پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کو لاحق امراض حصہ اول

ایک عرصے سے ہم منتظر ہیں کہ کسی دن اس موضوع کی طرف بھی کسی بڑے کالم نگار یا تجزیہ کار یا دانشور کی توجہ مبذول ہو۔۔۔


Saad Ulllah Jaan Baraq June 30, 2013
[email protected]

ایک عرصے سے ہم منتظر ہیں کہ کسی دن اس موضوع کی طرف بھی کسی بڑے کالم نگار یا تجزیہ کار یا دانشور کی توجہ مبذول ہو جائے گی کیونکہ مسئلہ بہت بڑا ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ بڑی بات کے لیے ''بڑا مُنہ'' بھی چاہیے ہوتا ہے لیکن ''بڑے مُنہ'' شاید اتنے مصروف ہیں کہ اس کی طرف دھیان ہی نہ دے پا رہے ہیں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ اس مسئلے کا تعلق نہ بڑے شہروں سے ہے نہ بڑے لوگوں سے، بظاہر ایک چھوٹا سا بلکہ حقیر سا مسئلہ لگتا ہے لیکن ایک دن یہی چھوٹا سا مسئلہ جب تنکا بن کر آنکھ میں پڑے گا ،کنکر بن کر ''جوتوں'' میں اٹکے گا یا داڑھ کے نیچے آئے گا تو علاج کی حد سے گزر چکا ہو گا۔ اس لیے بڑے لوگوں، بڑے کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور دانش وروں اور جدید دور کے ہر فن مولا بزرجمہروں سے مایوس ہو کر ہم نے اپنے چھوٹے مُنہ ہی سے یہ بڑی بات نکالنے کی ٹھان لی،

آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر اُن سے

کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھئے کیا کہتے ہیں

یہ مسئلہ اس مرض کا ہے جو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کو لاحق ہے۔ فی الحال تو صرف کمر میں درد ہو رہا ہے لیکن وہ دن تقریباً سر پر کھڑا ہے جب مریض کی کمر اس کا بوجھ سہارنے سے معذور ہو جائے گی اور مریض بستر پر بے حس و حرکت پڑا رہ جائے گا۔ ایسا کہ پانی پینے کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہو گا اور بے چارگی سے روتا رہے گا کہ

بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے

کام وہ آن پڑا ہے جو بنائے نہ بنے

جیسا کہ آپ بھی جانتے ہیں ہم بھی جانتے ہیں، ساری دنیا جانتی ہے، صرف ہمارے وزیروں اور پالیسی سازوں کی اکثریت نہیں جانتی کہ پاکستان کی کمر زراعت ہے اور ریڑھ کی ہڈی کاشت کار اور کسان ہیں، یہ بھی ہم سب جانتے ہیں کہ ان دنوں شہروں میں انسانوں کی بھیڑ بہت زیادہ ہو رہی ہے خاص طور پر بیروزگار اور بے کار قسم کے لوگوں کی اکثریت شہروں پر ٹوٹ پڑی ہے، اکثر لوگوں کو احساس بھی ہے کہ شہروں پر آبادی کا بوجھ بہت زیادہ ہو گیا ہے جو کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے لیکن یہ کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اس بھیڑ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو یا تو کسان اور کاشت کار تھے جو انسانوں حیوانوں حتیٰ کہ چرند پرند اور حشرات تک کے رزق کا وسیلہ تھے، آج اپنی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے شہروں سے روزگار کی یا دو وقتہ روٹی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اور یا وہ لوگ ہیں جو ان ہی کاشت کاروں اور کسانوں سے وابستہ تھے لیکن جب کسان خود ہی بھوکا ہو تو کسی اور کو کیا دے گا چنانچہ انسانوں کی یہ بے تحاشا قطاریں زبان حال سے کہہ رہی ہیں کہ

اب میں ''شہروں'' کی قطاروں میں نظر آتا ہوں

اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں

لیکن یہ صرف بچھڑنا نہیں ہے کیوں کہ اپنے کھیتوں سے یہ خود نہیں بچھڑے ہیں بلکہ بچھڑائے گئے ہیں اور بچھڑائے جا رہے ہیں۔ لیکن جن لوگوں نے ان کو اپنے کھیتوں سے بچھڑایا ہے وہ ''سزا'' کے بجائے جزا پا رہے ہیں۔ پشتو میں ایک کہاوت ہے اور یہ اس وقت کی کہاوت ہے جب ہندوستان ایک نہایت ہی مال دار اور خوش حال ملک سمجھا جاتا تھا۔ کہاوت یہ ہے کہ بدنصیب ہندوستان جا کر بھی بدنصیب ہی رہتا ہے۔ آج اس کہاوت میں مقام بدل بھی سکتے ہیں۔ بدنصیب عربستان، انگلستان یا امریکستان جا کر بھی بدنصیب ہی رہتا ہے۔ یا تو کہیں ''کنٹینروں'' میں بے بسی کی موت مر جاتا ہے یا کسی ملک کی سرحد پر گولی کا نشانہ بن جاتا ہے اور یا کسی جیل میں سڑتا ہے۔ جو اس سے بچ جاتا ہے وہ رذیل ترین درجے کا شہری بن کر کسی گم نام شہر میں ،کسی کے جوتے تلے سکستا رہتا ہے۔ یہاں پر پشتو کا ایک اور ٹپہ یاد آ رہا ہے،

