بیوروکریسی کے تماشے اور ہمارا خواب
کسی بھی جمہوری حکومت کی کامیابی کے پیچھے عوامی طاقت اور وہ قوانین وضوابط ہوتے ہیں جو قومی اتفاق رائے۔۔۔
ISLAMABAD:
کسی بھی جمہوری حکومت کی کامیابی کے پیچھے عوامی طاقت اور وہ قوانین وضوابط ہوتے ہیں جو قومی اتفاق رائے سے بنتے اور نافذ العمل ہوتے ہیں اس کی سب سے اچھی اور تازہ مثال ترکی ہے اور عوامی قوت سے سرشار عوامی طاقت کے بل بوتے پر اس وقت دنیا کی 15 ویں بڑی معاشی طاقت ہے۔ طیب اردگان کی اصطلاحات ہوں یا ان کی نافذ کی ہوئی پالیسیاں، لیکن کسی وجہ سے اگر جمہوریت ڈی ریل ہوجایا کرتی ہے، تو انتخابات کے بیچ ملکی معاملات کون چلاتا ہے آپ سب کے ذہن میں شاید نگراں وزیراعظم کا نام آئے گا،لیکن برطانیہ میں پچھلے سالوں میں ہونے والے انتخابات کے بیچ تقریباً 23 دن حکومت بیوروکریسی نے چلائی اور اس ڈھنگ سے چلائی کہ ملکہ برطانیہ فرداً فرداً ہر ایک آدمی کے پاس گئیں اور ان کو مبارکباد دی کہ انھوں نے انتخابی عمل کے دوران بحسن و خوبی حکومت چلائی کہ سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
پاکستان میں افسر شاہی سے یا ان کی صحیح تعداد سے غالباً عوام لاعلم ہیں جبھی ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کتنے بیوروکریٹ کہاں، کیوں،کس لیے کام کرتے ہیں، بعض اوقات پارلیمانی نمایندے ان کے کمروں کے باہر کھڑے رہتے ہیں، یعنی بیوروکریٹس پر موقوف ہوتا ہے کہ کس لیڈر کا کام کب اور کیسے کرنا ہے، عوام کو یا عوامی نمایندوں کو اس بارے میں کچھ نہیں پتا، عوامی نمایندے تو بس ''ہاں'' یا ''نا'' کرنے کے لیے ہوتے ہیں، ہماری قومی اسمبلی میں تقریباً 342 کے قریب عوامی نمایندے یا وزیر ہوتے ہیں جن کے مختلف کام یہ افسر شاہی سے منسلک لوگ ہی کرتے ہیں پاکستان میں بڑھتے ہوئے بحرانوں کے ساتھ سول اسٹیبلشمنٹ کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔
دو ادوار میں یہ بہت طاقتور رہے ہیں دو نہیں تین ادوار میں، بھٹو کے دور حکومت میں، معین قریشی ایمپورٹڈ اور کسی حد تک پرویز مشرف کے دور میں، حقیقتاً عمومی طور پر معین قریشی اور بھٹو صاحب کے دور کے پھلتے پھولتے افسر شاہوں ، اسٹیبلشمنٹ کو گراں گزرتے ہیں یا برے لگتے ہیں، وجہ کوئی بھی رہی ہو۔ افسران کو اوایس ڈی بنانا شاید ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے، 2006 میں ایک رپورٹ، بیوروکریٹک ڈھانچے کے بارے میں کافی دل چسپ اعدادوشمار مہیا کرتی ہیں، اس کے مطابق گریڈ19 سے 22 تک کے افسران کی عمر مجموعی طور پر 43 سال اور تقریباً88.37 فیصد شادی شدہ تھی۔ ان میں سے 97.54 فیصد مسلمان اور باقی دیگر اقلیتی افسران تھے۔ اب تازہ ترین سروے کے مطابق 17 گریڈ سے 22 گریڈ تک کے افسران کی بڑی تعداد عالیشان مکانوں میں رہتے ہیں۔ بعض کے تو فارم ہاؤسز بھی ہیں، بعض کے ہاں پانی فرانس سے، بلیاں لندن سے، اور لان کے لیے گھاس امریکا سے آتی ہے، ملازمین کے پاس موبائل فونز اور موٹرسائیکلیں ہیں، کیا ٹھاٹھ باٹھ ہیں۔ 90 فیصد بیوروکریٹ کے بچے بیرون ممالک میں پڑھتے ہیں ۔اس سماجی ڈھانچے نے امیر کو مزید امیر اور غریب کو مزید غریب بنادیا۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ وفاقی سروس کے افسران بلوچستان اور دوسرے پس ماندہ علاقوں میں نہیں جانا چاہتے (وجہ میں بتاؤں یا آپ جانتے ہیں آپ ہوشیار ہیں جانتے ہی ہوں گے) یہی وجہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے کئی اضلاع میں متعدد عہدے خالی پڑے ہیں، بلوچستان میں ڈی ایم جی(DMG) کے 2001 سے 2011 تک گریڈ17 سے لے کر 22 تک کے آدھے سے زیادہ عہدے خالی تھے، وفاقی بیورو کریسی کا کمال دیکھیے۔ گریڈ 17 کے 12، گریڈ21 تک کے آدھے سے زیادہ عہدے خالی تھے، گریڈ17 کے 11، گریڈ 18 کے 39 گریڈ 19 کے 18، گریڈ 20 کے 18 اور گریڈ 21 کے چار عہدے خالی تھے، وفاقی بیوروکریسی کا کمال دیکھیے،گزشتہ گیارہ برس میں گریڈ22 میں تمام اعلیٰ گریڈز کی اسامیوں میں 28 ہزار کا اضافہ کردیا گیا۔ جب کہ سابق وزیر اعظم نے قوم کو سرکاری اخراجات کم کرنے کی نوید سنائی تھی۔ بھرتیوں پر پابندی عائد کی تھی۔خفیہ طور پر بھرتیوں کا عمل بھی جاری رہا 2001-2002 میں گریڈ 22 کی منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 89 تھی جسے آصف علی زرداری کے دور میں بڑھاکر 112 کردیا گیا۔ ان میں صرف 6 خواتین شامل تھیں۔
حقوق نسواں بل کا استعمال بھی نہیں کیا گیا، جہاں تک اسلام آباد کے مرکزی سیکریٹریٹ کا تعلق ہے تو وزارت اطلاعات ونشریات اعلیٰ گریڈز کے معاملے میں دوسری تمام وزارتوں پر بازی لے گئی، گریڈ17 سے 22 تک کے 3327 افسران اسی ڈویژن سے منسلک ہیں، اس کے بعد نیب، قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اور فارن سروس کا نمبر آتا ہے،گریڈ ایک سے سولہ تک کے تقریباً17 ہزار ملازم مرکزی سیکریٹریٹ میں کام کر رہے ہیں ان میں بھی وزارت خزانہ پہلے، نیب دوسرے، دفتر خارجہ تیسرے اور پارلیمنٹ چوتھے نمبر پرآتا ہے، جہاں تک وزارتوں اور ڈویژنز کے ماتحت دفاتر کا تعلق ہے تو آڈیٹر جنرل کا ڈیپارٹمنٹ اعلیٰ گریڈوں کے معاملے میں دوسرے تمام ڈویژنز پر بازی لے گیا ہے،گریڈ17 سے 22 تک کے 18 ہزار ملازمین اسی آفس سے منسلک ہیں، خواتین کی افرادی قوت کے حوالے سے محکمہ تعلیم سب سے بڑا ڈویژن ہے 21 ہزار 466 خواتین ملازمین کا 28 فیصد حصہ محکمہ تعلیم ہی سے منسلک ہے۔
