ایک نئی چپقلش

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا۔۔۔


Zamrad Naqvi June 30, 2013

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کیا ہے۔ آج آمر کو سزا دینے کا وقت آ گیا ہے۔ مشرف کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران کیا۔ یہ تمام معاملات اب عدالت میں ہیں ''جب کہ اس ایوان سے بڑا اور بالا کوئی ایوان نہیں۔ اس لیے عدالت میں جنرل مشرف کے حوالے سے پیش کیا جانے والا بیان پہلے یہاں پیش کیا جا رہا ہے''۔ وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ گزشتہ پارلیمنٹ 3 نومبر کے غیر جمہوری اقدامات کی توثیق نہ کرنے پر مبارکباد کی مستحق ہے۔ سیاست دان نواز شریف نے پاکستان کے تمام اداروں کو بروقت یاد دہانی کرائی کہ ''اسی ایوان (قومی اسمبلی) سے بڑا اور بالا کوئی ایوان نہیں''۔

آرٹیکل 6 کے نفاذ کی شکل میں پاکستان میں بھی سیاسی سویلین بالا دستی کا آغاز ہو گیا ہے جس کی شکل اس سے پہلے ہم مصر ترکی جنوبی کوریا اور فلپائن میں دیکھ چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک اس خطے کی تشکیل نو ہو رہی ہے۔ آمریتوں اور بادشاہتوں کی جگہ جمہوریتیں لے رہی ہیں۔ 1947ء میں برصغیر کی آزادی آنکھوں کا دھوکا تھا کہ سوویت یونین سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے لیے ایک بہت بڑے خطرے کی شکل میں موجود تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے جو بھی انتظامات کیے گئے ان کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام کو کسی طرح بچایا جائے اور ایسا ہی ہوا کہ برصغیر کی تقسیم اور مشرق وسطیٰ میں نئے بندوبست سے اس ظالمانہ نظام کی عمر65 سال مزید طویل ہو گئی۔

بیسویں صدی کے آغاز پر وادیٔ حجاز کو برطانیہ فرانس کے درمیان ایک معاہدے کے تحت عرب بادشاہتوں میں بانٹ دیا گیا اور یہ سب کچھ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شکست کے نتیجے میں ہوا۔ اب پھر دوبارہ سے اس خطے کی ری برتھ ہونے جا رہی ہے۔ جس کا آغاز شام سے ہو رہا ہے۔ امریکی سرپرستی میں شام میں جنگ لڑی جا رہی ہے جس میں ترکی، قطر اور سعودی عرب شامی باغیوں کی ہر طرح کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ نیٹو تنظیم کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق آج بھی شام کی ستر فیصد آبادی صدر بشار الاسد کے حق میں ہے جب کہ صرف دس فیصد لوگ باغیوں کے ساتھ ہیں۔ امریکا اور اس کے دوستوں کی شامی باغیوں کو مالی مدد 150 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔ مغربی ممالک اسلحہ، مالی مدد اور شامی باغیوں کی ٹریننگ کی شکل میں خطیر ''سرمایہ کاری'' کر رہے ہیں تا کہ اسرائیل کو شام سے لاحق خطرات کا خاتمہ کیا جا سکے۔ کچھ یاد آیا آپ کو !!! شام میں وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے جس کو ہم طالبان کی شکل میں افغانستان میں دیکھ چکے ہیں۔ بنیاد پرستی کل بھی امریکا کا ہتھیار تھی... آج بھی ہے... طالبان کل بھی امریکا کی ضرورت تھے... آج بھی ہیں... خطے کی تشکیلِ نو کے لیے۔