دمسافروں بہ سہ حال وی

یابہ نہروی یا بہ سپو خوڑلی وینہ

ترجمہ : پردیسیوں کا نہ جانے کیا حال ہو گا یا تو بھوکے پیاسے رہے ہوں گے اور یا کتوں نے کاٹ لیا ہو گا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب کاٹتے صرف کتے تھے اور وہ صرف کاٹتے تھے انسان تو ان کو نگل جاتے ہیں۔ اس مفہوم کو اردو میں یوں بیان کیا گیا ہے

بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

وہ بھی ذرا بہتر زمانہ ہے، آج تو ''چھاؤں'' بھی کاٹنے کا کام کرتی ہے۔ ایک اور کہاوت جو تقریباً ہر زبان میں پائی جاتی ہے، یہ ہے کہ پانی ہمیشہ کم زور جگہ کو توڑتا ہے۔ فارسی میں اسے نزلہ بر عضو ضعیف کہا گیا ہے، چنانچہ زراعت کی تباہی سے جہاں اصل تباہ کاروں کے وارے نیارے ہو رہے ہیں وہاں کسان ،کاشت کار اور کھیت مزدور کو وطن بدری اور دربدری کی سزا مل رہی ہے۔

دھوکے ہمیں کیا کیا دیے اس در بدری نے

کسان کاشت کار اور کھیت مزدور کی اس دربدری سے شاید وہ اعداد و شمار بھی بدل جائیں جو آج تک ہمارے دانش وروں، تجزیہ نگاروں اور بزرجمہروں کی تحریروں اور تقریروں میں ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ پاکستان کی پچاسی فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے بلکہ اب بھی ان اعداد و شمار میں بہت بڑا فرق آ چکا ہے لیکن دانشوروں کو ابھی تک اس کا پتہ نہیں چلا ہے اور وہ وہی آموختہ دہرائے جا رہے ہیں، پچاسی فیصد اور پندرہ فیصد اور وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ ہاں ایک چیز البتہ ویسی کی ویسی ہے آبادی تو دیہات میں پچاسی فیصد نہیں رہی ہے شاید ستر سے بھی کم رہی ہو لیکن نصیبہ ان کا اب بھی وہی پچاسی اور پندرہ کا ہے، اب بھی پندرہ فیصد والا طبقہ شرفاء پیداوار کا پچاسی فیصد نگلتی ہے اور پچاسی فیصد طبقہ کمی کمین کے لیے وہی پندرہ فیصد ہے جس میں سے آدھا پھر پندرہ فیصد والوں کی جیب میں آ جاتا ہے، حالانکہ پیداوار پچاسی فیصد یہی لوگ دیتے ہیں جو اگاتے ہیں، بناتے ہیں، تعمیر کرتے ہیں لیکن کھانے والا پندرہ فیصد صرف باتیں بناتا ہے، باتیں بیچتا ہے اور باتیں جمع کرتا ہے۔

اس ریڑھ کی ہڈی کو اس وقت جن امراض کا سامنا ہے ویسے تو بے شمار ہیں لیکن ان میں تین امراض ایسے ہیں جن کو ہم ریڑھ کی ہڈی کا کینسر یا ٹی بی قرار دے سکتے ہیں۔ پھر ان تینوں سے پہلا مرض ان بے پناہ اخراجات کا ہے جو دنیا جہاں سے گھوم گھام کر زراعت کے سر پر پڑتے ہیں۔ زرعی مشینری کا روز بروز مہنگا ہونا، ڈیزل بجلی اور زرعی ادویات کی ناقابل برداشت قیمتیں، کھاد کے جان لیوا نرخ وغیرہ ۔۔۔ دوسرا مرض وہ ہے جسے اصطلاح میں مڈل مین کہتے ہیں جو کچھ بھی نہیں کرتا صرف کسانوں کی مجبوریوں اور کم زوریوں سے بزور سرمایہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ ایک چیز جو کسان کے کھیت سے دس روپے میں نکلتی ہے وہی چیز دوسرے راستے سے اسی کسان یا اس سے متعلق لوگوں کو سو روپے میں ملتی ہے۔ صرف چند روز اور چند روپوں کی وجہ سے کسان کا خون پسینہ اس مڈل مین کے پیٹ میں چلا جاتا ہے، جس کا ایک ساجھے دار وہی ٹرانسپورٹر اور صنعت کار ہے جو پہلے ہی سے کسان کی شہ رگ میں پنجے گاڑھے ہوئے ہے۔

یہ تو عام اور کسی حد تک پرانی جانی پہچانی بیماریاں تھیں لیکن تیسری بیماری کو ایڈز کی طرح جدید ترین اور ناقابل علاج تصور کیا جانا چاہیے اور وہ ہے ''بیج'' پر سرمائے کی اجارہ داری۔ ان تینوں امراض پر ہم الگ الگ بحث کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ زراعت کی متوقع موت میں ان تینوں کا رول نہایت ہی اہم ہے۔ لیکن اس سے پہلے ذرا اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اس دنیا میں انسان کے وجود اس کی بقاء اور ارتقاء کے لیے نہ ڈالر ضروری ہیں نہ سونا چاندی اہم ہے اور نہ ہی صنعت یا سائنس لازمی ہے کیوں کہ سب سے پہلی ضرورت انسان کی خوراک ہے، خوراک ہو گی تو انسان زندہ رہ پائے گا اور زندہ رہے گا تو کچھ کرے گا اور خوراک نہ صنعت دیتی ہے، نہ سائنس دیتی ہے، نہ سیاست، نہ یونی ورسٹیاں، نہ بلڈنگیں، نہ سونا چاندی، نہ بینک اور نہ باتیں ۔۔۔ وہ صرف اور صرف زمین دیتی ہے۔ اپنی تمام تر ترقی کے باوجود انسان کی ماں کل بھی زمین تھی آج بھی زمین ہے اور کل بھی رہے گی۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں