عبداﷲ کی کہانی
عبداﷲ ایک سلجھا ہوا پاکستانی نوجوان تھا، 88 میں جب افغانستان میں اسلامی جہاد کی تحریک اٹھی تو بطور مسلمان اس کے دل۔۔۔
ISLAMABAD:
عبداﷲ ایک سلجھا ہوا پاکستانی نوجوان تھا، 88 میں جب افغانستان میں اسلامی جہاد کی تحریک اٹھی تو بطور مسلمان اس کے دل میں بھی افغانی مسلمانوں کی مدد کا جذبہ امڈ آیا اور وہ میران شاہ ٹریننگ کیمپ میں تربیت حاصل کرکے افغانستان چلا گیا، روس کے خلاف جہاد کے دوران اس کی ملاقات بہت سے عرب، افغان اور اپنے ہم وطن نوجوانوں سے ہوئی، ان کی فکر اور نظریہ محض مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایک ردعمل تھا، وہ لوگ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پرکڑھتے اور روسی سرخ جارحیت کے خلاف برسرپیکار رہتے۔ ان دنوں مجاہدین کی ہر ممکنہ سپورٹ کی جا رہی تھی، تربیت کی فراہمی سے لے کر محاذ جنگ تک رسائی تک ، اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا کہ ان مجاہدین نے سپرپاور روس کا سورج غروب کردیا۔
عبداﷲ نے بھی دریائے آمو کو پار کرتے ہوئے روس کی شکست خوردہ فوج کی بے بسی دیکھی تھی، وہ بہت خوش تھا، اس کی منزل بظاہر قریب آگئی تھی، افغانستان کے مسلمان روسی شکنجے سے آزاد ہوگئے تھے، مگر عبداﷲ کی خوش فہمی اس وقت کافور ہوگئی جب مجاہدین کے کمانڈروں نے اقتدارکے لیے آپس میں رسہ کشی شروع کردی۔ عبداﷲ یہ صورت حال دیکھ کر بہت دل برداشتہ ہوا اور مسلمانانِ عالم کا درد اور شدت کے ساتھ محسوس کرنے لگا، اس دوران سربیا کے قصاب نے کوسوو کے مسلمانوں کی نسل کشی شروع کردی، وقت گزرتا رہا اور عبداﷲ کا درد اور بے چینی بڑھتی رہی، پاکستان کے ایک قصبے میں مسجد کے پیش امام کی تقریر سن کر عبداﷲ نے جس جہادی سفر کا آغاز کیا تھا، وہ روز افزوں ترقی پر تھا، پھر 94 کے وسط میں افغانستان میں تحریک طالبان کا آغاز ہوگیا اور اس تحریک نے روس کے انخلا کے بعد افغان کمانڈروں کی باہمی چپقلش کے داغ کو دھودیا، ماضی کی خوش گوار یادوں کو ساتھ لیے اک بار پھر عبداﷲ افغانستان پہنچ گیا، فتح کابل نے طالبان کی حیثیت مستحکم کردی اور وہ تیزی سے فتوحات حاصل کرنے لگے، اس دوران عبداﷲ نے کئی نوجوانوں کوجہاد پر آمادہ کیا، وہ ان نوجوانوں کو جہادی کرامات، روحانی مدد اور بہادری کے قصے سناتا، وہ ان کو بتاتا کہ کس طرح کفار مسلمانوں پر ظلم و ستم کررہے ہیں، وقت پر لگا کر اڑتا چلا گیا، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا اور 11/9 کے سانحے نے دنیا کی قسمت پلٹ دی۔
افغانستان پر امریکی حملے اور پھر طالبان کی پسپائی تک عبداﷲ افغانستان میں ہی تھا، پسپائی کے بعد عبداﷲ افغانستان چھوڑ گیا، یہاں کے مسلمان بھی طالبان کی شکست پر افسردہ تھے، رہنما افسوس کا اظہار کررہے تھے، مساجد میں دعائیں ہورہی تھیں، چوکوں اور چوباروں پر امریکی جارحیت پر تبصرے ہورہے تھے، غرض ہر جانب یاسیت کی چادر تنی تھی، عبداﷲ کے لیے یہ بہت تذبذب کا وقت تھا، تورابورا کے پہاڑوں کی طرح ایک جنگ اس کے اندر بھی بپا تھی، اک محب وطن مجاہد، عبداﷲ کے اندر لڑ پڑے تھے، طالبان پر حملہ تو امریکا نے کیا تھا ، اندرونی خلفشار کے شکار عبداﷲ نے بالآخر خاموش رہنے کا فیصلہ کرلیا مگر شاید قدرت کو کچھ اور امتحان منظور تھے۔
عبداﷲ تو خاموش تھا مگر سوات کے کہساروں سے یکلخت ایک نعرہ بغاوت بلند ہوا، تحریک اسلامی طالبان پاکستان کا نام سامنے آنے لگا، عبداﷲ اس مانوس نام اور الجہاد الجہاد کے نعرے کو سن کر بے اختیار آگے بڑھا مگر یہ کیا...! عبداﷲ کے ججھکتے قدموں میں لرزش آگئی، وہ ٹھٹک کر رک گیا، اس کے دل نے ماضی کے دریچوں سے تحریک اسلامی طالبان کے تصورکو ٹٹولا اور پاکستانی طالبان کے کینوس پر چسپاں کردیا مگر پاکستانی طالبان تو افغان طالبان سے یکسر جدا تھے، وہ نام کے تو طالبان تھے مگر ان کی فکرکی بنیاد مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نہیں بلکہ محض شر تھا اور پھر عبداﷲ نے تحریک اسلامی طالبان اور پاکستانی طالبان کا موازنہ شروع کردیا۔
فتح کابل سے لے کر احمد شاہ مسعود کی موت تک کے حالات اس کے ذہن کے پردے پر کسی اسکرین کی مانند چلنے لگے، طالبان تو کرسٹینالیمب اور ایون رڈلی جیسی مغربی بودوباش کی حامل خواتین کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے، قندھار کا گورنر بھی عام آدمی کی طرح بس میں سفر کرتا تھا مگر یہ کون سے طالبان ہیں جو پاکستان میں اسلامی نظام کی بات کررہے ہیں، یہ تو نظام عدل پر مبنی اسلامی نظام کی خود اپنے ہاتھوں سے دھجیاں اڑاتے ہیں، یہ تو عورتوں پر تشددکرتے ہیں، تاجروں سے بھتہ وصول کرتے ہیں، یہ تو اس پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہیں جو دنیا کی واحد اسلامی نظریاتی مملکت ہے، انھوں نے سوات میں ظلم و جبر کے جھنڈے گاڑے اور وادی کے حسن کو اجاڑ دیا، یہ وزیرستان کے محسودیوں کو آخر کس بات کا درس دے رہے ہیں ؟
نہیں، نہیں... عبداﷲ چونکا۔ یہ طالبان نہیں ظالمان ہیں، یہ امریکی ایما پر اسرائیلی خواب کی تکمیل کے لیے را کے دست و بازو بن کر ہمیں دھوکا دے رہے ہیں، ان کے چہرے باریش اور لباس اسلامی ہیں مگر ان کے دل میں پاکستان اور عساکر پاکستان کے لیے وہی تمسخر ہے جو سقوط ڈھاکا کے وقت جنرل جنگجیت سنگھ اروڑا کے دل میں تھا۔ اس مرحلے پر عبداﷲ کی نظریں پھر کسی مجاہد کی تلاش میں تھیں۔
یہ لوگ ایک عام پاکستانی سے زیادہ پاکستان کی قدروقیمت کو سمجھتے ہیں مگر انھیں کوئی سمجھنے والا نہیں ہے، دوحہ میں امریکا افغانستان سے واپسی کے لیے طالبان سے مذاکرات کررہا ہے، عبداﷲ کو یقین ہے کہ ان مذاکرات کا نتیجہ بہرصورت طالبان کی افغانستان میں دوبارہ آمد کا پیش خیمہ ہوگا، امریکا اصولی طور پر یہ جنگ ہار چکا ہے، عبداﷲ کو امید ہے کہ اس دفعہ کچھ بہتر ہوگا!
عبداﷲ ایک سلجھا ہوا پاکستانی نوجوان تھا، 88 میں جب افغانستان میں اسلامی جہاد کی تحریک اٹھی تو بطور مسلمان اس کے دل میں بھی افغانی مسلمانوں کی مدد کا جذبہ امڈ آیا اور وہ میران شاہ ٹریننگ کیمپ میں تربیت حاصل کرکے افغانستان چلا گیا، روس کے خلاف جہاد کے دوران اس کی ملاقات بہت سے عرب، افغان اور اپنے ہم وطن نوجوانوں سے ہوئی، ان کی فکر اور نظریہ محض مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایک ردعمل تھا، وہ لوگ کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پرکڑھتے اور روسی سرخ جارحیت کے خلاف برسرپیکار رہتے۔ ان دنوں مجاہدین کی ہر ممکنہ سپورٹ کی جا رہی تھی، تربیت کی فراہمی سے لے کر محاذ جنگ تک رسائی تک ، اور پھر دنیا نے وہ منظر دیکھا کہ ان مجاہدین نے سپرپاور روس کا سورج غروب کردیا۔
عبداﷲ نے بھی دریائے آمو کو پار کرتے ہوئے روس کی شکست خوردہ فوج کی بے بسی دیکھی تھی، وہ بہت خوش تھا، اس کی منزل بظاہر قریب آگئی تھی، افغانستان کے مسلمان روسی شکنجے سے آزاد ہوگئے تھے، مگر عبداﷲ کی خوش فہمی اس وقت کافور ہوگئی جب مجاہدین کے کمانڈروں نے اقتدارکے لیے آپس میں رسہ کشی شروع کردی۔ عبداﷲ یہ صورت حال دیکھ کر بہت دل برداشتہ ہوا اور مسلمانانِ عالم کا درد اور شدت کے ساتھ محسوس کرنے لگا، اس دوران سربیا کے قصاب نے کوسوو کے مسلمانوں کی نسل کشی شروع کردی، وقت گزرتا رہا اور عبداﷲ کا درد اور بے چینی بڑھتی رہی، پاکستان کے ایک قصبے میں مسجد کے پیش امام کی تقریر سن کر عبداﷲ نے جس جہادی سفر کا آغاز کیا تھا، وہ روز افزوں ترقی پر تھا، پھر 94 کے وسط میں افغانستان میں تحریک طالبان کا آغاز ہوگیا اور اس تحریک نے روس کے انخلا کے بعد افغان کمانڈروں کی باہمی چپقلش کے داغ کو دھودیا، ماضی کی خوش گوار یادوں کو ساتھ لیے اک بار پھر عبداﷲ افغانستان پہنچ گیا، فتح کابل نے طالبان کی حیثیت مستحکم کردی اور وہ تیزی سے فتوحات حاصل کرنے لگے، اس دوران عبداﷲ نے کئی نوجوانوں کوجہاد پر آمادہ کیا، وہ ان نوجوانوں کو جہادی کرامات، روحانی مدد اور بہادری کے قصے سناتا، وہ ان کو بتاتا کہ کس طرح کفار مسلمانوں پر ظلم و ستم کررہے ہیں، وقت پر لگا کر اڑتا چلا گیا، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا اور 11/9 کے سانحے نے دنیا کی قسمت پلٹ دی۔
افغانستان پر امریکی حملے اور پھر طالبان کی پسپائی تک عبداﷲ افغانستان میں ہی تھا، پسپائی کے بعد عبداﷲ افغانستان چھوڑ گیا، یہاں کے مسلمان بھی طالبان کی شکست پر افسردہ تھے، رہنما افسوس کا اظہار کررہے تھے، مساجد میں دعائیں ہورہی تھیں، چوکوں اور چوباروں پر امریکی جارحیت پر تبصرے ہورہے تھے، غرض ہر جانب یاسیت کی چادر تنی تھی، عبداﷲ کے لیے یہ بہت تذبذب کا وقت تھا، تورابورا کے پہاڑوں کی طرح ایک جنگ اس کے اندر بھی بپا تھی، اک محب وطن مجاہد، عبداﷲ کے اندر لڑ پڑے تھے، طالبان پر حملہ تو امریکا نے کیا تھا ، اندرونی خلفشار کے شکار عبداﷲ نے بالآخر خاموش رہنے کا فیصلہ کرلیا مگر شاید قدرت کو کچھ اور امتحان منظور تھے۔
عبداﷲ تو خاموش تھا مگر سوات کے کہساروں سے یکلخت ایک نعرہ بغاوت بلند ہوا، تحریک اسلامی طالبان پاکستان کا نام سامنے آنے لگا، عبداﷲ اس مانوس نام اور الجہاد الجہاد کے نعرے کو سن کر بے اختیار آگے بڑھا مگر یہ کیا...! عبداﷲ کے ججھکتے قدموں میں لرزش آگئی، وہ ٹھٹک کر رک گیا، اس کے دل نے ماضی کے دریچوں سے تحریک اسلامی طالبان کے تصورکو ٹٹولا اور پاکستانی طالبان کے کینوس پر چسپاں کردیا مگر پاکستانی طالبان تو افغان طالبان سے یکسر جدا تھے، وہ نام کے تو طالبان تھے مگر ان کی فکرکی بنیاد مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نہیں بلکہ محض شر تھا اور پھر عبداﷲ نے تحریک اسلامی طالبان اور پاکستانی طالبان کا موازنہ شروع کردیا۔
فتح کابل سے لے کر احمد شاہ مسعود کی موت تک کے حالات اس کے ذہن کے پردے پر کسی اسکرین کی مانند چلنے لگے، طالبان تو کرسٹینالیمب اور ایون رڈلی جیسی مغربی بودوباش کی حامل خواتین کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے، قندھار کا گورنر بھی عام آدمی کی طرح بس میں سفر کرتا تھا مگر یہ کون سے طالبان ہیں جو پاکستان میں اسلامی نظام کی بات کررہے ہیں، یہ تو نظام عدل پر مبنی اسلامی نظام کی خود اپنے ہاتھوں سے دھجیاں اڑاتے ہیں، یہ تو عورتوں پر تشددکرتے ہیں، تاجروں سے بھتہ وصول کرتے ہیں، یہ تو اس پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہیں جو دنیا کی واحد اسلامی نظریاتی مملکت ہے، انھوں نے سوات میں ظلم و جبر کے جھنڈے گاڑے اور وادی کے حسن کو اجاڑ دیا، یہ وزیرستان کے محسودیوں کو آخر کس بات کا درس دے رہے ہیں ؟
نہیں، نہیں... عبداﷲ چونکا۔ یہ طالبان نہیں ظالمان ہیں، یہ امریکی ایما پر اسرائیلی خواب کی تکمیل کے لیے را کے دست و بازو بن کر ہمیں دھوکا دے رہے ہیں، ان کے چہرے باریش اور لباس اسلامی ہیں مگر ان کے دل میں پاکستان اور عساکر پاکستان کے لیے وہی تمسخر ہے جو سقوط ڈھاکا کے وقت جنرل جنگجیت سنگھ اروڑا کے دل میں تھا۔ اس مرحلے پر عبداﷲ کی نظریں پھر کسی مجاہد کی تلاش میں تھیں۔
یہ لوگ ایک عام پاکستانی سے زیادہ پاکستان کی قدروقیمت کو سمجھتے ہیں مگر انھیں کوئی سمجھنے والا نہیں ہے، دوحہ میں امریکا افغانستان سے واپسی کے لیے طالبان سے مذاکرات کررہا ہے، عبداﷲ کو یقین ہے کہ ان مذاکرات کا نتیجہ بہرصورت طالبان کی افغانستان میں دوبارہ آمد کا پیش خیمہ ہوگا، امریکا اصولی طور پر یہ جنگ ہار چکا ہے، عبداﷲ کو امید ہے کہ اس دفعہ کچھ بہتر ہوگا!