شامی باغیوں کی حمایت حماس بھی کر رہی ہے حالانکہ یہی وہ فلسطینی مسلمانوں کی تنظیم ہے جس کو پچھلی کئی دہائیوں سے ہر طرح کی مالی اسلحی مدد اور شام میں محفوظ ٹھکانے ملے جب کہ عرب بادشاہتیں ان پر ہونے والے اسرائیلی مظالم کا خاموش تماشا دیکھتی رہیں۔ جو طالبان نے بے وقوفی کی وہی فاش غلطی شامی باغی دہرا رہے ہیں۔ طالبان نے سوویت یونین کے خلاف امریکا کا ساتھ دے کر اپنے ہاتھوں افغانستان پر امریکا کا قبضہ کروایا اور اب اس بات کا جشن منایا جا رہا ہے کہ امریکا افغانستان سے جا رہا ہے جب کہ اس سارے عمل میں لاکھوں مسلمان مارے گئے، زخمی و تباہ برباد ہوئے۔ ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے کہ اگر بشار الاسد کو شکست ہوتی ہے تو اس کا فائدہ اسرائیل کو نہیں پہنچے گا۔ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم مزید بڑھ جائے گا۔ شام ایک دیوار ہے اسرائیل کے سامنے۔ اس کے گرتے ہی لبنان اور ایران شدید خطرات کی زد میں آ جائیں گے اور پھر مشرق وسطیٰ پر امریکی و اسرائیلی قبضہ مکمل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ معاملہ بشار الاسد کی شکست اور شام کے حصے بخرے ہونے پر ہی نہیں رکے گا بلکہ یہ معاملہ افغانستان اور پاکستان تک جائے گا جس میں طالبان کا مرکزی کردار ہو گا اور اس طرح بقول سابق امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس مشرق وسطیٰ کی سو سال کے عرصے میں سامراجی قوتوں کے ہاتھوں دوسری مرتبہ ری برتھ ہو گی۔

مشرف کی پاکستان واپسی پر ہمارا میڈیا اور سادہ لوح دانشوروں کی اکثریت مشرف کا مذاق اڑا رہی تھی۔ حالانکہ مشرف کی پاکستان واپسی پر میں نے اپنے کالم میں یہی لکھا کہ ان کی واپسی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پاکستان میں سویلین پر اسٹیبلشمنٹ (فوج) کی بالادستی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ مشرف اس جنگ کی ''قیادت'' کرنے پاکستان آئے ہیں۔ آج یہ حقیقت ایک سے زائد مصدقہ ذرایع سے ثابت ہو چکی ہے کہ مشرف کو اپنی جان بچانے کے لیے ایک سے زائد مرتبہ محفوظ راستہ دینے کی پیش کی گئی لیکن انھوں نے سختی سے یہ کہا کہ انکار کر دیا کہ جب تک میری ''بے گناہی'' ثابت نہیں ہوتی واپس نہیں جائوں گا۔ پاکستان میں سویلین بالادستی اتنی آسان نہیں جتنی دوسرے ملکوں میں ہو گئی۔ یہ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے۔ اسی سویلین بالادستی سے انکار نے 71ء میں پاکستان کو توڑ دیا۔ اب تو صورت حال اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے۔ حفظ ماتقدم کے طور پر اسی سویلین بالادستی کو روکنے کے لیے مذہب کے نام پر دہشت گرد گروہ اور لشکر وجود میں لائے جا چکے ہیں۔

اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ انھوں نے حالیہ الیکشن میں کر دیا ہے کہ جب انھوں نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی پیپلز پارٹی اور دوسری دو جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے سے روک دیا... ابھی تک پنجاب ان کی دستبرد سے ''محفوظ'' ہے ... لیکن کب تک؟ بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی... ایک وقت معین کا انتظار ہے۔ پرانا پاکستان ٹوٹ چکا۔ موجودہ پاکستان کو توڑنے کے لیے مذہبی بنیاد پرستی کا ہتھیار فیصلہ کن کردار ادا کرے گا جس کے زہریلے بیج پاکستان قائم ہونے کے فوراً بعد بو دیے گئے تھے۔ مشرف کے جرائم سے سب ہی واقف ہیں لیکن ایک جرم تو واقعی ناقابل معافی ہے جب اس نے انتہا پسندوں کا قبضہ پاکستان سے توڑنے کی کوشش کی جس پر پاکستان قائم ہونے کے بعد ان شدت پسندوں نے کر لیا تھا۔ یہ جرم تو واقعی نا قابل معافی ہے۔ وہ مذہبی جماعت جو جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء الحق کی اتحادی تھی آج جنرل مشرف کی مخالفت میں سب سے آگے آگے ہے۔ کیا ان جرنیلوں نے آئین توڑ کر بغاوت کر کے ملک سے غداری نہیں کی تھی۔ پاکستان پر امریکی قبضہ مشرف دور میں نہیں ہوا بلکہ اس پر باقاعدہ قبضہ ہماری مذہبی قوتوں نے اپنے پسندیدہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر 80 ء کی دہائی میں ہی کرا دیا تھا۔... رہے نام اللہ کا۔

بشار الاسد اور شام کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ جولائی سے اکتوبر کے درمیان چلے گا۔

سیل فون:0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں