے ہم اس دہشت گردی کا شکار ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اب تک 70 ہزار لوگ اس دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہمارے پاس سیکڑوں دانشور ہیں جنھیں ہم ہر روز ٹی وی چینلوں پر قومی اور بین الاقوامی مسائل پر دھواں دھار گفتگو کرتے دیکھتے ہیں، تھوک کے حساب سے سابق اور حالیہ حکمران ہیں سیکڑوں نہیں ہزاروں عوام کے منتخب نمایندے ہیں، سیکڑوں کی تعداد میں وہ ذہین بیوروکریٹس ہیں جن کی رائے اور مرضی پر ہماری حکومتیں چلتی ہیں، ہزاروں پولیس افسر، ہزاروں رینجرز افسر اور ہزاروں فوجی افسر ہیں۔ کیا ان میں سے کوئی بھی بندہ بشر ایسا نہیں جو دہشت گردوں کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو سامنے رکھ کر اس کے انسداد کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی وضع کرسکے۔ کہا جاتا ہے کہ نازک وقت میں اجتماعی دانش کام آتی ہے، کیا ہمارا ملک اجتماعی دانش کے حوالے سے بھی بانجھ ہوکر رہ گیا ہے؟

محض اے پی سی بلانے سے اب کام نہیں چل سکتا، اگر اس بلائے عظیم کو روکنے کے لیے حکمراں طبقہ فوری اور موثر اقدامات نہیں کرتا تو عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہمارا حکمراں طبقہ یا تو نااہل ہے یا پھر جو کچھ ہورہا ہے اس کی مرضی سے ہورہا ہے جس کا مقصد عوام کی توجہ ان کے مسائل سے ہٹانا ہے۔
Load Next Story