احساس بیگانگی

معروف انقلابی دانشور پلیخانوف نے کہا تھا ’’بیگانگی ذات سرمایہ دارانہ نظام سے برملا نفرت کا منفی اظہار ہے‘‘۔


Zuber Rehman July 01, 2013
[email protected]

معروف انقلابی دانشور پلیخانوف نے کہا تھا ''بیگانگی ذات سرمایہ دارانہ نظام سے برملا نفرت کا منفی اظہار ہے''۔ ایک اور معروف انارکسسٹ ایماگولڈمان نے کہا کہ ''جب کچھ سمجھنے میں نہیں آتا تو شہری اپنی زندگی، سرگرمیوں اور مستقبل کی ہی نفی کرنے لگتے ہیں، پھر ان پر مایوسی، پس مردگی اور لاچارگی حاوی ہوجاتی ہے، پھر اس لاچارگی کی کوکھ سے انقلاب جنم لیتا ہے''۔ کارل مارکس نے بیگانگی ذات پر یوں روشنی ڈالی ہے کہ ''سرمایہ داری میں آزادی صرف سرمایہ کو ہوتی ہے جب کہ مزدور ایک ایسا ریشم کا کیڑا بن جاتا ہے جس کے پیچھے سے ریشم تو نکالا جاتا ہے مگر اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کو شہتوت کا پتہ کیوں کھلایا جاتا ہے؟''

پاکستان میں اور عالمی طور پر سرمایہ دار دنیا میں ایک جانب سرمایہ کا انبار تو دوسری جانب بھوک، افلاس، غربت، لاعلاجی، ذلت، اذیت، غلاظت میں اس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کہ دنیا کا امیر ترین 73 ارب ڈالر کا مالک ہے تو دوسری جانب ہر روز اس دنیا میں بھوک، قحط، افلاس، غربت اور غذائی قلت سے 50 ہزار انسان لقمہ اجل ہورہے ہیں۔ جس دنیا میں ہر روز 50 ہزار انسان بھوک سے مر رہے ہوں اسی دنیا کا ایک ملک امریکا 638 ارب ڈالر کا جنگی بجٹ پیش کرتا ہے۔ جب کہ اسی امریکا میں 10 فیصد لوگ خیراتی کھانے پر پلتے ہیں اور سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے 10 فیصد لوگ بے روزگار ہیں (یعنی 30 کروڑ کی آبادی میں 3 کروڑ)، طاقت کی نمائش اور زمین پر قبضے کے لیے انسانوں کو بھوکا مارکر جنگی بجٹ میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ بیگانگی ذات کا برملا اظہار پاکستان میں آئے دن نظر آتا ہے۔ گزشتہ دنوں دہشت گردوں اور انسان نما حیوانوں نے کوئٹہ بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال اور ویمن یونیورسٹی کی 14 طالبات اور دیگر نرس، استاد اور افسر کو قتل کیا اور لشکر جھنگوی نے اس کی ذمے داری قبول بھی کی ہے۔

درجنوں رپورٹس نشاندہی اور تصدیق کرتی ہیں کہ دنیا بھر میں انسانوں کی ذہنی صحت سنگین خطرات سے دوچار ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورت حال نے گئے برسوں میں طاقت کے نشے میں چور ممالک اور گروہوں کی جنگ پسندی، دنیا کے مختلف خطوں میں وحشت و بربریت کے تسلسل، معیشتوں کے عدم استحکام کے نتیجے میں بے روزگاری اور لوگوں میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس نے جنم لیا ہے۔ تحقیقی جائزے آنے والے برسوں میں مزید تباہی اور انتشار یقینی بتا رہے ہیں۔ تحریک و تحریف کا ایک سلسلہ ہے جو کسی آسیب کی طرح ہر رنگ و نسل کے انسانوں کو اس شدت کے ساتھ جکڑے ہوئے تھے کہ ایک حد تک مثبت اقدار پر یقین رکھنے والے معاشرے بھی غیر محفوظ ہوتے جارہے ہیں، پاکستان تو ایک مدت سے اپنوں، بیگانوں اور اپنائیت کے اظہار کی آڑ میں فریب دینے والوں کی ستم آرائیوں کا ہدف ہے۔ پاکستان کے حوالے سے مزید بات کرنے سے پہلے سرسری طور پر عالمی صورت حال کا جائزہ مقامی صورت حال کو واضح طور پر سمجھنے میں معاون ہوگا۔

ایک رپورٹ کے مطابق جاپان میں 20 سے 59 برس تک کی عمر کے 25 لاکھ 60 ہزار افراد ایسے ہیں جو ہاتھ پاؤں سلامت ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے ہیں۔ شدت کے ساتھ تنہائی پسند یہ افراد 2006 میں صرف 11 لاکھ 60 ہزار تھے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت کی بنیاد پر ایک مثال بننے والے جاپان میں تنہائی پسندی یا گوشہ نشینی کے رجحان کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ ہیں سرمایہ دارانہ نظام کی طبقاتی خلیج کے برکات۔ ارسطو نے کہا تھا کہ طبقاتی نظام ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ سماج اور سماجی اقدار سے بے زاری اور بہت سے ممالک میں بھی پائی جاتی ہے۔ نشے، تشدد اور بے جواز ہنگامہ آرائی کے واقعات صرف تیسری دنیا میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی عام ہوتے جارہے ہیں۔ بے روزگاری ان کے بنیادی اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔ اپنے ملک کے تحفظ کے لیے دوسرے ممالک میں جنگ چھیڑنے والے ممالک جنگ زدہ علاقوں میں تو خوف، نفرت، محرومی اور عدم تحفظ کے بیج بوہی رہے ہیں لیکن اس جنگ میں جھونکے گئے بہت سے نوجوان اپنی سرزمین پر جانے کے بعد بھی ذہنی انتشار اور بے اطمینانی کے باعث خودکشی کو اپنے مسائل کا حل سمجھ رہے ہیں۔