18 ویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں Tailor & Dacker کی کتابوں، لیکچرز نے صنعتی عہد میں انقلاب برپا کردیا اور ایک طریقہ مرتب کیا ہے ، Administration کے ذریعے اچھے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں پھر ایسا انقلاب دیکھنے میں آیا کہ ہر صنعت اور آفس میں وہ کام کرتے تھے جو اس قابل ہوتے تھے لیکن ہمارے یہاں اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنے کو دے والا حساب ہے،جہاں افسر شاہی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں کوئی نہیں جاتا کیونکہ وہاں کمائی نہیں ہے، بیوروکریسی نے یورپ میں انقلاب برپا کردیا ہے اور کرتا رہے گا کیونکہ وہاں افسر سب سے زیادہ کام کرتے ہیں اور اس کے ماتحت اس سے کم کام کرتے ہیں، ذمے داری کے حساب سے، تاج برطانیہ کے ایک سابق افسر، میکاولے انڈین سول سروس کی تربیت اور اس کے بنیادی ڈھانچے سے انتہائی متاثر تھے۔ 1935 کے ایکٹ سے سول سروس کا ڈھانچہ لے کر پاکستان کے 1956 کے آئین کے آرٹیکل 179 سے 183 تک شامل کردیا گیا ہے جب کہ 1962 کے آئین میں بھی اس طرح کی ضمانتیں دی گئیں۔ 1973 کے آئین میں بھی سول سروس کا ڈھانچہ ایک دفعہ پھر بدل دیا گیا اور سروس سرونٹس کی نئی تشریح بیان کی گئی۔
میرا اپنا خیال کہیے یا اظہار خیال یہ ہے کہ جو ملازمین سرکاری سطحوں پر کام کرتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ پڑھے لکھے، سوجھ بوجھ رکھنے والے، مہذب لوگ ہوتے ہوں گے،لیکن بخدا میرا تعلق ایک ایسے صاحب (افسر خاص) سے ہوا یہاں ان کا نام نہیں لوں گا وہ خود اپنے آپ کو بیچ رہے تھے حکومت کو ان کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے تاکہ ان لوگوں کو جنہوں نے ایسے افسران تعینات کیے ہیں عبرت ہو۔ وہ اپنی مرضی سے اپنے پیشے اور اپنی کرسی کو فروخت کرتے ہیں اور ان کے پیچھے اعلیٰ سرکاری افسران ہیں جن کی پشت پناہی سے ایسے لوگوں کو عوام کی چمڑی اتاروانے کے لیے کرسیوں پر بٹھا دیا گیا ہے۔ جہاں عزت نفس تو اپنی جگہ غریب مظلوم عوام کی خون پسینے کی کمائی کو اپنی کالے شیشے والی گاڑیوں میں اے سی میں بیٹھ کر اپنے ملازمین کو کسی گدھے یا کتے کی سی حیثیت دے کر اپنی کرسی کے پیچھے قائد اعظم کی تصویر لگوائے بیٹھے رہتے ہیں اور افسر شاہی یا بیوروکریسی کے نام پر عوام کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں۔ سرکاری کاغذات پر سائنس اور مہر لگوانے کی الگ فیس لی جاتی ہے جو ان کے PAکی جیبوں میں جاتی ہے اور وہ PA جو محض 6 یا 7 گریڈ کے ہوتے ہیں اعلیٰ مکانوں اور اعلیٰ گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔
اگر دنیا میں کہیں بیوروکریسی کے غلط استعمال سے اپنے لیے سامان عیش وعشرت جمع کیا جاتا ہے اور افسر شاہی کی علت میں عام عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح روندھا جاتا ہے تو وہ ہمارا دیس ہے کیا یہ مقام افسوس نہیں کہ جس ملک میں انصاف امیر کے لیے کچھ اور غریب کے لیے اس کی ساری زندگی کی جمع پونجی خرچ کردینے کے بعد بھی مہیا نہیں، وہاں سیاسی اثرورسوخ سے نوکریاں بانٹی جاتی ہیں، ٹیکس کی مد میں ایک پائی بھی جمع نہیں کی جاتی جہاں موروثی سیاست نے خود سیاست جیسی باوصف شے کو اور اس کی ساکھ کو مجروح کرکے رکھ دیا ہے۔