تشدد اور جارحیت کی براہ راست زد میں آنے والوں کا خود تشدد آمیز کارروائیوں میں شریک ہونا اپنی سنگینی رکھتا ہے لیکن خود کش حملے، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر تباہ کن اقدامات عام آبادی کے لیے بھی سماجی و اقتصادی اعتبار سے سنگین تر ثابت ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے دو رپورٹس قابل توجہ ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2012 میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے ذہنی امراض کے علاج کے لیے مختلف اسپتالوں سے رجوع کیا۔ ان میں بچوں اور عورتوں کی تعداد نمایاں تھی۔ اپنی ذہنی کیفیات کو نہ سمجھنے اور چھپانے والے خصوصاً حالات و واقعات کے باعث ڈپریشن میں مبتلا افراد کتنے ہوسکتے ہیں؟ اس کا محتاط اندازہ بھی روح کو لرزا دیتا ہے۔ یہ کہہ دینا کہ ملک کی 30 فیصد سے زائد آبادی ذہنی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہے مسئلے کی شدت کا اظہار نہیں کرتا ہے۔

شدید منفی اثرات زندگیوں کو تہہ و بالا کر رہے ہیں، لوگ اس حد تک ''بیمار'' ہونے لگے ہیں کہ اپنے پیاروں کو ہلاک کرکے خود اپنی جان بھی ختم کرلیتے ہیں۔ احتجاج و ہڑتال کتنی ہی پرامن ہو، لوٹ مار، توڑپھوڑ پر آمادہ پولیس، جرائم پیشہ اور انفرادی دہشت گرد فوری سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔ افراتفری اور بے ترتیبی ٹریفک جام کی بھی ہو تو بہت سے لوگوں سے موبائل فون اور نقد رقم چھین لی جاتی ہے۔ یہ تمام بدعنوانی بے روزگاری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہمت والا ڈاکا ڈالتا ہے، مایوس ہوکر ہیروئنچی بن جاتا ہے، مجبور ہوکر گداگری شروع کردیتا ہے، زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرلیتا ہے، نوجوان لڑکیاں طوائف بن جاتی ہیں، کچھ لوگ غربت کے علاوہ نئے فیشن کے لباس خریدنے، سیروتفریح کے لیے وارداتیں کرتے ہیں۔

مختلف ذرایع سے ملنے والی خبروں اور رپورٹس کے مطابق تشدد کا رجحان اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اسپتالوں کے ایمرجنسی یونٹ اور ٹراما سینٹر بھی محفوظ نہیں رہے ( اس میں بعض ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور غیر انسانی رویہ بھی شامل ہے) یہ مراکز حادثات اور وارداتوں میں زخمی ہونے والوں کی طبی امداد اور علاج کے لیے ہوتے ہیں جہاں متعین ڈاکٹرز، نرسز اور معاون عملہ کسی بھی سانحے کی صورت میں اپنے فرائض انجام دینے کے لیے تیار رہتا ہے (اور کچھ مریضوں کی پریشانیوں سے بے فکر اور بے نیاز) لیکن انتہائی ایمرجنسی میں بھی یہ بپھرے ہوئے لوگوں کے انتہائی افسوسناک رویے کا نشانہ بنتے ہیں۔ طبی عملے پر تشدد، ایمرجنسی کے لیے ضروری سامان کی تباہی عام ہوتی جارہی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں ذاتی وجوہ اور معمول کے تنازعات کے باعث قتل کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں جب کہ نسبتاً بہتر اور تعلیم یافتہ گھرانوں میں علیحدگی کا رجحان کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ لوگ معمول کی باتوں پر بھی آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور سامنے آنے والے ردعمل کا مجموعی اثر شدید منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔

خبروں، میڈیا رپورٹس اور ذاتی مشاہدے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہر عمر اور صنف کے افراد میں ذہنی امراض کی شدت ملتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم معمول کے جسمانی عوارض پر بھی کوئی کنٹرول نہیں رکھتے ہیں۔ ایسے میں ذہنی و نفسیاتی امراض کے لیے اقدامات کا کیا ذکر کیا جائے جو اکثر صورتوں میں نظر ہی نہیں آتے ہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہم عام وبا پر فوری ایمرجنسی اقدام کے ذریعے قابو پالیں لیکن نفسیاتی امراض میں یہ ممکن ہی نہیں۔ اگر ہم اپنے نوجوانوں کو ذہنی طور پر مفلوج اور منتشر ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو انسان کو انسانوں کی طرح اپنی فطری حالت میں واپس لانا ہوگا۔ اس کی تمام تر ضروریات زندگی کو پوری کرنے اور زندگی سے لطف اندوز ہونے کے بھرپور مواقع ملنے ہوں گے، جس کا ایک ہی راستہ ہے سماجی انقلاب کا۔ جہاں مل کر پیداوار کریں اور مل کر بانٹ لیں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی تمام تر سہولتوں سے معمور ہو اور کوئی علاج سے بھی محروم ہو اور میڈیل اسٹور کے سامنے عدم ادویات کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرجائے۔ نسل انسانی کو خوشحال اور پرامن بنانے کے لیے امداد باہمی کا معاشرہ قائم کرنا ہوگا جوکہ ریاست عوامی راج ہوگا۔ نظم و ضبط ہوگا مگر بہ خوشی اور اپنی مرضی سے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں